Episode 40 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 40 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

اسی سرد ماحول میں ایک ہفتہ صرف مما کی خاطر گزارا، بہنیں بھی مجھے سمجھاتی رہیں مگر مجھے کسی کی بات نہیں سننا تھی۔ کچھ قریبی رشتے داروں سے اشارتاً تبسم کی بابت جاننا چاہا مگر وہ کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔ میں شدید مایوسی کے عالم میں ایک ہفتے کے بعد واپس دبئی کی پرواز پر تھا۔ جہاز میں اپنی سیٹ سنبھال کر میں نے اپنے موبائل سے کال کر کے بتا دیا کہ میں واپس جا رہا تھا اور ان کی خواہش کے عین مطابق دوبارہ کبھی انہیں اپنی شکل نہیں دکھاؤں گا۔
جواب میں ان کی طویل خاموشی سے میں نے اندازہ کیا کہ وہ کس تکلیف سے دو چار ہوئے ہوں گے۔
مجھے عجیب سی خوشی ہوئی تھی، آخر انہوں نے بھی تو اسی طرح میرے ساتھ بے رحمی برتی تھی، وہ سات دن جو میں گھر پر رہا تھا، ہمارا آمنا سامنا میری شعوری کوششوں کے باعث نہیں ہوا تھا اور انہوں نے بھی احساس نہیں کیا تھا کہ وہ کتنے درشت ہو گئے تھے اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ۔

(جاری ہے)

الٹا مما یہ توقع کر رہی تھیں کہ میں پاپا سے معافی مانگوں اور یہ کہ میرے سر پر جو بھوت سوار تھا اسے بھول جاؤں۔ میری خواہش، بھوت تھی ان کی نظر میں، میں نے بھی ان کی اکٹھی کی ہوئی تصاویر کو دو ٹکڑے کر کے ان کے سامنے ہی ردی کی ٹوکری میں ڈالا تھا، وہ صرف مجھے دیکھ کر رہ گئی تھی۔ ایک لفظ بولے بغیر… شاید ان کے پاس بولنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔
کاش مجھے لاہور شہر کے حدود اربعہ کا ذرا سا بھی علم ہوتا یا ہمارے ملک میں کوئی نظام دروست ہوتا تو میں تبسم کو ڈھونڈ لیتا لیکن اس کے لیے مجھے ان کے پورے نام کا علم ہونا بہت ضروری تھا۔
دبئی میں، میں نے مریم کو بھی اپنی واپسی کی اطلاع نہیں دی تھی، اسے سرپرائز دینا بھی مقصد نہ تھا، یوں بھی میرے لیے کوئی اہمیت ہی نہ تھی اس کی۔
اسے اطلاع دینے کا فائدہ بھی کیا، اسے کون سا میرے استقبال کے لیے ائیرپورٹ آنا تھا اور باقی کا سفر میں نہ چاہتے ہوئے بھی مریم ہی کی بابت سوچتا رہا تھا۔ مختلف باتیں… وہ میری شرعی بیوی تھی مگر ہمارے درمیان ایسا کوئی تعلق نہ تھا۔ ایک گھر میں تنہا رہتے ہوئے بھی ہمارے درمیان کوئی کمزور لمحہ نہیں آیا تھا، وہ خوبصورت تھی، کم عمر اور پرکشش تھی اور اتنے ماہ سے میرا گھر سنبھالے ہوئے تھی مگر میرے دل تک اس کی پہنچ نہ ہوئی تھی۔
شاید حسن کی بیوہ ہونے کی نسبت سے ہمارے درمیان ایک انجانی سی جھجک اور فاصلہ تھا کہ ایک دفعہ بھی ہمارے درمیان کسی بھی موضوع پر بے تکلفی سے گفتگو بھی نہیں ہوئی تھی۔
دبئی پہنچ کر میں نے باہر نکلتے ہوئے جانے کیوں چاکلیٹ کے دو پیکٹ لے لیے۔ ائیر پورٹ پر ہی تھوڑی دیر کے لیے معین کے دفتر میں چلا گیا جو میری اچانک واپسی پر حیران ہوا۔
”نہیں رہ سکے ناں اتنے دن بھابھی کے بغیر… میں جانتا تھا…“ وہ ہنسا۔ میں بے تاثر چہرہ لیے خاموش رہا۔“ اور سناؤ، پاکستان میں سب خیریت رہی؟“ اس نے پھر پوچھا۔ ”انکل ٹھیک ہیں اب؟“
”ہوں، سب ٹھیک ہے۔“ میں نے مختصراً کہا۔
”ہم گئے تھے مریم بھابی کی طرف، ان کی امی کو… ائیرپورٹ سے لے کر چھوڑنے اور پھر انہوں نے اصرار کر کے ہمیں کھانے پر روک لیا۔
“ معین بتانے لگا۔ ”بڑی ڈیسنٹ خاتون ہیں ان کی امی اور مریم بھابی نے تو تمہارے گھر کو واقعی گھر بنا دیا ہے۔ تمہاری بھابی مریم بھابی کے حسن اخلاق کی بہت تعریفیں کر رہی تھیں…“ میں نے اس سے اجازت لی اور گھر کو روانہ ہوا۔
###
دروازہ مریم نے ہی کھولا تھا۔
”آپ…!“ خوشی سے اس کی آواز لرز رہی تھی۔ میں بغیر اطلاع کے آیا تھا مگر گھر صاف ستھرا تھا اور وہ خود بھی۔
کھانے کی مہک بھی گھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ میرے ہاتھ سے سامان کا بیگ لے کر اس نے میرے کمرے میں رکھ ااور میرے لیے تازہ جوس بنا کر لے آئی۔
”تمہاری امی چلی گئیں؟“ میں نے مریم سے پوچھا۔
”وہ اپنی کسی سہیلی کی طرف گئی ہیں، آنے ہی والی ہوں گی۔“ مریم نے کہا خوشی سے کہا۔ ”وہ آپ کو مل کر بہت خوش ہوں گی۔ بہت دعائیں کرتی ہیں آپ کے لیے، مجھے اپنے گھر میں خوش دیکھ کر۔
”تم خوش ہو مریم اس گھر میں؟“ میں نے بے ساختہ پوچھا۔
”ہاں۔“ مختصر جواب آیا۔
”کیوں…؟“ میں نے پھر سوال کیا۔
”کیا مطلب…؟“ حیرت اس نے بڑی بڑی آنکھوں سے مجھے دیکھا۔
”کیوں خوش…؟ کیا وجہ ہے تمہارے خوش ہونے کی؟“ میں نے پوچھا۔ ”تمہیں اس شادی سے کیا حاصل ہوا ہے جو باعث مسرت ہو؟“
”مجھے تحفظ، سکون اورا طمینان ملا ہے۔
“ اس نے کہا۔ ”میرے لیے چھت سب سے پہلا مسئلہ تھا، میں آپ کے ساتھ خلوص اور دیانت سے اپنا رشتہ نبھا رہی ہوں، اپنے فرائض ادا کر رہی ہوں۔ آپ کے فرائض کا آپ کو علم ہے۔ میں آپ کی محبت آپ سے زبردستی تو وصول نہیں کر سکتی۔“ وہ رکی۔ ”چائے بناؤں آپ کے لیے…؟“
میری خاموشی پر وہ چائے بنانے کو اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس عمر میں اس کا تجزیہ اور بالغ النظری واقعی متاثر کن تھی۔
اگر تبسم بیچ میں نہ ہوتیں تو شاید ہمارے درمیان ذرا بے تکلفی پیدا ہو چکی ہوتی اور شاید… میں نے سوچا۔ ”اس بے چاری کا کیا قصور… میرا دل ہی نہیں مانتا… جونہی اس کے لیے کوئی مناسب آدمی ملا اسے فارغ کر دوں گا تاکہ یہ اپنی زندگی شروع کر سکے۔“
وہ دو کپ چائے اور پلیٹ میں بسکٹ نفاست سے رکھ کر لائی اور میرے سامنے میز پر رکھ دئیے۔ خود وہ سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی اور اپنا کپ اٹھا لیا۔
”کیا سوچ رہے ہیں؟“ اچانک اس کی آواز سے میں چونکا۔
”مم…میں؟“ میں بولا۔ ”کچھ بھی تو نہیں… بس یونہی…“
”آپ کو بھوک لگی ہو تو کھانا لگا دوں؟“ یا پھر مما کا انتظار کر لیں۔“ وہ بیویوں کے انداز میں پوچھ رہی تھی۔
”نہیں، انتظار کر لیتے ہیں۔“ میں نے دریا دلی کا مظاہرہ کیا۔ ”ویسے پکایا کیا ہے؟“
”دال اور چاول ہیں۔
“ اس نے بتایا۔
”تو کیا آپ اپنی مما کو دال چاول کھلائیں گی؟“ میں نے کہا۔ ”کوئی گوشت مرغی وغیرہ…“
”مما بہت سادہ خوراک لیتی ہیں، گوشت یا مرغی ہفتے میں صرف دو دن لیتی ہیں۔“ مریم نے بتایا۔ وہ اٹھ کر ٹرے لے کر چلی گئی تو میں بھی اپنے کمرے میں آ گیا۔ جوتے اور جرابیں اتاریں، الماری سے استری شدہ شلوار قمیص لی اور باتھ روم میں گھس گیا۔
نہا کر تازہ دم ہوا اور کمرے میں آ کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر کنگھی کی، کریم لگائی اور پرفیوم اسپرے کیا۔ باہر کی آوازوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ مریم کی مما آ چکی تھیں۔ ٹی وی بھی چل رہا تھا، دونوں کی باتوں کی آوازیں بھی کچن کی طرف سے آ رہی تھیں۔
میں نے تولیہ غسل خانے میں ریک پر پھیلایا اور باہر نکلا، وہ دونوں باورچی خانے میں ہی تھیں۔
مریم نے اپنا کمرا مما کو دے رکھا تھا کیونکہ اس کی دو ایک ضروری چیزیں میرے کمرے میں سائیڈ ٹیبل پر دھری تھیں، میری غیر موجودگی میں غالباً وہ میرے کمرے میں سوتی رہی تھی۔
”السلام علیکم!“ میں نے اونچی آواز میں سلام کیا۔ دونوں کی پشت میری طرف تھی، دونوں فوراً مڑیں اور وعلیکم السلام کہا۔ میں کھڑے کا کھڑا رہ گیا میرے اردگرد زلزلے ہی زلزے تھے۔
میرا وجود جیسے ہچکولوں کی زد میں تھا۔
”میرے چاند…!“ انہوں نے آگے بڑھ کر مجھے گلے لگا لیا، ان کے جسم سے حسب معمول معطر سا خمار اٹھ رہا تھا، ان کا سر میرے سینے پر تھا اور ہاتھ میری پشت پر، میرے کندھوں پر پیار سے حرکت کر رہے تھے لیکن میں ایک لاش کی طرح کھڑا تھا۔
”میں تو خوشی سے پاگل ہو گئی چاند، جب مجھے علم ہوا کہ تم مریم کے شوہر ہو۔
تمہارے بچپن کی البمز، تمہارے مما اور پاپا کے نام… میری تو جانے کب کی پوشیدہ اور خوابیدہ خواہشات پوری ہو گئیں۔ بچپن میں جب تم میری گود میں لیٹتے تھے تو مجھے لگتا تھا کہ تم میرے ہی بیٹے ہو، شادی کے بعد تمہاری جدائی سے میں بیمار پڑ گئی تھی اور میرے بغیر تم…“ وہ کہہ رہی تھیں۔ ”جانے تمہیں یاد بھی ہے کہ نہیں… اور دیکھو قسمت نے آخر تمہیں میرا بیٹا بنا ہی دیا۔
“ وہ مجھے چوم رہی تھیں، رو رہی تھیں اور میں ان سب احساسات سے عاری تھا، ساری حسیں مر گئی تھیں۔
”پاپا نے کہا تھا کہ کبھی وہ ملے تو اس سے پوچھنا کہ وہ تمہارے لیے کیسے جذبات رکھتی ہے… اور اب یہ سب کچھ سن کر میرے جذبات تو دفن ہوئے ہی تھے۔ میں خود بھی ذلت کے کسی گڑھے میں جا پڑا تھا، میں رو رہا تھا۔“
”تم کچھ بول نہیں رہے ہو بیٹا…“ انہوں نے ہٹ کر میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔
”رو کیوں رہے ہو بیٹا، نہ رو میرے چاند! میرے دل کو کچھ ہو رہا ہے…“
جانے کس طرح میں نے کھانا کھایا، کھایا بھی کہ نہیں۔ کھانے کے بعد بھی میں غائب دماغی سے بیٹھا رہا اور وہ بتاتی رہیں کہ کس طرح وہ بیاہ کر امریکا گئیں، پہلی بیٹی ہوئی۔ ان کے شوہر بیمار رہنے لگے۔ معلوم ہوا کہ ان کے بھائی دولت کے لالچ میں انہیں آہستہ آہستہ زہر دے رہے تھے پھر ایک روز ان کی بیٹی اچانک شدید دستوں کے باعث زندگی کی بازی ہار گئی۔
دو سالہ بیٹی کی وفات کا صدمہ ابھی تازہ تھا کہ شوہر بھی چھوڑ کر چلے گئے اور اس وقت علم ہوا کہ وہ پھر امید سے تھیں۔ سات آٹھ ماہ بعد مریم کو پیدا ہونا تھا۔ وہ اپنے رشتے داروں سے چھپتی پھر رہی تھیں۔ اپنے شوہر مسعود کے دوستوں کی مدد سے انہوں نے مسعود کی جائیداد وغیرہ کو محفوظ کیا اور خود چوری چھپے پاکستان آ کر لاہور میں بس گئیں، بہت مشکل زندگی گزاری تھی انہوں نے۔
وہ تھوڑی دیر کے بعد اٹھ کر سونے چلی گئیں تو میں بھی اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گیا۔
###
میں کمرے میں ٹہل رہا تھا، جب ہولے سے دستک ہوئی۔ ”آ جائیں…“ مجھے علم تھا کہ مریم ہو گی۔
”مجھے اپنا الارم کلاک اور تسبیح لینا تھی۔“ وہ جھجک کر بولی۔ ”میں ادھر لاؤنج میں صوفے پر سو جاتی ہوں، اصل میں مما کی تسلی کی خاطر…“ وہ سائیڈ ٹیبل کی طرف بڑھی۔
وہ چیزیں اٹھا کر سیدھی ہوئی تو میری بانہوں میں تھی۔
”سوری مریم۔“ میں نے اس کے بالوں کو چوما وہ دونوں ہاتھوں میں چیزیں تھامے اس طرح حیرت سے میری بانہوں میں ساکت تھی۔ میں نے اسے اپنی طرف گھمایا تو وہ میرے سینے سے آ لگی۔ ”آئی ایم رئیلی سوری مریم!“ میری بانہوں کے حلقے میں اس کا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا۔
”مومو میری جان۔
“ میں نے اس کے کان کے پاس سرگوشی کی۔ ہمارے درمیان فاصلہ ختم ہو چکا تھا، جھجک سی تھی، اسے بھی ختم کرنا تھا۔
###
”قمر اٹھ جائیں میرے چاند۔“ میں نے چونک کر آنکھ کھولی۔ کھلے ہوئے شبمنی گلاب کی طرح مریم میرے پہلو میں بیٹھی مجھے جگا رہی تھی۔ مجھے اس کا چہرہ ذرا سا مختلف لگا۔ تھوڑا سا تبسم آپی جیسا مگر اس کا چہرہ تو ہمیشہ یہی رہا ہو گا، میں نے کبھی اس سے قبل دیکھا ہی نہ تھا یوں غور سے۔
”اٹھیں ناں چاند! مما ناشتے پر انتظار کر رہی ہوں گی۔“ اس نے پھر پراصرار انداز میں کہا۔
”تم مجھے یوں نہ بلایاکرو…“ میں بے ساختہ بول اٹھا۔ ” اس کی طرح صرف…“
”مما بھی تو آپ کو اسی طرح بلاتی ہیں…“
”وہ مما ہیں۔“ میں چڑ گیا۔ ”اور یہ حق صرف ان کو حاصل ہے۔“
”جیسی آپ کی مرضی!“ مریم نے سعادت مندی سے کہا۔ ”بس اب اٹھ جائیں اور فریش ہو کر آ جائیں ناشتے کے لیے…“ یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گئی اور میں بے دلی سے بستر سے نکلا۔
وارڈ روب سے کپڑے لیے اور غسل خانے میں گھسا۔ سامنے ہی بڑا آئینہ سا تھا، میں نے قریب ہو کر اپنا چہرہ دیکھا، حسب عادت ہر روز کی طرح مگر اس روز میر اچہرہ مجھے مختلف لگا… کیوں؟ شاید اس میں اطمینان تھا یا پھر بے چینی۔ میرا ہی چہرہ مجھ سے سوال کر رہا تھا؟ عجیب سا سوال…
”کیا میں نے تبسم کو کھو دیا تھا یا پھر ہمیشہ کے لیے پا لیا تھا؟“

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider