Episode 31 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 31 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

اٹھارہ ہزار روپے اس کے ہاتھ میں تھے۔ پچاس ہزار کے قریب اس نے ایک بیگم صاحبہ کے پاس جمع کروا رکھے تھے۔ یہ اس نے بیٹی کی شادی پر برات وغیرہ کے کھانے کے اخراجات اور تقریباً بیس ہزار بیٹی کو نقد دینے کے لیے رکھا تھا۔ اس کے علاوہ اس کا ارادہ تھا کہ بیٹی کو چھوٹا سا فریج اور ایک واشنگ مشین بھی ضرور دے گی۔ خود اپنی حسرتوں کو تو وہ اپنے دل ہی میں دباتی رہی تھی مگر اپنی بیٹی کو وہ کوئی محرومی نہیں دینا چاہتی تھی۔

جس روز سے اس کا گھر مسمار ہوا تھا، اس نے براہِ راست بیٹی سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ وہ اپنے نقصان کی سو فیصد ذمے دار اپنی بیٹی کو سمجھ رہی تھی۔ ”یہ چنڈال میرے منہ پر یوں کالک ملنے میں مصروف نہ ہوتی تو گھر کے سامان کی کچھ نہ کچھ تو بچت ہو جاتی۔“ یہی سوچ کر وہ اس سے ناراض سی تھی اور کرن بھی کسی مجرم کی طرح ماں کے سامنے سر جھکائے بیٹھی رہتی۔

(جاری ہے)

کیسے کیسے ارمان تھے نجمہ کے دل میں بیٹی کے بیاہ کے حوالے سے مگر اب تو ان سب ارمانوں پر اوس پڑ گئی تھی۔ اب تو اس کا جی چاہ رہا تھا کہ کسی بھی طرح وہ اسے خورشید کے ساتھ دو بول پڑھا کر چلتا کرے۔ اسی لیے وہ اٹھتے بیٹھتے بیٹی کو طعنے تشنے دیتی۔
”بلاس اس کم بخت اپنے یار کو… کہ رشتہ لے کر آئے…“
”مر کیوں نہ گئی تو بے غیرت مجھے یہ دن دکھانے سے پہلے…“
”اچھا ہی ہوتا جو خالہ صغریٰ تجھے نہ بچاتی اورا سی ملبے میں تم دونوں کالے کرتوتوں والوں کی قبر بنتی۔
کرن سنتی مگر پلٹ کر بھلا ماں کو کیا جواب دیتی۔ اس دن کے بعد سے اس کی خورشید سے ملاقات ہی کب ہوئی تھی۔ اب جس طرح وہ اور اس کی ماں سڑک پر بے آسرا پڑی تھیں، یوں بھلا خورشید کی ماں رشتہ لے کر آنے پر کبھی تیار ہوتی؟ نیند تو کہتے ہیں کہ سولی پر بھی آ جاتی ہے سو پریشان حال سی نجمہ کو بھی آ جاتی تھی، اس خستہ حال سے ٹینٹ میں جہاں نہ پنکھا تھا، نہ چارپائی اور نہ روشنی… مگر رات کو اچانک نجمہ کی آنکھ کسی عجیب سے احساس کے تحت کھل گئی۔
”جانے کیا ہوا تھا؟“ اس نے سوچا اور اس سے قبل کہ وہ کروٹ بدلتی اسے آواز آئی۔
”یاد آ گئی میری؟“ بلاشبہ یہ کرن ہی کی آواز تھی۔ 
”کیا کرتا؟ کیا کھلے میدان میں تمہیں ملنے آتا؟ اور ٹینٹ بھی کون سا ایسی محفوظ جگہ ہے ملنے کے لیے۔“
”پھر بھی اگر تم ان دنوں ہماری کچھ مدد کر دیتے تو میری اماں کا دل ہی نرم ہو جاتا۔“
”تمہارا اماں کا مسئلہ تو بعد میں آتا ہے، پہلے تو مسئلہ میری اماں کو منانے کا ہے… اب تو وہ بالکل ہی نہیں مانے گی۔
”پھر کیا ہوگا؟ میں کیسے رہوں گی تمہارے بغیر؟“ کرن کے لہجے میں پریشان تھی اور ناز تھا۔
”میں کب تمہارے بغیر رہ سکتا ہوں؟ تمہی بتاؤ کیا کریں؟“
”میں کیا بتاؤں؟ میری اماں کو تو یہ علم ہو گیا کہ تم آئے تھے تو وہ میرا گلا ہی دبا دے گی…“ کرن بولی۔ نجمہ کی رگوں میں خون ابلنے لگا اور انہیں دیکھنے کے تجسس سے بے اختیار ہو کر اس نے کروٹ بدلی۔
ٹینٹ کے پچھلے حصے کے پاس خورشید اندر آیا تھا۔ ماں کو کروٹ بدلتے دیکھ کر نجمہ خاموشی سے آ کر ماں کے پاس لیٹ گئی اور ہاتھ سے خورشید کو چلے جانے کا اشارہ کیا۔ وہ فوراً وہاں سے غائب ہو گیا۔
ض…ض…ض
خالہ صغریٰ کو اپنے عارضی خیمے اور بیٹی کا خیال رکھنے کا کہہ اس نے پھر کام پر جانا شروع کر دیا۔ تمام بیگمات کو اپنی غم کی داستان سنا کر کچھ نہ کچھ فالتو رقم وصول کی اور نئے عزم سے رقم جوڑنا شروع کر دی۔
ساتھ ہی اس نے ہر کسی کو کہنا شروع کر دیا کہ اس کی بیٹی کے لیے رشتہ دیکھیں۔ کنوارہ ہو، رنڈوا ہو ایا دوہا جو… اسے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ اب وہ جلد از جلد اپنے سر سے یہ بوجھ اتارنا چاہتی تھی۔
تمام گھروں کا ملبہ اٹھا کر جگہ صاف کر کے کھدائی کا کام شروع کر دیا گیا تھا۔ ان تمام متاثرین کو ایک ماہ کا وقت دے دیا گیا تھا کہ وہ اپنا کوئی انتظام کر کے وہ تمام جگہ خالی کر دیں کیوں کہ وہاں پر چار دیواری بھی بننا تھی۔
ہر کوئی اپنی سی کوشش کر رہا تھا کسی نے کہیں کرایے پر گھر لے لیا تھا، کوئی کسی عزیز کے ہاں تھا… حکومت کی طرف سے شہر سے بالکل باہر موجودہ جگہ سے پچاس میل دور چار چار مرلے زمین انتہائی کم قیمتوں پر دینے کی پیشکش کی گئی تھی جو ایسے حالات میں کسی کے لیے بھی قابل قبول نہ تھی۔ اس جگہ پر رہنے والے سبھی مزدور پیشہ تھے جو کام کر کے کماتے اور کھاتے تھے۔
شہر سے اتنی دور جا کر ان کے لیے پہلا مسئلہ یہ ہوتا کہ کام کیا کریں۔
ان سب کے پیشوں کی طلب شہر میں ہی تھی نہ کہ شہر سے باہر۔
چند لوگ جو سبزی اور پھل کے کاروبار سے وابستہ تھے، انہیں یہ پیشکش بری نہ لگی کہ وہ منڈی کے نزدیک ہو جاتے۔ پہلے وہ یہاں سے منڈی جا کر سبزی پھل لاتے اور شہر میں بیچتے تھے۔ وہ لوگ منڈی سے نزدیک ہو جاتے تو وہاں سے سویرے جلدی سبزی اور پھل خرید کر شہر میں آ کر بیچ سکتے تھے۔
چند اور لوگوں نے بھی اس پیشکش کو قبول کر لیا مگر نجمہ وہاں چلی جاتی تو کیا کرتی…؟
اس نے سر توڑ کوشش کی، کئی لوگوں سے کہہ رکھا تھا، بالآخر اس سے کسی کے توسط سے معلوم ہوا کہ اسی علاقے میں ایک عمارت میں ایک کمرے کا فلیٹ خالی تھا مگر وہ اس کی قیمت سن کر صرف سوچ کر ہی رہ گئی کہ وہ بھی فلیٹ خرید سکتی ہے۔ کرایے بھی اتنے زیادہ تھے… خود کو وہ بے بسی کی انتہا پر پاتی تھی۔
جب تک وہ کسی باعزت طریقے سے رہنا نہیں شروع کر دیتی، اسے کرن کے لیے کسی رشتے کی توقع بھی نہ تھی۔ جن گھروں میں اس کا آنا جاناتھا، وہاں سے اسے جو دولت سب سے وافر مقدار میں ملی تھی وہ احساس کمتری کی تھی۔ وہ اس سے مالا مال تھی، اپنی کم مائیگی کا احساس بہت بڑھ گیا تھا۔
ض…ض…ض
 جاگتے میں انگلیوں کی پوروں پر حساب کرتی اور خوابوں میں دولت کے انبار میں کھیلتی۔
ایک گھر کا حصول جو اس کا اپنا ہو اور کرن کی شادی اس کے پاس دو ایسے اہم کام تھے جس میں سے اس کی عقل کو معلوم نہ تھا کہ زیادہ اہم کام کون سا ہے۔ کرن جوان تھی اورا س کی جوانی سنبھل بھی نہ پا رہی تھی اور گھر جس کی اسے کرن کے ہوتے ہوئے بھی ضرورت تھی اور کرن کے نہ ہوتے ہوئے بھی۔ اب دونوں میں سے ایک ہی کام ممکن تھا۔
بیٹی کے ساتھ جہیز اور سازو سامان کو جانے کیوں بیٹی کے بہتر مستقبل کی ضمانت سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ وہ دیکھتی تھی کہ بڑے گھروں میں جہیز دینے اور لینے کا رواج ختم ہو رہا تھا کیونکہ ان لوگوں کے گھر بھرے ہوئے ہوتے ہیں اور نیتیں بھی سیر۔
جن کے پاس دینے کی سکت ہے، ان سے لینے کی کسی کو طلب نہیں اور جن کے پاس دینے کو کچھ نہیں اسی طبقے کی لڑکیوں کے والدین سے سب سے زیادہ جہیز کی توقع کی جاتی ہے۔
ایک کمرے کا فلیٹ…جب سے نجمہ دیکھ کر آئی تھی، اس کی نظروں کے سامنے سے ہٹتا ہی نہ تھا۔ کمرے کے سامنے برآمدہ بھی تقریباً کمرا ہی تھا۔ ایک اسٹور تھا، ایک لاؤنج نما کمر ااور باتھ روم اور باورچی خانہ اگرچہ چھوٹے تھے مگر صاف ستھرے تھے۔
فلیٹ تیسری منزل پر تھا اور کافی ہوا دار تھا۔ بالکونی بھی کھلی تھی اورا س میں کیاریاں سی بنی ہوئی تھیں۔ نجمہ تو وہاں چشم تصور میں دھنیا، پودینا، ہری پیاز، لہسن، ہری مرچ اورپیاز کے پودے بھی لگا چکی تھی مگر سب سے بڑی رکاوٹ کرن کی شادی تھی۔
نجمہ کی ایک سہیلی نے کرن کے لیے رشتہ بتایا تھا۔ اسی کے گھر میں نجمہ، کرن کو لے کر گئی اور وہیں لڑکے اور لڑکے کی ماں اور بہنیں آئیں۔
لڑکا فاضل عمر کا تھا اور ایک بیوی بھگتا چکا تھا۔ شکل سے ہی نجمہ کو لڑکے کی ماں اور بہنیں لالچی سی نظر آئیں۔ لڑکے والے کھا ٹھونس کر سوچ کر بتانے کا کہہ کر اٹھے تو نجمہ نے شکریہ ادا کیا۔ ایسے لوگوں میں تو وہ رشتہ بھی نہ کرتی جو پہلی ملاقات میں ہی نجمہ سے پوچھ رہے تھے کہ وہ مہینے کا کتنا کما لیتی ہے اور یہ کہ یہ کام اس نے اپنی بیٹی کو بھی سکھایا تھا کہ نہیں؟ اپنی سہیلی کے گھر سے نکلتے وقت اس نے اس کا شکریہ بھی ادا کیا اورا س سے یہ بھی کہہ دیا کہ و ہ لڑکے والوں کے ہاں اس کی طرف سے انکار کہلا دے۔
دو ایک اور رشتے بھی آئے جو نجمہ کو پسند نہ آئے۔
ض…ض…ض
”اماں میں جانتی ہوں کہ میں بہت بری ہوں مگر میرے ساتھ نہ کر اماں۔“ کرن، ماں کے آگے گھگیائی۔
”کیسا؟ کیا کر رہی ہوں میں تمہارے ساتھ؟“
”اماں! خورشید کو کچھ وقت دے دو… وہ اپنی اماں کو منانے کی کوشش کر رہا ہے۔“
”اس کا مقصد تجھے بیوقوف بنانا اور تجھ سے کھیلنا تھا سو وہ کر چکا… آچکا اس کے گھر سے تیرا رشتہ اور میرے سامنے اس منحوس کا نام بھی مت لو…“ نجمہ غصے سے تنتنائی۔
”مگر اماں…“
”بند کرو اپنی بکواس…“نجمہ نے اسے مزید کچھ کہنے سے روک دیا۔
خالہ صغریٰ اپنی بیٹیوں کے ساتھ کہیں کرایے کے مکان میں چلی گئی تھیں۔ ان کی بیٹیاں کڑھائی کا کام کرتی تھیں۔ بڑی بیٹی اور دامادا پنے گھر جا چکے تھے۔ جب سے خالہ صغریٰ گئی تھیں، نجمہ نے کام پر جانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ ایک مہینہ تیزی سے گزر رہا تھا اور اس سے قبل ہی نجمہ کو کوئی فیصلہ بھی کرنا تھا لیکن مسئلہ تو یہ تھا کہ ابھی تک نہ گھر کا کوئی انتظام ہوا تھا نہ خورشید کے گھر سے رشتہ آیا تھا اور نہ ہی کوئی اور رشتہ پسند آیا تھا۔
اب تو نجمہ کو صرف یہی امید رہ گئی تھی کہ اللہ خود ہی اس کے لیے کوئی انتظام کرے گا۔ اس کی اپنی ساری کوششیں اور کاوشیں ناکام رہی تھیں۔ ”کاش خورشید کی ماں ہی مان جائے اور وہ صبح اٹھے کسی روز تو اسے یہ خوشخبری ملے کہ خورشید اپنی ماں اور باپ کے ساتھ اس کے دروازے پر کھڑے ہو۔“ اس نے تصور کیا۔ ”مگر دروازہ کون سا؟“ وہ متفکر ہوئی۔ اس کے اس عارضی خیمے کا بھلا کون سا دروازہ تھا اور یہ عارضی ٹھکانا بھی چند دن میں چھننے والا تھا۔ یہ سوچ کر وہ آبدیدہ ہو گئی۔ اس کی اپنی زندگی ذلتوں اور بے بسی کا سفر تھا اور اب اس کی بیٹی کا بھی نصیب کیا ویسا ہی ہوتا۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider