Episode 27 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 27 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

سبز جھنڈی
نجمہ کے لیے تو سانس لینی دشوار ہو رہی تھی جس دن سے کرن اسے اپنی آنکھوں کے سامنے کھڑی نظر آئی تھی۔ اسے لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ وہی کرن تھی جو پیدائش کے وقت چوہیا جیسی تھی۔ رحمتے دائی نے تو صاف کہہ دیا تھا کہ ہاتھ بھر کی چھوکری جو اکھڑی اکھڑی سانسیں لے رہی تھی، بچنے والی نہ تھی۔ نجمہ جس نے اپنے شوہر فاضل کے ہاتھوں دھکے اور ٹھڈے کھا کر ساتویں مہینے میں ہی اس مرگلی سی بچی کو جنم دیا اور پھر نہ جانے کیا سوچ کر اس کالی کلوٹی سی بچی جس نے اپنے باپ کی رنگت لی تھی اور ماں کی صورت کرن کا نام دے دیا۔
کرن جانے کیسے روکھی سوکھی کھا کر بھی صحت مند ہو گئی کہ نجمہ جسے یقین ہی نہ تھا کہ وہ بچ پائے گی اب اس کے دم سے جیتی تھی۔
فاضل تو ہفتوں بلکہ مہینوں بھی گھر میں نہ گھستا او جب نشے کے ہاتھوں تنگ پڑتا، جیب خالی ہوتی تو نجمہ کے پاس آتا اور معافیاں مانگتا۔

(جاری ہے)

آئندہ کے لیے سیدھے راستے پر رہنے کے وعدے کرتا اور نجمہ سے ہمدردی، پیار اور اس کی تمام جمع پونجی سمیٹ کر چلا جاتا پھر غائب ہونے کے لیے۔

نجمہ ہر بار لٹ جاتی اور دل میں عہد کرتی کہ اگلی بار اس دھوکے میں نہ آئے مگر اگلی بار بھی وہی ہوتا۔ نجمہ کی دو مجبوریاں تھیں پہلی تو یہ کہ جوان تھی اور جوانی کے تقاضوں سے مجبور ہو جاتی۔ وہ ہفتوں بعد بھی آتا تو یہ گلے شکوے کرنے کے بجائے اپنا آنچل اس کے قدموں میں بچھانے کو تیار ہو جاتی اور دوسرے یہ تھا کہ فاضل آتا جاتا تھا تو لوگوں کو علم تھا کہ نجمہ لاوارث اور بے آسرا نہیں ہے۔
جب بھی آئے اور جب بھی جائے پر اس کا سرکا سائیں سلامت تو تھا۔
فاضل کام کیوں نہیں کر سکتا تھا… ایک تو نشے کی عادت نے اس کے وجود کو کھوکھلا کر دیا تھا ور دوسرے وہ کوئی کام دلجمعی سے کرنے کا عادی ہی نہیں تھا۔ وہ تو کچھ ایسا کرنا چاہتا تھا کہ وہ رات کو سوئے تو صبح تکیے کے نیچے نوٹ دھرے ہوں لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس دنیا میں کوئی بھی کام ایسا نہ تھا۔
چوری اور ڈاکے بھی ڈالنے ہوں تو آپ کو جاگنا اور عمل کرنا پڑتا ہے۔
پہلے پہل تو نجمہ نے لوگوں کے گھروں میں کپڑے اور برتن دھونے کا کام شروع کیا اور اپنی لخت جگر کو سردی گرمی میں اپنے ساتھ گھسیٹتی پھرتی تھی۔ برتن دھوتے اور کپڑے دھوتے ہوئے وہ بسا اوقات کرن سے اتنی غافل ہو جاتی تھی کہ کرن زمین پر ہی لیٹ کر سو جاتی۔ ہر گھر سے بچی کھچی اور اترن لا کر نجمہ اپنے گھر میں سینت سینت کر رکھتی۔
گھر کیا تھا ایک کمرا اورا سی کے سامنے لوہے کی چادر ڈال کر اس نے دس گز کے صحن میں سے آدھے کو برآمدہ بنا لیا تھا۔ اسی برآمدے میں ایک طرف عارضی سا باورچی خانہ تھا اور دوسری طرف نیم پختہ غسل خانہ کہ جس کی چھت کے نام پر اس نے نیلے رنگ کا پردہ تان رکھا تھا۔
ض…ض…ض
رات کو کئی دفعہ سوتے میں نجمہ کی آنکھ کھل جاتی اور وہ ڈر جاتی جتنی بھی وہ بہادر بنتی تھی، تو عورت ہی جو درحقیقت اندر سے کمزور ہوتی ہے اور جس عورت کی چار دیواری بھی اتنی غیر محفوظ ہو۔
اپنا ہی کیا وہ تو کرن کا سوچ کر بھی پریشان ہو جاتی تھی۔ اگرچہ کرن ننھی سی بچی تھی لیکن اسے معلوم تھا کہ بھیڑیوں کی اس دنیا میں ننھے ننھے جانوروں کو خطرات تو لاحق رہتے ہی ہیں اگر کسی کو حیوانیت پر اتر ہی آنا تھا تو اس کے لیے نجمہ بھی شکار تھی اور کرن تو بہت ہی آسان اور معصوم شکار۔
کئی بار وہ فاضل سے کہہ چکی تھی کہ بھلے وہ کام نہ کرے مگر رہے تو اس کے پاس تاکہ اسے کرن کو گھر گھر ساتھ نہ گھسیٹنا پڑے۔
فاضل کو صرف نشے کی عادت ہوتی تو مسئلہ کوئی نہ تھا مگر دوسری عورتوں کے پاس جانے کا چسکا ایسا برا تھا کہ وہ صرف نجمہ کا ہو کر نہیں رہ سکتا تھا۔ ساری زندگی یوں بھی تو نہیں گزر سکتی تھی۔ نجمہ تھی بھی محنتی سی عورت اور پھر جب عورت پر یہ ذمے داری پڑ جاتی ہے کہ اسے اپنی زندگی کی گاڑی خود ہی چلانی ہے کیونکہ اس کے ساتھ لگا ہوا دوسرا پہیہ بدقسمتی سے پنکچر ہو چکا ہے تو وہ اپنا پیٹ بھرنے اور تن ڈھانکنے کے لیے کوئی نہ کوئی سہارا کر لیتی ہے۔
بسا اوقات تو اسی تن کے ڈھانکنے کو وہ اس تن کا سودا بھی کرتی ہے مگر نجمہ طبعاً شریف اور غیور تھی۔
گھروں میں کام کرتے ہوئے اس نے جیسے تنکا تنکا جوڑ کر اپنا گھونسلا بنا لیا اور زندگی گزارنے کے لیے بہت سے کام بھی۔ کسی ایک بیگم صاحبہ کی مہربانی سے اس کو ایک پرانی سلائی مشین مل گئی۔ مشین تھی تو پرانی مگر چلتی تو تھی۔ نجمہ کو مشین چلانا آتی تھی مگر کپڑے سلائی نہیں کر سکتی تھی۔
شلوار قمیص کی سلائی سیکھنا تو ایک صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے۔ جہاں ہر روز پیٹ بھرنے کے لیے کام کرنا ہو وہاں ایسی تربیت حاصل کرنا دشوار تھا۔ اس نے سرہانے، بستر کی چادر، رضائیاں اور روٹیوں کے لیے کپڑے وغیرہ بنانا شروع کر دیے محلے میں ہی وہ انتہائی کم معاوضے پر یہ کام کرنے لگی۔
ایک اور بیگم صاحبہ نے نجمہ سے مساج کرانا شروع کیا تو اس کو یہ کام بھی آسان لگا۔
ساتھ ہی اس نے ویکس کریم بنانا سیکھ لی اور یہ اس کی زندگی میں اس کے لیے ایسا معرکہ تھا جس نے اسے برتن اور کپڑے دھونے کے کام کرنے کے بجائے نسبتاً بہتر کاموں کی طرف مائل کیا۔ چینی اور لیموں ملا کر گھنٹوں کی محنت سے وہ ویکسنگ کریم بناتی۔ اسے مرتبانوں میں بھر کر بیوٹی پارلرز پر بھی بیچتی اور اس کے علاوہ وہ گھر گھر جا کر خواتین اور لڑکیوں کے ویکسنگ اور مساج کرنے لگی۔
اس کام میں جو پیسہ اسے ملنا شروع ہوا وہ انتہائی معقول تھا۔ اس نے کرن کو اسکول میں داخل کروا دیا… اور اسکول کے بعد کرن، ماں کے آنے تک سورج کی کرنوں کی طرح محلے کے ہر گھر میں جھانک آتی تھی۔
ماہ وسال گزرتے گئے اور محنت کر کر کے نجمہ نے چودہ انچ کا ٹیلی وژن بھی لے لیا اور آٹھ کیوبک فٹ کا سیکنڈ ہیڈ فریج بھی۔ اس سے قبل تو وہ سالن بھی پڑوس کے فریج میں رکھواتی تھی اور محلے کے مختلف گھروں سے برف مانگ تانگ کر گزارہوتا تھا۔
سب سے اہم چیز موبائل ٹیلی فون تھا جس کی وجہ سے اسے جگہ جگہ پوچھنے نہیں جانا پڑتا تھا بلکہ اس نے اپنا رابطہ نمبر سب بیگمات کو دے دیا تھا۔ ایک ڈائری بنا کر اس نے سب بیگمات کے رابطہ نمبر اس میں لکھ لیے تھے۔ بڑے منظم طریقے سے نجمہ نے ایک موبائل بیوٹی پارلر چلانا شروع کر دیا تھا جو ایک ٹیلی فون کال کی دوری پر تھا۔
نجمہ کو اپنا حلیہ بھی قابل قبول رکھنا پڑتا تھا کیونکہ اب اس کا جانا بڑے بڑے گھروں میں تھا۔
کرن جو کسی خود رو پودے کی طرح بڑھ رہی تھی۔ آٹھویں کلاس میں پہنچ گئی تھی۔ اسے اسکول کے بعد نجمہ کی ہدالت تھی کہ پڑوس کی خالہ کے پاس چلی جایا کرے اور ماں کے آنے تک وہیں رہے مگر بچپن سے لگی ہوئی گھر گھر گھومنے کی عادت کیسے چھوٹتی۔ جاتی تو وہ خالہ صغراں کے گھر ہی تھی مگر کھانا وانا کھا کر وہ محلے کے سیر سپاٹے پر نکل جاتی۔ گھر گھر کی خبر لیتی، ادھر کی بات اٹھاتی اُدھر کو پہنچاتی لڑکیوں کی عشقیہ داستانیں، منگیتروں کے پیغامات، شوہروں کے رومانس اور اسی طرح کی باتیں سنتی ہوئی وہ ہفتوں کے بجائے دنوں میں جوان ہو گئی۔
نجمہ کو شروع میں اعتراض تو ہوا جب اس نے ماں سے اصرار کر کے اپنی ابروؤں کو کماندار بنایا اور ماں سے ویکسنگ کروائی۔ ”کوئی ضرورت نہیں ہے۔“ کہہ کر نجمہ نے اسے ٹالا مگر اس کی ضد جاری رہی۔
”اماں! دیکھو تو کیسا مردوں جیسا چہرہ لگتا ہے اور مردوں کی طرح بازو اور ٹانگیں۔“ کرن نے شلوار کا پائنچہ اٹھا کر ماں کو دکھایا تو نجمہ کی ہنسی نکل گئی۔
”میرے لیے اور بکھیڑے کم ہیں، جواب میں تیری مصیبتیں بھی کروں۔“ نجمہ نے ٹالا۔
”بس اماں! تو ایک بار کر دے اور مجھے سکھا دے پھر میں خود ہی کر لیا کروں گی۔“ مجبوراً نجمہ کو سب کرنا پڑا اور جب وہ اپنی بیٹی کی ویکسنگ کر رہی تھی تو اسے اندازہ ہوا کہ اس کی بیٹی کا رنگ بھی صاف ہو گیا تھا اور اس کے بازو اورٹانگیں کتنے سڈول ہو گئے تھے۔
ابرو اور بالائی لب کے اوپر سے جب تھریڈنگ کر کے فارغ ہوئی تو اسے اپنی بیٹی کیسی مختلف لگی، کتنی پیاری… ٹکر ٹکر وہ اس کی منہ تکے جا رہی تھی۔
”کیا ہو اماں؟“ کرن شرما گئی۔
”کچھ نہیں… بس ویسے ہی۔“ نجمہ گڑبڑائی۔
”ایسا لگ رہا ہے جیسے میرے سر پر سینگ نکل آئے ہوں اماں۔“ کرن ہنسی، اس کا چہرہ چمک رہا تھا اور آنکھیں بول رہی تھیں۔
اس کے دائیں رخسار پر ڈمپل اور بائیں طرف تھوڑی پر تل… نجمہ مبہوت ہو گئی تھی اسے لگا اس نے سالوں سے اپنی بیٹی کو دیکھا ہی نہیں تھا۔
”ڈر لگ رہا ہے کرن تجھے دیکھ کر۔“ اس نے غائب دماغی سے کہا۔ ”غریب اور تنہا عورت ہونا کیا کم عذاب ہوتا ہے کہ اوپر سے بیٹی بھی ایسی دے دی ہے کہ میں ہولنے لگی ہوں۔“
”کیا… کیا ہے میں نے اماں؟“ وہ حیران ہوئی۔
”کچھ نہیں!“ نجمہ نے بات بدلی۔ ”چل اٹھ روٹی ڈال مجھے بھول لگ رہی ہے۔“ وہ بھلا کس طرح کرن کو کہتی کہ وہ اس کے حسن سے ڈر گئی ہے جسے دیکھ کر نجمہ ٹھٹک گئی تھی۔ اب اس حسن کی خوشبو اس کے گھر سے نکل کر گلی محلے میں پھیلے گی۔ ”غریب کی گڈری میں پتھر ہی اچھے لگتے ہیں، اس میں لعل کہاں رکھنے کی گنجائش ہوتی ہے۔“ نجمہ نے سوچا۔ ”اب خالہ صغراں سے کہوں گی کہ اس کے لیے کوئی مناسب رشتہ نظر میں رکھیں، میں گھر بنانے میں ہی لگی رہی اور میری بیٹی چپکے سے جوان ہو گئی مجھے علم بھی نہیں ہوا۔“ رات بھر وہ نہ سو سکی اسے ایک نیا خوف لاحق ہو گیا تھا۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider