Episode 33 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 33 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

میرے چاند
میری کیفیت کو کوئی بھی نہیں سمجھ سکتا تھا، اسی لیے میں دونوں ہاتھوں سے سر پکڑے بیٹھا تھا۔ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے میرے سر کے عین وسط میں تیز کلہاڑے کا وار کر کے میرے پورے وجود کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہو، میں کشمکش میں مبتلا ہو گیا تھا مگر میرے پاس سوچنے کے لیے اتنا وقت نہیں تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد ہی میں ٹیکسی میں بیٹھا ائیرپورٹ کی طرف رواں دواں تھا کیونکہ پاپا کا میں اکلوتا بیٹا تھا جبکہ حسن کے میرے علاوہ بھی دبئی میں درجنوں دوست تھے۔
یہ الگ بات ہے کہ میں اس کا سب سے قریبی دوست تھا۔
میرے اور اس کے درمیان خصوصی حالات میں اسی طرح کی رکاوٹیں آ جاتی تھیں۔ ایک ماہ قبل ہی تو پاکستان میں اس کی شادی تھی۔ میں اپنی روانگی سے ایک دن قبل اپنے اپارٹمنٹ سے نکلتے ہوئے پھسل کر گرا اور ٹخنے میں موچ کے علاوہ ناک کی ہڈی بھی تڑوا بیٹھا، اسی لیے حسن کی شادی میں شرکت نہ کر سکا۔

(جاری ہے)

اب حسن دو دن قبل اپنی نوبیاہتا کو لے کر پاکستان سے لوٹا تھا، ایک دن انہیں آرام کے لیے دیا اور اسی روز میں نے اسے اور اس کی دلہن کو کھانے پر بلا رکھا تھا۔ ان کی اپنے گھر سے روانگی ہوئی ہو گی تو مجھے پاکستان سے مما کی کال آئی… پاپا کو شدید ہارٹ اٹیک ہوا تھا، فون ہاتھ میں پکڑ کر میں ایک لمحہ بھی نہیں سوچ پایا تھا کہ کسی انجان نمبر سے کال آئی کہ حسن کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے، وہ اور اس کی بیوی ہسپتال میں تھے اور یہ کہ حسن کی حالت کافی تشویشناک تھی۔
اسی لیے مجھے لگا کہ میرا وجود جیسے دو حصوں میں کٹ گیا اور دونوں حصے ایک جیسے درد میں مبتلا تھے۔ 
رضا کو فون کر کے میں نے حسن کے حادثے کا بتایا اور معین کو ائیرپورٹ پر کال کی تو اس نے بتایا کہ اگر میں فوری طور پر ائیرپورٹ پر پہنچ جاؤں تو وہ میرے پاکستان جانے کا انتظام کر سکتا ہے کیونکہ تین گھنٹے میں فلائٹ روانہ ہو رہی تھی۔ میرے پاس ائیر پورٹ کے راستے میں بھی اسپتال جانے کا وقت نہ تھا، بیگ میں دو جوڑے ٹھونسے اور ائیر پورٹ پہنچ گیا، معین کی کوششوں سے میں پاکستان کی طرف روانہ ہوا۔
کراچی ائیرپورٹ پر اترا اور امیگریشن کے مراحل سے گزر کر ائیرپورٹ سے باہر نکلا۔ مجھے لینے کوئی بھی نہیں آیا تھا کیونکہ میں نے کسی کو اپنے پہنچنے کی اطلاع ہی نہیں دی تھی۔ ٹیکسیوں کی لائن کی طرف پہنچا، ساتھ ہی فون پر مما کا نمبر ڈائل کر رہا تھا کہ ان سے پوچھوں پاپا کون سے اسپتال میں تھے کہ خوشبو کے خوش کن جھونکے نے چونکا دیا۔ ایک انتہائی پروقار خاتون، ہلکے گلابی جوڑے میں ملبوس، گہرے بھورے بال جو شاید کسی کلپ میں جکڑے ہوئے تھے لیکن کئی آوارہ لٹیں کلپ کی گرفت سے آزاد ہو کر ان کی گردن کے گرد بکھری ہوئی تھیں۔
چھوٹا سا بیگ پہیوں پر گھسیٹتی ہوئی وہ بالکل میرے پاس سے گزریں تو میں مبہوت ہو گیا۔
”سنیے…!“ جانے کیسے میرے منہ سے پھسل گیا۔ وہ چونکیں، ٹھٹکیں اور سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا، میں گڑبڑا گیا۔
”جی…؟“ سریلی سی گھنٹی بجی۔
”اوہ سوری۔“ میں سنبھلا۔ ”مجھے… مجھے غلط فہمی ہوئی ہے شاید…“ میں ہکلا گیا۔
انہوں نے سینے کی گہرائی سے سانس لی، گردن کے وسط میں ان کا بھورا تل اس سے متحرک ہوا اور میری دھڑکنیں جانے کیوں اتھل پتھل ہونے لگیں۔
”آپ…؟“ میں رک گیا۔ کیا کہتا؟ کیا میں پوچھتا کہ آپ پپی ہیں؟ کتنا گھٹیا سا لگتا… میں جھجک گیا۔
”بہت عامیانہ طریقہ ہے یہ…“ اتنا کہہ کر وہ میرے بہت سے سوالوں کو اپنے جوتے کی ہیل تلے مسل کر چلی گئیں۔ میں سٹپٹا گیا، فوراً ٹیکسی میں بیٹھا۔ مما نے فون اٹھا لیا تھا، ان سے اسپتال کا معلوم کیا اور ٹیکسی والے کو سمجھا کر سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں۔
###
میں قمر علی کوئی نوجوان نہیں بلکہ پینتیس سالہ ایسا مرد ہوں جس نے زندگی کو برتا بھی ہے اور اس کے اتار چڑھاؤ بھی دیکھے ہیں۔ چار بہنوں کا اکلوتا بھائی، ساری بہنیں بیاہ چکیں تو انہیں اور مما کو میری شادی کی فکر سوار ہو گئی اور دن رات وہ سب میرے لیے لڑکی دیکھنے کی مہم میں جت گئیں۔ پپا نے اکیلے میں مجھ سے پوچھا کہا گر مجھے کو ئی پسند ہو تو انہیں بتا دوں تاکہ وہ رائے عامہ کو میرے حق میں ہموار کر سکیں۔
ایسی کوئی بات نہ تھی اپنی تعلیم کے دوران میرا بہت سی لڑکیوں سے رابطہ اور دوستی تھی مگر کوئی اس طرح نہ جچی کہ میں زندگی بھر کے لیے اسے اپنے ساتھ نتھی کر لیتا۔
مما نے بھی میری پسند پوچھی مگر میں کچھ نہ کہہ سکا سوائے اس کے کہ مجھے میچور لڑکیاں اچھی لگتی ہیں۔ مما کا نکتہ تھا کہ شادی ہوتی ہے تو سب سمجھدار ہو جاتی ہیں اور خود کو شوہر کی پسند کے مطابق ڈھال لیتی ہیں۔
میرے لاشعور میں دبی بات کبھی میرے لبوں پر نہ آ سکی کہ مجھے بڑی عمر کی لڑکیاں اچھی لگتی ہیں، میں کسی سے بھی کہتا تو وہ اس کو بڑا عجیب سا سمجھتا، آپ بھی عجیب ہی سمجھیں گے مگر کچھ لوگوں کی فطرت میں اختلاف ہوتا ہے، خاندان میں بھی دیکھیں تو بعض خواتین، مردوں کی محفل میں بیٹھ کر سیاست اور دنیا کے اہم امور پر بات کرنا پسند کرتی ہیں بہ نسبت خواتین کی محفل میں بیٹھ کر فیشن اور گھریلو سیاست کی باتیں کرنے کے ۔
اسی طرح بعض نوجوان، لڑکیوں کی محفلوں میں لطف اندوز ہوتے ہیں، بعض اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ گھوم کر تو بعض نوجوان بزرگوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کی باتوں اور تجربات سے سیکھنا چاہتے ہیں۔
مجھے نہ کبھی لڑکیوں کی محفلیں بھائیں، نہ بزرگوں کی اور نہ ہی اپنے ہم عمروں کے ساتھ گھومنے پھرنے کا چسکا تھا۔ مجھے ہمیشہ وہاں بیٹھنا اچھا لگتا تھا جہاں مما بیٹھی ہوں۔
باتیں سننے سے مجھے کوئی غرض نہ تھی مجھے صرف اچھا لگتا تھا پپی آپا کا وہاں ہونا۔ پپی آپا اس وقت ہوں گی بیس برس کی جب میں نو دس برس کا تھا، وہ مجھے لپٹا کر ملتی تھیں ”میرا چاند“ کہہ کر اور جہاں وہ بیٹھتیں ، میں ان کے ساتھ جڑ کر بیٹھ جاتا تھا۔ ان کے وجود سے ایک مخصوص پیاری سی خوشبو اٹھتی تھی، ان کا لمس نرمی اور گداز لیے ہوئے ہوتا تھا، وہ سارا وقت میرا خیال کرتیں، کھلاتی پلاتی تھیں اور اکثر میں ان کی گود میں سر رکھ کر سو جاتا تھا۔
لیٹتا تو میرا مرکز نگاہ ان کی گردن کا وہ تل ہوتا جو باتیں کرتے اور کھاتے پیتے ہوئے مسلسل حرکت میں رہتا تھا۔
پپی آیا، مما کی کزن تھیں اور ہمارے ہاں ان کا اور ان کے ہاں ہمارا بہت آنا جانا تھا۔ میں اس بالی عمر میں ان کے عشق میں مبتلا ہو گیا تھا، اتنا کہ میرا وجود ان کی طرف کھنچتا تھا۔ چند دن ان سے ملاقات نہ ہوتی تو زندگی میں کچھ کمی سی محسوس ہوتی تھی پھر پپی آپا کی شادی کا ہنگامہ اٹھا تو میں چڑچڑا سا ہو گیا کیونکہ وہ مصروف ہو گئی تھیں۔
ان کی شادی کے روز میں بخار میں پھنک رہا تھا۔ انہیں دلہن بنے ہوئے بھی نہ دیکھ سکا۔ ان کی رخصتی کے وقت باقی سب تو سسکیوں سے رو رہے تھے مگر میں اس ضدی بچے کی طرح رو رہا تھا جس سے اس کا کھلونا چھن گیا ہو۔
”کیوں رو رہے ہو قمر؟“ مما نے پوچھا۔
”پپی آپی…!“ میں گلا پھاڑ کر چلایا۔ ”کیوں چلی گئی ہیں…؟“
”ان کی شادی ہو گئی ہے جان۔
“ مما نے بتایا۔ ”اس لیے اب وہ اپنے شوہر کے پاس رہیں گی امریکا میں۔“
”کیوں ہوئی ہے ان کی شادی…؟ انہیں میرے پاس رہنے دیں…“ میں نے رو کر ضد کی۔
”تم نے دیر سے بتایا بیٹا ورنہ پپی کی شادی تمہارے ساتھ ہی کر دیتے تاکہ وہ تمہارے پاس ہی رہتیں۔“ نانو نے کہا تو سب خواتین کا فلک شگاف قہقہہ بلند ہوا۔ مجھے اندازہ تھا کہ وہ میرا مذاق اڑا رہی ہیں مگر مجھے اس بالی عمر میں بھی یقین تھا کہ تھوڑے دنوں میں، میں پپی آپی کے بغیر مر جاؤں گا۔
اپنی اس کیفیت کو میں کسی کے آگے بیان بھی نہیں کر سکتا تھا، اسی لیے اس راز کو میں نے اپنے دل کی گہرائیوں میں دفن کر لیا لیکن اس روز کے بعد میرے اندر تبدیلی واقع ہوئی تھی، میں اندر ہی اندر ہجر کی آگ میں سلگنے لگا۔ ایسے وقت میں، میں نے اپنی کتابوں میں پناہ ڈھونڈی اور ہر وقت پڑھائی میں مصروف رہنے لگا۔
پپی آپی امریکا چلی گئیں اور میں پڑھائی کے سلسلے میں اے لیول کرنے کے بعد آسٹریلیا چلا گیا اور ڈگری لے کر لوٹا تو بہنیں اور اماں میری شادی کی تیاریاں کیے بیٹھی تھیں۔
جونہی میں نے نوکری شروع کی لڑکی کی تلاش شدومد سے جاری ہو گئی اور قرعہ مائرہ کے نام نکل آیا جو کہ بڑی آپا کی نند کی بیٹی تھی۔ اکلوتی، خوبصورت اور اسمارٹ۔ ابھی اے لیول کر کے فارغ ہوئی تھی۔ میں نے تھوڑا احتجاج تو کیا کہ وہ بہت کم عمر تھی جبکہ مجھے کم عمر لڑکیاں اچھی نہیں لگتی تھیں مگر میرا یہ احتجاج کثرت رائے سے رد کر دیا گیا۔ مائرہ اس وقت انیس سال کی تھی اور میں اس وقت ستائیس برس کا۔
مما کا خیال تھا کہ عمروں کا یہ تفادُت بہت زیادہ نہ تھا بلکہ کم عمر لڑکیاں اچھی بیویاں ثابت ہوتی ہیں کیونکہ وہ خام مٹی کی طرح ہوتی ہیں اور سسرال کے سانچے میں بہ آسانی ڈھل جاتی ہیں۔
مگر اسے بدقسمتی کہیے کہ میں شادی کے چھ ماہ میں ہی زندگی کی دوڑ میں تیز رفتاری سے بھاگتی ہوئی اس الھڑ اور شوخ سی لڑکی کے ساتھ تھکنے لگا تھا۔ میری طبیعت میں سنجیدگی اور ٹھہراؤ تھا جبکہ وہ میری طبیعت کو ہر وقت طنز کا نشانہ بنانے لگی۔
میں تو نبھانے کی جیسی تیسی کوشش کر ہی رہا تھا مگر اسے میری آدم بیزار عادت سے چڑ ہونے لگی۔ میں ایسا تو نہ تھا مگر جانے کیوں مجھے اس کی قربت سے وحشت ہوتی تھی۔ اس کے وجود میں جانے کون سی خوشبو اور لمس ڈھونڈتا تھا جو مل ہی نہ پاتا تھا، ہم دونوں ایک دوسرے سے غیر مطمئن تھے۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider