Episode 20 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 20 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

کیکٹس کے پھول
”صوفیہ بیٹا ‘ آپ لائبریری میں آئیں میرے پاس۔۔۔“ پپا نے میرے موبائل فون پر مختصراََ کہہ کر لائن کاٹ دی‘ میں حیرت سے فون کو دیکھ کر رہ گئی۔
”خیریت ہو سب۔۔۔“ میں بڑ بڑائی اور کمپیوٹر کے سامنے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔الماری کھول کر میں نے پشمینہ کی ایک نرم اور گرم شال نکالی اور اپنے گرد لپیٹ لی۔لائبریری گھر سے ملحقہ انیکسی میں تھی اور مجھے لاؤنج سے باہر نکل کر جانا تھا گھر کے اندر تو سردی کااحساس ہی نہیں ہوتا تھا مگر باہر نکلتے ہوئے شال یا جیکٹ پہننا پڑتی تھی۔
میں نے ہلکا سا دروازہ کھٹکھٹایا تو پپا کی یس کی آواز آئی، میں نے بھاری دروازے کو دھکیلا اور اندر داخل ہوئی۔
”جی پپا۔۔۔؟ میں نے استفہامیہ نظروں سے انہیں دیکھا۔

(جاری ہے)

”بیٹھو۔۔۔۔!“ پپا نے مختصراََ کہا۔۔۔میں قریب رکھے کاؤچ پر ایک کونے میں ٹک گئی۔پپا کے چہرے پر الجھن نظر آئی ، مجھے گھبراہٹ سی ہونے لگی‘میں انہیں ہی دیکھ رہی تھی،ہاتھ میں پکڑی کتاب انہوں نے میزپر رکھ دی اور کھڑکی کی طرف چل دیے خاموشی کتنی گہری ہو گئی تھی۔
”پپا۔۔۔؟“ میں نے ہی آغاز کیا۔”سب ٹھیک تو ہے ناں۔۔۔“پپا تو کبھی مجھے ”صوفی میری جان۔۔۔۔!“ کہے بنا بات ہی نہیں کرتے تھے اس لیے مجھے حیرت ہونا یقینی تھی۔
”تم چنگیز نام کے کسی آدمی کو جانتی ہو۔۔۔؟“ انہوں نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔
”چنگیز خان۔۔۔۔!“ پپا خوشگوار موڈ میں پوچھتے تو میرے پاس کئی مزاحیہ جواب ہوتے لیکن ان کے لہجے میں سرد مہری اور غصے سے مجھے بھی جواب نہیں سوجھ رہا تھا۔
”اس نام کے تو کئی لوگ دنیا میں ہوں گے پپا۔۔۔۔!“
”میں دنیا کی بات نہیں پوچھ رہا،مجھے صرف اپنے بارے میں بتاؤ ، تمہاری زندگی میں اس نام کا کوئی آدمی ۔۔۔۔“
”جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کالج میں اس نام کا ایک لڑکا تھا ہماری کلاس میں۔۔۔“ میں نے سوچ کر جواب دیا۔
”بس۔۔۔۔“ پپا نے خفگی سے کہا۔
”اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
۔۔؟“
”اس سے زیادہ کا کیا مطلب۔۔۔؟“ میں نے حیرت سے کہا۔
”ہم دوست تھے جیسے کلاس کے باقی سارے لوگ ہوتے ہیں۔۔۔۔“
”صوفیہ۔۔۔۔!“ پپا گھمبیر لہجے میں بولے۔”مجھے خواب میں بھی تم سے ایسی امید نہ تھی‘ میری کس غلطی کی سزا دی ہے تم نے مجھے‘ میں دنیا کو کیا منہ دکھاؤں گا۔۔۔۔ میں جمال کو کس طرح بتاؤں گا یہ سب کیوں کیا تم نے ایسا اور پھر تم نے مجھ سے چھپایا‘میری دی گئی آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔
۔۔۔؟ اب بھی تم مجھ سے جھوٹ بول رہی ہو‘ میں نے تو ہمیشہ تمہیں اپنا بیٹا سمجھا۔۔۔۔کبھی محسوس بھی نہیں کیا کہ مجھے اللہ نے بیٹا نہیں دیا اور تم نے ثابت کر دیا کہ تم بیٹی ہو۔۔۔اک عام سی بیٹی ۔۔۔جس کی غلطیاں باپ کا سر جھکا دیتی ہیں۔۔۔“پپا رو رہے تھے میں تڑپ کر آگے بڑھی۔
”پلیز پپا ‘کیا ہوا ہے۔۔۔؟ مجھے کچھ بتائیں‘ میں نے کیا غلط کیا ہے۔
۔۔؟ کھل کر بات کریں یوں پہیلیوں میں بات نہ کریں، مجھے بڑی پریشانی ہو رہی ہے۔“پپا نے ایک خاکی لفافہ پلٹا،بھجوانے والے کا کوئی پتا نہیں لکھا ہواتھا مہر البتہ ہمارے ہی شہر کی تھی، میں نے لفافہ کھول کر اندر سے سفید کاغذوں کا پلندا نکالا اور کھولتے ہی میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا میرا جسم لرزنے لگا۔
”اوہ میرے خدایا۔۔۔!“ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
”پپا۔۔۔۔پپا مجھے کچھ ہو رہا ہے۔“میری آنکھیں ڈبڈبانے لگیں۔
”کیا یہ سب جھوٹ ہے بیٹا۔۔۔؟“پپا نے مجھے تھام لیا ان کے لہجے میں آس تھی۔
”یہ سب تو ایک مذاق تھا پپا۔۔۔“میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔
###
”صوفی۔۔۔صوفی۔۔۔ارے۔۔۔اوصوفی۔۔۔!“ میں ستون کی آڑ میں ہو گئی تاکہ فوراََعلی کو نظر نہ آؤں اور وہ جھنجلانے لگے مگر اس کو دھوکا دینا کہاں آسان تھا۔
”چھپ لو تم ستون کے پیچھے دیکھ لیاہے میں نے تمہیں۔۔۔“میں ہنستی ہوئی ستون کی آڑ سے نکل آئی وہ اکیلا نہ تھا اس کے ساتھ اس کا ہاتھ تھامے روحا بھی تھی‘ سیماب،علینہ،چنگیز،طلال اور فیض بھی تھے۔
”کلاس میں کیوں نہیں تھیں تم۔۔۔؟“ علی نے پھر پوچھا۔
”میرے سر میں درد تھا۔۔۔۔ذرا دھوپ میں بیٹھی تھی۔۔۔۔“میں نے آہستگی سے کہا۔
”تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا۔
۔۔؟ چنگیز تڑپ کر میری طرف بڑھا۔
”میں ٹھیک ہوں۔۔۔!“ میں نے کہا مگر تب تک چنگیز میرے قریب پہنچ چکا تھا۔
”کم آن یار۔۔۔“فیض نے ہنس کر کہا۔”تمہارا نام تو چنگیز کے بجائے قیس ہونا چاہیے تھا،کتنا تڑپ رہے ہو اور جو تمہیں پہلے علم ہوتا تو تم بھی کلاس میں نہیں جاتے یہیں رک کر صوفی کا سر دباتے۔“ فیض کی اس بات پر میں بلش کر گئی مگر ہار نہ مانی۔
”اگر سیماب کو کچھ ہوتا تو میں دیکھتی کہ تم کیسے کلاس میں جاتے ہو۔۔۔۔“ چنگیز میرے بالکل قریب کھڑا تھا مجھے اس کے جذبے کی حدت بھی محسوس ہو رہی تھی۔ علی، فیض،روحا،سیماب اور میں تو اسکول کے زمانے سے ہی اکٹھے تھے اور ایک گروپ تھے،البتہ علینہ،طلال اور چنگیز ہمارے گروپ میں کالج میں شامل ہوئے تھے چنگیز نے پہلے دو سال تک آرٹس کے مضامین کے ساتھ ایف ایس سی کرنے کا ارادہ کیا تھا مگر عین امتحانوں سے قبل اس کا ذہن تبدیل ہوا اور اب وہ دو سال پیچھے آ کر ہمارا کلاس فیلو بن گیا اس تھوڑے عرصے کی رفاقت میں ہی ہم خود بخود جوڑے بن گئے تھے ہماری آپس میں دلچسپی کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی اور یوں بھی یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے کہ جنس مخالف مقناطیس کی طرح محسوس ہوتی ہے۔
علی اور روحا،سیماب اور فیض کے درمیان پسندیدگی کے جذبات تو ہم سے چھپے نہ تھے کالج آ کر ہماری دوستی طلال ،علینہ اور چنگیز سے ہوئی تو فطری طور پر میرا جھکاؤ چنگیز کی طرف ہو گیا ہمارے درمیان شاید دوستی سے زیادہ کوئی جذبہ نہ تھا مگر دوستوں کی چھیڑ چھاڑ اور ہر وقت کے ساتھ نے ہمیں ایک دوسرے سے قریب کر دیا تھا۔ایک دوسرے کو دیکھے اور ملے بغیر چین نہ آتا تھا شاید اسی کو محبت کہتے ہیں۔
۔۔۔میرے اور چنگیز کے درمیان کوئی وعدے وعید ہوئے تھے نہ عہد و پیمان نہ ہی ہم نے کبھی محبت کے موضوع پر بات کی تھی مجھے لگتا ہے ہمیں ایک دوسرے کو کچھ کہنے سننے کی ضرورت نہیں تھی۔شاید ہمیں ایک دوسرے کے جذبوں کا بغیر کہے ہی احساس تھا‘ ایک دوسرے کے وجود سے خوشی اور کسی کی غیر حاضری سے کمی کے احساس کو شایدمحبت ہی کہتے ہوں گے۔ہم آٹھ دوستوں کا گروپ پورے کالج میں مشہور تھا۔
ذہین ، شرارتی اور زندہ دل ہمارے گروپ میں خواہش اور کوشش کے باوجود بھی اور کوئی داخل نہیں ہو سکا تھا جیسے ہمارے گرد کوئی حصار ہو۔۔۔ہمیں کسی اور دوست کی ضرورت ہی نہ تھی ہمارا تعلق تقریباََ ایک جیسے گھرانوں سے تھا۔
###
میرا نام صوفیہ امام ہے، میرے پپا علی امام ایک بہت کامیاب بینکر اور بزنس مین ہیں۔۔۔میرے باقی سب دوستوں کے والدین کا تعلق بھی میرے والدین کے حلقہ احباب سے ہے۔
میری مما ڈاکٹر روبینہ المعروف روبی امام ہیں۔میرے علاوہ میری چھوٹی دو بہنیں خزینہ اور کنزیٰ ہیں، میں اپنی مما کی خواہش پر ایم بی بی ایس کر رہی ہوں اس وقت میں ایم بی بی ایس کے آخری سال میں ہوں جبکہ خزینہ اور کنزیٰ دونوں ہی اکنامکس اور اکاؤنٹس پڑھ رہی ہیں کیونکہ انہیں آئندہ زندگی میں پپا والی لائن اختیار کرنی ہے۔
چھ ماہ قبل ہی میری منگنی پپا کے ایک دوست کے بیٹے جمال احمد سے ہوئی تھی۔
جمال احمد ملک کے ایک مشہور ہارٹ سرجن ہیں اور انتہائی اسمارٹ اور خوبرو ہیں، منگنی سے قبل بھی ہم ایک دوسرے سے ملتے رہے ہیں اور ہم ایک دوسرے سے محبت بھی کرتے ہیں۔جمال انتہائی قیمتی تحائف کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور کبھی کبھار اکٹھے فلم دیکھنے چلے جاتے ہیں اس کے بعد ڈنر اکٹھے کرتے ہیں اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہیں،جمال کو ہنی مون کے لیے اپنے ملک کے شمالی علاقہ جات جانے کا شوق ہے جبکہ مجھے ملک سے باہر جانے کا۔۔۔۔جمال نے بہت سے غیر ممالک دیکھ رکھے تھے اس لیے ان میں انہیں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی، میں بھی یہی کہتی ہوں کہ میں نے بھی بہت سے شمالی علاقہ جات دیکھ رکھے ہیں اس لیے مجھے ان میں کشش نظر نہیں آتی۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider