Episode 38 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 38 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

مریم نے اپنے انتہائی ذاتی استعمال کی کچھ چیزوں کے علاوہ گھر کے سودا سلف اور باورچی خانے کے استعمال کی چیزیں خریدیں۔ میں نے کہا بھی مگر اس نے اپنے لیے کوئی فالتو چیز نہ خریدی۔
”ہم ایک ڈنر سیٹ خرید سکتے ہیں، بارہ افراد والا؟“ اس نے مجھ سے پوچھا۔
”اگر کوئی ہمارے گھر میں آئے کھانے پر تو وہاں تو صرف چار لوگوں کے لیے برتن ہیں۔
“ اس نے وضاحت کی۔
”ہمارے گھر کون آ رہا ہے…“ میں نے سردمہری سے کہا۔ دل میں سوچا کہ یہ تو گھر کو زیادہ ہی اپنا گھر سمجھ بیٹھی ہے۔
”کوئی آ ہی جاتا ہے۔“ اس نے مایوسی سے کہا۔ ”چلیں، آپ نہیں چاہتے تو رہنے دیتے ہیں۔“
”لے لیں…!“ میں نے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری۔ ”اگر آپ چاہتی ہیں تو…!“
اس نے بے یقینی سے میری طرف دیکھااور مختلف سیٹ نکلوا نکلوا کر دیکھنے لگی۔

(جاری ہے)

ایسا کرتے ہوئے مجھے بڑی سمجھدار سی لگ رہی تھی۔ کسی سیٹ کا اسے رنگ پسند نہیں آتا تھا تو کسی کے ڈونگے کی شکل، کسی کی پلیٹ وزنی تھی تو کسی کے کپ کا سائز مناسب نہ تھا۔ آخر اس نے کاؤنٹر پر تین سیٹوں کے کچھ پیس نکلوا کر سیٹ کروائے اور میری طرف دیکھا۔
”بتائیں ان میں سے کون سا اچھا ہے؟“ اس نے صحیح بیویوں والے انداز میں سوال کیا۔
”جو آپ کو پسند ہے لے لیں۔
“ میں بیزار ہو رہا تھا۔ ”کافی دیر ہو چکی ہے۔“
”پسند تو آپ کو کرنا ہو گا۔“ اس نے آہستگی سے کہا۔ ”یہ سیٹ ہو گا تو آخر آپ کے گھر کے لیے ہی۔“ تب میں نے مجبوراً وہ سیاہ لائنوں والے سفید سیٹ کی طرف اشارہ کیا تو وہ مسکرا اٹھی۔ دکاندار اس ساری مشق کو بہ نظر غور دیکھ رہا تھا، کہنے لگا۔
”بلا کی مطابقت ہے آپ کی چوائس میں، میڈم کو بھی یہ سیٹ سب سے زیادہ پسند آیا ہے“
”مگر اس کی قیمت کافی زیادہ ہے قمر۔
“ تھی ناں عورت کہے بنا نہ رہ سکی۔ میں نے فوراً کریڈٹ کارڈدکاندار کی طرف بڑھایا۔
”اسے پیک کروا دیں۔“ سیٹ پیک کروا کر ہم شاپنگ مال سے باہر نکلے تو میں نے اس سے پوچھا کہ اگر اسے مزید کچھ شاپنگ کرنا ہو تو۔
”شاپنگ تو نہیں، آئس کریم کھانے کو دل چاہ رہا ہے۔“ اس کی فرمائش میں امید تھی اور ذرا سا خوف بھی۔ میں نے گاڑی ایک آئس کریم پارلر کے پاس جا کر روک دی۔
خاموشی سے بیٹھ کر ہم دونوں نے آئس کریم کھائی۔ میں اس کی فرمائش پوری کر کے اس طرح سکون محسوس کر رہا تھا جیسے میں یہ سب حسن کی آخری خواہش کی تکمیل میں کر رہا ہوں۔
”آپ کب جا رہے ہیں پاکستان؟“ گاڑی میں ہم بیٹھے رضا کے گھر کی طرف رواں تھے۔
”دیکھتا ہوں۔“ میں نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ ”ابھی چھٹی کاٹ کر آیا ہوں اور یوں بھی اس دفعہ مجھے زیادہ دنوں کے لیے جانا ہے۔
”کوئی پرانا قرض چکانے؟“ اس نے آہستگی سے کہا۔ ”شاید محبتوں کا…؟“
”اگلے ماہ کا پروگرام بناؤں گا…“ میں نے اس کے سوال کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھا تھا۔
”میں مما کو کال کر کے کہہ دوں کہ اپنا ویزا وغیرہ لگوا لیں؟“ اس نے سوال کیا۔ ”یوں بھی انہیں مجھ سے جائیداد کی منتقلی کے کاغذات پر دستخط کروانا ہیں۔“
”جیسے آپ کی مرضی…!“ میں نے مختصر سا جواب دیا۔
”اگر آپ بھی ایک دفعہ کال کر کے مما کو کہہ دیتے تو…!“ اس نے جھجک کر کہا۔
”ہمارے اس عارضی نکاح میں اس طرح کی کوئی شرائط نہیں ہیں۔“ میں نے اس کی طرف دیکھ کر سختی سے کہا۔ ”اور نہ ہی تم مجھ سے ایسی توقعات وابستہ کرو۔“ میں غصے میں تمیز کا دامن بھی ہاتھ سے چھوڑ بیٹھا تھا۔
”عارضی نکاح…؟“ اس نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا۔
”ایسا تو کچھ طے نہیں ہوا تھا۔ آپ چاہے دوسری شادی کر لیں، مجھے اپنے گھر میں بھی نہ رکھیں مگر مجھ سے جڑا اپنا نام رہنے دیں۔ میں نے کہا تھا کہ آپ کی زندگی میں کبھی رکاوٹ بنوں گی نہ کسی قسم کی مداخلت کروں گی۔“
”ہونہہ…!“ میں ذرا سنبھل گیا۔ ”ایک طرف آپ میرے گھر کا نظم و نسق سنبھالے ہوئے ہیں، گھر کی خریداری کر رہی ہیں اور دوسری طرف آپ کہتی ہیں کہ آپ کوئی مداخلت نہیں کریں گی؟“
”آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر مجھے بتائیں کہ آپ کے گھر میں میری حیثیت یا مداخلت کسی ملازمہ سے بڑھ کر ہے؟“ اس نے مجھ سے وہ سوال کیا جس کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔
”میرا خیال ہے کہ گھر چلتے ہیں، رضا کی طرف جانے کا موڈ نہیں رہا۔“ میں نے کہا۔
”کسی بینک کے باہر گاڑی روکیں تو میں مشین سے کچھ پیسے نکال لوں۔“ اس نے کہا۔
”آپ کو جتنی رقم کی ضرورت ہے آپ مجھ سے لے لیں۔“ میں نے اپنے درشت رویے کی تلافی کے طور پر پر اپنا بٹوا اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”بہت شکریہ…!“ اس نے جواباً کہا۔
”آپ کے پہلے ہی مجھ پر بہت احسانات ہیں۔“
”ناراض ہیں گویا آپ…؟“ میں مسکرایا۔
”ا سکا حق مجھے غالباً آپ کے نکاح نامے میں تفویض نہیں کیا۔“ اس نے طنزاً سے کہا تو بے ساختہ میرا قہقہہ نکل گیا۔
”چلیں، رضا کی طرف چلتے ہیں، میں اس سے پوچھ لوں گا کہ روٹھی ہوئی لڑکیوں کو کیسے منایا جاتا ہے۔ اس کا تجربہ مجھ سے زیادہ ہے اس لیے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
میں نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔
”اگرآپ کو رضا بھائی سے پوچھنا ہی ہے تو پھر روٹھی ہوئی لڑکیوں کا نہیں، روٹھی ہوئی بیوی کا پوچھیے گا۔“ اس نے اسی طرح منہ پھلائے ہوئے کہا۔
”کیسا عجیب لگتا ہے مریم، تمہارا اس طرح کہنا…“ میں نے پھر ٹون بدلی۔ ”ایک ایسے رشتے کا ذکر کرنا جسے میرے ذہن نے تسلیم نہیں کیا ہے۔“
”آپ کے ذہن میں جو بھی ہو مگر میرا ذہن آپ کو اپنا شوہر تسلیم کرتا ہے، جیسا بھی تعلق ہے جو بھی ہے…“وہ آہستگی سے بولی۔
”بیوی تو میں آپ کی ہوں چاہے آپ کا ذہن تسلیم نہ کرے۔“
گاڑی میں نے گھر کی طرف موڑ دی، رضا کی طرف جانے کا ارادہ پھر ملتوی کرتے ہوئے شاید اس روز قسمت میں گھر کی پکی ہوئی سبزی کھانا ہی لکھا تھا۔
###
کبھی کبھار اپنے گھر پر اس لڑکی کو دیکھ کر مجھے ترس بھی آتا ہے تھا کہ واقعی اس کہنے کے عین مطابق اس کی حیثیت اس گھر میں ملازمہ سے زیادہ نہیں تھی، ملازمہ بھی کل وقتی اور بلاتنخواہ۔
میں بھلا اس کو ان خاموش خدمات کے عوض کیا دے رہا تھا۔ اس نے میرے سامنے ہی مشین سے اپنے دو تین مختلف کارڈوں کی مدد سے کافی رقم نکلوائی تھی۔
حیرت ہوتی تھی خود پر کہ اس خوبصورت اور نوجوان لڑکی کو کہ جو شرعی طور پر بھی میری دسترس میں تھی اور گھر پر بھی ہمہ وقت میرے ساتھ تنہا ہوتی تھی، دیکھ کر میرے اندر کوئی جذبہ بیدار ہوتا تھا، نہ ہی طلب جاگتی تھی۔
کیا میں… اپنے ادھورے اور عجیب و غریب سوالوں کے میرے پاس جوابات نہ تھے۔ صرف یہ اندازہ ہوا تھا کہ میں اس سے بہت سختی سے اکثر پیش آتا تھا جو کہ مناسب نہ تھا۔ خود ہی میں نے اپنے اندر تبدیلی لانے کا سوچا۔
”آپ کو ڈر نہیں لگتا، آپ اپنے کمرے کا دروازے کھلا رکھ کر سوتی ہیں۔“ ہلکے پھلکے، موڈ میں، میں نے ایک شام چائے پیتے ہوئے اس سے پوچھا۔
وہ بھی وہیں بیٹھی چائے پی رہی تھی۔
”ڈر؟ کیسا اور کس سے۔“ اس نے حیرت سے آنکھیں پھیلا کر کہا۔
”بھئی آپ کے کمرے کا دروازہ کھلا ہو تو کوئی بھی آ سکتا ہے۔“ میں نے وضاحت کی۔
”بیرونی دروازہ اپارٹمنٹ کا بند ہوتا ہے اس لیے باہر سے کوئی نہیں آ سکتا۔“ اس نے چائے کا مگ دونوں ہاتھوں میں تھام رکھا تھا۔ ”اور جو گھر کے اندر ہے اس پر تو میں اپنے دروازے بند نہیں کر سکتی… کیا خیال ہے؟“ اس نے یوں میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ میں سٹپٹا گیا۔
”رات کے کھانے میں کیا پک رہا ہے؟“ میں نے ایک بالکل لاتعلق سی بات کی۔
”آپ کیا کھانا چاہتے ہیں؟“ اس نے سوال کے جواب میں کہا۔
”جو بھی پک جائے…“
”آپ بتایا کریں قمر جو آپ کا کھانے کا دل چاہیے، اپنے گھر پر اتنا تو حق آپ کا ہے ناں اور یوں بھی مجھے پسند ناپسند کا بالکل علم نہیں ہے اس لیے ہر روز کا مینیو بنانا بھی مسئلہ ہے۔
“ اس نے مجھ سے کہا۔
”اگر آپ کو یہ مسئلہ لگتا ہے تو نہ پکایا کریں، آخر اس سے پہلے بھی تو میں کھانا کھاتا ہی تھا کہیں نہ کہیں سے، اسی طرح کھا لیا کروں گا، اپنے لیے آپ دیکھ لیں کہ کیا پکانا ہے۔“ میں نے سادگی سے کہا۔
”میں تو یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ کو مجھ سے ایسی کیا چڑ ہے کہ میری ہر بات کے جواب میں کڑوا، کسیلا لہجہ اور طنز کی مار ہوتی ہے۔
“ اس کا لہجہ بھرایا ہوا تھا اور بڑی بڑی بھوری آنکھیں آنسوؤں سے جھیل سی بنی ہوئی تھیں۔
”ایسی کوئی چڑ نہیں ہے مجھے اور نہ ہی آپ کی دل آزاری کرنا میرا مقصد ہوتا ہے۔“ میں نے ہکلا کر کہا۔
وہ صوفے سے کپ لے کر اٹھی اور میرے پاس رکھی ہوئی تپائی سے میرا کپ اٹھا کر چلی تو اس کا آسمانی رنگ کا ریشمی آنچل میرے چہرے سے ٹکرایا، بھینی بھینی خوشبو میں بسا آنچل، مجھے عجیب سے احسان نے گھیر لیا۔
ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی وہ، ایک عورت کو اپنے ساتھ شادی کے بندھن میں باندھ کر میں اپنے رویے سے اس پر کیا ثابت کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
”کیا میں اسے یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ مجھے اس کی پروا نہ تھی اور یہ شادی مجبوری کا بندھن تھی؟“ میں نے سوچا… ”مگر اس کے لیے اتنا طویل ڈراما کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ تو وہ پہلے ہی جانتی ہے۔
کیا میرا اس کے ساتھ بات کرنے کا انداز شائستگی کی حدود میں آتا ہے؟“ جانے کس سوچ سے مغلوب ہو کر میں اٹھا اور کچن میں سنک کے سامنے کھڑی برتن دھوتی ہوئی مریم کے عین عقب میں جا کر کھڑا ہو گیا، اس کے ہاتھ سے چائے کا کپ چھوٹ کر گرا اور سنک میں رکھے دوسرے کپ سے ٹکرایا، دونوں کپ شہید ہو گئے۔
”آپ تو کہتی ہیں کہ آپ کو ڈر نہیں لگتا۔“ میں نے مسکرا کر کہا۔
اس نے پلٹ کر کمر سنک کی طرف کی، میرے اور اس کے درمیان چند انچ کا فاصلہ تھا، اس کے نینوں کے کٹورے اس وقت بھی سیراب تھے۔
”تو…؟“ اس نے بلا جھجک کہا۔ ”غلط کہا کیا میں نے؟“
”یہ کپ آپ کے ہاتھ سے ڈر کے مارے ہی چھوٹ گیا ناں…؟“
”آپ سے تو مجھے بالکل ڈر نہیں لگتا…“ اس نے آہستگی سے کہا۔ ”اور شاک صرف ڈر… کا ہی نہیں ہوتا، حیرت کا بھی ہوتا ہے اور خوشی کا بھی۔
”کس چیز کی خوشی ہوئی ہے آپ کو اور کس بات کی حیرت؟“ میں اس کی بات سمجھ کر بھی نہیں سمجھنا چاہتا تھا۔ ”اور مجھ سے ڈر کیوں نہیں لگتا؟“
”ڈر اس لیے نہیں لگتا قمر ایک عورت کے پاس گنوانے کے لیے ہوتا ہی کیا ہے، وہ پہلے ہی آپ کی ملکیت ہے۔ ایک عورت کو برتا ہوا اور دوسری سے محبتوں کے قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا شخص جب دسترس کی چیزوں کو بھی نہ چھوئے تو اس کا مطلب تو یہی ہے ناں کہ میں اس قابل ہی نہیں۔
میرے اندر ذرا سی بھی کشش ہوتی تو ہمارے درمیان کوئی نہ کوئی کمزور لمحہ تو ضرور آتا۔ ایسا تو نہیں کہ آپ میں کوئی کمی ہے…“ میرے اندر کمزور لمحے کی تحریک اٹھنے لگی اور اس سے قبل میں کوئی پیش رفت کرتا اس نے کہا۔ ”ضرور وہ مجھ سے بہت زیادہ خوبصورت ہے اور اچھی بھی۔“
”آئی ایم سوری…!“ میں نے اس کے گیلے ہاتھ کو ہولے سے چھو کر کہا۔ اس کے ایک فقرے نے مجھے کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا۔ ”میں بہت برا ہوں اور آپ کی توقعات پر کبھی پورا نہیں اتر سکتا۔ آپ اپنے لیے جب بھی کوئی بہتر راہ پالیں تو مجھے بتا دیں، میں آپ کو آزاد کر دوں گا۔“ وہ سن کھڑی تھی، میں نے پلٹ کر اپنے کمرے میں آ کر پناہ لی۔ میرے اندر الاؤ دہک رہا تھا، اب اس کا کچھ کرنا ہو گا۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider