Episode 34 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 34 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

ٹیکسی اسپتال کے سامنے رکی تو میں اپنے خیالات سے واپس لوٹا۔ ڈرائیور کو رقم ادا کی اور خود استقبالیہ کاؤنٹر کی طرف بڑھا۔ آئی سی یو کے بارے میں پوچھا اور تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔ میرا بیگ میرے ہاتھ میں ہی تھا۔ کاریڈور میں ہی ڈرائیور کھڑا نظر آیا، اس نے آگے بڑھ کر میرے ہاتھ سے بیگ لیا اور میں مما کے کھلے ہوئے بازوؤں میں سما گیا۔ مما کے ساتھ ہی کاریڈور میں جیسے میلہ لگا ہوا تھا، ساری بہنیں، ان کے شوہر اور ان کے بچے سبھی موجود تھے۔
سب سے باری باری ملا اور سب کے ساتھ ہی ان چرمی صوفوں پر بیٹھ گیا کیونکہ پاپا کے کمرے کے باہر بورڈا ٓویزاں تھا جس پر لکھا تھا کہ ملاقاتیوں کی اجازت نہیں۔
مما نے بتایا کہ پاپا کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ رات گہری ہونے لگی تو سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے کی تیاری کرنے لگے۔

(جاری ہے)

میں ڈاکٹر کی اجازت سے پاپا سے ملکر آیا تھا، وہ بہتر نظر آ رہے تھے۔

تب میں نے سب سے کہا کہ وہ ہمارے گھر چلیں لیکن ربیعہ آپا کے اصرار پر ہم سب ان کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ میں اور مما ایک گاڑی میں تھے، میں نے انہیں حسن کے حادثے کے متعلق بتایا اور پھر مختلف دوستوں کو کال کرتا رہا کہ حسن کی خیریت پوچھوں مگر کسی سے رابطہ نہ ہوا۔ اسپتال کے جس نمبر سے مجھے صبح کال آئی تھی اس نمبر پر بھی فون کیا تو وہاں پر ایکسچینج سے مجھ سے اپنا مطلوبہ ایکسٹینشن نمبر ڈائل کرنے کو کہا گیا جو کہ ظاہر ہے کہ مجھے معلوم نہ تھا، اکتا کر میں نے فون بند کر دیا۔
ربیعہ آپا کے گھر کے لاؤنج میں داخل ہوئے تو مجھے مائرہ کو وہاں بیٹھے ہوئے دیکھ کر شاک لگا۔ کتنے عرصے کے بعد اس سے ملاقات ہوئی تھی، اس وقت میں پینتیس برس کا ہو چکا تھا اور وہ اس عمر میں جس عمر میں میری اس سے شادی ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ چھوٹے چھوٹ دو گل تھوتھنے سے جڑواں بیٹے تھے، شاید دو تین برس کے ہوں گے۔ میں سوچتا رہ گیا اور اس نے سوال کیا۔
”کیسے ہو قمر؟“ مجھے تھوڑی سی بُردبار لگی۔
”ہوں۔“ میں چونکا۔ ”تم کیسی ہو؟“ میکانکی سے انداز میں، میں نے سوال کیا۔
”بہت خوش…“ اس نے کہا۔ ”سعد بہت اچھے ہیں اور یہ دونوں عبدالکریم اور عبدالرحیم میری زندگی میں میرے لیے بہترین تحفہ…“
وہ یہ سب کہنے میں حق بجانب تھی کیونکہ میں نے اسے اس حق سے محروم رکھا تھا اور اسی بات پر اس نے مجھ سے خلع لی تھی۔
اس کا کہنا تھا کہ اس میں قابل ہی نہیں تھا جبکہ میں حقیقت جانتا تھا، اس نے اس بات کو وجہٴ اختلاف بنایا اور یہ میرے حق میں تھا اس لیے خاموش رہا۔ اصل میں، میں اسے اتنا ذمے دار نہیں سمجھتا تھا کہ وہ میرے بچوں کی اچھی پرورش کر سکے گی۔
”بہت خوشی ہوئی تم سے مل کر۔“ میں نے آگے بڑھ کر بچوں کے گال تھپکے جو بڑی تمیز سے اپنا اپنا کھانا کھا رہے تھے۔
”کیوں…؟ کیوں خوشی ہوئی تمہیں؟“ اس نے ابروا چکا کر پوچھا۔
”کیونکہ تم اپنی زندگی میں خوش ہو۔ تمہیں وہ سب کچھ مل گیا جو میں نہیں دے سکتا تھا۔“ میں نے مسکرا کر کہا۔
”اور تم؟“ اس نے پوچھا۔ ”ابھی تک یونہی گھوم رہے ہو؟“
”ہاں… تمہارے جیسی اچھی کوئی ملی جو نہیں۔“ میں نے ہنس کر کہا۔
”مائرہ…!“ ئٴآپا کی آواز آئی۔
”آئی ممانی جان…“ وہ ربیعہ آپی کے ساتھ کچن میں مدد کروانے کو لپکی۔ میں اس کے بچوں کو دیکھ رہا تھا جو بڑے سلجھے ہوئے لگ رہے تھے۔ مائرہ نے ان کی تربیت اچھی کی تھی۔ مجھے اپنے اندازے غلط ہونے کا یقین ہوا مگر اسے خوش دیکھ کر مجھے واقعی خوشی ہوئی تھی۔ کسی پچھتاوے کا شائبہ تک نہ تھا۔ میں اسے کیسے خوش رکھ سکتا تھا جب میرے سب مفروضے اس کی بابت منفی تھے۔
ہماری زندگی کی گاڑی دو سال تک اکٹھے گھسٹتی رہی۔ یہاں تک کہ مائرہ نے مجھے اس فیصلے سے آگاہ کر دیا کہ وہ مجھ سے خلع چاہتی ہے۔ سارے معاملات خوش اسلوبی سے طے پا گئے تھے، پڑھے لکھے لوگوں کا خاندان تھا اس لیے اِس بات پر کوئی ہاہاکار نہ مچی۔ ظاہر ہے جب میاں بیوی آپس میں خوش نہ ہوں تو اردگرد کے لوگ شادی قائم رکھنے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتے۔
کچھ عرصے کے بعد ہی مائرہ نے اپنے کلاس فیلو سعد سے عقدِ ثانی کر لیا تھا اور مجھے اس روز اسے دیکھ کر اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ خوش تھی۔ اس کا چہرہ اس کے اندرونی اطمینان کا عکاس تھا۔
”مگر میں نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی تھی؟ چھ سال سے میں دبئی میں تھا اور بہت اچھی ملازمت کر رہا تھا، مما اور بہنیں کہہ کہہ کر تھک چکی تھیں۔ کیا مجھے واقعی مائرہ جیسی لڑکی کی تلاش تھی؟“ میں نے خود سے پوچھا۔
###
دو دن کے بعد ڈاکٹروں نے پاپا کو گھر آنے کی اجازت دے دی تھی۔ یہ دو دن میں نے اور مما نے تقریباً چوبیس گھنٹے گھر اور اسپتال میں اکٹھے گزارے تھے، ہم نے بہت سی باتیں کی تھیں۔ اس روز بھی ہم اسپتال کے کاریڈور کے ساتھ ویٹنگ روم میں چائے پی رہے تھے جب مما نے پھر میری شادی کے حوالے سے بات چھیڑ دی۔ وہ چاہتی تھیں کہ میری شادی ہو، ان کے پوتے پوتیاں آئیں اور سب سے بڑھ کر تو میرا خیال رکھنے والی کوئی ہو۔
”ماں، ماں ہوتی ہے بیٹا اور بیوی اور طرح سے خیال رکھتی ہے۔ جسمانی اور ذہنی سکون ملتا ہے اس کے وجود سے۔ اللہ نے اس میں شوہروں کے لیے راحت رکھتی ہے۔“ مما نے کہا۔
”میں سکون میں ہوں مما اور آرام سے بھی…“ میں نے کہا۔
”لیکن بیٹا تم ایک غیر فطری زندگی گزار رہے ہو…“ مما کے لہجے میں ناراضی تھی۔ ”اللہ کو بھی یہ ناپسند ہے یا تو کوئی مسئلہ ہو تمہارے ساتھ یا تم خرچہ نہیں اٹھا سکتے اپنے بیوی بچوں کا…“
”وہ سب تو ٹھیک ہے مما… لیکن میرا دل ہی نہیں چاہتا۔
“ میں نے بودا سا جواز گھڑا۔
”تو کیا میں یہ سمجھوں کہ خلع کے لیے مائرہ نے جو جواز تراشا تھا وہ درست تھا؟“ مما کے انداز میں ہچکچاہٹ تھی۔
”نہیں مما…“ میں نے شرمندہ سے لہجے میں کہا۔ ”میں خود ہی بچے نہیں چاہتا تھا۔“
مما نے نظر اٹھا کر میری طرف دیکھا، شاید وہ میرے لہجے میں سچائی کھوجنا چاہ رہی تھیں۔
”تم سچ کہہ رہے ہو؟“
”آپ کو مجھ پر یقین نہیں ہے؟“ میں نے ان کی آنکھوں میں ڈالیں۔
”کاش میں نے پہلے کھل کر تم سے بات کر لی ہوتی…“ مما نے آزردگی سے کہا۔ ”میں تو اتنے سال تک وہی سچ سمجھتی رہی جو مائرہ نے کہا اور تمہارے پاپا کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہے تو ہمیں کسی اور لڑکی کی زندگی خراب کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ہوں…“ مما نے ایک طویل اور گہری سانس لی۔ ”اب میں تمہارا کوئی بہانہ نہیں سننے والی۔ بہتر یہی ہوتا کہ میں نے آٹھ برس پہلے تم سے کھل کر بات کر لی ہوتی۔
“ وہ اس وقت کا حوالہ دے رہی تھیں جب مائرہ سے میرے اختلافات شروع ہوئے تھے۔ ”اب تمہاری آزادی کا دور ختم ہوا… بہتر ہے کہ تم خود ہی بتا دو کہ کس کی خاطر تم نے مائرہ کو چھوڑا؟“
”مما…!“ میں نے حیرت سے کہا۔ ”یہ فاؤل ہے، ایسی بات نہیں… نہ تب تھی نہ اب ہے۔“
”اب تم پینتیس برس کے ہو چکے ہو، خاصے میچور اور سمجھدار ہو، بہتر ہے کہ اپنے لیے شریک حیات خود چن لو، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
“ مما نے مجھے اپنے ساتھ لگایا۔ میں ان کی گود میں لیٹ گیا، میری نظر مما کی گردن پر تھی، بات کرتے ہوئے ان کی گردن کی جلد حرکت کر رہی تھی اگر ان کی گردن پر تل ہوتا توہ اسی طرح متحرک ہوتا جس طرح پپی آپا…
”مما پپی آپا کہاں ہوتی ہیں اور ان کا اصل نام کیا تھا؟“ یکدم میں یہ کہتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گیا۔
”کیا؟“ مما حیرت سے چلائیں۔
”دماغ ٹھیک ہے تمہارا۔ کیا تم اب تک یہی سوچ رہے ہو کہ تم پپی سے شادی کرو گے؟“
###
پاپا گھر آ چکے تھے اور مجھے اسی روز شام کو فون آیا تھا رضا کا کہ میرا پیارا دوست حسن اب اس دنیا میں نہیں رہا تھا… میں تو یہ خبر سن کر جیسے خود بھی مر ہی گیا تھا۔ حسن تو اسی روز رات کو زیادہ خون بہہ جانے کے باعث انتقال کر گیا تھا اور اس کی بیوی ابھی تک اسپتال میں تھی۔
میں نے پاپا اور مما سے اجازت لی اور اگلی فلائٹ سے بکنگ کرا کے دبئی کے لیے روانہ ہوا۔
جہاز کی فرسٹ کلاس میں اپنی نشست سنبھال کر میں نے کوٹ اتار کر ائیرہوسٹس کے حوالے کیا اور اسے کہا کہ مجھے کمبل دے دیں، میں یہ سفر بغیر کسی مداخلت کے کرنا چاہتا تھا، کوشش کرتا کہ سو جاؤں تاکہ دل پر چھائی غم کی کیفیت ذرا مدھم ہو۔ اتنا کاری زخم تھا کہ درد برداشت نہیں ہو رہا تھا۔
میں نے جوتے اتار کر ٹانگیں لمبی کر لیں۔ جہاز فضا میں بلند ہوا تو میں نے اپنی نشست کو پیچھے کی طرف آرام دہ پوزیشن میں کیا اور آنکھیں موند لیں۔ میری آنکھوں میں برداشت کرنے کی کوشش میں سنگریزے سے چبھ رہے تھے۔
”سر آپ ٹھیک ہیں؟“ پیاری سی شکل والی ائیرہوسٹس کے لہجے میں تشویش تھی۔
”ہاں۔“ میں چونکا اور مجھے اندازہ ہوا کہ کوئی آنسو میری آنکھ کو داغِ مفارقت دے کر گالوں تک لڑھکا تھا۔
میں جیب سے رومال نکالنے ہی والا تھا کہ اس نے ٹشو پیپر میری طرف بڑھایا۔ میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے اس سے ٹشو پیپر لے کر آنکھ کا گوشہ صاف کیا۔ ”میرا سمجھو کہ ایک کندھا ٹوٹ گیا ہے شہلا!“ میں نے اس کا نام اس کے سینے پر آویزاں چھوٹی سی تختی پر دیکھا۔
”آپ کا بھائی سر؟“ میں اس کے ذہانت سے بھرپور سوال پر حیران ہوا۔
”میرا کوئی بھائی نہیں ہے مگر اسے میرا بھائی ہی سمجھو…“ حسن کا تصور آتے ہی میرے آنسو قطاردر قطار بہنے لگے۔
میں نے اپنا بازو اپنی آنکھوں کے آگے رکھ لیا۔
”سر آپ ریلیکس کریں۔“ شہلا کے انداز میں پیشہ وارانہ ہمدردی کا رنگ تھا۔“ آپ پینے کے لیے کچھ لیں گے سر؟ کولڈ ڈرنک یا چائے؟“
”نو تھینکس!“ میں نے کہا۔ ”میں ٹھیک ہوں۔“ اس وقت مجھے صرف تنہائی کی ضرورت تھی۔ میں آنکھیں بند کر کے اپنی سوچوں کے دھارے کا رخ بدلنے لگا۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider