Episode 56 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 56 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

ہماری ریاست کی چار کمزوریاں
ہماری ریاست کی بہت سی کمزوریاں ہیں جنہیں یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ان کمزوریوں سے ہر ذی نفس واقف تو ہے لیکن ان کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل مرتب نہیں کرتا اور نہ ہی ان بیماریوں کی تشخیص کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے ٹیکس کے نظام میں بہت سی کمزوریاں ہیں جن میں بہتری کی اشد ضرورت ہے۔
ایسا ہی کچھ حال ہمارے نظام عدل و انصاف کا ہے۔ اس میں بہت سی اصلاحات کی ضرورت ہے، تیسرا اہم مسئلہ ہمارے ملک کا انتخابی نظام ہے جس میں بہت سی خرابیاں ہیں جنہیں باریک بینی سے جائزہ لے کر درست کرنے کی ضرورت ہے چوتھا اور اہم مسئلہ ہماری خارجہ پالیسی ہے جو ابھی بھی اس پرانی ڈگر پر چل رہی ہے۔
ہمارے ٹیکس نظام کا بغور جائزہ لیا جائے تو ہمارے ملک میں جتنے بھی ٹیکس لگ رہے ہیں وہ صرف نوکری پیشہ طبقے پر ٹھونسے جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

اس بوسیدہ نظام سے ہمارے جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کو کافی حد تک ریلیف ملا ہے جس کا انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ ٹیکس عائد کرنے کا کام ہماری پارلیمنٹ میں موجود لوگ کرتے ہیں۔ اگر پارلیمنٹ میں موجود ممبران کا جائزہ لیا جائے تو زیادہ تر تعداد جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی ہے۔ ماضی میں پارلیمنٹ کے اندر ن لیگ کے دور حکومت میں سرمایہ داروں صنعتکاروں کا غلبہ ہوتا تھا جبکہ پیپلز پارٹی کے دور میں جاگیرداروں اور وڈیروں کی اکثریت تھی لیکن اب اسمبلی میں موجود جاگیردار صنعت کار بھی بن چکے ہیں۔
جبکہ دوسری طرف اسمبلی میں ملازمت پیشہ افراد کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اسی وجہ سے جب بھی نیا ٹیکس لگایا جاتا ہے تو اس میں یہی نوکری پیشہ طبقہ پستا ہے۔ اس لیے جب تک ملازمت پیشہ طبقہ اسمبلیوں میں نہیں پہنچے گا اس وقت تک متوازن ٹیکس نظام نہیں لایا جا سکتا۔ ہماری قانون ساز اسمبلی میں جاگیرداروں اور صنعتکاروں کا قبضہ ہے۔ اس لیے یہ جو بھی ٹیکس کے حوالے سے قانون بناتے ہیں وہ اپنے مفاد ہمیشہ مدنظر رکھتے ہیں۔
جہاں تک عدل و انصاف کی بات ہے ہمارے ملک کا نظام عدل بہت کمزور ہے۔ عام شہری کو اپنا حق حاصل کرتے کرتے عمر بیت جاتی ہے۔ لیکن اسے انصاف نہیں ملتا اس کی وجہ بھی اسمبلیوں میں موجود ہمارے نمائندے ہیں۔ وہ اتنے طاقتور ہیں کہ انہیں عدالتی انصاف کی ضرورت ہی نہیں۔ یہ اپنا حق عدالتوں سے باہر حاصل کرنے کی طاقت و استطاعت رکھتے ہیں۔ عدل و انصاف کی کمزوری کی دوسری وجہ قانون نافذ کرنے والا ادارہ ”پولیس“ ہے۔
ہماری پولیس 1947 سے لے کر آج تک عوام سے زیادہ حکمرانوں کی فرماں برداری رہی ہے۔ برسر اقتدار طبقے کے زیر تسلط رہتی ہے۔ اسی لیے حکمران اسے اپنی مرضی سے استعمال کرتے ہیں۔ جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے اس کو مستقبل نزدیک میں برسر اقتدار آنا ہوتا ہے اس لیے وہ بھی اس نظام کی بہتری پر خاص توجہ نہیں دیتی۔
تیسرا سب سے اہم مسئلہ ہمارا انتخابی نظام ہے۔
ہمارے انتخابی نظام میں عام، کمزور اور متوسط طبقے کی کوئی جگہ نہیں کیونکہ اس طبقے کے پاس نہ تو پیسہ اورطاقت ہے اور نہ ہی اثرو رسوخ۔ اس لیے اس کا موجودہ انتخابی نظام کے ذریعے اسمبلی میں پہنچنا ناممکن ہے۔ حکومت میں موجود سرمایہ دار، جاگیردار اور بااثر طبقہ یہی چاہتا ہے کہ ہمارا انتخابی نظام اسی طرح فرسودہ رہے تاکہ کوئی عام شہری اقتدار کے ایوانوں میں قدم نہ ر کھ سکے۔
ہم کیسے تصور کر سکتے ہیں کہ جو لوگ اس طرح انتخابی عمل سے گزر کر اسمبلی کا حصہ بنتے ہیں وہ کس طرح عام لوگوں کو اپنی صف میں برداشت کریں گے؟ یہی وجہ ہے کہ وہ اس نظام کو بہتر بنانا ہی نہیں چاہتے۔
ہمارے ملک کا چوتھا اہم مسئلہ ہماری خارجہ پالیسی ہے جب تک ہماری جمہوری حکومت کو عوام سپورٹ نہیں کریں گے اس وقت تک ہماری خارجہ پالیسی سیاستدانوں کی بجائے غیر ملکی قوتوں اور دفاعی اداروں کے پاس گروی رہے گی۔
اگر ماضی کی طرف نظر دوڑائیں تو بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی گئی۔ دو تہائی اکثریت لے کر اقتدار میں آنے والے میاں صاحب کو اٹک جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس وقت ضروری تھا کہ ہمارے عوام سڑکوں پر نکل کر جمہوری نظام کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے۔ اپنے جمہوری راہنما کو جو دو تہائی مینڈیٹ دیا تھا اس کو سڑکوں پر آ کر عملی جامہ پہناتے۔ لیکن اس وقت عوام سوتے رہے۔
آمر اس کا فائدہ اٹھا کر جمہوریت کو نقصان پہنچاتا رہا۔ جس کی وجہ سے ہمارے سیاسی حکمران کمزور سے کمزور ہوتے چلے گئے۔ سیاسی حکمرانوں کے پاس نہ تو بندوق ہوتی ہے اور نہ ہی توپ۔ اگر ان کے پاس ہوتی ہے تو صرف عوام کی طاقت۔ لیکن جب عوام تقسیم ہو جائے اور سیاسی لیڈروں کے پیچھے نہ کھڑی ہو نعرے تو لگائے ”قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں“ لیکن جب وہ لیڈر پیچھے مڑ کر دیکھے تو کوئی نہ ہو تو یہ بے حسی دیکھ کر جمہوری سیاستدان کمزور ہو جاتے ہیں۔
بقول ارسطو ”جمہوریت کو مضبوط صرف عوام کی طاقت ہی سے بنایا جا سکتا ہے۔“ ہمارے ملک میں خارجہ پالیسی وہی قوتیں بناتی ہیں جو آخری لمحوں میں حکمرانوں کو بچا کر بیرون ملک لے جاتی ہیں۔
ذکر بالا خرابیوں کا بغور جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام خرابیوں کی وجہ کمزور جمہوریت ہے۔ جمہوریت کو قوت بخشنے کا واحد طریقہ عوام کے باشعور ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے متحرک ہونے پر منحصر ہے۔
کسی بھی آمر یا غیر آئینی قوت کی طرف سے آئین شکنی کی صورت میں عوام کثیر تعداد میں سڑکوں پر آ جائیں تو کسی بھی آئین شکن کا حوصلہ پست ہو سکتا ہے۔ اسی طرح جب ہمارے منتخب شدہ لیڈران کو یقین ہو جائے گا کہ ان کے اقتدار میں رہنے کے پیچھے بیرونی سپورٹ یا کسی ملکی طاقتور طبقے کی آشیرآباد کی بجائے بھرپور عوامی سپورٹ ہے تو صرف اسی صورت میں ہمارے حکمران خالص عوامی بہبود کے لیے راست اقدام لے سکیں گے۔

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider