Episode 26 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 26 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

”آئی ایم سوری پپا…“ دوسرے دن شام کو میں پپا کے گھٹنوں سے لگی بیٹھی تھی، مما کسی ایمرجنسی کی وجہ سے اسپتال میں تھیں۔
”سوری…؟“ پپا نے حیرت سے پوچھا۔
”کس بات کے لیے سوری… تمہیں اندازہ ہے کہ تم نے مجھے کتنی بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے۔“
”میں نے آپ سے چھپایا پپا۔“ میں آہستگی سے بولی… ”مگر وہ سب تو ایک مذاق تھا…“ میں آہستہ آہستہ انہیں وہ سب بتانے لگی… وہ خاموشی سے بنا کچھ بولے… بغیر کچھ پوچھے سنتے رہے۔
”بھلے اس نکاح کا ایک گواہ مر چکا ہے۔ دو گواہ شاید کبھی ہمارا کھوج نہ لگا سکیں… مگر ایک کوئی ایک شخص تو پھر بھی ایسا ہے جس نے مجھے یہ کاغذات بھجوائے ہیں تم شادی شدہ ہو اور کسی شادی شدہ لڑکی کی دوبارہ شادی کس طرح ہو سکتی ہے۔“
”میں شادی شدہ نہیں ہوں پپا…!“ میں نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا۔

(جاری ہے)

”تم پھر یہ کاغذ کیا کہہ رہے ہیں…؟“ پپا نے غصے سے کہا۔
”یہ کاغذ بھی کچھ کہہ رہے ہیں پپا…“ میں نے ایک لفافہ پپا کی طرف بڑھایا۔
###
”میں ملک چھوڑ کر جا رہا ہوں صوفی…“ چنگیز نے اس شام مجھ سے کہا تھا جب میری اور اس کی آخری ملاقات ہوئی تھی۔
”کیا تم نے صرف یہ بتانے کے لیے مجھے یہاں بلایا تھا؟“ میں نے ملول لہجے میں پوچھا۔
”نہیں…!“ صرف اس لیے نہیں…“ چنگیز نے کہا۔
”بلکہ تمہیں یہ بتانے کے لیے بھی کہ شرعاً تم میری بیوی ہو“ میں نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔ ”اور اس بات کو ہم دونوں کے علاوہ بھی دو لوگ جانتے ہیں بھلے ہم ان سے کبھی نہ مل سکیں گے مگر میں جن غیر معمولی حالات میں ملک سے جا رہا ہوں ہو سکتا ہے کبھی بھی واپس نہیں آؤں۔“ میں سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”علی شرارتی تھا اور اسے بسا اوقات خطرناک شرارتیں سوجھتی تھیں۔
“ وہ پھر گویا ہوا… “تم جانتی ہوں میں اسے قتل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا… یہاں رہوں گا تو زندگی بھر اس الزام کی گرد میرے وجود کے آس پاس اڑتی رہے گی، میری بے وقوفی کہ میں اس شرارت پر اس کا ساتھ دینے پر آمادہ ہو گیا مگر اس تعلق کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہوں، میں تمہیں کتنا ہی چاہتا ہوں مگر یہ بھی جانتا ہوں کہ پاکستان میں رہوں تو تمہیں کبھی بھی میرے حوالے سے عزت نہ ملے گی۔
باہر ساتھ نہیں لے جا سکتا کہ میرا خاندان ہی میرا سب سے بڑا مخالف ہو جائے گا… غیر پٹھانوں میں میری شادی کو ہی قبول نہیں کیا جائے گا اسی لیے میں تمہیں یہ منحوس کاغذ دے رہا ہوں جسے کوئی لڑکی بخوشی قبول نہیں کرتی مگر حالات کا تقاضا یہی ہے کہ مجھے یہ کرنا پڑا… میں اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں جس کا خمیازہ تمہیں بھگنا پڑے گا…“ اس نے لفافہ مجھے پکڑایا۔
”یہ تو طلاق نامہ ہے۔۔۔۔“ میں نے اسے کھول کر لفافے سے کاغذ نکالا تھا مگر ہماری شادی تو ایک مذاق تھی“
”میں نے شرعی مسئلہ چیک کیا ہے جس طرح ہمارا نکاح ہوا ہے وہ مذاق نہیں ہے،مجھے بہت دکھ ہے صوفی اگر علی یوں حادثاتی طور پر موت کا شکار نہ ہو جاتا تو میں زمانے بھر سے تمہارے لیے ٹکر لے لیتا مگر میری بزدلی پر معاف کر دینا‘ میں خود اپنی زندگی بچانے کے لیے تمہیں یہ داغ لگا رہا ہوں۔
۔۔۔ایک جھوٹے الزام کو جرم ثابت کر کے مجھے سولی پر لٹکایا جا سکتا ہے۔“ وہ اپنی صفائی دے رہا تھا۔
میں اسے خدا حافظ کہہ کر گھر آ گئی تھی،لفافہ میں اس نے اپنی الماری میں محفوظ جگہ پر رکھ دیا تھا اور خود آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر پوچھا تھا۔”کیا میں مطلقہ لگتی ہوں شکل سے۔۔۔؟“
###
”مگر یہ لفافہ آپ کو بھیجا کس نے ہے۔۔۔۔؟“میں نے پپا سے حیرت سے پوچھا۔
”ہو سکتا ہے چنگیز نے بھیجا ہو۔۔۔۔؟“ پپا نے خیال ظاہر کیا۔
”مگر چنگیز نے تو اپنی کاپی میرے سامنے پرزے پرزے کر دی تھی۔۔۔“ میں نے کہا۔صرف علی کے پاس ایک کاپی تھی۔“
”مجھے ایک خیال آیا ہے۔۔۔“پپا نے سامنے رکھے فون کا اسپیکر آن کیا اور مجھ سے پوچھ کر علی کے گھر کا نمبر ڈائل کیا۔
”احمد صاحب ہیں جی۔۔۔“ پپا نے کسی زنانہ آواز سے کہا تھا۔
”جی میں بھی احمد ہوں۔۔۔۔جی ہاں صوفی کا والد۔۔۔۔!“ دوسری طرف سے پوچھنے پر پپا نے کہا تھا۔
”پپا کی تو ایک ہفتے قبل موت واقع ہو گئی ہے۔“ ان کی بیٹی نے کہا تھا۔
”کیا۔۔۔؟“ پپا حیرت سے بولے۔
”کیسے۔۔۔؟آئی ایم سوری اتنے عرصے سے رابطہ نہیں ہے اس لیے علم ہی نہیں ہو سکا۔“
”کوئی بات نہیں انکل۔۔۔“ اس نے شائستگی سے کہا۔
”میرا خیال ہے کہ آپ سے تو ان کا رابطہ تھا۔۔۔۔؟“
”نہیں بیٹا ۔۔۔۔اور مجھے اس بات کا بہت تاسف ہے۔“ پپا نے کہا تھا۔” بلکہ ہم ابھی آتے ہیں۔۔۔“ پپانے سارے کاغذ سمیٹے اور انہیں لے کر میں نے سنبھالا ہم دونوں گاڑی میں بیٹھ کر علی کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔
###
”اصل میں جس شام ان کی وفات ہوئی تھی اسی دن صبح انہوں نے مجھے ایک بھاری سا لفافہ دیا تھا مجھے کہنے لگے کہ یونیورسٹی جاتے ہوئے رجسٹری کروا دینا جب میں نے آپ کا ایڈریس پڑھا تو وہ مجھے راستے میں پڑتا تھا‘ یونیورسٹی میں سویرے جاتی ہوں سو بجائے اسے پوسٹ کرنے کے میں نے اسے آپ کے دفتر کے باہر لگے دروازے کے ساتھ ڈاک کے باکس میں ڈال دیا جس میں اخبار پہلے سے موجود تھا۔
“ علی کی بہن نزہت کی بات سے ہماری ساری الجھن دور ہو گئی تھی۔
”اوہ۔۔۔۔“ پپا نے ٹھنڈی آہ بھری تھی۔
”آپ کو وہ لفافہ مل تو گیا تھا نا انکل۔۔۔۔؟ اس نے تشویش سے پوچھا تھا۔
”ہاں بیٹا ۔۔۔۔“ پپا نے کہا۔” لفافہ تو مل گیا تھا مگر دکھ یہ ہے کہ ان سے علی کی وفات کے بعد پرسکون ملاقات نہ ہو سکی۔“
”پپاتبھی سے دل کو روگ لگا بیٹھے تھے۔
۔۔“ نزہت نے بتایا۔۔۔” بہنوں کی شادیاں ہو گئیں ہم گھر میں تین ہی لوگ رہ گئے تھے کچھ دنوں سے قدرت نے شاید اشارہ دے دیا تھا‘ ہر وقت کاغذات کے پلندے پوسٹ کرتے ‘ تلف کرتے ، جلاتے اور پھنکواتے رہتے تھے۔مجھے کہنے لگے کہ اس لفافے میں احمد صاحب کی کوئی امانت ہے جو میں نے سات سال سے سنبھال کر رکھی ہوئی ہے۔“
”نزہت ۔۔۔۔علی کی لاش کو انکل نے کیسے پہچانا تھا۔
۔۔؟“ یونہی ایک عجیب سا خیال مجھے آیا تھا۔
”اس کی واٹر پروف اورنج جیکٹ جو اسے خاص طور پر میرے ماموں نے جرمنی سے بھیجی تھی،اس کی بڑی بڑی رنگ برنگی جیبیں تھیں اور خصوصی طور پر پہاڑی چوٹیاں سر کرنے والے مہم جو پہنتے ہیں جنگلی جانوروں نے علی کا چہرہ تو ناقابل شناخت کر دیا تھا مگر وہ جیکٹ علی کی جلد سے زیادہ مضبوط کسی مٹیریل کی بنی ہوئی تھی۔
“ بولتے بولتے اس کی سسکیاں نکل گئیں اس کے نئے اور پرانے زخموں کے ٹانکے ادھڑنے لگے تھے مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا تھا۔
مجھے یاد ہے آخری وقت علی نے وہ جیکٹ پہن رکھی تھی۔ہم اس کی اس جیکٹ کا بہت مذاق اڑاتے تھے مگر اسے وہ جیکٹ بہت پسند تھی اس نے یقینا بھاگتے بھاگتے وہ کاغذ جیکٹ کی کسی جیب میں ٹھونس کر زپ چڑھا لی ہو گی اسی لیے وہ کاغذ گیلا ہونے سے محفوظ رہا ہو گا۔
###
پلیز پپا ۔۔۔۔“میں بحث کر رہی تھی۔”یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے، مجھے جمال سے بات کرنے دیں،وہ میری بات سمجھ جائے گا اتنی بڑی بات چھپائی نہیں جا سکتی۔“
”صوفی تم پھر بچی کی بچی ہو،اس معاملے کی نزاکتیں نہیں سمجھتیں جمال جیسا بھی ہے آخر ہے تو ایک مرد ہی ناں۔۔۔۔“ پپا مجھے سمجھا رہے تھے۔۔۔”یہ معاملہ ہمیشہ خلش بن کر اس کے دل و دماغ میں رہے گا،میں اس کی جگہ ہوتا تو میرے ساتھ بھی یہی ہوتا۔
”پھر بھی پپا۔۔۔۔اتنی بڑی بات چھپا کر میرا ضمیر ہمیشہ غیر مطمئن رہے گا،ہر وقت میرے سر پر افشائے راز کی تلوار لٹکتی رہے گی۔“ میں نے ضد سے کہا۔”میں کبھی بھی سکون سے سو نہ سکوں گی۔“
”تم سمجھنے کی کوشش کرو بیٹا۔۔۔“ پپا بڑے رسان سے بولے۔” اگر قدرت کو تمہارا راز افشا کرنا ہوتا تو سات سالوں میں کسی نہ کسی طرح ہو جاتا تم اسی بات کو قدرت کا اشارہ سمجھو علی کے ہاتھوں افشا ہوتا مگر اسے موت نے مہلت نہ دی۔
علی کے والد اپنی موت سے چند گھنٹے قبل اس راز کی امانت ہمیں سونپ گئے ورنہ اس کے گھر میں دو اور لوگ اس راز میں شریک ہوجاتے۔“
”مگر پپا یہ جمال کے ساتھ دھوکا ہے۔۔۔“ میں نے احتجاج کیا۔
”اگر تم اسے بتا دو اور وہ تم سے شادی سے انکار دے تو شادی سے چند دن قبل اس کا منسوخ ہو جانا۔“ پپا نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی۔۔۔”کوئی چھوٹی سی بات نہیں ہے بیٹا۔
۔۔۔لڑکیوں کے لیے ایسی باتیں عمر بھر کا روگ بن جاتی ہیں۔۔۔۔وہ ایسے خوشنما پھولوں کی طرح ہوتی ہیں جو کیکٹس کے پودوں پر اگتے ہیں۔“ پپا کی باتیں سن کر میں سسک رہی تھی۔” کوئی بھی راز اس وقت تک راز رہتا ہے جب تک آپ کسی دوسرے کو اس میں شامل نہیں کرتے۔۔۔میری بات اگر تمہیں سمجھ میں آرہی ہے تو یہ لو لائٹر اور یہ نکاح اور طلاق نامہ ہے۔“
###
جمال کے ساتھ میں ایک مطمئن زندگی گزار رہی ہوں۔
۔۔خوش بھی ہوں کیونکہ جمال مجھے بہت پیار کرتے ہیں۔مجھے پپا کی بات پر سو فیصد یقین ہے کہ اگر جمال کو سب کچھ بتا دیا جاتا تو آج میں جمال کی بیوی نہ ہوتی۔جمال کے ساتھ رہ کر مجھے اندازہ ہوا کہ ان میں رقیبانہ جذبات بہت زیادہ ہیں،وہ تو ابھی سے ہی اس بچے کو اپنا رقیب سمجھتے ہیں جو ابھی اس دنیامیں آیا ہی نہیں۔
نکاح نامے میں میری حیثیت میں کنواری لکھا گیا تھا۔
۔۔ہاں میرا وجود تو کنوارا ہی تھا مگر وہ ایک واقعہ جس کی یاد میرے ساتھ ساتھ رہتی ہے۔جمال کے ساتھ زندگی ایک احساس جرم کے ساتھ گزار رہی ہوں۔۔۔۔اگرچہ میں اسے محسوس نہیں ہونے دیتی۔چنگیز سے میرا تعلق اس عمر کے مطابق جذباتی سا تھا مگر عورت اچھا ساتھی پا کر پرانے سبھی تعلقات بھول جاتی ہے۔
آج میں باتھ روم کے واش بیسن کے سامنے کھڑی ہو کر آئینہ دیکھوں تو دھواں سا نظر آتا ہے۔
اپنی نادانی کی عمر کی ایک غلطی کا خمیازہ بھی تومیں نے ہی بھگتا ہے۔وہ دھواں جو میں نے اپنے اور آئینے کے درمیان نکاح اور طلاق نامہ جلا کر واش بیسن میں پھینکتے ہوئے دیکھا تھا جس کی آڑ میں مجھے اپنے چہرے کے نقوش بھی نظر نہیں آ رہے تھے‘ اس دھواں دار آئینے پر میں نے اپنی انگلی سے لکھا تھا صوفیہ احمد مطلقہ۔۔۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider