Episode 28 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 28 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

اسے گھر سے باہر نکلتے ہی بے سکونی شروع ہو جاتی اور پوری کوشش کرتی کہ وہ کرن کے اسکول سے لوٹ کر آنے سے قبل لوٹ آئے۔ کرن اسے ایک خزانے کے مانند لگتی تھی جس کے چرا لیے جانے کا خدشہ اسے لاحق رہتا تھا۔ خالہ صغراں سے اس نے کہہ دیا تھا کہ اس کی غیر موجودگی میں کرن کا زیادہ دھیان رکھا کریں اور یہ کہ نظر میں اس کے لیے کوئی رشتہ بھی رکھیں۔ نجمہ کو کرن کا ہر ہر انداز مختلف لگنے لگا اور وہ بیٹھے بیٹھے اسے گھورنا شروع کر دیتی۔

”یہ کیا طریقہ ہے، مٹک مٹک کر چلنے کا؟“ یونہی خرامخواہ کرن کو ایک دم ڈانٹا۔
”میں کہاں مٹک رہی ہوں اماں؟ ہمیشہ یونہی چلتی ہوں۔“ کرن روہانسی ہو گئی۔ نجمہ کو شاید اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس کی بیٹی عمر کے اس خطرناک دور میں داخل ہو رہی تھی جسے جوانی کہتے ہیں۔

(جاری ہے)

”کپڑے کیوں اتنے تنگ کر لیے ہیں تم نے؟“ اس کی پھنسی ہوئی قمیص دیکھ کر اسے گھر کا۔
”خود ہی تنگ ہو گئی ہے اماں، میں بڑی بھی تو ہو گئی ہوں۔“ وہ ناراضی سے بولی۔ ”دو سال پرانی قیمض ہے، نئے کپڑے بنا کر نہیں دیتی ہو۔ خرید خرید کر بکسوں میں بند کر دیتی ہو۔“
”بڑی ہو گئی ہو؟“ نجمہ جیسے بے خیالی میں بدبدائی اور اپنی گردن اٹھا کر اسے گھور کر دیکھا یوں کہ کرن کو اپنی کہی ہوئی بات پر جھجک بھی ہوئی اور ماں کی ذہنی حالت پر شبہ بھی اور نجمہ کا دل عجیب عجیب سی خواہشیں کرنے لگا۔
اس کا جی چاہ رہا تھا کہ اس وقت کہیں سے اس کی بیٹی کا رشتہ آ جائے اور وہ کرن کا نکاح کر کے فوراً اسے گھر سے وداع کر دے اور اسی تصور سے اسے لگا جیسے اس کے سینے سے کسی نے کھینچ کر کچھ نکال لیا ہو۔
”کس طرح میں اپنی بیٹی کو اپنے کلیجے سے دور کر سکتی ہوں؟“ اس نے دل ہی دل میں سوچا اور ساتھ ہی آنسو امڈ امڈ کر اس کی آنکھوں میں آنے لگے۔
”کیا ہوا اماں، میں نے کیا برا کہہ دیا؟“ کرن ڈری سہمی آ کر ماں کے قریب بیٹھ گئی۔
”نہیں میری بیٹی۔“ اس نے آنسو پونچھے۔ ”یونہی کچھ خیال آ گیا تھا، میں تمہیں نئی قمیض بنا دیتی ہوں بس تھوڑے دن ٹھہر جاؤ۔“
”خالی قیمض نہیں اماں…جوڑے بنا کر دو ناں۔“ اس نے لاڈ سے ماں کے گلے میں بانہیں ڈالیں۔ ”دیکھ ناں میری شلواریں بھی چھوٹی ہو گئی ہیں۔“
”اچھا ٹھیک ہے، سن لیا چل اپنی پڑھائی کر مجھے بھی ویکسنگ کریم بنانی ہے۔
“ نجمہ نے اسے خود سے پرے کیا۔
ض…ض…ض
اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے نجمہ کے سامنے اپنی بیٹی کا خوب صورت چہرہ اور سڈول جسم رہنے لگا۔ اس کا تو کام ہی ایسا تھا کسی اور کی بیٹی کو دیکھتی تو اپنی بیٹی چھم سے تصور میں آ جاتی۔ نوجوان لڑکیوں کی بے باکی اور نیم عریاں قسم کے لباس دیکھتی تو اللہ کا شکر ادا کرتی کہ اس کی بیٹی ویسی نہ تھی۔
اب اس نے اپنا کام کرنے کا وقت بھی محدود کر لیا تھا اور آمدنی روز افزوں بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ جمع بھی کچھ کر لیا تھا اور اس کی بڑی وجہ تھی کہ فاضل نے اسے طلاق دے کر دوسرا بیاہ کر لیا تھا۔
نجمہ کو اس بات کا بڑا قلق تھا بلکہ ہفتوں اس نے کام بھی نہیں کیا لیکن جب پیٹ کی آگ بجھانا مقصود ہو تو انسان بہت عرصہ بیٹھا نہیں رہ سکتا سو کام تو وہ کر ہی رہی تھی مگر دل بالکل مردہ ہو گیا تھا اور جب بیٹی کی شادی کا سوچتی تو یہ بھی فکر ہوتی کہ ماں کے نصیب پر لگا ہو اداغ بیٹی کی زندگی کی خوشیوں کو گہنا نہ دے۔
کبھی اس کے قبل خیال آیا تھا نہ مصروفیات نے وقت دیا مگر اب وہ نماز باقاعدگی سے پڑھنے لگی تھی، اس کی دعاؤں میں بیٹی کے لیے اچھے رشتے کی دعا سرفہرست تھی۔
تھوڑا تھوڑا کر کے اس نے بیٹی کے لیے جہیز بھی بنانا شروع کر دیا تھا۔ لوہے کی بڑی پیٹی اور دو ٹرنک خریدے، پلاسٹک کا ڈنر سیٹ، شیشے کا جگ گلاس اور سفید چینی کا چائے کے برتنوں کا سیٹ۔
سلور کے دیگچے، اسٹیل کے دیگچے، بستر، کمبل، شنیل کی دو رضائیاں… آہستہ آہستہ اور تنکا تنکا جوڑتے اس نے سونے کا چھوٹا سا لاکٹ سیٹ بھی بنوا لیا اگرچہ اس کے لیے اسے بڑی جان مارنا پڑی تھی۔ دو کڑے چاندی کے بنوا کر ان پر سونے کا پانی چڑھوا لیا تھا اور ویسے ہی دو کڑے اس نے اپنے لیے بھی بنا لیے تھے۔ اسے بھی تو شادی پر کچھ پہننا تھا۔ صرف دولہا کے کپڑے بنوانا رہ گئے تھے اور جو اسے ناپ کا علم ہوتاتو سب سے پہلے وہی بنوا لیتی۔
بیٹی کے جہیز کی پیٹی کو نجمہ نے گھر کے اکلوتے کمرے میں رکھا تھا اسی کے اندر سارا سامان رکھتی جا رہی تھی۔ اب اس ایک کمرے میں جہاں پہلے دو پلنگ بچھے ہوئے تھے۔ پیٹی رکھنے کے باعث بمشکل ایک پلنگ بچھتا تھا۔ ایک پلنگ نکال کر اس نے برآمدے میں بچھا لیا تھا۔ کمرے کے واحد پلنگ پر دونوں ماں بیٹیاں اکٹھی پڑ جاتی تھیں۔ کرن کی تو عمر ہی ایسی تھی کہ فوراً نیند کی وادیوں میں اتر جاتی تھی مگر نجمہ ذہنی اور جسمانی سوچوں کے باعث رات بھر سو نہ پاتی تھی اور جاگتے ہوئے سوچیں اسے کہاں سے کہاں لے جاتیں۔
ض…ض…ض
خالہ صغراں کی بیٹی کے ہاں ولادت ہونے والی تھی اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہی ماں کے گھر آئی ہوئی تھی۔ جس روز وہ آئی اسی روز شام کو جب کام سے واپسی پر نجمہ، کرن کو لینے کے لیے خالہ صغراں کے گھر گئی تو اسے خالہ کے داماد کی گھورتی نظروں سے بہت خوف آیا جو اس کی کرن کے گرد ہی گھوم رہی تھیں۔ بیٹی کی ماں تھی فوراً سہم گئی اور گھر آ کر کرن کو سمجھایا کہ اس کے بعد اسے گھر پر ہی رہنا ہو گا اندر سے تالا لگا کر، گھروں کی چھتوں سے چھتیں ملی ہوئی تھیں وہاں سے بھی نقب پڑنے کا اندیشہ تھا۔
لاچار نجمہ کو اپنی دانست میں اپنی فرشتوں جیسی معصوم بیٹی کو دنیا کی اونچ نیچ بتانا پڑی تھی۔ اسے بتانا پڑا تھا کہ مرد دنیا کی بدترین مخلوق ہیں اور وہ معصوم لڑکیوں کے سب سے بڑے دشمن ہوتے ہیں۔ نجمہ اسے سمجھا کر مطمئن تھی اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ نجمہ کی مصروفیات نے کرن کواس سے آگے کے کئی سبق بھی پڑھا دیے تھے۔ عمر کے جس حصے میں لڑکیاں گڑیوں اور ہنڈکلیوں سے کھیلتی ہیں اس دور میں کرن نے بڑے چوباروں پر اور محلے کے کئی گھروں میں چوری چھپے کھیلنے جانے والے عشق و عاشقی کے کھیل دیکھے تھے وہ عورت اور مرد کے تعلقات کی نوعیت کو بھی سمجھتی تھی۔
اسے یہ بھی علم تھا کہ سارے مرد بدترین نہیں ہوتے۔ کچھ مرد ایسے بھی ہوتے ہیں جو لڑکیوں سے پیار بھی کرتے ہیں۔ ان کے لیے چاند اور تارے بھی توڑ کر لا سکتے ہیں۔ صرف انہیں کھلے بندوں مل نہیں سکتے۔ اس لیے چوری چھپے ملتے ہیں۔ اسے علم تھا کہ محبت بھی کوئی جذبہ ہوتا ہے۔ اسے یہ بھی علم تھا کہ لڑکے، لڑکیوں اور لڑکیاں، لڑکوں کو خوشبوؤں میں بسے خطوط لکھتی ہیں جن میں لکھے ہوئے الفاظ میں بھی خوشبو ہوتی ہے۔
ان خطوط میں وعدے لکھے جاتے ہیں اور عہدو اقرار… یہ اور معاملہ ہے کہ ان میں سے کچھ بھی وفا نہیں ہوتا۔ بالآخر لڑکیاں بیاہ کر چلی جاتی ہیں اور لڑکے ہنسی خوشی بیویوں کے ساتھ زندگی گزارنے لگتے ہیں۔
اس کا یہ بھی خیال تھا کہ زندگی میں ہر لڑکا اور ہر لڑکی کبھی نہ کبھی تیر نظر کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کے دلوں میں میٹھے میٹھے اور گدگدانے والے جذبے بیدار ہوتے ہیں۔
وہ یہ بھی سمجھتی تھی کہ اس کی اماں اور ابا میں ذہنی ہم آہنگی نہ ہو سکی تھی اس لیے ان کا رشتہ کمزور تھا اور ٹوٹ گیا… شاید اماں اسی لیے ایسی باتیں کرتی ہے۔ یہ سارے اسباق اس نے نہ صرف اپنے مشاہدے سے سیکھے تھے بلکہ اس کے خوابوں میں ایک خوب صورت شہزادے کا تصور بھی تھا جو کہ فلموں اور ٹی وی ڈراموں کا مرہون منت تھا۔ اچھا ہے کہ نجمہ کو یہ سب علم نہ تھا۔
ض…ض…ض
صغراں خالہ، اپنے نواسے کی ولادت پر نجمہ کے ہاں خود ہی مٹھائی دینے آئیں، کرن اس وقت کپڑے دھو کر چھت پر الگنی پر پھیلانے گئی ہوئی تھی۔
”نجمہ تم نے کرن کو میرے ہاں آنے سے کیوں منع کر دیا ہے؟ جوان بچی ہے لوگ سو طرح کی باتیں کرتے ہیں۔“ خالہ صغراں نے کہا تو نجمہ کا پورا بدن سن ہو گیا۔
”لوگ اس پر باتیں کرتے ہیں کہ میں بیٹی کو تمہارے ہاں نہیں بھیجتی خالہ؟“ وہ چاہتے ہوئے بھی اپنے لہجے میں موجود تلخی اور سختی پر قابو نہ پا سکی۔
”بچی کے اکیلے گھر پر رہنے پر نجمہ…“ خالہ نے وضاحت کی
”اگر میں اسے تمہارے گھر بھیجوں تو بھی لوگ باتیں کریں گے خالہ کیونکہ آج کل تمہارا داماد تمہارے ہاں آیا ہوا ہے۔“
”مجھے خود اس بات کا علم ہے اور میری تین بیٹیاں ہیں، میں نے کرن کو ہمیشہ انہی کی طرح سمجھا ہے۔ جو وہ میرے گھر آئے تو بھلا میں یہ بات ذہن میں نہ رکھوں گی۔
“ خالہ نے اسے سمجھایا۔
”مجھے کوئی شک نہیں خالہ کہ آپ اسے اپنی بیٹیوں کی طرح ہی سمجھتی ہیں۔“ نجمہ بھلا صغریٰ خالہ کے کیے گئے احسانات فراموش کر سکتی تھی؟ انہوں نے کئی سال تک اس کی دیکھ بھال کی تھی۔ چاہے وہ صغریٰ خالہ کے گھر سے نکل کر محلے بھر میں گھومتی پھرتی تھی مگر نجمہ کو تو تسلی تھی کہ وہ ان کی نگرانی میں ہو گی۔“
”میرے داماد عبدالقادر نے ہی بتایا تھا۔
“ خالہ جھک کر اس کے نزدیک ہو گئیں۔ کہ اس نے کسی کے لڑے کو تمہارے گھر کی چھت کود کر نیچے آتے دیکھا ہے…“
”اگر ایسا ہوتا تو کیا کرن چیخ پکار کر کے آپ کو نہ بلاتی؟“ نجمہ نے غصہ ضبط کرنے کی کوشش کی۔
”کر سکتی تھی نجمہ! تو غصے میں نہ آ… اگر وہ چاہتی تو…!“ خالہ نے کہا۔
”آپ کے داماد کو ہو سکتا ہے کہ دھوکا ہوا ہو…؟“ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ ہاتھ پکڑ کر خالہ کو گھر سے نکال دے۔
وہ عبدالقادر تو اسے دیکھنے میں ہی پسند نہیں آیا تھا۔
”ایسا ایک بار نہیں ہوا نجمہ! کچھ ہوش کو ہاتھ مار اور اس بحث میں پڑنے کے بجائے اپنی بیٹی کی جوانی کو لگام دے۔“
نجمہ خاموش ہو گئی کیونکہ کرن چھت سے اتر رہی تھی۔ اس کے لمبے بال پشت پر کھلے ہوئے تھے۔ گیلے کپڑے اس کے جسم سے چپکے ہوئے تھے اور کرن کے ہونٹ اور آنکھیں بھی مسکرا رہی تھیں۔ نیچے اتر کراس نے خالہ صغریٰ کو سلام کیا اور انہیں مبارکباد دیتے ہوئے پورا لڈو اٹھا کر منہ میں رکھ لیا۔ خالہ اٹھ کر چلی گئیں۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider