Episode 14 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 14 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

اپنے کمرے میں ٹیلی وژن پر حادثے کی خبر دیکھتے ہوئے صائمہ چونک کر اپنی امی کو بتا رہی تھی کہ ہلاک ہونے والوں میں خمیسو نام کا آدمی رومی کے اسکول کا ایک چوکیدار تھا۔ ”بہت اچھا آدمی تھا امی! بہت خیال رکھتا تھا رومی کا! آپ کو تو معلوم ہے کہ ثوبان کو اکثر دیر سویر ہو جاتی تھی۔“ وہ کہہ رہی تھی۔
”ثوبان کی دیر پر تو میں آ ج بہت حیران ہوں…!“ اس کی امی نے کہا۔
”اسے تو لگتا ہے کہ تم سے دلچسپی ہے نہ ہی اپنے اس معصوم بچے سے۔“
”ارے نہیں امی…!“ وہ ہنسی۔“ ثوبان ایسے نہیں ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ رومی کو ڈاکٹر نے اسپتال میں داخل کر کے ڈرپ لگا دی ہو گی اور ثوبان مجھے خود ہی نہیں بتا رہے ہوں گے تاکہ میں پریشان نہ ہوں۔
”الله کرے کہ تمہاری خوش فہمی درست ہو!“ اس کی امی نے خفگی سے کہا ۔

(جاری ہے)

اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی یس کہنے پر دروازہ کھول کر توفیق اندر داخل ہوا۔

”تم اکیلے ہی آئے ہو؟“ صائمہ کی امی نے کہا۔ ”رومی کہاں ہے؟“
”رومی بی بی کا تو ثوبان صاحب نے بتایا کہ وہ اپنی سہیلی کے گھر ہیں اور خود وہ“ توفیق مکاری سے مسکرایا۔
”خود کیاد؟“ صائمہ نے بے تابی سے پوچھا۔
”خود جی گھر پر کوئی پارٹی شارٹی کر رہے ہیں، خورشید ٹھنڈی ٹھنڈی ایک درجن بوتلیں لے کر آیا تھا جب میں وہاں پہنچا اور جی ثوبان صاحب نے تو مجھے گیٹ سے اندر ہی نہیں آنے دیا۔
مجھے تو کوئی معاملہ گڑبڑ والا لگتا ہے چھوٹی بی بی!“ توفیق کے الفاظ میں زہر بجھے ہوئے تیروں کی طرح صائمہ کے دل میں ترازو ہو رہے تھے۔
###
جتنی تیزی سے ثوبان کو کوئی رابطہ ہونے کی اور رومی کی بابت معلوم ہونے کی امید بندھی تھی اتنی ہی تیزی سے وہ امید کا محل مسمار ہو گیا تھا خورشید ایک گلاس میں ٹھنڈا مشروب ڈال کر لایا تو اس نے پینے سے انکار کر دیا۔
”صاحب! کھانا لگا دوں آپ کے لیے؟“
”نہیں، مجھے بھوک نہیں…“ ثوبان نے آہستگی سے کہا۔
”آپ ٹھیک تو ہیں صاحب…؟“ ڈرتے ڈرتے خورشید نے پوچھا۔
”ہوں…!“ مختصر سا جواب دیا۔
”اگر سر میں درد ہے تو میں سردبا دوں؟“ خورشید نے پھر پوچھا۔
”نہیں… میں ٹھیک ہوں!“
”صاحب!“ خورشید آہستگی سے بولا۔ ”ایک بات پوچھوں؟“
”کیا بات ہے؟“ ثوبان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
”آپ کچھ پریشان ہیں صاحب؟“ خورشید نے پوچھا۔ 
”ہاں… رومی لا پتا ہے اس کا کچھ پتہ نہیں چل رہا اور یہ بات میں نے صائمہ کو اب تک نہیں بتائی ہے… اگر کسی نے رومی کو اغوا کیا ہے تو اس کا اب تک کوئی فون نہیں آیا ہے… میں اسپتال جا رہا ہوں تم فون کا دھیان رکھنا۔“ ثوبان، خورشید کو تاکید کر کے اسپتال کے لیے روانہ ہو گیا۔
###
”کیا بات ہے صائمہ؟“ اس نے صائمہ کا ہاتھ تھاما۔
”ختم ہو گئی تمہاری پارٹی؟ خیال آ گیا تمہیں میرا…!“ صائمہ اپنے ترکش میں جمع کیے ہوئے تیر ایک ایک کر کے ثوبان پر پھینکنے لگی۔ ”یاد آ گیا تمہیں کہ میں نے زندگی اور موت کی جنگ لڑکر ”تمہارے“ بیٹے کو جنم دیا ہے جسے دیکھنا بھی تم نے پسند نہیں کیا۔ ”صائمہ نے اس کا ہاتھ جھٹکا۔
###
نیند میں ہی اسے جیسے کسی نے بتی جلا دی ہو، بمشکل اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو صبح کی روشنی کے آثار نمودار ہو رہے تھے۔
آنکھیں پھر بند ہو گئیں پورا وجود بے حس و حرکت ہو گیا تھا۔ آنکھیں بھی کھلی رکھنے کی ہمت نہیں تھی مختلف مخلوقات کے ٹرانے و چیخنے کی آوازیں بندہو چکی تھیں۔
”صبح ہو گئی ہے…!“ اس نے سوچا صرف یہی وہ کر سکتی تھی۔“ تو کیا رات بھر مما اور پپا نے بالکل ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی… انہیں معلوم تھا کہ میں اسکول میں ہوں تو اپنی تلاش کا آغاز انہیں اسکول سے ہی کرنا چاہیے تھا…“ اسے یقین ہی نہیںآ رہا تھا کہ اس کے مما پپا کو اس کی پروا ہی نہیں تھی۔
”اس کا مطلب ہے کہ اگر میں مر بھی جاؤں تو انہیں میری کوئی پروا نہیں ہو گی؟“ یہ سوچ کر اس کے ننھے سے دل میں درد اٹھا اور وہ درد آنسوؤں کی صورت آنکھوں سے بہہ نکلتا جو اس کے جسم سے پانی خطرناک حدتک کم نہ ہو گیا ہوتا… کسی کو بھی میری کوئی پروا نہیں ہے۔“ اس نے سسکاری لی۔
###
”تم نے ایسی بات سوچی بھی کیونکر…؟“ ثوبان نے پھر اس کا ہاتھ تھام لیا۔
”میں تمام وقت یہیں تھا جب تک مجھے تمہاری خیریت کی خبر نہیں مل گئی۔“
”امی جب آئیں تو انہوں نے بتایا کہ تم یہاں نہیں تھے۔“ صائمہ نے شکوہ کیا۔
”میں کسی مجبوری کی وجہ سے اچانک چلا گیا تھا۔“اس نے صفائی پیش کی۔ ”اور پھر ایسا پھنسا کہ واپس آتے آتے یہ وقت ہو گیا ہے۔“
”مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ تمہاری مجبوری کیا تھی اور مصروفیات کیا…!“ صائمہ کے کہنے پر ثوبان نے چونک کر اسے دیکھا کیا وہ جانتی تھی کہ رومی…“
”کیا معلوم ہے تمہیں…؟“ کھوئے کھوئے انداز میں ثوبان نے پوچھا۔
”میں تو یہ سمھتی رہی کہ تم رومی کو لے کر اسپتال گئے ہو گئے اور وہاں دیر ہو گئی ہو گی۔“ صائمہ ادا سے بولی۔
”مگر مجھے یہ علم نہیں تھا کہ رومی کو تم نے نتاشا کے گھر پر چھوڑ دیا ہو گا اور خودعیاشی کررہے ہو گے؟“
”کون سی عیاشی…؟“ اس نے حیرت سے پوچھا۔
”اچھا تو کیا درجن بھر دوستوں کو گھر بلا کر پارٹی کرنا عیاشی نہیں؟“ صائمہ نے ابرو اچکائے۔
”کون سے درجن بھر دوست…؟“ کس نے بتائی ہیں تمہیں یہ ساری غلط سلط باتیں؟“
”اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کس نے تمہارے راز کی رپورٹ دی۔“ صائمہ دہاڑی تھی۔
”چلو نہ بتاؤ۔“ ثوبان نے کندھے اچکائے۔ ”میں جو بھی کہوں گا تم اسے مانو گی ہی نہیں کیونکہ کوئی ایسا ہے جس پر تمہیں مجھ سے زیادہ یقین ہے…“
”اپنے بیٹے کو نہیں دیکھو گے؟‘ صائمہ کے لہجے میں فخر بھی تھا اور غرور بھی… ”رومی کو بھی ساتھ ہی لے آتے اسے کتنی شدت سے انتظار تھا اپنے بھائی کا۔
“ اس نے مصلحتاً ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
”صائمہ!“ ثوبان کے لہجے میں آنسوؤں کی نمی بھی تھی اور سرد سی سنسناہٹ بھی۔
###
خورشید ٹیلی فون کے پاس ہی بیٹھا تھا لیکن کوئی کال نہیں آئی تھی وہ بار بار سوچ رہا تھا کہ یا تو رومی اپنی کسی سہیلی کے گھر چلی گئی ہے اور صاحب کوبتانا بھول گئی ہے یا پھر… اس ایک نقطے پر آ کر و ہ مکمل طور پر اٹک جاتا تھا کچھ تھا جو اس کے ذہن میں بار بار آ رہا تھا۔
”اوہ…!“ یکلخت اس کے ذہن میں روشنی کا جھماکا ہوا۔“ صبح بیگم صاحبہ نے اپنی والدہ کو فون کر کے کہا تھا کہ وہ توفیق کو بھیج کر اسکول سے رومی کو بلوا لیں تو اس کا مطلب ہے کہ توفیق، رومی بی بی کو اسکول لینے گیا ہو گا تو پھر رومی بی بی کے اغوا ہونے کا کیا جواز؟“ وہ پھر سوچنے لگا توفیق اسے ہمیشہ مکارا ور موقع پرست انسان لگتا تھا اور ویسے بھی اسے حیرت ہو رہی تھی کہ اس نے اس سے یہ کیوں پوچھا تھا کہ بیگم صاحبہ اور صاحب کا آپس میں جھگڑا تو نہیں ہوا؟ اور حیرت کی بات تو یہ تھی کہ آج اس نے اس سے رومی بی بی کے حوالے سے کچھ پوچھا تک نہ تھا ورنہ وہ ہمیشہ اس سے ضرور کہتا تھا۔
”رومی کے ”خوشی تاتا“ کیا حال تیری رومی بیٹا کا؟“
”یقینا یہی ہے…!“ فرط جذبات اور جوش سے لرزتی، کانپتی انگلیوں سے اس نے ثوبان کا موبائل نمبر ڈائل کیا۔ گھنٹی بج رہی تھی۔
”السلام علیکم!“ ثوبان کی آواز آئی۔ ”کون بول رہا ہے؟“ حالانکہ وہ اسکرین پر اپنے گھر کا نمبر دیکھ چکا تھا۔
”صاحب،میں ہوں خورشید!“ خورشید کی آواز میں جوش نمایاں تھا۔
”جی کیا حال ہے آپ کا؟“ ثوبان نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
”صاحب ایک بہت اہم بات کرتی ہے آپ سے۔“ خورشید نے پھر جوش سے کہا۔
”ٹھیک ہے میں آ جاتا ہوں۔“ کہتا ہوا فون بند کر کے وہ باہر کی طرف لپکا۔
”کہاں جا رہے ہو اس وقت… اتنی رات گئے تو تمہارا دفتر بھی بند ہو گا۔“ صائمہ عقب سے چلائی تھی۔
”ایک بہت ضروری کام ہے۔
“ وہ جلدی سے بولا۔
”کیا تمہارے لیے اپنا بیٹا دیکھنے سے اہم ہے وہ کام؟“ صائمہ کی آواز میں غصہ تھا، وہ ٹھٹکا۔
”ہاں…“ اس نے متانت سے کہا۔ ”یہ کام میرے لیے بہت اہم ہے۔“
”مجھے کچھ بتاؤ تو سہی، مجھے لگتا ہے تم مجھ سے کچھ چھپا رہے ہو؟“ وہ اس کا سوال سن کر باہر نکل گیا اور صائمہ اس کے جاتے ہی بھبک بھبک کر رونا شروع ہو گئی۔ ا س کا سارا جسم کچے زخم کی طرح دکھ رہا تھا۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider