Episode 11 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 11 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

فون پر اماں تھیں اس نے تھوڑے تذبذب کے بعد فون اٹھا لیا اور اماں کو سلام کیا۔
”کہاں ہو ثوبان بیٹا؟ میں تو یہ سوچ کر اسپتال آ گئی کہ تم رومی کو لے کر سیدھا اسپتال ہی آ جاؤ گے۔“ اماں نے کہا۔
”وہ… اماں…!“ وہ ذرا سا ہکلایا۔
”کیا وہ اماں؟“ اماں ذرا سا ناراض ہوئیں۔
”میں نے سوچا اسے یونیفارم میں کیا اسپتال لے کر جاؤں گا اور ویسے بھی اس کی طبیعت خراب تھی صائمہ نے مجھے کہا تھا کہ میں اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں…“ جانے اسے کیسے بہانہ سوجھ گیا۔
”ہاں بتا رہی تھی صائمہ!“ اماں نے کہا۔ ”کتنی دیر لگ جائے گی؟“
”کافی رش ہے اماں!“ ثوبان نے آہستگی سے کہا۔
”کوشش کرو اور جلدی آ جاؤ میں صائمہ کو بتا دیتی ہوں وہ پریشان ہو رہی تھی کہ جانے تم کہاں چلے گئے ہو۔

(جاری ہے)

“ اماں سادگی سے کہہ رہی تھیں۔ خدا حافظ کہہ کر اماں سے رابطہ منقطع کیا اور نعیم کی ہمراہی میں ان کے لاؤنج میں آ گیا جہاں نعیم وائس پرنسپل کا نمبر ڈائل کر رہا تھا۔

نتاشا حیرت سے یہ سب دیکھ رہی تھی اسے احساس ہوا کہ کچھ گڑبڑ تھی وہ ثوبان کے چہرے کو غور سے دیکھ رہی تھی ننھے سے ذہن میں وہ کئی باتیں سوچ چکی تھی۔
”انکل…!“ اس نے ثوبان کو بلایا۔
”جی بیٹا؟“ اس نے ثوبان کو بلایا۔
”جب آپ اسکول گئے تو کیا رومی وہاں نہیں تھی؟“ نتاشا نے سوال کیا۔
”نہیں بیٹا!“ ثوبان نے کہا۔
”تو کیا رومی کو کسی نے اغوا کر لیا ہے…؟ ثوبان اندر سے نتاشا کے اس معصوم سوال پر لرز اٹھا۔
###
اپنا بیگ اٹھا کر اس نے کندھوں پرڈالا اور باہر نکلنے کا ارادہ کیا۔ پیٹ میں اب بھی مروڑ اٹھ رہے تھے۔ دروازے کے لاک کا لیور اس نے گھمانے کے لیے پکڑا ہی تھا کہ اس کے ہاتھ میں آگیا اور اس کے اندر سے ایک گول پہیے نما گراری نیچے گر کر لٹو کی طرح زمین پر گھومنے لگی اور گھومنے گھومتے فلش کے عقب میں بنے ہوئے پانی کے نکاس والے سوراخ میں گر کر غائب ہو گئی۔
اس نے اس پر اتنی توجہ نہ دی اور اس لیور کو تالے کے سوراخ میں واپس ڈالنے کی ناکام سعی کی۔ کافی دیر کی کوشش اور ناکامی سے وہ جھنجلا گئی، کندھے پر بستہ بوجھ کی طرح محسوس ہونے لگا تھا اس نے دوبارہ اس بستے کو فلش کی ٹینکی پر رکھا اور نئے سرے سے تالا کھولنے کی کوشش کرنے لگی۔
کہیں سے کوئی ہوا کا جھونکاتک نہیں آ رہا تھا، وہ پسینہ پسینہ ہو گئی تھی۔
بوتل کھول کر باقی پانی پیا اور واش بیسن کی ٹونٹی سے قطرہ قطرہ ٹپکتے پانی سے اپنا چہر تر کیا۔ بوتل خالی ہو گئی تھی اسے اس نے ٹوائلٹ رول کے اسٹینڈ کے اوپر رکھ دیا تھا، تالا نہ کھلنا تھا نہ کھلا تب وہ کھڑکی کی طرف دیکھنے لگی اور کھڑکی تک پہنچ کر وہ وہاں سے باہر نکل سکتی تھی لیکن کھڑکی تقریباً چھ فٹ بلندی پر تھی اور اس کا قد… بمشکل چار فٹ تھا۔
###
”السلام علیکم!“ ثوبان نے شائستگی سے کہا۔
”وعلیکم السلام…“ نسوانی آواز میں نرمی تھی۔
”میں ثوبان حامد بول رہا ہوں، کلاس تھری کی رومانہ احمد کا والد! آپ میڈم عنبرین بولی رہی ہیں؟“
”جی فرما ئیے جناب…؟“
”اصل میں ایک مسئلہ ہو گیا تھا…“ ثوبان نے تمہید باندھی۔
”رومانہ اپنا ہوم روک کا پلان کلاس میں بھول گئی ہیں…“ وائس پرنسپل نے ہنس کر کہا۔
”بعد میں مجھے اس کی ٹیچر نے بتایا تھا۔“
”جی نہیں! یہ بات نہیں ہے…“ ثوبان نے کہا۔ ”رومانہ آج گھر نہیں پہنچی!“
”مطلب…؟“ حیرت سے وائس پرنسپل نے کہا۔ ”گھر نہیں پہنچی؟ اسے تو آپ خود لینے آتے ہیں؟“
”دراصل آج میں ذرا لیٹ ہو گیا تھا…“ ثوبان نے جھجک کر کہا۔ ”چار بجے میں اسکول پہنچا تو وہاں تالا لگا ہوا تھا اور کوئی بھی نہیں تھا…“
”چار بجے تک تو میں خود اسکول میں تھی اور چار بجے میں نکلی ہوں تو اس وقت میں نے خود چوکیدار سے باہر تالا لگوایا تھا اس سے قبل میں نے خود سارے اسکول کا راؤنڈ لیا تھا اور یہ یقین بھی کر لیا تھا کہ سب بچے اپنے گھروں کو جا چکے ہیں…“ وائس پرنسپل کے کہنے سے ثوبان کو اور بھی بے چینی ہوئی۔
”ممکن ہے کہ وہ نتاشا کے گھر چلی گئی ہو؟“
”میں اس وقت نتاشا کے گھر پر ہی ہوں میڈم!“ ثوبان نے بتایا۔ ” وہ نتاشا کے ساتھ نہیں آئی…“
”ممکن ہے اور کسی بچی کے ساتھ چلی گئی ہو؟“ میڈم نے خیال ظاہر کیا۔
”ویسے تو ا س کی دوستی نتاشا کے علاوہ کسی کے ساتھ نہیں ہے… لیکن مجھے باقی بچوں کے ٹیلی فون نمبر مل سکتے ہیں؟“ ثوبان نے درخواست کی۔
”یوں تو اس کی اجازت نہیں ہے لیکن معاملہ ایسا ہے تو میں آپ کو اس کی کلاس کے باقی بچوں کے ٹیلی فون نمبر دے دوں گی۔“ میڈم نے کہا۔ ”میرے کمپیوٹر میں تمام بچوں کے ٹیلی فون نمبر ہیں۔“
”تو مجھے کس طرح نمبر ملیں گے؟“ ثوبان نے تیزی سے کہا۔
”اس وقت تو میرے ہاں بجلی بند ہے، دو گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہے جونہی بجلی آئے گی میں ٹیلی فون نمبروں کا پرنٹ نکال کر رکھ لوں گی آپ آ کر لے لیں۔
“ میڈم نے کہہ کر ثوبان کو اپنا ایڈریس سمجھایا، ثوبان نے ان کا ایڈریس اور ٹیلی فون نمبر لکھا اور اسی وقت نعیم کو خدا حافظ کہہ کر وہاں سے روانہ ہوا۔
###
کسی نہ کسی طرح تو اسے کوشش کرنا ہی تھی کہ کھڑکی تک پہنچے۔ اگر فلش نزدیک ہوتا تو وہ اس پر کھڑے ہونے کی کوشش کرتی مگر کھڑکی فلش کی مخالف سمت اور فاصلے پر تھی اس نے کوڑے دان کو کھینچ کر کھڑکی کے نیچے رکھا اور اس پر احتیاط سے چڑھنے لگی کوڑے دان بھی بمشکل پندرہ سولہ انچ ہی اونچا تھا اس پر چڑھ کر بمشکل اس کا ہاتھ کھڑکی تک پہنچا جبکہ کھولنے کے لیے اسے کھڑکی کی درمیانی سطح پر پہنچنا اور قوت استعمال کرنا تھی۔
وہ احتیاط سے نیچے اتری اور بے بسی سے دوبارہ کوڑے دان پر بیٹھ گئی تھوڑی سی کوشش سے وہ ہانپ گئی تھی اور نقاہت ہونے لگی تھی… پیاس سے حلق بھی خشک ہو رہا تھا، پینے کا پانی بھی ختم ہو چکا تھا۔ پیاس برداشت کرنا مشکل ہونے لگا تو وہ مجبور ہو کر واش بیسن کی ٹونٹی سے قطرہ قطرہ ٹپکتے پانی کو اپنی بوتل کے ڈھکن میں جمع کر کر کے پینے لگی۔ جسے گھر میں ابلے ہوئے یا فلٹر کیے پانی کے علاوہ پانی پینے کی عادت ہی نہ تھی وہ ایک عام ٹونٹی سے ٹپکنے والا ناقص معیار کا پانی مجبوراً پی رہی تھی۔
پیاس کی شدت تو کم ہوگئی تھی مگر پیٹ میں پھر سے مروڑ اٹھنے لگے تھے۔
اپنا بستہ کھول کر اس نے جھانکا شاید کوئی ٹافی مل جائے کیونکہ اس کا حلق سوکھ رہا تھا۔ کتابیں ایک ایک کر کے نکالتے ہوئے اسے ایک عجیب سا خیال آیا۔ اس کے اندر ایک خوشی کی رمق جاگی تھی مگر اس وقت اس کا دھیان چھپکلی طرف گیا تھا۔
###
ثوبان بتائے گئے وقت سے ڈیڑھ گھنٹا قبل ہی میڈم عنبرین کے ہاں پہنچ گیا تھا۔
ان کے گھر کے باہر کوئی شجر تھا نہ سایہ۔ دھوپ میں تپتی ہوئی گاڑی میں بیٹھا وہ وقت گزرنے کا انتظار کر رہا تھا اچانک فضا میں بکھرا ہوا شور تھما تو اسے اندازہ ہوا کہ بجلی آ گئی تھی جنریٹرز بند ہونے سے خاموشی سی ہو گئی تھی۔ شام کے چھ بج رہے تھے۔ اس نے اپنے موبائل فون سے فوراً وائس پرنسپل کو کال کی۔
”جی، میں ابھی کمپیوٹر آن کر کے وہی کام کرنے والی تھی۔
“میڈم نے کہا۔ ”آپ کتنی دیر میں پہنچیں گے؟“
”میں ڈیڑھ گھنٹے سے آپ کے گھر کے باہر کھڑا ہوں۔“ ثوبان نے کہا۔
”اوہ…!“ میڈم نے کہا۔ ”آئی ایم سوری، آپ نے بتایا کیوں نہیں…؟“ تھوڑی دیر کے بعد اندر سے ایک ملازم آیا اس نے ثوبان کو گھر کے اندر چلنے کو کہا۔ ثوبان نے گاڑی لاک کی اور اس کی تقلید میں گھر کے اندر چلا۔ ڈرائنگ روم میں اسے بٹھا کر ملازم اس کے لیے جوس لے کر آیا اور اس سے چائے کے بارے میں پوچھا۔
ثوبان نے انکار کر دیا، اسی اثنا میں میڈم فون لے کر ڈرائنگ روم میں آ گئیں اور ملازم کو چائے بنانے کی ہدایت کی۔ ثوبان کو بیٹھنے کا کہہ کر وہ خود بھی بیٹھ گئیں۔
”آپ براہ مہربانی مجھے یہ فہرست دے دیں…“ ثوبان نے کھڑے کھڑے کہا۔
”آپ بیٹھیں جناب!“ میڈم عنبرین نے کہا۔ ”ہم یہیں سے تمام بچوں کے گھروں میں کال کر کے چیک کریں گے۔
”آپ مجھے فہرست دے دیں، میں اپنے گھر جا کر چیک کر لوں گا؟“
”ثوبان صاحب!“ میڈم نے کہا۔ ”رومانہ ہمارے اسکول کی طالبہ ہے اور آپ سے بڑھ کر ہماری ذمے داری ہے وہ اسکول میں… اگر وہ اسکول سے کسی اور بچی کے ساتھ گئی ہے تو مجھے اس کا علم ہونا چاہیے تھا۔ آپ بیٹھیں میں آپ کے سامنے ہی چیک کرتی ہوں اور پھر مجھے یہ بھی دیکھنا ہے کہ مجھے کیوں نہیں معلوم ہوا۔“ ثوبان ان کے انداز سے بہت متاثر ہوا اور بیٹھ گیا۔ میڈم عنبرین نے چند بچوں کے گھروں پر کال کر کے پوچھا تو نفی میں جواب ملا۔ وہ ثوبان کو تھوڑی دیر انتظار کرنے کا کہہ کر اٹھ کر باہر نکل گئیں۔ ثوبان نے بے چینی سے وہ فہرست اٹھائی اور اگلا نمبر ملا کر بات کرنے لگا۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider