Last Episode - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

آخری قسط - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

پاکستان کے معاشی غلطان
ایک یا دو بار غلطی کی جائے تو اسے غلطی کہا جاتا ہے پر جب غلطی کو تواتر سے بار بار دہرایا جانے لگے تو وہ غلطی نہیں رہتی بلکہ غلطان بن جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ہمارے ملک کے معاشی نظام کے ساتھ کئی دہائیوں سے کیا جا رہا ہے۔ 2013ء کے انتخابات سے پہلے عام تاثر یہی تھا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت برسر اقتدار آئے گی تو معیشت کی حالت بہتر ہو جائے گی۔
مسلم لیگ ن کے پاس ماہر معاشیات کی بہترین ٹیم موجود تھی۔ جبکہ اس کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے پاس معیشت کے میدان میں کوئی قابل کھلاڑی موجود نہیں تھا اور دوسری طرف عمران خان کے پاس اسد عمر کے سوا نہ تو معیشت کے حوالے سے کوئی ٹیم تھی اور نہ ہی ان کے پاس حکومت چلانے کا کوئی تجربہ تھا۔
11 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں ن لیگ بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر برسراقتدار آئی تو عوام میں امید جاگی کہ معیشت کے میدان میں جو غلطیاں پچھلی حکومت نے کی ہیں ن لیگ ان کو نہیں دہرائے گی۔

(جاری ہے)

لیکن ن لیگ کی دس ماہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو معیشت کے میدان میں کوئی قابل ذکر اقدام نظر نہیں آئے۔ قطر سے ایل این جی منگوائی جا رہی ہے۔ ایل این جی گیس بنانے کے لیے بجلی کی بہت زیادہ ضرورت پڑتی ہے۔ گیس کو پہلے زمین کے نیچے سے نکالا جاتا ہے۔ پھر اس گیس کو مائع حالت میں تبدیل کیا جاتا ہے جو کہ مالی لحاظ سے ایک مہنگا عمل ہے۔ اس کے مقابلے میں ایران سے سستے داموں گیس مل رہی ہے جس کو خریدنے کے لیے حکومت تیار ہی نہیں ہے۔
دوسری طرف ملک کے بیشتر اداروں کی نجکاری کی جا رہی ہے جو کہ ایک مثبت قدم ہے۔ پاکستان سٹیٹ آئل، ریلوے، یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، سٹیل مل اور پی آئی اے سمیت 31 اداروں کو پرائیویٹائز کیا جا رہا ہے۔ لیکن ان اداروں کی نجکاری سے پہلے نہ تو کوئی میکنزم بنایا گیا ہے اور نہ ہی ان اداروں کو پرائیویٹ کمپنی کے ہاتھوں چلانے کے لیے کوئی واضح اصول و ضوابط مرتب کیے گئے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر پی آئی اے کی نجکاری کر دی جاتی ہے تو پرائیویٹ فرم کبھی نہیں چاہے گی کہ وہ پی آئی اے کی فلائٹ سکردو یا کوئٹہ جیسے علاقوں میں بھیجے۔ ان شہروں کی طرف فضائی سفر کرنے والے مسافروں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس لیے پرائیویٹ فرم کبھی اپنا نقصان نہیں چاہے گی۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کوئٹہ اور سکردو جیسے شہروں کو لوگوں کو بھی فضائی سفر کی سہولت فراہم کرے۔
اس لیے حکومت کو نجکاری کے معاملے پر ایسا ادارہ بنانے کی ضرورت ہے جو پرائیویٹ فرم کے ساتھ مل کر عوام کے مفاد کے لیے کام کرے تاکہ طول و عرض میں رہنے والے ہر پاکستانی شہری کو نجکاری کا فائدہ پہنچ سکے۔ ایک اہم کام کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ پورا ادارہ ایک فرم کو دے کر فرم کی اجارہ داری قائم کرنے کی بجائے کسی بھی قومی ادارے کے بہت سے حصے بنا کر مختلف فرموں کو دے دینا چاہیے تاکہ پرائیویٹ فرموں کے اندر مقابلے کی فضا قائم ہو اور نجکاری کے مثبت اثرات مرتب ہوں۔
اداروں کی نجکاری کرنے کے ساتھ ساتھ واضح قانون سازی کی بھی ضرورت ہے۔ کمرشل ادارے چلانا حکومت کا کام نہیں ہے۔ حکومت کو ملک میں امن و امان کی صورتحال، خزانہ، داخلہ اور خارجہ پالیسی پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ تعلیم، کیمونیکیشن سے لیکر ٹرانسپورٹ تک جتنے بھی ادارے ہیں ان کی نجکاری کر دینی چاہیے۔
قدرتی وسائل کی تقسیم کی جانب نظر دوڑائیں تو حکومت ان دنوں انڈسٹری گیس فراہم کر رہی ہے جبکہ انڈسٹری مالکان گیس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اور اس سے بجلی پیدا کر رہے ہیں اس بجلی سے اپنی انڈسٹری چلا رہے ہیں۔
راقم الحروف کو چند روز پہلے ایک سیمینار میں جانے کا اتفاق ہوا۔ جہاں پر ایک صنعتکار سے گیس سے بجلی پیدا کرنے کے معاملے پر آف دی ریکارڈ بات ہوئی۔ اس نے بتایا کہ اگر ہم پٹرول یا ڈیزل سے بھی جنریٹر چلا کر بھی بجلی پیدا کریں اور اپنی مصنوعات تیار کریں تو اس سے بھی ہمیں مالی طور پر کافی فائدہ پہنچتا ہے لیکن ہمیں عادت پڑ چکی ہے کہ ہم گیس سے بجلی پیدا کریں اور زیادہ سے زیادہ منافع کمائیں۔
حکومت ان صنعتکاروں کے ہاتھوں یرغمال بنی محسوس ہوتی ہے۔ گھریلو صارفین اور سی این جی اسٹیشن کو گیس کی فراہمی کو اپنے اوپر بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ حکومت نے سردیوں میں سی این جی اسٹیشن کو گیس کی فراہمی بند رکھی اور گھریلو صارفین کو بھی پوری گیس فراہم نہیں کی۔ سی این جی سیکٹر میں سوئی گیس اس کا خام مال ہے۔ یعنی اگر گیس سی این جی سیکٹر کو فراہم نہیں کی جائے گی تو سی این جی بند ہو جائے گی۔
دوسری طرف ٹیکسٹائل سمیت دیگر صنعتوں میں سوئی گیس خام مال کی بجائے بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور یہ کام ڈیزل، پٹرول، فرنس اور ایل پی جی وغیرہ سے بھی باآسانی لیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا سی این جی سیکٹر کی گیس بند کر کے دیگر انڈسٹری کو دے دینا ناانصافی ہے۔
اس وقت ضرورت ہے کہ ٹیکس بیس کو بڑھایا جائے لیکن موجودہ حکومت نے اس معاملے پر کوئی توجہ نہیں دی ہے۔
خاکسار نے اپنے گزشتہ ایک کالم میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ حکومت نوجوانوں کو قرضہ دینے کی بجائے یہ قرضہ چھوٹے ادارے پچھلے دس سال سے ایف بی آر میں رجسٹرڈ ہیں ان کو دیا جائے۔ ان چھوٹے اداروں کے پاس دس سالہ تجربہ بھی موجود ہے اور وہ اس قرضہ سے اپنے کاروبار میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کر سکتے ہیں اور ان کے کاروبار بڑھنے سے ملازمت کے مواقع بھی بڑھیں گے۔
اس سے ملک میں بیروزگاری میں فوری اور دیرپا کمی بھی ممکن ہو پائے گی۔ اس وقت ٹیکس بیس بڑھانے کی سخت ضرورت ہے اور دیگر شعبہ جیسا کہ زراعت کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانا انتہائی ضروری ہے۔ چھوٹے کاروباری طبقہ کو سستا قرضہ ملے گا تو کاروباری طبقہ کا ٹیکس رجسٹریشن کی جانب رجحان بڑھے گا۔
موجودہ حکومت کی خام خیالی ہے کہ باہر سے کوئی سرمایہ کار آئے گا اور ملک میں سرمایہ کاری کرے گا۔
آپ خود سوچیں آپ کسی ملک یا خطے میں سرمایہ کاری کریں گے جہاں سکیورٹی رسک ہو؟ آپ کے سرمایہ کو کسی قسم کا تحفظ بھی حاصل نہ ہو؟ چند روز قبل خاکسار کی ملاقات ایک مغربی ملک کے بڑے سرمایہ دار سے ہوئی تو میں نے اسے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کا مشورہ دیا تو اس نے کہا کہ ”آپ کے حکمرانوں کو نجکاریوں کی طرح کبھی مغربی تو کبھی عرب ممالک سے بھیک مانگنے کی بجائے امن بحال کرنے اور نظام عدل کو مضبوط کرنے کی جانب توجہ دینی چاہیے اس طرح بین الاقوامی سرمایہ دار خود آپ کے ملک میں کھنچا چلا آئے گا۔
“ میں اس سرمایہ دار کا جواب سن کر لاجواب ہو گیا۔ اسی طرح ہمارا ٹیکس کا نظام انتہائی فرسدہ قسم کا ہے۔ حکومت نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لا رہی ہے۔ اس لیے جو لوگ ٹیکس نیٹ کے اندر موجود ہیں تو ان پر ٹیکسوں کا اضافی بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ جس سے سرمایہ کار پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ حکومت نے ایک آسان طریقہ نکالا ہے کہ سیدھا پٹرول پر ٹیکس تھوپ دیا جاتا ہے جس سے عام آدمی پر بھی بوجھ پڑتا ہے۔ پٹرول کی قیمت بڑھنے پر اس کے معاشی بوجھ میں بھی ہوشربا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے غریب عوام پر بالواسطہ ٹیکس سسٹم سراسر ظلم و ناانصافی ہے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ جس شخص کی جتنی آمدنی ہو اس پر اتنا ہی براہ راست ٹیکس لگنا چاہیے۔

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider