Episode 25 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 25 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

”بہت خوبصورت ہے جمال…“ میں نے بے ساختہ کہا۔ ”تمہارا انتخاب لاجواب ہے۔“
”اس میں کوئی شک نہیں…“ جمال نے کہا۔ ”تمہیں دیکھ کر ہر کوئی یہی کہے گا۔ “ پپا کے سامنے اس نے میری تعریف کی تو میں شرما گئی۔
”انکل اگر آپ اجازت دیں تو میں صوفی کوڈنر پر لے جاؤں…؟“
پپا کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا مجھے ہی لگتا تھا کہ اب ہمیں کم کم ملنا چاہیے شادی تک، یوں بھی میری مصروفیت ایسی تھی کہ کم ہی آرام کے موقع ملتے تھے… میرا رادہ بھی یہی تھا کہ جمال کو اس کے بعد سے منع کر دوں گی… مجھے اس کی بے قراریوں کا اندازہ تو تھا مگر میرے لیے یہ سب کچھ بہت تھکاوٹ کا باعث ہوتا تھا۔
”ویسے تم بہت بے ایمان ہو جمال…!“ میں نے سوپ پیتے ہوئے اس سے کہا۔ ”یہ تصویر کہاں چھپا رکھی تھی۔

(جاری ہے)

”اپنے تکیے کے نیچے…!“ اس نے فوراً کہا۔ ”اور تمہارے اس شرمائے روپ پر تو مر مٹے تھے ہم…“
”اچھا مجنوں صاحب… مجھے علم نہ تھا…“ میں ہنسی۔
”جمال اب ہمیں کم ملنا چاہیے یوں تنہا۔“
”کیوں… اب کیا ہو گیا ہے…؟“ اس نے حیرت سے پوچھا۔
”شادی میں تھوڑا عرصہ رہ گیا ہے اور پھر میری ہاؤس جاب کی مصروفیت مجھے تھکا دیتی ہے۔“ میں نے آہستگی سے کہا۔
”شادی میں ابھی سو دن سے زائد کا عرصہ ہے صوفی…“ جمال نے کہا۔ ”ابھی سے تم مجھے پابند نہ کرو۔… کبھی کبھار تو ہم ملتے ہیں۔“
میرے کہنے کا کچھ فائدہ نہیں تھا جما ل کو کسی بھی طرف سے پابندی نہ تھی نہ اپنے گھر سے نہ میرے گھر سے اس لیے ہم اس کے بعد بھی ملتے تھے۔
شادی کی تیاریاں زور پکڑتی جا رہی تھیں، مینیو… ہال کی بکنگ، ملبوسات، زیورات، پھول اور جانے کیا کیا… کنزیٰ اور خزینہ ہر وقت انٹرنیٹ پر دنیا بھر کے ڈیزائن چھانتیں اور اس کے مطابق منصوبہ بندی کرتی تھیں اپنے ملبوسات کی اور شادی کے تمام فنکشن کس طرح ترتیب دیے جائیں گے ہر ہر چیز کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا تھا، پپا کو اس کی کچھ پروا نہیں تھی ہماری خوشی کی خاطر وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
###
”میں اب سو جاؤں، مجھے نیند آ رہی ہے…!“ میں نے جمائی لے کر کہا تھا۔
”تم دونوں اس کمرے میں آرام کرو، ہم باہر بچوں کے پاس چلے جاتے ہیں۔“ مولوی صاحب نے آفر کی مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتے میں تیزی سے اٹھی اور جا کر روحا کے ساتھ بستر میں گھس گئی۔
صبح اٹھے تو دیر تک بستروں میں ہی دبکے رہے کیونکہ ایک ایک کر کے سب باتھ روم میں جا رہے تھے، ناشتا کر کے باہر نکلے تو تیز چمکیلی دھوپ میں شیشے کی طرح چمکتی برف نے ہمارا استقبال کیا۔
چنگیز کا ارادہ تو ابھی یہ تھا کہ ہم مزید گھومیں پھریں اور آخری دن کالج کے گروپ کے ساتھ مل جائیں مگر ہم لڑکیاں ایک رات کے تھکا دینے والے ایڈونچر کے بعد اس بات پر متفق تھیں کہ ہمیں واپس چلے جانا چاہیے… سو لڑکوں کو ہماری بات ماننا پڑی اور واپسی کا سفر شروع ہوا۔
راستے میں ایک جگہ ہوٹل کے باہر گاڑی روکی اور تصویریں کھنچوانے لگے… چائے اور پکوڑوں نے سردی میں لطف دوبالا کر دیا۔
میں اور چنگیز اور درخت کے تنے سے ٹیک لگائے کھڑے تھے رات والے مزاحیہ ڈرامے کو یاد کر کے وہ ہنس رہا تھا۔
”تم نے کہا تھا کہ تم وہ پیپرز پھاڑ دو گے چنگیز…؟“ میں نے اسے وعدہ یاد دلایا۔
”وہ سب مذاق تھا صوفی!“ اس نے جیب سے بڑا سا پلندا نکالا۔ ”اس کی بھلا کیا حیثیت ہے۔“ کہتے ہوئے اس نے اسے کھولا میر آنکھوں کے سامنے لہرایا اور اسے دو پھر چار پھر آٹھ اور نہ جانے کتنے ہی پرزوں میں پھاڑ کر گہرائی کی طرف اچھال دیا۔
”تم دونوں میاں بیوی علیحدہ کھڑے کیا کر رہے ہو…؟“ علی ہمارے قریب آ کر بولا۔ ”کیا خود کو ہنی مون پر تصور کر رہے ہو…؟“
”کیا بکواس کر رہے ہو تم…؟“ میں نے غصے سے کہا۔
”بکواس نہیں ڈئیر…“ وہ مسکرایا۔ ” کل رات ہی تو تم دونوں کا نکاح ہوا ہے۔“
”وہ رہا تمہارے بھونڈے ڈرامے کا نجام۔“ چنگیز نے ہوا میں اڑتے کاغذ کے پرزوں کی طرف اشارہ کیا۔
”وہ تو ایک کاپی تھی یار…“ علی نے ہنس کر ایک کاغذ جیب سے نکالا۔ ”یہ دلہن والی کاپی دلہن کے بھائی اور نکاح کے اہم گواہ کی تحویل میں…“
”لاؤ یہ مجھے دو…“ چنگیز نے جھپٹا مارا۔
”ہرگز نہیں… کبھی نہیں…“ علی نے فوراً کاغذ کو جیکٹ کی اندرونی جیب میں ڈالا اور بھاگ کھڑا ہوا۔
”علی…!“ چنگیز چیخا۔“ رکو ورنہ میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا۔
“ چنگیز اس کے پیچھے بھاگا وہ مسلسل علی کو دھمکیاں دے رہا تھا، ہنستے اور بھاگتے ہوئے جانے علی پھسلایا اس کا پاؤں کسی گڑھے میں پڑ گیا، فضا میں ایک چیخ بلند ہوئی اور علی یوں غائب ہوا جیسے کبھی وہاں تھا ہی نہیں… ہم سب دیوانہ وار چیخنے لگے… دائیں بائیں ہلچل سی مچ گئی اور ہم سب اس مقام کی طرف بھاگنے لگے جہاں سے علی غائب ہوا تھا اور چنگیز ہونقوں کی طرح منہ کھولے کھڑا تھا س کی آنکھیں گویا پھٹ کر حلقوں سے باہر آ رہی تھی۔
”پولیس اور امدادی ٹیموں کو فوراً اطلاع کرو…“ کسی نے کہا ۔ نیچے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا روحا ہذیانی انداز میں چیخ رہی تھی ہم سب رو رہے تھے۔
”مار ڈالا تم نے چنگیز…“ روحا دیوانگی سے کہہ ریہ تھی…“ تم نے میرے علی کو مار ڈالا۔“
”ہوش میں تو ہو تم روحا…“ چنگیز چلایا۔ ”میں اسے کیوں ماروں گا…؟ اور وہ نیچے گرا ہے تمہیں کس نے کہا کہ خدانخواستہ…“ خوف سا چنگیز کی آنکھوں میں پھیل گیا تھا۔
”میرا علی نہیں رہا… مجھے علم ہے۔“ روحا بلند آواز سے رونے لگی۔
”پولیس کے آنے تک مجرم کو پکڑ کے رکھو، بچ کر جانے نہ پائے… کسی نے کہا تو لوگوں کا گھیرا چنگیز کے گرد تنگ ہو گیا۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ وہ اور علی کھیل رہے تھے مگر وہ وہاں موجود درجنوں لوگوں نے سنا تھا کہ چنگیز نے کتنی دفعہ چلا چلا کر کہا تھا۔ ”میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا…“
ہم لڑکیوں کو وہاں سے کسی مہربان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھا کر ہوٹل واپس بھجوا دیا گیا تھا۔
چنگیز کا خیال تھا کہ اتنے لوگوں کی موجودگی میں ہمارا وہاں ٹھہرنا ٹھیک نہیں تھا اور پھر جانے کس وقت علی ملے، کتنی رات ہو جائے، ہوٹل میں پہنچ کر اساتذہ سے ڈانٹ بھی کھائی اور خود پر بہت مشکل سے قابو رکھا مگر کمرے میں پہنچتے ہی ہم سب کے ضبط کے بند ٹوٹ گئے بار بار ہم کال کر کے کوئی خبر…؟ یا کوئی امید؟ پوچھتے رہے مگر سب بیکار… جانے کب رات کے بطن سے صبح نے جنم لیا۔
صبح فیض نے کال کر کے کہا کہ وہ واپس جا رہے تھے، کالج میں ملاقات ہو گی علی کا پوچھنے پر اس نے کہا کہ وہ ساری تفصیل ہمیں ملاقات پر ہی بتائیں گے۔ اسی روز ہمارا کالج کا گروپ بھی واپس جا رہا تھا فیض نے سر احمد کو بھی کال کر کے کوئی نہ کوئی کہانی بتا دی ہو گی کہ انہوں نے ان کا سارا سامان ان کے کمرے سے پیک کروا کر اٹھوا لیا تھا۔
ہمارے گروپ کے کسی فرد کو علم نہ تھا کہ ہم چار لڑکیاں، چار لڑکوں کے ساتھ غائب ہوئی تھیں اور ہم نے کہاں رات گزاری تھی کیا حادثہ پیش آیا تھا ہم چاروں اپنی پریشانی چھپانے کی کوشش کر رہی تھیں مگر اندر سے سہمی ہوئی تھیں دل سے یہی دعا نکل رہی تھی کہ اللہ سب خیر کرے۔
###
علی کی لاش بصد کوشش مہینوں کے بعد ملی تھی اس کی مما تو تقریباً پاگل ہو گئی تھیں، جنگلی جانوروں نے لاش کو کافی نقصان پہنچایا تھا ہم سارا گروپ اتنے عرصے سے آس اور نر اس کے بیچ جی رہے تھے، کالج میں بھی ملتے تو اجنبیوں کی طرح ایک دوسرے کی طرف دیکھنے سے کتراتے ہوئے، ہر روز یہی لگتا کہ آج علی کہیں سے آ جائے گا اسی طرح ہنستا مسکراتا اور چہچہاتا ہوا اور آ کر کہے گا۔
”آپ سب کا علی حاضر ہے۔“
وہ تو ہماری جان تھا… ہماری رونق ہر وقت کسی نہ کسی شرارت پر تیار، خوش شکل اور ذہین علی کیسے مہینوں برف کی تہوں تلے دبا رہا کیسی بے بسی سے اس نے موت کے بڑھتے ہوئے قدموں کو محسوس کیا ہو گا اور پھر وہ مٹی کی تہوں تلے سو رہا تھا۔
جس دن علی کی لاش ملی تھی اس دن پورے کالج پر سوگ کی فضا تھی ہم سب سوگوار تھے اور علی کے والدین کا صدمہ تو دیکھا نہیں جا سکتا تھا وہ تین بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا بہنیں غش کھا رہی تھیں اور آنٹی تو جیسے خود ہی لاش بن گئی تھیں وہ فیض اور طلال سے بار بار پوچھ رہی تھیں۔
”میرا علی تمہارے ساتھ گیا تھا تو تمہارے ساتھ واپس کیوں نہیں آیا…“
چنگیز وہاں نہیں تھا… کیونکہ اسے علی کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ عینی شاہدین نے بتایا تھا کہ چنگیز، علی کے پیچھے بھاگ رہا تھا اور جونہی وہ ایک کھائی کی طرف گیا چنگیز نے اسے دھکا دے دیا۔ چنگیز اور باقی دوست صفائیاں دیتے رہ گئے ہم لڑکیاں تو یونہی پس منظر میں چلی گئیں کیونکہ ہماری گواہی سے حالات اور بھی خراب ہو سکتے تھے ہمارے خلاف کئی اور طرح کے کیسز بن سکتے تھے اور کالج کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر ہمیں کالج سے انتہائی بری رپورٹ دے کر نکالا بھی جا سکتا تھا۔
ہم سب کے والدین کافی اثرو رسوخ والے لوگ تھے معاملہ کسی نہ کسی طرح دبا بھی لیتے جبسے کہ چنگیز کے پپا نے کیا کہ انہوں نے اسے بیرون ملک بھجوا دیا جانے سے قبل اس نے فون کر کے مجھ سے ملنے کی خواہش کی اور میں نے کتنا بڑا خطرہ مول لیا تھا۔ اپنے مما پپا کو بتائے بغیر میں نے اس سے آخری ملاقات طے کی گھر سے کسی سہیلی کے گھر جانے کا کہہ کر میں ڈرائیور کے ساتھ نکلی اور اسے کہہ دیا کہ واپسی پر اسے کال کر کے بلا لوں گی۔
واپسی پر میں ٹیکسی میں ہی گھر آ گئی، چنگیز بھی میرے ہمراہ تھا اس نے گھر سے کافی فاصلے پر گاڑی رکوائی اور باہر نکل کر میری طرف کا دروازہ کھولا… ”مجھے معاف کر دینا صوفی… مجھے میری اس غلطی پر معاف کر دینا بعض چیزیں اور حالات ہمارے اختیار میں نہیں رہتے۔“
چنگیز سے اس ملاقات کے بعد میں گھر آ کر آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر خود سے پوچھ رہی تھی۔“ کیا میں خود کو بھی منہ دکھانے کے قابل رہ گئی ہوں…؟ کیا یہ غلطی زندگی بھر میرے وجود کے ساتھ سائے کی طرح لپٹی رہے گی۔“
”پھر پڑھائی کی مصروفیات نے سر ہی نہ اٹھانے دیا اور آج وہ غلطی… وہ بے قوفی وہ نادانی ایک کاغذ کی صورت میں میرے ہاتھ میں پھڑپھڑا رہی تھی۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider