Episode 19 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 19 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

شعبان گھر پر نہیں پہنچا تھا اس کی تلاش میں جگہ جگہ چھاپے مارے جا رہے تھے اس کے باپ اور بھائیوں کو پولیس نے اپنے طریقہ کار کے مطابق دوران تفتیش نڈھال کر دیا تھا۔ معاملہ ٹیلی وژن اور اخبارات میں بھی پہلے دن صفحہ اول پر اور ہوتے ہوتے آخری صفحے کی مختصر ترین خبر بنتا جا رہا تھا۔
صائمہ غم اور صدمے سے نڈھال اور شان سے بے نیاز تھی اس کی دعائیں، نالے، فریادیں اور کوششیں سب در قبولیت سے لوٹ کر آ گئے تھے۔
امید کی لو دھند لاتی جا رہی تھی۔ ہر ٹیلی فون کال پر بھاگ کر فون اٹھایا جاتا کہ شاید اغوا کنندگان کی کال ہو۔ گھر میں ثوبان اور اس کی ماں، صائمہ سے نظریں چراتے اور صائمہ نے تو ایک ایسی چپ ہونٹوں پر سجالی تھی جس کی تہہ میں سمندر جیسا تلاطم تھا۔
اسکول کی تلاشی لی گئی تھی سب کلام روم اور بچوں کے استعمال کے باتھ روم، اسٹاف روم، سرونٹ کوارٹرز اور توا ور پانی کی ٹنکی اور اسکول کے اندر باہر کے گٹر اور چوڑی سیوریج لائنیں بھی دیکھ لی گئی تھیں۔

(جاری ہے)

پرنسپل صاحبہ تو چونکہ اس روز چھٹی پر تھیں اس لیے ان کا دفتر اس روز بند ہی رہا تھا۔ یہی سوچ کر احتیاطاً اس کو بھی کھلوا کر سرسری سا دیکھ لیا گیا تھا۔ یہ تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آیا تھا کہ خمیسو صرف صفائی اور چیکنگ کے لیے اس روز دفتر کو خوامخواہ کھول سکتا تھا۔ پرنسپل صاحبہ کا دفتر ان کی اجازت کے بغیر نہیں کھولا جا سکتا تھا۔
خمیسو نے اس اصول کی خلاف ورزی کی تھی، جس کی سزا کسی اور کو ملی تھی۔
لیکن خمیسو نے بھی ذرا سا وقت بچانے کا لالچ کیا تھا جو کہ اصل میں اس کا اپنے معینہ وقت اور مقام پر پہنچنے کا سفر تھا۔ اسے اپنی موت کا فرشتہ بلا رہا تھا جو وہ ہر کام عجلت میں کرتا ہوا اداعیٴ اجل کو لبیک کہنے کو بے تاب ہو رہا تھا۔ نہ صرف وہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا بلکہ اسکا بچہ ایک بار پھر جانبر نہیں ہو سکا تھا۔
جس نفس کو بچانے کی خاطر وہ لالچ کر رہا تھا اس نفس سے قبل اس کی اپنی موت لکھی جا چکی تھی۔
###
سارا شبہ شعبان پر ہی تھا اور اس کی تلاش میں کراچی میں جگہ جگہ چھاپے مارے جا رہے چکے تھے۔ کراچی جیسے جنگل نما شہر میں شعبان کو ڈھونڈنا جان جوکھم کا کام تھا۔ نہ اس کے کراچی میں رابطوں کا اندازہ تھا نہ دوستوں کا۔ اسکول کھلنے کا وقت آ گیا تھا۔
گھر والے اپنے سینوں صبر کی سلیں دھرے بیٹھے تھے اور کسی معجزے کے ہی منتظر تھے کہ پرنسپل صاحبہ کی سنساتی ہوئی آواز فون میں سنائی دی۔
”ثوبان بیٹا! صرف آپ مجھے ملنے آ سکتے ہیں؟“ ثوبان سمجھ گیا تھا کہ معاملہ رومی کے متعلق ہی ہو گا، اس لیے اس نے منور کو اطلاع کرنا اور اسے بھی اسکول پہنچنے کا کہنا ضروری سمجھا۔
”کہاں جا رہے ہو؟“ ثوبان یہ سمجھ رہا تھا کہ صائمہ سو رہی ہو گی اسے دیکھ کر چونک اٹھا۔
جواباً خاموش ہی رہا۔ ”میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی۔“ صائمہ کا اندازہ حتمی تھا۔
”مجھے اکیلے جانے دو، اللہ کوئی خیر کی خبر سنائے گا تو تمہیں سب سے پہلے بتاؤں گا۔“
”مجھے خیر کی خبر کوئی امید نہیں رہی… کم از کم اس کی لاش ہی مجھے دیکھ لینے دو!“ وہ سسکی۔
”ایسا کیوں کہہ رہی ہو؟“ ثوبان نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔ ”وہ زندہ ہو گی…!“
”وہ ز ندہ ہوتی تو میرا دل یوں نہ مر جاتا۔
“ صائمہ نے مایوسی سے کہا۔ ”وہ زندہ ہوتی تو میرے وجود کے ایوانوں میں اس کے قہقہے ہوتے۔ بیٹی تو ماں کے وجود کی رونق ہوتی ہے اس کے اندر کھلکھلاتی ہے، اسے مسکرانے پر مجبور کرتی ہے، ماں کے دل کا سکون ہوتی ہے…“ وہ ثوبان سے لپٹ کر رو رہی تھی۔
مجبوراً ثوبان کو ہتھیار ڈالنا پڑے وہ جس حال میں تھی اسی طرح چل پڑی۔
###
زمین اور آسمان کا کلیجہ بھی شق ہو گیا تھا اس مرجھائے ہوئے پھول کو دیکھ کر اس کی بے بسی محسوس کر کے اس کا لکھا ہوا پڑھ کر… وہ رومی کا بستہ نہ ہوتا اس کی کتابیں نہ ہوتیں اس کے ہاتھ کی لکھی نظمیں نہ ہوتیں اس کے آخری پیغامات نہ ہوتے، اپنے بھائی کے انتظار کے قصے نہ ہوتے… تو ماں ہو کر بھی صائمہ اسے کبھی نہ پہچان پاتی۔
درخت سے جو پتا گر جاتا ہے وہ مرجھا کر اپنی رنگت اور تروتازگی کھو کر کب دوسرے پتوں جیسا رہتا ہے۔
صائمہ زمین پر ہی نڈھال بیٹھی تھی اس شکستہ مرجھائے اور اکڑے ہوئے لاشے کو دیکھ کر فریاد کناں تھی۔ اس کا سینہ درد سے پھٹ رہا تھا۔
”کیسے میری بیٹی نے مجھے پکارا ہو گا؟“
”کیسے وہ راتوں کو اندھیروں سے ڈرتی رہی ہو گی؟“
”کیسے اس نے تنہائی اور درد و کرب کا عذاب سہا ہو گا؟“
صائمہ تو ماں تھی اس کے باپ کی حالت بھی دیدنی تھی۔
اس کا ضبط بھی ختم ہو گیا تھا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کسے مجرم ٹھہرائیں اور کسے منصف؟ کس کی غفلت کو اصل سبب ٹھہرائیں۔ گھر والے اسکول والوں کو اور اسکول والے گھر والوں کو مورد الزام ٹھہرا رہے تھے۔ میڈیا بھی کہیں سے معاملے کی بو سونگھ کر پہنچ گیا تھا مگر ثوبان نے انتہائی سختی سے انہیں بیٹی سے دور رہنے کا کہا۔
”خبر دار جو کسی نے ہم میں سے کسی کی تصویر کھینچی یا اخبار میں مجھ سے پوچھے بغیر کوئی خبر لگوائی۔
“ صرف اس کے پاس الفاظ کی گھن گرج نہیں تھی بلکہ پیسے کی طاقت بھی تھی اور وہ ہر خبر کی اشاعت کو رکوا سکتا تھا۔
منور نے خیال ظاہر کیا کہ پوسٹ مارٹم کروا لیا جائے تو موت کے اسباب واضح ہو سکیں گے۔ اس پر صائمہ نے احتجاج کیا اسے اپنی بیٹی کو اس سے بڑھ کر تکلیف کا تصور ہی رلا دیتا تھا۔ اس ننھی سی جان نے کیا کیا کرب نہ سہے تھے، یہ تصور ہی سوہانِ رو ح تھا۔
###
شان کے بعد صائمہ اور ثوبان کے آنگن میں ایک اور کلی مہکی دنیا کا نظام اسی طرح چل رہا ہے، بہاریں، خزائیں آ اور جا رہی ہیں لیکن جو بہار رومی کے دم سے تھی وہ کبھی لوٹ کر آنے والی نہیں اور جو خزاں صائمہ کے وجود میں بسیرا کر چکی ہے اس میں سے کسی نئے پھول کے کھلنے کی خبر بھی مسرت کی نوید نہیں لاتی۔ اسے اپنے آنگن میں کھلنے والا وہ پہلا پھول… رومی، کبھی نہیں بھولے گا۔
وہ پھول جو مرجھا کر اس کے وجود کو ویرانی دے گیا ہے۔ رات کو جب اپنے بستر پر لیٹتی ہے تو اسے معصوم سی آواز آتی ہے۔
”مما! پاپا! مجھے بہت درد ہے! بہت بھوک لگی ہے۔“
”شان میرے بھائی! تم کہاں ہو؟“
”کیا تم مجھے بچانے آ رہے ہو؟“
”مجھے بچا لیں! ورنہ میں مر جاؤں گی۔“
”میں کھڑی نہیں ہو سکتی…“
”مجھے بہت درد ہے…“
”سپرمین تم کہاں ہو؟“
”شاید میں مر چکی ہوں…!“

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider