Episode 36 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 36 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

رضا نے بتایا کہ سب دوستوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ حسن کے انشورنس، گھر اور گاڑی کی رقم کو اس کی بیوہ اور اس کے والدین میں برابر تقسیم کر دیا جائے گا۔ حسن کے والدین نے تو انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ حسن کی شادی پر بھی زیادہ خوش نہیں تھے اور نہ ہی اس کی تکفین و تدفین دبئی میں ہونے پر مگر ہم دوست یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کی بہو واپس جائے گی تو ان کے دل میں یقینا نرم گوشہ پیدا ہو جائے گا۔
رضا کی بیگم نے بتایا کہ حسن کی بیوہ مجھ سے ملنا چاہتی تھی، اسے مجھ سے کچھ اہم باتیں کرنا تھیں جن کے بارے میں رضا یا اس کی بیگم کو علم نہ تھا۔
”مگر میں وہاں اکیلا کیسے جاؤں گا، وہ گھر پر تنہا ہو گی اور عدت میں بھی ہے۔“ میں نے تذبذب سے رضا سے کہا۔
”اس کی عدت تو ختم ہو چکی ہے، اس کا ابارشن ہوتے ہی…“ رضا نے کہا۔

(جاری ہے)

”وہ گھر پر اکیلی نہیں ہوتی، اس کے پاس ایک فلپائنی ملازمہ ہے کل وقتی اور نرس بھی دن رات اس کے پاس ہوتی ہیں اگر تمہیں پھر بھی اعتراض ہو تو میری بیگم تمہارے آنے سے قبل وہاں آ جائیں گی۔

”نہیں، نہیں، ٹھیک ہے یار۔ بھابھی نے بچوں کو بھی سنبھالنا ہوتا ہے۔“ میں نے فوراً کہا۔ ”میں چلا جاؤں گا کسی وقت بلکہ آج ہی چلا جاؤں گا۔“
رضا اور بھابھی کافی پی کر روانہ ہوئے تو میں نے حسن کے گھر کے نمبر پر کال کر کے اس کی ملازمہ سے اپنا تعارف کروایا اور اسے بتایا کہ میں شام کو آؤں گا۔
###
حسن کے گھر کے باہر کھڑے ہو کر اطلاعی گھنٹی بجاتے ہوئے میرا دل بھربھر کر آ رہا تھا۔
میں جیسے فضا میں معلق ہو گیا۔ ”میں وہاں کیوں کھڑا تھا۔“ مجھے یاد ہی نہیں رہا تھا، ملازمہ نے دروازہ کھولا تو میں چونکا۔ میں نے اسے اپنا تعارف کروایا۔
”آئیے تشریف لائیے۔“اس نے ایک طرف ہٹ کر مجھے اندر جانے کا راستہ دیا، یہ گھر میرا دیکھا بھالا تھا۔ میں نے خود ہی لاؤنج کی طرف قدم بڑھائے لیکن اندر داخل ہوتے ہی ٹھٹک گیا۔ حسن کی بیوہ ایک صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی۔
سر جھکائے، اپنی گود پر نگاہیں مرکوز کیے اور ایک بڑی سی براؤن چادر میں اپنا پورا وجود چھپائے ہوئے۔
”السلام علیکم۔“ میں نے کھڑے کھڑے کہا۔
”وعلیکم السلام۔“ آہستگی سے جواب آیا۔
 ”بیٹھیے…“
میں ایک صوفے پر بیٹھ گیا۔ یہ دونوں صوفے ایک ہی رو میں تھے، میں دائیں طرف مڑ کر دیکھتاتو وہ نظر آتی مگر مجھے اسے دیکھنا نہیں تھا، میں صرف اس کی بات سننے کے لیے آیا تھا۔
ملازمہ ٹرے میں دو گلاس جوس لے کر آئی اور ایک گلاس مجھے تھما کر دوسرا اس نے میری میزبان کے سامنے رکھ دیا۔
”میرا نام مریم ہے۔“ اس نے اپنا تعارف کروایا۔ حسن اس کا ذکر ہمیشہ مومی کہہ کر کرتا تھا۔
”میری مما آپ سے ملنا چاہتی تھیں لیکن اتفاق سے کل آپ مصروف تھے، ان کا ویزا ہی اتنا تھا۔ اس لیے وہ لوٹ گئیں۔“
”مجھے خود بھی بہت افسوس ہے کہ کل مجھے اپنی کسی اچانک مصروفیت کے باعث نکلنا مشکل ہو گیا اور میں اس سعادت سے محروم رہ گیا۔
“ میں نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
”قمر صاحب۔“ وہ پھر گویا ہوئی۔ ”حسن آپ کا ذکر ہمیشہ بہت اچھے انداز میں کرتے تھے۔“
”وہ خود بھی بہت اچھا انسان تھا، میرے لیے بھائیوں جیسا…“ حسن کے ذکر کے ساتھ ”تھا“ کا لفظ بولتے ہوئے میری آواز بھرا گئی۔
”وہ بھی آپ کو اپنے بھائیوں سے بڑھ کر چاہتے تھے اور اس روز جب ہم گھر سے نکل رہے تھے تو بھی مجھ سے یہی کہہ رہے تھے کہ وہ آپ سے اپنے بھائیوں سے بڑھ کر توقعات رکھتے تھے۔
“ مریم کی آواز بھرا رہی تھی، اس کے لیے بولنا مشکل ہو رہا تھا۔ ”مجھے کہہ رہے تھے کہ کبھی کسی مشکل میں پڑ جاؤ تو قمر کو بلا جھجک پکارنا… اس لیے میں پاکستان جانے سے قبل ایک دفعہ آپ سے اپنی مشکل شیئر کرنا چاہتی تھی۔“
”اللہ کرے میں آپ کی توقعات پر پورا اتروں۔ حسن کی روح سے شرمساری نہ ہو۔“ میں نے پورے عزم سے کہا۔ ”آپ بلا جھجک اپنا مسئلہ مجھ سے کہیں، میرے اور آپ کے درمیان ہونے والی گفتگو آپ جس حد تک چاہیں گی صیغہٴ راز میں رہے گی۔
” اس کا انحصار تو آپ پر ہی ہے کہ آپ کس بات کو کتنا اور کس طرح پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں۔“ اس کے انداز میں پراسراریت تھی۔
”کہیے، میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں؟“ میں نے اسی طرح نظر جھکائے ہوئے کہا۔
”قمر صاحب! اگر میں لوٹ کر پاکستان جاؤں تو میری جان کو خطرہ ہے، وہ لوگ میرے خون کے پیاسے ہیں۔“ اس نے آہستگی سے کہا۔
”کون لوگ…؟“ میں نے تعجب سے کہا۔
”میرے سسرال والے بھی اور میرے ددھیال والے بھی…“ اس انکشاف پر میں چونک گیا۔
”ان کی آپ سے کیا دشمنی ہے؟“ میں نے سوال کیا۔ ”وجہ تنازع میرا مطلب ہے۔“
”دولت سے بڑی وجہ کیا ہو سکتی ہے۔“ اس نے گہری سانس لے کر کہا۔ ”یہی دولت تھی جو میرے باپ کے قتل کا موجب بنی، میں باپ کی اکلوتی وارث تھی، وہ میری جان کے بھی درپے تھے اس لیے میری ماں نے مجھے یوں پالا جیسے مرغی اپنے چوزے اپنے پروں تلے چھپا کر پالتی ہے۔
”لیکن حسن بھی تو آپ کے ددھیال کا رشتے دار تھا اور آپ نے اس سے شادی بھی کی تھی۔“ میں پوچھے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ”اس وقت آپ کو قتل کیوں نہیں کیا گیا؟“
”حسن میری ماں سے چوری چھپے ملتا تھا کیونکہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ ہماری شادی بھی اس کے گھر والوں کی رضا مندی کے بغیر ہی ہوئی تھی۔ واپس دبئی پہنچ کر حسن نے اسی دن کال کی تھی اور اس سے اگلے ہی دن حسن…“ وہ سسکی۔
”اس کی زندگی نے وفا نہ کی…“
”ایکسیڈنٹ کیسے ہوا تھا؟“ میں یکدم چونکا۔
”گاڑی کے بریک کام نہیں کر پائے اور گاڑی سامنے سے آنے والی لین میں چلی گئی زیادہ رفتار کی وجہ سے۔“ مریم نے وضاحت کی تو میں یہ شک کیے بغیر نہ رہ سکا کہ حسن کی گاڑی کے بریک فیل ہو جانا عام سی بات نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ اس نے نئی گاڑی تھوڑے عرصے قبل ہی لی تھی۔
”اب آپ کیا چاہتی ہیں؟ کیا آپ یہاں کا ویزا بڑھانا چاہتی ہیں، مستقل یہاں رہنے کا سوچ رہی ہیں…؟“ میں نے سوال کیا۔
”اگر ممکن ہو تو…“ اس نے مختصر سا جواب دیا۔
”لیکن یہاں تو ویزا ملنا مشکل ہے۔ کافی سختی ہے جس دن حکم مل گیا اور اسپتال سے کلیئرنس اس کے بعد ایک دن بھی فالتو آپ یہاں نہیں رہ سکیں گی۔“ میں نے اسے سمجھایا۔
”ایک صورت ہے…“ ڈوبتی ابھرتی سی آواز میں اس نے کہا۔ میں نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا، وہ اسی طرح سر جھکائے بیٹھی تھی اور اس کے چہرے کا صرف نچلا حصہ غیر واضح سا نظر آ رہا تھا۔ ”آپ مجھ سے شادی کر لیں۔“ اس کی آواز میں ذرا بھی کپکپاہٹ نہ تھی۔
”کیا کہہ رہی ہیں آپ…؟“ میں غصے میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ ”ابھی تو حسن کو آنکھیں موندے دو ہفتے بھی نہیں ہوئے اور آپ نے ایسی فضول قسم کی بات سوچ لی۔
”میری عدت ہو چکی ہے…“ اس نے آہستگی سے کہا۔
”جانتا ہوں میں…“ میں بلند آواز سے بولا۔ ”نہ میں آپ کو جانتا ہوں نہ آپ مجھے، اپنے دوست کی قبر کی مٹی پر اپنے لیے سیج سجاؤں؟ اور کیوں؟ مجھے کیا مجبوری ہے…“
”میں آپ کو واقعی مجبور نہیں کر سکتی…“ اس کی آواز میں آنسوؤں کی نمی تھی شاید میں زیادہ ہی تلخ ہو گیا تھا۔ ”میں تو اپنی مجبوری کے ہاتھوں آپ کے آگے فریاد کر بیٹھی۔
اس مان کی وجہ سے جو حسن کو آپ پر تھا ورنہ آپ بتائیں کون سی عورت ہو گی جو اپنے شوہر کی حادثاتی موت کے بعد اپنے شوہر کے اس دوست سے شادی کی درخواست کرے گی جس کی اس نے شکل بھی نہ دیکھی ہو اور پہلی دفعہ اس سے مل رہی ہو اور ملی بھی کیا صرف اس کی آواز سے اس کا تعارف ہوا ہو۔“
”آئی ایم سوری۔“ میں واپس بیٹھ گیا۔ ”میں غصے میں جانے کیا بول بیٹھا۔
”مجھے شادی صرف مجبوراً کرنی ہے، بھلے یہ تعلق صرف کاغذی رہے اور اگر آپ کو کوئی اور مجبوری ہے، میرا مطلب ہے کہ مجھ سے کاغذی شادی سے آپ کی زندگی متاثر ہوتی ہو تو آپ مجھے ایسے آدمی کا پتا دے دیں جو میری مدد کر سکے۔“ وہ آہستگی سے بولی۔ ”میرا مطلب ہے کہ مجھ سے شادی کر سکے۔ چاہے وہ لولا ہو لنگڑا یا اندھا… کیونکہ مجھے تو مجبوری ہے۔
میں نے ایک گہری سانس لے کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کے لب تھوڑے سے نظر آ رہے تھے اور میرا اندازہ تھا کہ وہ کپکپا رہے ہوں گے کیونکہ مجھے اتنے فاصلے سے صاف نظر نہیں آ رہا تھا۔
ملازمہ چائے اور لوازمات لا کر ہم دونوں کو پیش کر گئی تھی، میں خاموشی سے چائے کی چسکیاں لینے لگا۔ ”پھر آپ میری مدد کر سکیں گے اس سلسلے میں؟“
”کسی دوسرے کو ڈھونڈنا اور اس کی ضمانت دینا تو میرے لیے مشکل ہے۔
“ میں نے ذرا توقف کیا۔ ”البتہ مجھے سوچنے کا وقت چاہیے۔“
”وقت کا ہی تو سارا مسئلہ ہے۔“ وہ تشویش سے بولی۔ ”کیا آپ کسی عہد یا بندھن کے پابند ہیں؟ مجھے تو حسن نے بتایا تھا کہ آپ کے ساتھ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے۔“
”جی ہاں، ٹھیک بتایا تھا آپ کو حسن نے۔ میری شادی ختم ہو گئی تھی۔ میری کچھ ذاتی وجہ تھی۔ اس کے بعد نہ فرصت ملی نہ مطلوبہ معیار پر کوئی پورا اترا…“ میں نے جانے کیوں اسے وضاحت دینا شروع کر دی تھی۔
”مگر اب میرا ذہن کسی طرف مائل ہو گیا ہے، مجھے کوئی پرانا قرض چکانا ہے۔“
”میں آپ سے آپ کی ذاتی زندگی کے حوالے سے کچھ نہیں پوچھوں گی مگر یہ میرا عہد ہے کہ جونہی مجھے کوئی اور راستہ نظر آیا میں خود آپ کے راستے سے ہٹ جاؤں گی۔“ اس نے فریاد لہجے میں کہا۔ ”آپ بھلے مجھے دیکھ لیں، مجھے آپ کو دیکھنے سے بھی کوئی غرض نہیں ہے، نہ کسی مرد سے جسمانی اور جذباتی تعلق رکھنے کی خواہش…“ وہ سسکی۔
”صرف اتنا عرصہ مجھے یہاں رہنا ہے جب تک میں اپنی مما اور پاپا کی جائیداد آہستہ آہستہ یہاں منتقل کر لوں… پھر شاید میں اس ملک سے ہی کہیں اور چلی جاؤں اور آپ کی زندگی سے بھی۔“
”ٹھیک ہے۔“ میں نے آہستگی سے کہا۔ ”میں کچھ عرصے کے لیے آپ کی مدد کرنے کے لیے تیار ہوں۔“ میں رکا۔ ”مگر ہمیشہ کے لیے مجھے اپنا پابند نہ سمجھیں اور جس قدر جلد ہو سکے…“
”آپ فکر نہ کریں۔“ اس نے میری بات کاٹی۔ ”آپ کا یہ مجھ پر اتنا بڑا احسان ہے کہ اس کے بدلے میں آپ کے کسی بھی کام آ سکوں تو سمجھوں گی کہ زندگی کا مقصد پورا ہو گیا۔“

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider