Episode 55 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 55 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

منافقت
روایات کسی بھی خطے کی پہچان ہوتی ہیں اس سے پیار کرنا چاہیے لیکن روایات زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ تاریخی حقائق کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔ اگر روایات کو تاریخ کے آئینہ میں دیکھا جائے تو یہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی رہی ہیں۔ ایسی کوئی روایت نہیں جو پہلے دن سے آج تک برقرار رہی ہو۔ جیسے جیسے وقت گزرتا رہتا ہے اس کا ارتقاء ہوتا رہتا ہے۔
حالات وقت رویوں کے باعث روایات تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ یہ ایک قدرتی اور لا متناہی عمل ہے۔
دو جذبے انسان کے اندر بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ایک محبت اور دوسرا نفرت۔ جہاں تک محبت کا معاملہ ہے محبت تو آپ جس سے بھی کریں کوئی حرج نہیں لیکن ہمیں نفرت کے معاملے پر احتیاط برتنی چاہیے۔ مثال کے طور پر ابھی ویلنٹائن ڈے (اظہار محبت کا خصوصی دن) گزرا ہے۔

(جاری ہے)

ہمارے کچھ نوجوان کہتے ہیں ہم ان تہواروں سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ یہ مغربی تہوار ہیں۔ قارئین!ویلنٹائن ڈے کا پیغام تو صرف اتنا ہے کہ آپ اپنی چاہت یا محبت کا اظہار کریں۔ ویسے تو انسان کو اپنے پیاروں کے ساتھ سارا سال ہی محبت ہوتی ہے۔ لیکن یہ دن اس محبت کے اظہار کا دن ہوتا ہے۔ جس طرح ہم پتنگ تو سارا سال اڑاتے ہیں لیکن بسنت مخصوص دنوں میں منا کر خوشیاں بانٹتے ہیں۔
کھیل تو ہم سارا سال کھیلتے ہیں لیکن ہم اس کو مخصوص دنوں میں فیسٹیول کی صورت میں کھیل کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس طرح محبت کا بھی ایک مخصوص دن یعنی ویلنٹائن ڈے ہے۔ اس کو بھی ایک تفریحی سرگرمی کے طور پر لینا چاہیے۔ اگر بات مغربیت کی ہے تو جو ہم ٹیلیویژن دیکھتے ہیں یہ تو کسی مسلمان کی ایجاد نہیں۔ ہم ریڈیو سنتے ہیں یہ بھی کسی مسلمان کی ایجاد نہیں۔
ہم جن کاروں، بسوں، گاڑیوں اور جہازوں میں سفر کرتے ہیں یہ بھی مسلمان کے ہاتھ کی ایجاد نہیں ہے۔ اگر ہم اپنے اردگرد چیزوں کو بغور دیکھیں یہ کپڑے جو ہم نے زیب تن کیے ہوئے ہیں یہ جوتے جو ہم نے پہن رکھے ہیں۔ اسی طرح آپ روز مرہ کی اشیاء ضرورت دیکھ لیں جیسے بلب پنکھا، بجلی، موٹر، ٹائلیں، کاغذ، یہ اخبار جو آپ کے ہاتھ میں ہے جس میں آپ تحریر پڑھ رہے ہیں یہ کسی مسلمان کی ایجاد نہیں۔
یہ سب کچھ غیر مسلم قوم کا بنا ہوا ہے۔
تہواروں کے ساتھ آپ کھیلوں کو دیکھ لیں ہاکی جو پاکستان کا قومی کھیل ہے۔ اس کھیل کی تجویز کسی مسلم ذہن کی نہیں یہ تو انگریزوں کے دور میں برصغیر میں آیا تھا۔ اسی طرح کرکٹ جس کی پوری قوم دیوانی ہے۔ یہ کھیل بھی سب سے پہلے غیر مسلم قوموں کے درمیان کھیلا گیا اس کھیل کے متعلق دیا گیا آئیڈیا بھی کسی مسلم ملک یا کسی مسلمان کا نہیں ہے۔
آپ کھیلوں کا میلہ اولمپکس دیکھ لیں جس میں نہ صرف پاکستان بلکہ بیشتر مسلم ممالک بھی حصہ لیتے ہیں۔ اولمپکس کا انعقاد تو قبل از مسیح سے شروع ہوا اور بعد میں یونانیوں نے اسے پروان چڑھایا اور آج تک یہ جاری ہے، یہ سب کھیل بھی غیر مسلم معاشرے کی پیداوار ہیں۔
قارئین! اگر کوی چیز ہماری روایات، عقیدہ اور رسومات سے متصادم نہیں تو ایسا تہوار جو محبت کے اظہار کا ہے وہ محبت چاہے ماں بیٹے کی ہو، بھائی بہن کی، بھائی بھائی کی یا کسی دوست کے ساتھ ہو، پاکیزہ محبت ہو۔
ضروری نہیں کہ غیر شرعی محبت ہو۔ محبت کا اظہار تو جائز رشتوں سے بھی کیا جا سکتا ہے مثلاً بہن بھائی اور والدین وغیرہ۔ مزید محبت میں کس قدر پاکیزگی موجود ہے اس کا ادراک صرف محبت کرنے والے کو ہی ہو سکتا ہے۔ جس طرح آپ ٹیلیویژن میں ایک غیر اخلاقی قسم کی تصویر دیکھ سکتے ہیں اور اسی ٹی وی پر مذہبی اور اچھی اخلاقی قسم کی تصویر بھی دیکھ سکتے ہیں۔
اس میں قصور ٹی وی کا نہیں۔ اسی طرح محبت کے اظہار کا دن ہے۔ یہ اب آپ نے طے کرنا ہے کہ اس دن کا غلط استعمال کرنا ہے یا حدود و قیود میں رہ کر منانا ہے۔ جس طرح ٹیلیویژن برا نہیں اس طرح یہ تہوار بھی برا نہیں۔
اگر ہم مغربیت کو کلی طور پر ترک کر دیں تو ہم چل ہی نہیں سکتے۔ ہمیں تو جنگل میں جا کر رہنا پڑے گا۔ آج کے دور میں جتنی بھی آسائش و سہولیات اور ایجادات ہیں اور ضروریات زندگی ہیں سب کی سب مغرب کی تخلیق شدہ ہیں۔
اگر انہیں ترک کر دیں تو ہمیں ویرانوں میں جا کر رہنا پڑے گا۔
جہاں تک ویلنٹائن ڈے کا تعلق ہے زیادہ تر لوگوں کا نقطہ نظریہ یہی ہے کہ یہ صرف لڑکا اور لڑکی کے درمیان محبت کے اظہار کا دن ہے۔ اچھا اس کو درست مانتے ہوئے آپ پورے پاکستان میں نظر ڈالیں تو ہمارے ہاں کتنے نوجوان ہوں گے جن کی عمریں 15 سال کے درمیان ہونگی؟ ان میں کتنے لڑکے یا لڑکیاں ہونگی جن کی مخالف جنس کے ساتھ دوستی کی خواہش نہیں ہو گی؟ اس لیے ہم کب تک زمینی حقائق سے چشم پوشی کرتے رہیں گے؟ یہاں پر تو ہمارا یہ حال ہے کہ جس لڑکے کی دسترس میں کوئی خاتون نہیں آتی تو وہ خود کو مذہب کا چیمپئن ثابت کرنے لگ جاتا ہے۔
اسی طرح جس خاتون پر کوئی توجہ نہیں دیتا (چاہے اس کے پیچھے وجہ اس کی شخصیت میں جاذبیت کی کمی یا اور کوئی نقص ہو) وہ اپنے آپ کو نیک اور پارسا ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھاتی۔
ہمارے معاشرے میں بہت منافقت ہے اگر کسی کی مخالف جنس تک رسائی نہیں تو وہ دوسروں پر گناہ کا فتویٰ صادر کر دیتا ہے۔ یہ جانے بغیر کہ اس کے کسی مخالف جنس کے ساتھ مراسم کس حد اور کس بنیاد پر ہیں؟ سعادت حسن منٹو نے ہمارے معاشرے پر بڑے گہرے الفاظ میں چوٹ ماری ہے کہ ”یہ معاشرہ عورت کو کوٹھا چلانے کی اجازت تو دیتا ہے لیکن تانگہ چلانے کی نہیں۔
“ یعنی ہمارا معاشرہ ایک عورت کو طوائف کی صورت میں قبول کر لیتا ہے لیکن ایک ڈرائیور کے طور پر نہیں۔
ایک مشہور واقعہ ہے کہ انگلستان میں ایک پاکستانی نوجوان ڈسکو کلب سے باہر نکلا۔ اس کی دونوں بغلوں کے نیچے خوبصورت غیر مسلم دوشیزائیں تھیں۔ جبکہ غیر مسلم فیکٹری سے تیار شدہ حرام مشروب اس کے ہاتھ میں تھا۔ وہ ایک انگریز کے ریسٹورنٹ میں داخل ہوا اور مالک سے پوچھنے لگا: ”یہاں پر حلال کھانا ہے“ اس سے اندازہ لگائیں کہ ہمارے اندر کتنی منافقت ہے۔
اس لیے اس بحث میں جائے بغیر کہ یہ چیز حرام ہے یا مغرب کی ہے۔ اس وقت حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری تعلیمی درسگاہوں کے اندر اکثریت ایسے لڑکوں اور لڑکیوں کی ہے جو کسی نہ کسی مشہور شخصیت کو ضرور پسند کرتے ہیں۔ تقریباً ہر لڑکے کی ملکی یا غیر ملکی پسندیدہ اداکارہ ہوتی ہے۔ اسی طرح ہر لڑکی کا پسندیدہ اداکار یا کوئی پسندیدہ کھلاڑی ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ہم ویلنٹائن ڈے سے نفرت کا دعویٰ کرتے ہیں۔
کچھ لوگ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر ویلنٹائن ڈے کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔ اس پر گالیاں لکھتے ہیں اور اس کو حرام قرار دیتے ہیں۔ ان سے بندہ پوچھے کہ آپ جس سوشل سائیٹ کو استعمال کر رہے ہیں یہ بھی تو کسی غیر مسلم کی بنائی ہوئی ہے۔ فیس بک پر آ کر نازیبا جملے لکھتے ہیں یہ تو ایک غیر مسلم مارک زیکربرگ (Mark Zuckerberg) کی ایجاد ہے۔ جس اپریٹنگ سسٹم یا ونڈو کی مدد سے کمپیوٹر چلا رہے ہیں، یہ بھی ایک عیسائی بل گیٹس اور جبکہ کمپیوٹر جس کی بنیاد معروف ریاضی دان چارلس بے بج (Charles Babbage) نے رکھی۔
یہ سب چیزیں خالص مغرب کی ایجاد ہیں۔ یہ تو کسی مسلمان کی ایجاد نہیں۔ ہمای جہالت کی انتہا دیکھیں، ہم ویلنٹائن ڈے کو برا بھلا کہتے ہیں لیکن مغرب کی تخلیق شدہ اشیاء کو دھڑلے سے استعمال بھی کرتے ہیں۔
درجہ بالا حقائق تلخ بھی ہیں اور یقینا بہت سے قارئین پر گراں بھی گزریں گے مگر اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ہم بحیثیت قوم سچ لکھنے اور پڑھنے کی ہمت پیدا کر لیں۔

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider