Episode 37 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 37 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

یوں چند قریبی دوستوں اور ان کی بیویوں کی موجودگی میں حسن کے گھر پر میرا نکاح صرف ایک سو درہم حق مہر کے عوض مریم مسعود سے ہو گیا۔ اس نے خود ہی حق مہر صرف علامتی رکھا تھا۔ اندر کی کہانی سے صرف ہم دونوں واقف تھے، دوستوں کو یہ بتایا کہ پاکستان میں مریم کے لیے حالات موافق نہ تھے۔ شام کی چائے پی کر یار دوست روانہ ہوئے اورا س کے اپارٹمنٹ میں صرف میں اور وہ رہ گئے تھے یا پھر باورچی خانے میں مصروف فلپائنی جینی۔

مریم میرے بالکل سامنے بیٹھی تھی، سر جھکائے میں نے سرسری نظر سے اسے دیکھا تھا، کیسی تھی مجھے اس سے غرض نہ تھی اور شاید اسے بھی اس بات سے غرض نہ تھی کہ میں کیسا تھا۔
”چلتا ہوں۔“ میں نے اپنی گاڑی کی چابی اٹھائی اور اس نے سوالیہ نظر، میں اُسی کی طرف دیکھ رہا تھا، گہری اور بڑی بڑی براؤن آنکھوں سے اس نے مجھے دیکھا تو میں سٹپٹا گیا۔

(جاری ہے)

اس کا چہرہ میک اپ کے تکلف سے بے نیاز تھا۔
”اپنے گھر…“ میں نے اس کے چہرے پر ثبت سوال کا جواب دیا۔
”اس طرح تو بات کھل جائے گی، جینی کیا سوچے گی اور آپ کے دوست؟“ اس کے لہجے میں زمانے کی باتوں کا ڈر تھا۔ ”آج آپ رک جاتے۔“
”میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ مجھے یوں پابند نہ کریں آپ۔“ میں نے ذرا درشتی سے کہا۔ ”اور کوئی کیا کہتا ہے اور کیا سوچتا ہے، اس کی مجھے پروا نہیں ہے۔
“ میں نے رک کر غور سے اس کا چہرہ دیکھا۔ ”عمر کیا ہے آپ کی ویسے؟“
”نکاح کے فارم پر لکھی تھی۔“ اس نے جواب دیا۔
”میں نے وہ فارم نہیں پڑھا۔ میں نے فوراً کہا۔
”اتنے سمجھدار ہو کر بھی بغیر پڑھے اتنے اہم کاغذ پر دستخط کر دیے آپ نے…!“ اس نے سادگی سے کہا۔
”آپ کو معلوم ہے کہ مجھے اس فارم کو پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہ تھی، ایک معاہدہ ہی تو ہے عارضی…“ میں نے لہجے میں سختی قائم رکھی۔
”اٹھارہ سال، دس ماہ…“ اس نے کہا تو میں ہکا بکا اس کا منہ دیکھنے لگا۔ مجھے پہلے ہی شک تھا کہ وہ کافی کم عمر تھی مگر اتنی کم عمر…
”آپ کو معلوم ہے کہ میری عمر کتنی ہے؟“ میں نے چیخ کر سوال کیا۔
”آہستہ بولیں۔“ اس نے سرگوشی کے انداز میں کہا۔ ”اور آپ مجھے تم کہہ سکتے ہیں کیونکہ آپ کی عمر مجھے معلوم ہے، پینتیس برس اور دو ماہ۔
”اور آپ نے میری تاریخ پیدائش اس نکاح کے فارم میں پڑھی تھی؟“ میں نے سوال کیا۔
”نہیں ، مجھے حسن نے پہلے سے ہی آپ کی عمر، آپ کی سالگرہ اور آپ کے بارے میں دیگر باتیں بتا رکھی تھیں۔“ ایسا کہتے ہوئے اس کے لہجے میں ملال سا اتر آیا تھا۔
”مریم! میرے لیے یہاں رکنا مشکل ہے۔ مجھے صبح کام پر جانا ہے۔ ایسا ہے کہ اپنے دوستوں سے بات کرنا میرا مسئلہ ہے۔
وہ اس بارے میں کسی تجسس میں مبتلا نہیں ہوں گے۔ رہی بات جینی کی تو اسے آپ خود ہی جو مناسب سمجھیں بتا دیں۔“ میں نے سپاٹ لہجے میں کہا۔ ”البتہ میرے پاس تین کمروں کا اپارٹمنٹ ہے، آپ اگر اس میں منتقل ہونا چاہیں تو…“ میں رکا۔ ”مجھے معلوم ہے کہ اس گھر سے حسن کی وجہ سے آپ کی جذباتی وابستگی ہو گی۔“
حسن کے ساتھ تو میں نے اس اپارٹمنٹ میں دو دن گزارے ہیں صرف… اور اس کی یادیں کسی جگہ یا مقام کی محتاج نہیں ہیں۔
“ مریم نے کہا۔ ”میں اپنے لیے باعث فخر سمجھوں گی اگر آپ مجھے اپنے اپارٹمنٹ میں رہنے کی اجازت دے دیں تو… کم از کم دیکھنے والوں کی نظر میں میری کوئی عزت تو ہو گی۔“ میں اسے خدا حافظ کہہ کر لوٹ آیا۔
مجھ سے بڑا بے وقوف کون ہو گا، واپسی پر میں سوچ رہا تھا۔ ٹھیک ہی کہہ رہی تھی وہ کہ میں نے بغیر دیکھے اس اہم معاہدے پر دستخط کر دیے تھے جس کی رو سے وہ شرعی طور پر میری شریک حیات بن گئی تھی۔
ایسی شریک حیات کا میں نے کب تصور کیا تھا، خود سے آدھی عمر کی… اور پھر میرے خیالوں پر تبسم کا تبسم بکھیرتا چہرہ آ گیا اور میں جانے کس بے دھیانی میں گاڑی چلاتا ہوا اپنے اپارٹمنٹ تک پہنچا، شکر ہے کہ راستے میں کوئی حادثہ نہیں ہوا۔
###
مریم کا میرے اپارٹمنٹ میں آنا ایسے ہی تھا جیسے میرے سامان میں کسی اور سامان کا اضافہ ہو گیا ہو۔
اس نے اپنے لیے میرے کمرے کے ساتھ والاکمرا منتخب کیا تھا، دونوں کمرے ایک لابی نما ایریا میں تھے اور دونوں کے دروازے آمنے سامنے کھلتے تھے۔ میں رات کو اپنا کمرا بند کر کے سوتا تھا جبکہ کبھی دیر سے لوٹنے پر یا نیند سے جاگ کر کمرے سے نکلتا تو مجھے اس کے کمرے کا دروازہ ہمیشہ وا ملتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میرا گھر اب مریم کے سلیقے کی تصویر بن چکا تھا۔
ہر چیز وقت اور ترتیب سے مل جاتی تھی۔ گھر کا پکا ہوا ذائقے دار کھانا، اس نے کبھی مجھ سے مطالبہ کیا، نہ میرے معمولات میں دخل اندازی کی۔ مجھے اس کے اس طرح رہنے سے زندگی میں سہولتیں میسر ہو گئی تھیں اور اب دل چاہنے لگا تھا کہ پروگرام بنا کر پاکستان جاؤں اور تبسم کو ڈھونڈوں۔ ان جیسی سمجھدار، میچور اور بُردبار عورت میری زندگی میں آ جاتی تو زندگی کے رنگ ڈھنگ ہی نرالے ہوتے۔
”مریم میری کالی جرابیں نہیں مل رہیں۔“ صبح صبح تیار ہوتے ہوئے میں نے باورچی خانے میں ناشتا بناتی ہوئی مریم کو آواز دی۔
”آئی ایم سو سوری۔“ وہ بھاگتی ہوئی آئی۔ ”میں نے اپنے کمرے میں رکھی تھیں رات کو، ابھی لاتی ہوں، رات کو آپ سو گئے تھے ، آپ کے کمرے کا دروازہ بند تھا اور صبح مجھے یاد نہیں رہا۔“ میں اس کمرے میں اس کے پیچھے پیچھے گیا۔
اس کے سفید بستر پر میری جرابیں تہ کی ہوئی رکھی تھیں، میں نے آگے بڑھ کر خود ہی اٹھالیں اور اس کوشش میں میرا بڑھا ہوا ہاتھ اس کے ہاتھ سے ٹکرا گیا۔ یہ پچھلے ایک ماہ میں میرا اور اس کا پہلا جسمانی تعلق ہوا تھا، غلطی سے اور بغیر کسی کوشش کے لیکن مجھے کچھ محسوس نہ ہوا تھا جبکہ مریم کھڑی کی کھڑی رہ گئی تھی۔
”ویری سوری…!“ میں نے معذرت کی۔
”وہ اچانک ہی…“ اس نے زخمی سی نظر سے میری طرف دیکھا۔
”ناشتا…؟“ میں نے فوراً بات بدلی۔
”جی بس تیار ہے ناشتا…“ اس نے پلٹ کر میرے پاس سے گزرتے ہوئے کہا۔ ”آپ آ جائیں تیار ہو کر۔“
ناشتا، کھانا سب کچھ میں اکیلے ہی کرتا تھا، مجھے ناشتا دے کر وہ چائے کا کپ لے کر لاؤنج میں صوفے پر بیٹھ جاتی اور ٹی وی دیکھتی رہتی۔ رات کا کھانا لگا کر وہ خود عشا کی نماز پڑھتی اور خود جانے وہ اس سے قبل کھا چکی ہوتی تھی یا اس کے بعد کھاتی تھی۔
مجھے اس کے معمولات کے بارے میں جاننے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ اس کی ضروریات کیا تھیں اور کس طرح پوری ہوتی تھیں اس کی بھی مجھے فکر نہ تھی۔ کچھ نہ کچھ کر لیتی ہو گی۔ میں یہی سوچتا تھا۔ میرا اس سے رشتہ قطعی کاغذی تھا۔
###
”میں کچھ دنوں کے لیے پاکستان جارہا ہوں، تم اکیلے رہ لو گی مریم؟“ میں نے چھٹی والے دن دوپہر کو اس سے کہا جب وہ ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھی شام کے پکانے کے لیے سبزی کاٹ رہی تھی۔
”میں ساتھ چلوں؟“ اس نے فہمائشی انداز میں کہا۔
”نہیں…!“ میں نے حتمی انداز میں کہا۔ ”میرا کوئی کام ہے اپنا اور یوں بھی میں نے مما اور پاپا کو اس کاغذی شادی کے بارے میں نہیں بتایا۔“
”میں کون سا انہیں شادی کے بارے میں بتانے جا رہی ہوں اگر آپ چاہیں تو میں ان سے مل لوں گی اگر نہیں چاہیں گے تو نہیں ملوں گی۔“ اس نے آہستگی یسے کہا۔
”نہیں، تمہارے جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے، میں تھوڑے دنوں میں آ جاؤں گا اور تم بھی میری غیر موجودگی میں اپنا مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کر لو۔“ میں نے سپاٹ انداز میں کہا۔
”اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنی مما کو بلا لوں اپنے پاس، کچھ دنوں کے لیے؟“ اس نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا۔
”جیسے تم مناسب سمجھو…!“ میں نے کندھے اچکائے۔
”آپ کے ہوتے ہوئے وہ آتیں اور آپ بھی ان سے مل لیتے۔“ مریم نے کہا۔ ”وہ آپ کی بہت احسان مندبھی ہیں۔“
”مریم میں نے تمہیں بہت دفعہ کہا ہے کہ اپنے اور میرے اس عارضی بندھن سے کسی بھی قسم کی توقع رکھو نہ اسے اس سے زیادہ اہمیت دو۔“ میں نے درشتی سے کہا۔
”جب تک میں آپ کے نکاح میں ہوں اور اس گھر میں آپ کی بیوی کی حیثیت سے رہ رہی ہوں، آپ کم از کم انسانیت کے ناتے یا رسم دنیا نبھانے کی خاطر ہی اس کاغذی رشتے کے حقوق کا خیال رکھا کریں۔
آپ نے تو کبھی مجھ سے میری خیریت تک نہیں پوچھی، کبھی یہ نہیں سوچا کہ زندہ لوگوں کی کچھ ضروریات ہوتی ہیں…“ اس نے شکوہ کناں انداز میں کہا۔
”بس اسی طرح کی باتوں سے ڈرتا تھا میں۔“ میں نے کہا۔ ”شکوے، شکایتیں، بھئی کوئی پابندی ہے تم پر تم جب چاہو اور جیسے چاہو جاؤ، شاپنگ کرو، گھومو پھرو، انجوائے کرو۔“ میں نے اسے گویا ہر قسم کی تفریح کی آزادی دے دی۔
”مجھے یہاں کا کچھ علم نہیں ہے قمر…!“ شاید پہلی دفعہ اس نے میرا نام لیا تھا، مجھے بہت عجیب سا لگا۔ ”شاپنگ… ہونہہ! میں تو اپنی ضرورت کی ذاتی چیز بھی نہیں لا سکتی۔“
”میں آپ کو کچھ رقم دے دیتا ہوں۔“ میں نے اپنی جیب سے بٹوا نکالا۔ ”آپ کو جو بھی شاپنگ کرنا ہے کر لیں۔“ وہ میرے چہرے کو غور سے دیکھتی رہی تھی۔
”میں شاپنگ پر جاؤں کس طرح؟“ اس نے سوال کیا۔
”کیا مطلب…؟ جیسے جاتے ہیں، اسی طرح جائیں آپ… ٹیکسی پر…“ میں نے حل بتایا۔
”قمر! مجھے اس گھر سے باہر دوسرے گھر کے دروازے کا بھی علم نہیں ہے۔ “ اس نے بے بسی سے کہا۔
”تو رضا کی بیوی کے ساتھ پروگرام بنا لیں۔“ میں نے دل میں ہلکی سی شرمندگی محسوس کی۔ میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا اس کی کیا ضروریات ہوں گی اور کس طرح پوری ہوتی ہوں گی۔
”میرا کسی سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔“ اس نے آہستگی سے کہا۔
”آئی ایم سوری، میں اپنے معمولات میں اتنا مصروف رہتا ہوں کہ سوچا ہی نہیں۔“ میں نے پھر معذرت کی۔ ”اگر آپ آج جانا چاہیں تو میں آپ کو لے چلتا ہوں۔“ میں نے کہا تو وہ کھل اٹھی۔ ”آپ تیار ہو جائیں… بلکہ ذرا ٹھیک سے تیار ہو جائیں، واپسی پر رضا کی طرف سے ہوتے ہوئے آئیں گے۔
”جی، میں جلدی سے سبزی چڑھا کر تیار ہوتی ہوں۔“ اس نے جوش سے کہا۔ ”میں آپ سے کچھ راستے وغیرہ بھی سمجھ لوں گی تاکہ آئندہ مسئلہ نہ ہو اور اپنے پیسے بھی نکلوا لوں گی۔
”سبزی رہنے دیں، ہم رات کا کھانا کہیں باہر ہی کھا لیں گے۔“ شوہرانہ جذبات سے نہیں بلکہ صرف اس شرمندگی کے باعث کہا کہ وہ میری غفلت اور کوتاہی کے باعث اس گھر میں ایک ایسی چیز کی طرح پڑی تھی جس کے نہ کوئی جذبات ہوتے ہیں، نہ خواہشات اور نہ ضروریات۔
”میں ٹھیک ہوں قمر۔“ اس کا یوں میرا نام لینا مجھے عجیب کشمکش میں مبتلا کرتا تھا۔ ”آپ میری وجہ سے خود تکلیف میں نہ ڈالیں اور سبزی تو اب کٹ چکی ہے اس لیے پکانا ہی ہو گی۔ میں جلدی تیار ہو جاتی ہو۔“ اس نے سبزی کی ٹوکری اٹھائی اور کچن کی طرف بڑھی۔ میں بے دھیانی سے ٹی وی دیکھ رہا تھا۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider