Episode 16 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 16 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

اس کا جسم تپ کر پھنکنے لگا تھا اور کمزوری غالب آ گئی تھی مگر وہ زندہ تھی اور جب تک زندہ تھی اسے آس تھی کہ کسی بھی وقت کوئی رحمت کا فرشتہ آئے گا اور اسے اس عجیب و غریب قید سے رہائی مل جائے گی۔
اس کے ہاتھ زمین پر گردش کرتے کرتے ایک نوٹ پر بک پر جا پڑے، ا س نے پنسل کی تلاش میں پھر ہاتھ گھمایا اور جلد ہی اس کے ہاتھ دو پنسلیں لگ گئیں۔ اس نے دونوں چیزوں پر اپنی گرفت مضبوط کی اور انہیں گھسیٹ کر اپنے پہلو کے قریب کر لیا۔
جسم کو حرکت دینے کی کوشش میں درد کی ایک لہر پورے وجود میں دوڑ گئی۔ اس کا لباس پانی اور پسینے سے بھیگا ہوا تھا۔ اسے لگا کہ وہ کبھی کروٹ نہیں بدل سکتی تاہم اس نے اپنی کوشش جاری رکھی اور بالآخر بائیں کروٹ پر ہو گئی، اس کے نتیجے میں درد کی شدت سے اس کا دل ڈوب رہا تھا اور آنکھوں سے آنسو تواتر سے بہہ رہے تھے۔

(جاری ہے)

”آہ…!“ اس کی ہلکی ہلکی آوازیں کہیں اس کے سینے کی گہرائی سے نکل رہی تھیں کیونکہ اس کے منہ سے کوئی آواز نہیں نکل رہ تھی۔

جانے اس حال میں اسے کتنی صدیاں بیت گئی تھیں۔ اس نے پنسل کو دائیں مٹھی میں تھاما اور بہ مشکل اسی ہاتھ سے نوٹ بک کو کھولا۔ اسے واضح طور پر صفحات بھی نظر نہیں آ رہے تھے پھر بھی اس نے انگریزی میں لکھنا شروع کر دیا۔
”مجھے اپنی مما سے بہت پیار ہے۔“
”مما آپ کہاں ہیں؟“
”کیا پاپا مجھے یاد کر رہے ہیں؟“
”مجھے بچا لیں، مما، پاپا…“ اور پھر ناطاقتی کے باعث پنسل نے مزید چلنے سے انکار کر دیا وہ اسی طرح ایک بار پھر غنودگی میں چلی گئی۔
###
”ثوبان!“ صائمہ نے ثوبان کے آگے ہاتھ باندھے۔ ”کہیں سے بھی میری بیٹی مجھے لا دو ابھی، اسی وقت۔“
”میں سارے دن سے کوشش کر رہا ہوں۔“ ثوبان نے اس کا سر اپنے پہلو سے لگا رکھا تھا اور اپنی انگلیاں اس کے بالوں میں پھیر رہا تھا۔ ”کیا تمہیں شک ہے کہ میں بے پروائی کروں گا؟“ اس کے لہجے میں غم کی جھلک تھی۔ نومولود پنی نانی کی گود میں بلک رہا تھا مگر صائمہ نے اسے گود میں لینے سے انکار کر دیا تھا۔
رو رو کر اس کی حالت خراب ہو رہی تھی۔ نہ اسے ڈاکٹر کے کہے کی پروا تھی نہ ماں کی منتوں اور ترلوں کی۔
”میں کیا کروں ثوبان…؟“ وہ بلکی۔ ”میرا تو کلیجا کٹ رہا ہے، میری پھول جیسی بچی…!‘
”میں ہر طریقے سے کوشش کر رہا ہوں۔ بس میں اس کے اسکول کے چوکیداروں کے بارے میں چیک کروانے کی کوشش کر رہا ہوں…“ ثوبان نے اسے بتایا تو وہ چونکی۔
”اس کے اسکول کا ایک چوکیدار خمیسو… تو حادثے کا شکار ہو کر ہلاک ہو گیا ہے، کل ہی خبروں میں دیکھ رہی تھی۔“ اس نے ثوبان کی معلومات میں اضافہ کیا۔
”کہاں ہوا حادثہ…؟ یہاں کراچی میں؟“
ثوبان نے بے تابی سے پوچھا۔
”نہیں… حیدرآباد سے بھی کہیں آگے…“ اور پھر حادثے کی جتنی تفصیل کا اسے علم تھا، وہ ثوبان کو بتانے لگی اور کچھ لاشیں اس میں بے شناخت بھی تھیں۔
”اوہ نو…!“ ثوبان نے مایوس لہجے میں کہا۔
”کہیں دوسرا چوکیدار بھی… کیا نام ہے اس کا؟“
”شعبان…“ صائمہ جلدی سے بولی۔
”اوہو!“ اگر وہ دونوں اکٹھے ہوئے تو ہمارے لیے تفتیش کے ابتدائی راستے ہی بند ہو جائیں گے۔“
”تم نے پولیس میں رپورٹ کروائی ہے؟“ صائمہ نے سوال کیا۔
”ابھی نہیں ۔“
”تو پھر کب کرواؤ گے؟“ صائمہ پھر غصے میں آ گئی۔
”میں سوچ رہا تھا کہ پولیس کو رپورٹ کروانے پر کہیں اغوا کنندگان غصے میں آ کر ہماری رومی کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔“وہ صائمہ کے کندھے دبا رہا تھا۔ ”تم بتاؤ کیا میں رپورٹ کروا دوں؟“
”ہاں…! تم بھی ٹھیک کہتے ہو…“ وہ پُرسوچ انداز میں بولی۔ ”میرے ماموں کا ایک داماد پولیس میں ہے، میں تمہیں اس کا نمبر دیتی ہوں، اس سے رابطہ کر کے مل لو…“
###
ڈی ایس پی منور، صائمہ کی کزن کا شوہرتھا، نوجوان اور بااخلاق، ثوبان پہلے بھی اسے مل چکا تھا لیکن پریشانی میں اس کے ذہن میں اس کا خیال ہی نہیں آیا تھا۔
منور نے سارے حالات تفصیل سے سنے اور سب سے پہلے بس کے حادثے کی تفصیلات منگوائیں۔
خمیسو کی موت کی اطلاع مصدقہ تھی۔ البتہ بے شناخت لاشوں میں زیادہ تر عورتوں اور بچوں کی لاشیں تھیں۔ ایک اندیشے کے تحت یہ بھی چیک کر لیا گیا تھا کہ بچوں کی لاشوں یا زخمیوں میں رومی تو نہ تھی۔ اس اندیشے کی منفی تصدیق سے ثوبان کے سینے سے سکون کی ایک سانس خارج ہوئی۔
اب مشکوک افراد یا پھر تفتیش کی گاڑی کو آگے بڑھانے کی فہرست میں شعبان کا نام سب سے اوپر تھا۔
”حادثہ تقریباً ساڑھے چار بجے پیش آیا تھا…“ منور نے سرسری سا فقرہ کہا مگر ثوبان اس فقرے سے چونک اٹھا۔ اس نے منور کو بتایا کہ وائس پرنسپل کے مطابق چار بجے خمیسو اسکول میں تھا۔
”تو کیا وہ اڑ کر آدھے گھنٹے میں حیدرآباد سے بھی آگے پہنچ گیا…؟“ ثوبان بولا۔
”حادثہ بس کا ہی ہوا ہے ناں،جہاز کا تو نہیں۔ لاکھ ڈائیور راکٹ کی اسپیڈ سے بس چلاتے ہوں مگر پھر بھی آدھے گھنٹے میں اتنا فاصلہ طے کر لینا ممکن نہیں ہے۔“
”بالکل درست کہہ رہے ہیں آپ۔“ منور نے ثوبان کی تائید کی۔
”تو پھر آپ کیا سمجھتے ہیں؟“ثوبان نے جلدی سے سوال کیا۔
”میرے خیال میں دو صورتیں ہیں؟“ منور نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”کیا؟“ ثوبان نے پھر پوچھا۔
”ایک تو یہ ہو سکتا کہ کسی نے خمیسو کا بٹوا مار لیا ہو اور وہ حادثے میں خود چل بسا ہو اور خمیسو کے بٹوے سے شناختی کارڈ کی مدد سے اسے بطور خمیسو کی شناخت کیا گیا ہو؟“ منور نے کہا۔
”نہیں، یہ ممکن نہیں ہے…“ ثوبان نے تردید کی۔ ”صائمہ نے مجھے بتایا تھا کہ ٹی وی پر حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے چہرے دکھائے گئے ہیں جس سے صائمہ نے اسے شناخت کیا تھا۔
”تو پھر دوسری صورت زیادہ ممکن ہے…“ منور نے کہا ”کہ خمیسو اسکول سے دو ڈھائی بجے کے قریب روانہ ہو گیا ہو…“
”مگر وائس پرنسپل نے مجھے خودبتایا تھا کہ خمیسو چار بجے اسکول سے گیا…“ ثوبان نے بے یقینی سے کہا۔
”آپ کو وائس پرنسپل کے گھر کا پتا معلوم ہے کیا؟“ منور نے سوال کیا۔
”ہاں، ہاں…“
”تو پھر چلتے ہیں…“ منور اٹھ کھڑا ہوا۔
”کس لیے؟“ ثوبان کچھ نہیں سمجھا تھا۔
”یہ چیک کرنے کے لیے وائس پرنسپل نے آپ سے جھوٹ کیوں بولا ہے۔“ منور نے کہا۔
###
ایک دفعہ پھر تاریکی کی چادر آہستگی سے پھیل رہی تھی۔ اسے ہوش ہی نہیں آیا تھا، شام تک وہ غنودگی میں ہی رہی تھی۔ بے ہوشی بھی اللہ کی نعمت کی طرح ہی تھی جس نے دن بھر اسے اپنی آغوش میں رکھا تھا، مہربان ماں کی طرح… نہ کوئی دوا، نہ غذا، نہ دارو نہ علاج مگر وہ ابھی تک زندہ تھی لیکن فرشتہٴ اجل سے آہستگی جیسے اس کی طرف بڑھ رہاتھا۔
اندھیرا بڑھنا شروع ہو رہا تھا، اس نے مندی مندی آنکھوں سے اندھیرا محسوس کیا اور بے بسی بھی۔ اس کے دماغ سے سارے احساسات ختم ہو گئے تھے، خوف کا، تنہائی کا، گرمی کا… صرف ایک احساس حاوی تھا، درد کا اور وہی ایک احساس اس وقت کائنات کی وسعتوں میں پھیلا ہوا تھا۔ رات سے وابستہ سب خوفناک آوازیں، مینڈکوں، جھینگروں اور ٹڈیوں کی… ا س مختصر سے کمرے میں قیامت کا سا حشر بپا کیے ہوئے تھیں۔
”کیا میں مر رہی ہوں؟“ ا س نے سوچا۔
”نہیں، میں کیسے مر سکتی ہوں۔“اس نے خود ہی اپنے خیال کی نفی کی۔ ”ابھی تو میں بہت چھوٹی ہوں، ابھی تو مجھے بڑا ہونا ہے،بہت پڑھنا ہے، پائلٹ بننا ہے، جہاز اڑانا ہے…“ وہ سوچ رہی تھی اور اس کا جسم ہولے ہولے جھٹکے لینے لگا۔ جھٹکوں کی رفتار بڑھنے لگی۔ یوں جیسے اسے دورہ پڑ رہا ہوں۔ لمحوں میں اس کی ٹانگیں بھی جھٹکے لینے لگیں اور فرش سے ٹکرانے لگیں، اس سے ایک اور خوفناک آواز پیدا ہو کر موجود آوازوں میں اضافہ کرنے لگی لیکن اسے کیا فرق پڑتا تھا، وہ تو سب آوازوں سے بے خبر تھی، اس کے حواس مختل ہو چکے تھے۔
###
میڈم عنبرین نے دروازہ کھولا تو ثوبان کے ساتھ آنے والے شخص کو دیکھ کر سوالیہ نظروں سے ثوبان کی طرف دیکھا اور کہا۔ ”کہیے ثوبان صاحب! کیسے آنا ہوا اور یہ کون ہیں؟“
”ہمیں آپ سے کچھ معلومات حاصل کرنا ہیں اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو؟“ منور کے بولنے سے ہی میڈم عنبرین کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کا مخاطب کوئی پولیس والا ہی ہے۔
”کس قسم کی معلومات؟“ حیرت کا اظہار کیا گیا۔
”کیا ہم یہیں کھڑے کھڑے بات کریں؟“ منور نے دوبارہ سوال کیا۔
”اوہ، سوری!“ انہوں نے ہٹ کر راستہ دیا۔ ”آئیں! اندر آئیے پلیز۔“ وہ دونوں دروازے سے اندر داخل ہوئے اور میڈم عنبرین دروازہ بند کر کے ان کی رہنمائی کرتی ہوئی انہیں ڈرائنگ روم میں لے کر آ گئیں۔ انہوں نے نشستیں سنبھالیں۔
”آپ کیا پئیں گے، چائے یا ٹھنڈا؟“ کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔“
”فرمائیں، کیا معلومات حاصل کرنی ہیں؟“ عنبرین نے سوال کیا۔
”آپ کتنے بجے اسکول سے آئی تھیں کل؟“ منور نے سوال کیا۔
”میں تقریباً چار بجے اسکول سے نکلی تھی۔“ مختصر سا جواب تھا۔
”جب آپ اسکول سے نکلیں تو کیا سب بچے جا چکے تھے اور دونوں چوکیدار…؟“ منور نے اگلا سوال کیا۔
”بچے توسب جا چکے تھے، گیٹ پر شعبان موود تھا اور اس نے بتایا کہ خمیسو اسکول کے عقبی حصے میں واقع اپنے کوارٹر میں موجود تھا بلکہ میں نے خمیسو کی تنخواہ کا لفافہ بھی شعبان کو ہی دیا تھا۔“ اس نے وضاحت کی۔
”تو گویا آپ یہ بات وثوق سے نہیں کہہ سکتیں کہ خمیسو اس وقت اسکول میں تھا؟“ منور نے کہا۔ ”بلکہ آپ کہہ ہی نہیں سکتیں کہ وہ اس وقت اسکول میں تھا، حقیقت بھی یہی ہے۔
”میرے پاس شعبان کی بات کو جھٹلانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔“میڈم عنبرین نے کہا۔ ”وہ مجھ سے جھوٹ کیوں بولے گا؟ ممکن ہے کہ خمیسو اپنے کوارٹر میں ہی ہو۔ ظاہر ہے کہ میں اس کے کوارٹر میں جا کر تصدیق تو نہیں کر سکتی تھی۔“
”شعبان نے آپ سے جھوٹ بولا ہے میڈم۔“ منور نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا۔ ”خمیسو اس وقت اسکول میں نہیں تھا، وہ زیادہ سے زیادہ دن کے ڈھائی بجے تک اسکول سے نکل چکا تھا۔
”آپ یہ بات اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہیں؟“
” آپ کے اسکول سے نکلنے کے فقط آدھے گھنٹے کے بعد خمیسو حیدرآباد سے کچھ میل آگے ایک بس کے حادثے میں چل بسا ہے۔“ منور نے وضاحت کی تو میڈم عنبرین کے چہرے کا رنگ فتق ہو گیا اور وہ سٹپٹا کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider