Episode 17 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 17 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

بے خبر اور دنیا و مافیہا سے انجان وہ مڑی تڑی پڑی تھی۔ اس کا جسم جس حالت میں تھا، عام حالات میں کسی کا جسم اس پوزیشن میں موڑا توڑا نہیں جا سکتا۔ یوں لگ رہا تھا کہ ٹانگوں کو کولہوں کے جوڑوں سے کاٹ کر دور دور کر دیا گیا ہو۔ 
کمرے میں روشنی پھیل چکی تھی۔ اس نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی جس میں اسے کئی منٹ لگے۔ اسے صرف دھندلاہٹ اور روشنی نظر آ رہی تھی۔
ا س نے کندھے کے جوڑ کی دکھن کے باوجود اپنا ہاتھ اپنے چہرے کی طرف کرنے کی کوشش کی۔ درد کا احساس جسم سے ختم ہو چکا تھا۔ ا س نے اپنی آنکھیں ملیں جو جڑ سی گئی تھیں، کمزور سے ہاتھوں سے وہ آنکھوں کو مل کر کھولنے لگی۔ اپنی آنکھ کے پاس اپنا ہاتھ خود ہی اجنبی لگا۔ وہ بغیر کسی کیفیت کے اس ہاتھ کو دیکھ رہی تھی، اس میں یہ بھی سکت نہ تھی کہ وہ حیران ہوتی، صرف دیکھتی رہ گئی۔

(جاری ہے)

اس کا جھریوں سے بھرا ہاتھ اسے اپنا نہیں بلکہ اپنی دادی اماں کا ہاتھ لگ رہا تھا۔
###
”ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟“ میڈم عنبرین نے حیرت سے کہا۔ ”خمیسو اور شعبان دونوں ہی ہمارے انتہائی قابل اعتماد ملازم ہیں اور پچھلے کئی برسوں سے انہوں نے ہمیں کسی معمولی ڈانٹ ڈپٹ کا بھی موقع نہیں دیا۔وہ دونوں انتہائی شریف اور محنتی ہیں۔“
”ایسے کام کرنے سے پہلے اعتماد قائم کرنا بہت ضروری ہوتا ہے میڈم اور انہوں نے بھی بڑی ہوشیاری سے آپ کو شیشے میں اتار لیا ہو گا۔
“ منور نے کہا۔ ثوبان خاموشی سے دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔
”لیکن یہ بات تو آپ ایک اندازے کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں۔“میڈم عنبرین نے کہا۔
”میڈم تفتیش کا دائرہ مفروضوں ہی کی بنیاد پر بنتا ہے اور ہر اگلا قدم اندازے پر ہی رکھا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ملزمان یا مجرم خود تو اعتراف کرنے سے رہے۔ کڑی سے کڑی ملتی جاتی ہے اور ہمارے لیے آگے بڑھنے کا سامان بنتا جاتا ہے…“ منور نے وضاحت کی۔
”ممکن ہے کہ رومانہ کو ان دونوں میں سے کسی نے اغوا کیا ہو۔“ میڈم عنبرین نے کہا۔
”میرا اپنا خیال ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی اتنا چالاک نہیں…“
”کس دریا میں کتنا پانی ہے، یہ دریا میں اتر کر ہی دیکھا جاتا ہے۔“ منور نے کہا۔ ”اور رہی بات چالاکی کی تو ہمارے ہاں میڈیا نے سات سات سال کی عمر کے بچوں کو بالغ کر دیا ہے… اغواء، چوریاں، قتل، ڈکیتیاں… یہ سب کچھ دکھایا جا رہا ہے اور یوں بھی دولت کی ہوس نے انسانوں سے بہت کچھ کروایا ہے۔
لوگ اپنی اولادوں کو بیچنے پر تیار ہو جاتے ہیں، رومانہ تو پھر کسی اور کی اولاد ہے۔“
”اب ہم آگے کیا کریں؟“ ثوبان کے ماتھے سے پسینہ پھوٹ نکلا۔
”فی الحال تو ہم میڈم سے دوسرے چوکدار شعبان کا پتا لے کر کوئی پولیس پارٹی روانہ کرتے ہیں اور اس کے علاوہ آپ اپنی بیٹی کی گمشدگی کی باقاعدہ رپورٹ لکھوائیں تو ہم اپنی کارروائی شروع کریں۔
اس میں ہمیں اسکول کے بچوں کے علاوہ اساتذہ کو بھی شامل تفتیش کرنا پڑے گا اور تلاشی کے وارنٹ لے کر ہمیں اسکول کی عمارت کی تلاشی بھی لینا ہو گی۔“
”اس میں تو اسکول کی بہت بدنامی ہو گی۔“ عنبرین نے سنسناتی ہوئی آواز میں کہا۔ ”میڈیا تو ہر طرف ایسی خبریں سونگھتا پھرتا ہے۔“
”دیکھیں میڈم…“ منور نے ذرا غصے سے کہا۔ ”سب سے اہم چیز ہمارے لیے رومانہ ہے۔
اس کے لیے کسی کا کیا داؤ پر لگتا ہے۔ اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے اور نیک نامی کسی بچی کی زندگی اور عزت سے زیادہ اہم نہیں ہوتی۔“
”پھر بھی جناب مجھے اپنی پرنسپل سے بات کرنی ہو گی اور رپورٹ لکھوانے سے پہلے ہم سے مشورہ ضرور کر لیں ۔ ممکن ہے کہ ہم اسکول کی طرف سے ہی رپورٹ لکھوا دیں۔“میڈم عنبرین نے آہستگی سے کہا۔
”جہنم میں جائے اسکول اور اسکول کی پرنسپل بھی…“ ثوبان غصے میں اٹھ کھڑا ہوا۔
”آپ لوگ کون ہیں یہ فیصلہ کرنے والے کہ رپورٹ کیسے اور کس کی طرف سے لکھوائی جائے۔ آپ کو کیا درد محسوس ہو سکتا ہے کسی کا یا کسی کی اولاد کا۔ آپ کا سکول رہے، اس کی نیک نامی رہے اور آپ کو پیسہ ملتا رہے۔“ منور نے ثوبان کو پکڑا اور اسے غصہ قابو کرنے کو کہا۔ ثوبان کے ماتھے پر ایک رگ غصے سے پھڑک رہی تھی۔ اس نے بیٹھ کر اپنا سر دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا۔
”دیکھیں ثوبان صاحب…!“ میڈم عنبرین نے نرمی سے کہا۔ ”چونکہ کسی ذاتی مجبوری کی وجہ سے پرنسپل صاحبہ آج اسکول نہیں آئی تھیں۔ اس لیے اس معاملے میں مجھے ان سے مشورہ حاصل کرنا ہے۔ر ہی بات رومانہ کی تووہ ہمارے لیے بیٹی کی طرح ہے۔“
”مجھے پتہ دیں اپنی پرنسپل کا…!“ ثوبان پھر بلند آواز سے بولا۔ ”میں ان کے پاس جا کر پوچھوں… مجھے تو اب ان پر بھی شک ہونے لگا ہے،وہ کیوں گھر بیٹھی ہوئی تھیں، ہو سکتا ہے کہ وہی اس معاملے میں ملوث ہوں۔
چوکیداروں کے ساتھ مل کر انہوں نے میری بیٹی کو…“ اس کی آواز بھرا گئی، وہ رک گیا۔
”آپ یوں ہی بدگمان ہو رہے ہیں ثوبان صاحب۔“ میڈم عنبرین نے ثوبان کے غصے میں آنے کے باوجود اپنے غصے پر قابو رکھا تھا حالانکہ وہ بہت سخت گیر مشہور تھی اور پرنسپل سے زیادہ بچوں اور اساتذہ کو میڈم عنبرین کا ڈر تھا۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ بیٹی کی گمشدگی نے ثوبان کے اعصاب پر اثر کیا تھا جو کہ بالکل فطری اور عین متوقع تھا۔
”میڈم بھلا کیوں ا یسا کر سکتی ہیں؟“
”انہی نے کیا ہو گا ایسا…“ وہ پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ ”کیونکہ میں نے ان کی بیٹی کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔“ اس کے الفاظ تھے یا بم… یوں پھٹے کے منور اور عنبرین دونوں جھٹکے سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ”میں ابھی جا رہا ہوں، ان کے خلاف رپورٹ لکھوانے، میں صبح کا انتظار بھی نہیں کر سکتا۔“
###
صائمہ ہر بار ہوش میں آنے پر ہذیانی انداز میں چیخنے اور چلانے لگتی۔
نومولود کو بار بار جھٹکے سے پرے دھکیل دیتی۔ اسے اس نے دودھ پلانے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ دو تین نرسیں مل کر اسے قابو کرتیں اورا یک نرس اسے انجکشن لگا کر پھر بے ہوش کر دیتی تھی۔ بچہ بھوک سے بلک بلک کر نڈھال ہوتا رہتا مگر اس کی فکر کوئی کیا کرتا، فی الحال تو صائمہ کی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔
ہوش میں آتے ہی وہ اس سارے معاملے میں ثوبان اور اس سے بڑھ کر اپنی ساس کو مورد الزام ٹھہراتی، چیختی اور ہذیان بکتی لیکن وہ خاموش رہتیں۔
تکلیف تو انہیں بھی رومی کی گمشدگی کی تھی اور بہو کے چلانے پر غصہ بھی آتا تھا مگر وہ کمال برداشت سے کام لے رہی تھیں۔ انہیں بہو کی حالت اور کیفیت کا بخوبی اندازہ تھا۔ سمجھدار اور معاملہ فہم تھیں، انہیں بہو کے سامنے اس مشکل صورت حال میں برداشت اور صبر سے کام لینا تھا۔ صائمہ ایسی نہیں تھی جیسا وہ کر رہی تھی ۔ صائمہ بہت پیاری، سلیقہ شعار اور فرمانبردار لڑکی تھی۔
اس کی انہی خوبیوں سے متاثر ہو کر وہ اسے بیاہ کر لائی تھیں۔ وہ اپنا گھر شوہر، اور بیٹی ہر ذمے داری سے بڑے احسن طریقے سے عہدہ برا ہوتی تھی۔ کبھی اونچی آواز میں نہ شوہر سے بات کرتی تھی نہ ساس کے سامنے اور تو اور وہ کبھی ملازمین سے بھی غصے سے بات نہیں کرتی تھی۔ نرمی اور متانت اس کی شخصیت کے وہ اوصاف تھے جو اس کی شخصیت کو چار چاند لگا دیتے تھے۔
صائمہ، رومی کی پرنسپل کی رشتے کی بھانجی تھی اور اس کی شادی ثوبان سے ہونا چونکہ اوپر والے نے طے کی تھی۔ اس لیے ایسے اسباب پیدا ہو گئے کہ جب وہ کسی رشتے والی کے توسط سے ان کے ہاں رشتہ دیکھنے گئے تو سوئے اتفاق سے صائمہ بھی وہیں تھی ثوبان اس کی امی اور دونوں بہنوں کی نظر انتخاب جو ٹھہری تو صائمہ پر… پرنسپل صاحبہ سے معذرت کر کے ان سے صائمہ کی بابت بات کی گئی۔
انہیں بھی اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ صائمہ ان کی بیٹی جیسی ہی تھی۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے صائمہ اور ثوبان کا رشتہ کروایا تھا۔
ان کی اپنی بیٹی بھی اس وقت چار بچوں کی ماں تھی اور اپنے گھر میں خوش و خرم زندگی گزار رہی تھی۔ اس کے چوتھے بچے کی ولادت کے باعث ہی پرنسپل صاحب اس روز اسکول نہیں آ سکی تھیں اور اسی وجہ سے ثوبان کے ذہن میں وہ خطرناک سوچ آئی تھی۔
اس کا ذہن اس وقت انتہا کا بدگمان تھا۔ اسکول میں کسی کو بھی یہ علم نہیں تھا کہ رومانہ کی ماں پرنسپل صاحبہ کی رشتے دار ہیں کیونکہ اسکول میں کسی بھی بچے سے امتیازی سلوک روا رکھا جائے تو دوسرے بچوں اور ان کے والدین کو خوامخواہ باتیں کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہی رویہ ثوبان کو شک میں ڈال گیا تھا۔
رومی کا داخلہ کروا کے گھر جا کر خصوصی طور پر صائمہ نے ٹیلیفون کر کے پرنسپل صاحبہ سے کہا تھا کہ ان کے رشتے اور تعلق کا علم اسکول میں کسی کو نہ ہو اور خصوصاً رومی کی اساتذہ کو تاکہ پرنسپل کی رشتے دار ہونے کی وجہ سے اگر اس سے برتاؤ مختلف ہوا تو نہ صرف وہ دوسرے بچوں کو اچھا نہیں لگے گا بلکہ رومی کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہونے کا بھی اندیشہ تھا۔
اسی لیے رومی بھی پرنسپل صاحبہ کو دوسرے تمام بچوں کی طرح میڈم ہی کہتی تھی۔ اس کے علاوہ اسے کسی اور رشتے کا علم بھی نہیں تھا۔ شادی کے بعد صائمہ کا ان سے رابطہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ کچھ ثوبان کو بھی ان کے ہاں جانے سے جھجک ہوتی تھی کہ جانے وہ کیا سوچیں۔
###
جھریوں سے بھرے مرجھائے ہوئے پھولوں کی طرح بے رنگ ہوتے ہوئے ہاتھوں سے اس نے بہت کوشش کر کے پنسل پکڑی۔
اس کا جسم مڑ تڑ کر کمان کی حالت میں پڑا تھا… خوش قسمتی سے نوٹ بک سامنے ہی پڑی تھی۔ اس نے اپنے ہاتھوں کو پوری ہمت سے کاپی تک پہنچایا اور لکھنے لگی۔
”شان! میرے بھائی…!“
”سپرمین! تم کہاں ہو؟“
”مجھے بہت درد ہے…“
”میرا خیال ہے کہ میں مر جاؤں گی؟“
”کیا تم مجھے بچانے آ رہے ہو…؟“
”کیا مجھے تمہارا انتظار کرنا چاہیے یا پھر میں تمہارے پاس آ جاؤں؟“
”مگر تم ہو کہاں؟“
”مما! پاپا… مجھے بہت درد ہے، بہت بھوک لگی ہے…“
”مجھے بچا لیں ورنہ میں مر جاؤں گی…“
”مجھے پیاس لگی ہے اور پانی کہاں ہے؟“
”میں کھڑی نہیں ہو سکتی!“
”میں تو بیٹھ بھی نہیں سکتی…“
”میں جس حالت میں ہوں اس حالت میں حرکت بھی نہیں کر سکتی…“
”شاید میں مر چکی ہوں…“
”جنت تو ایسی ہو نہیں سکتی۔
”مگر مما! آپ تو کہتی تھیں کہ چھوٹے بچے جنت میں جاتے ہیں۔“
”تو پھر میں کیوں جہنم میں ہوں…“
اتنی دیر تک لکھتے رہنے سے اس کے کندھے شل ہو گئے تھے۔ رومی کو اسکول میں کئی دفعہ چھوٹی چھوٹی انگریزی نظمیں لکھنے پر انعامات مل چکے تھے۔ اس کے الفاظ کا چناؤ بسا اوقات اس کے اساتذہ کو بھی حیران کر دیتا تھا اپنی عمر کی بچیوں کی نسبت وہ بہت سمجھدار تھی۔ ذہانت اسے ماں اور باپ دونوں سے وراثت میں ملی تھی۔ اس کی دادی اسے اپنی آنکھوں کا تارا کہتی تھیں۔ اسے یکلخت خیال آیا۔
”دادو! دادو…!“ اس نے جیسے انہیں پکارا تھا، بے آواز پکار… ”کیا دادو کو بھی میرا خیال نہیں آیا، اپنی آنکھ کے تارے کا؟“ اس نے سوچا اور پھر اس کا جسم زور زور سے جھٹکے لینے لگا۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider