Episode 15 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 15 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

ابھی وہ اپنی گاڑی تک بھی نہیں پہنچا تھا کہ پھر خورشید کی کال آئی۔
”ہاں خورشید! کیا کال آئی ہے کسی کی؟“
”نہیں صاحب! میرے ذہن میں ایک خیال آیا تھا۔“ خورشید نے وثوق سے کہا۔
”کیسا خیال؟“ ثوبان نے حیرت سے پوچھا۔
”رومی بی بی کو تو اسکول سے توفیق نے لینے جانا تھا… تو کیا وہ اسکول نہیں گیا تھا؟“
”ہاں اسے ہی جانا تھا مگر وہ بے وقوف تقریباً ایک گھنٹا لیٹ اسکول پہنچا تھا، رومی اس وقت وہاں نہیں تھی۔
“ ثوبان نے وضاحت کی۔
”یہ آپ سے کس نے کہا؟“ خورشید نے پوچھا۔
”ظاہر ہے توفیق نے۔“ ثوبان نے فوراً کہا۔
”ممکن ہے وہ جھوٹ بول رہا ہو؟“ خورشید کی بات پر ثوبان چونکا، واقعی یہ بات اس کے ذہن میں نہیں آئی تھی۔ ”آپ رومی بی بی کے اسکول کے چوکیدار سے تو پوچھ سکتے ہیں کہ کیا واقعی اسکول سے رومی بی بی کو لیے بغیر آ گیا تھا؟“ ثوبان نے فوراً فون بند کر دیا اور میڈم عنبرین کا نمبر ملایا اسے یہ بھی پروا نہیں تھی کہ رات نصف سے زیادہ بیت چکی تھی۔

(جاری ہے)

”وعلیکم السلام۔” میڈم عنبرین کی آواز آئی۔ ”کہیے ثوبان صاحب!“
”معذرت چاہتا ہوں، آپ کو سوتے میں ڈسٹرب کیا۔“
”تو کیا آپ سمجھ رہے ہیں کہ میں سو رہی تھی؟“ میڈم عنبرین نے طنز سے کہا۔ ”صرف آپ جاگ رہے ہیں کیونکہ رومی لاپتا ہے اور وہ آپ کی بیٹی ہے؟ نہیں ثوبان صاحب! رومی میری بھی بیٹی ہے۔ میں اس کی روحانی ماں ہوں ، میں اس اسکول کے ہر بچے کی ماں ہوں۔
میرے کسی بچے کو خراش تک آ جائے تو میں سکون سے نہیں سو سکتی اور رومی تو سرے سے لاپتا ہے۔“ بات مکمل کرتے کرتے وہ سسک پڑی تھیں۔ ”اللہ اسے اپنی امان میں رکھے۔“
”میں جانتا ہوں…“ ثوبان نے نرمی سے کہا۔ ”اصل میں مجھے آپ کے اسکول کے چوکیداروں کے بارے میں معلومات درکار ہیں، ان کے ایڈریس، رابطہ نمبر وغیرہ۔ کیا وہ اس وقت اسکول میں ہوں گے؟“
”جب تک میں اسکول سے نکلی تھی چار بجے اس وقت تو وہ دونوں وہاں تھے پھر انہیں بھی اسکول لاک کر کے چلے جانا تھا۔
“ میڈم عنبرین بولیں۔
”تو پھر وہ کہاں ملیں گے؟“ ثوبان بے تابی سے بولا۔
”ان دونوں کا تعلق ایک ہی گاؤں سے ہے، میرے پاس ان کے مکمل ایڈریس موجود ہیں اگر آپ کے پاس کاغذ اور قلم ہے تو ابھی لکھ لیں۔“ میڈم عنبرین کے کہنے پر ثوبان نے ان دونوں کا پتا نوٹ کیا۔ ”ایک بات پوچھوں ثوبان صاحب؟“ میڈم عنبرین نے پوچھا۔
”جی؟“ ثوبان نے مختصراً کہا۔
”کیا آپ نے پولیس میں رپورٹ درج کرا دی ہے؟“ سوال کیا گیا۔
”ابھی تک نہیں۔“ ثوبان نے آہستگی سے کہا۔ ”ابھی مجھے اپنی بیگم کو اس کے متعلق اطلاع کرنی ہے۔“
”آپ نے ابھی تک ان کو بتایا ہی نہیں… یہ کیسے ممکن ہے؟“ میڈم عنبرین نے حیرت سے کہا۔
###
وقت کتنا طویل ہوتا ہے اور کتنی آہستگی سے سرکتا ہے، ا س کا اندازہ رومی کو ہو رہا تھا۔
اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس وقت کیا بجا تھا، صرف یہ احساس تھا کہ وقت تھم گیا ہے۔ وہی وقت جو خوشیوں میں پرواز کرتا محسوس ہوتا ہے اور غم اور تکلیف میں گزرنے ہی نہیں پاتا۔
اگر وہ بیٹھ سکتی تو اٹھ کر اپنے بیگ میں رکھی ہوئی کہانیوں کی کتاب ہی پڑھ لیتی مگر وہ ساری کتابیں بھی فرش پر بکھری پڑی تھیں… وہ صرف سوچ کر رہ گئی۔ سر منوں بھاری ہو رہا تھا اور درد ہتھوڑے کی چوٹوں کے مانند لگ رہا تھا۔
کمر درد کے مارے کٹی ہوئی لگ رہی تھی۔ شاید جسم سوج گیا تھا، آنکھیں بھی نہیں کھل پا رہی تھیں۔ نہ ہی وہ اس قابل تھی کہ کھڑی ہو کر واش بیسن کے سامنے لگے آئینے میں ہی اپنی شکل دیکھ پاتی۔
”مما کیا کر رہی ہوں گی؟“
”پپا آفس چلے گئے ہوں؟“
”مما میرا بھائی لینے کب جائیں گی اسپتال؟“ وہ یہ سب کچھ صرف سوچ رہی تھی کیونکہ اب اس کے لب بھی نہیں ہل رہے تھے اور آواز تو رات سے ہی بند تھی۔
”کتنا پیارا ہو گا میرا بھائی… میں اپنے بھائی سے بہت پیار کروں گی۔ وہ میرے کمرے میں سویا کرے گا۔“ وہ سوچ رہی تھی۔ ا س نے مما سے اصرار کر کے اپنے بھائی کا کاٹ اپنے کمرے میں لگوایا تھا۔ اس پر نیلے رنگ کا بستر بھی تھا اور سپرمین والے کارٹون تھے۔
”میرا بھائی سپرمین جیسا مضبوط اور طاقتور ہو گا۔“ وہ ہمیشہ مما سے کہتی تھی۔ ”اگر میرا بھائی ہوتا تو اس وقت آ کر سپرمین کی طرح کھڑکی ہی توڑ دیتا اور مجھے اٹھا کر باہر لے جاتا…“ اس نے پھر سوچا۔
”میں اپنے بھائی کا نام شان رکھوں گی۔“ وہ ہمیشہ اصرار کرتی تھی۔
###
مرے مرے قدموں سے ثوبان واپس کمرے میں آیا جہاں صائمہ ہچکیوں سے رو رہی تھی۔
”نہ روؤ صائمہ پلیز۔“ ثوبان نے التجا کی۔ ”میں پہلے ہی بہت تکلیف میں ہوں۔“ ثوبان کے لہجے میں جانے کیا تھا کہ صائمہ یک دم خاموش ہو گئی۔
”کیا ہوا ثوبان…؟“ اس کے لہجے میں حیرت اور خوف یکجا تھے۔
”کیا ہوا ہے تمہیں… تم ٹھیک تو ہو؟“
”کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے صائمہ!“ ثوبان کا لہجہ شکست خوردہ تھا۔ ”میں دن بھر سے کوئی عیاشی نہیں کر رہا ہوں بلکہ سولی پر ٹنگا ہوا ہوں۔“
”مجھے پہیلیاں نہ بھجواؤ ثوبان پلیز…!“ صائمہ کے لہجے میں کپکپاہٹ تھی۔ ”جلدی بتاؤ کیا ہوا؟“
”صائمہ… وہ رومی…“ ثوبان جھجکا۔
”کیا ہوا ہے میری گڑیا کو…؟ وہ ٹھیک تو ہے…؟ کہاں ہے وہ؟“ صائمہ نے سوال داغے۔
”یہی جاننے کی کوشش کر رہا ہوں دن بھر سے۔“ ثوبان نے دھماکا کیا۔
”کیا مطلب…؟“
”رومی اسکول سے لاپتہ ہو گئی ہے…“ بہ مشکل ثوبان نے فقرہ مکمل کیا لیکن وہ فقرہ مکمل ہونے کی دیر تھی کہ پورا کمرا صائمہ کی ہذیانی چیخوں سے گونج اٹھا، ثوبان اسے سمجھانے کی کوشش کیا کرتا، وہ تو ہاتھوں سے نکلی جا رہی تھی۔ پیٹ کے پا س ا س کی سفید چادر لہو سے داغدار ہو رہی تھی۔
ثوبان نے گھبرا کر نرس کو بلانے والی گھنٹی پر ہاتھ رکھا اور اسے دباتا ہی چلا گیا۔
چند منٹوں میں ہی دو تین نرسیں آئی اور صورت حال دیکھ کر گھبرا گئیں۔ دو نرسیں مل کر صائمہ کو سنھبالنے لگیں اور تیسری نرس باہر کی طرف لپکی۔ دس منٹ میں ڈاکٹر بھی پہنچ گئی اور انہوں نے نرس سے کہہ کر انجکشن لگوا دیا، صائمہ آہستہ آہستہ غنودگی میں جا رہی تھی۔
ڈاکٹر نے نرسوں سے کہا کہ اسے آئی سی یو میں منتقل کر دیں۔
”کیا کہہ دیا ہے آپ نے اسے ثوبان صاحب؟“ ڈاکٹر کے انداز میں غصہ تھا۔ ثوبان جواب میں خاموش ہی رہا… اس کے پاس کہنے کے لیے تھا ہی کیا۔
”مجھے تو آپ کوئی نفسیاتی مریض لگتے ہیں، صبح سے میں دیکھ رہی ہوں کہ آپ کا رویہ ایک نارمل انسان کا رویہ ہرگز نہیں ہے۔ آپ کی زندگی کی ساتھی کتنی تکلیف میں ہے۔
اسے ایسی حالت میں آپ کی دلجوئی کی ضرورت ہے، الٹا آپ اسے ذہنی اذیت دے رہے ہیں۔ میں نے تو آج ایسا بے پروا باپ ہی نہیں دیکھا جسے میں ایک بیٹی کے ساڑھے آٹھ سال کے بعد بیٹے کی ولادت کی خبر دوں اور وہ بجائے خوش ہونے کے پاگلوں کی طرح اسپتال کے کاریڈور سے بھاگ جائے۔“ ضبط کی کوشش میں ثوبان کاچہرہ اور آنکھیں لال ہو رہی تھیں۔
###
”میں اپنے بھائی کا نام شان رکھوں گی۔
میرا بھائی بڑا ہو کر سپرمین بنے گا۔“ رومی کی آواز سے صائمہ کی آنکھ کھلی، منظر دھندلا سا تھا۔ وہ جانے کہاں تھی، دیکھنے کی کوشش کی۔ دیوار گیر کلاک گیارہ بجے کا وقت بتا رہا تھا اور کھڑکی سے آنے والی رروشنی ایک نئے دن کی خبر… اسے یاد آگیا کہ وہ اسپتال میں تھی۔ اس نے آنکھیں گھما کر دیکھنے کی کوشش کی کہ رومی کس طرف تھی۔
تبھی ایک کرسی پر ساس بیٹھی نظر آئیں، ساتھ ہی فکر مندسا کھڑا ہوا ثوبان اورا س کے نزدیک کھڑی ڈاکٹر جوا صل حقیقت جان کر بہت شرمندہ ہوئی۔
ا س سے قبل وہ گزشتہ روز صائمہ کو بتا چکی تھی کہ اس کے شوہر کا رویہ بہت عجیب سا تھا۔ اسی وجہ سے صائمہ کا رویہ کل ثوبان سے طنزیہ تھا۔ صائمہ کو سب کچھ یاد آنے لگا۔
”رومی کہاں ہے؟“ ا س نے سوال کیا۔
”تم آرام کرو بیٹا!“ اس کی ساس اٹھ کر اس کے پاس آئیں۔
”مجھے ابھی رومی کی آواز آئی ہے۔“ وہ رونے لگی۔ ”کہاں ہے میری گڑیا؟“
”اللہ کرم کرے گا، آپ کی بیٹی مل جائے گی۔
“ ڈاکٹر نے اسے تسلی دی۔ ”آپ ریلیکس رہیں، دیکھیں آپ کی طبیعت پھر خراب ہو جائے گی۔ رات بھر سے آپ کی امی اور آپ کے شوہر یہیں پر ہیں اسی طرح…“
”تم یہاں کھڑے ہو رات بھر سے…؟“ وہ چیخی۔ ” تو پھر رومی کو کون ڈھونڈ رہا ہے؟“ وہ پھر آنسوؤں اور ہچکیوں سے رنے لگی۔ ”یا اللہ میری بیٹی کی حفاظت کرنا!“ ثوبان اپنے بازو سے آنکھیں ملتا ہوا باہر نکل گیا۔
”بیٹا! ثوبان بہت پریشان ہے، اوپر سے تمہارا رویہ اس کے ساتھ انتہائی نامناسب ہے۔“ اس کی ساس نے اسے سمجھایا۔ ”کل سے بھاگ دوڑ کر رہا ہے، نہ اسے اپنے آرام کی پروا ہے نہ غذا کی۔“
”وہ صرف میری ہی نہیں، اس کی بھی بیٹی ہے۔ آپ چاہتی ہیں کہ ہماری بیٹی ملے نہ ملے، وہ آرام کر لے اور پیٹ بھر کر کھانا کھا لے؟“ صائمہ پاگلوں کی طرح بول رہی تھی۔
”آپ اس کی دادی ہیں، ویسے تو آپ کو اس سے بہت پیار ہے اور اس وقت آپ کیسی بے فکری سے بیٹھی ہیں۔“
”سب کو فکر ہے بیٹا!“ وہ نرمی اور آہستگی سے بولیں۔
”کسی کو فکر نہیں۔“ وہ دہاڑی۔ ”باپ پارٹیاں کرتا پھر رہا ہے اور دادی کیسی بے فکری سے بیٹھی ہے۔ یہ سب آپ کی غلطی ہے، آپ کی کوتاہی ہے۔ میں تو یہاں آ گئی تھی مرنے کے لیے، آپ کو ذمے داری سونپ کر آئی تھی کہ میری بیٹی کو وقت پر اسکول سے منگوا لیں۔ آپ کو بار بار تاکید کی تھی میں نے۔ میں آپ سے اپنی بیٹی وصول کروں گی۔ سن لیا آپ نے اور اگر میری بیٹی کو کچھ ہوا تو میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔“

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider