Episode 43 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 43 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

”ماریہ… میرے پاس واقعی تمہیں بتانے کے لیے کوئی ایسی کہانی نہیں جس میں کوئی ربط ہو یا جس کے بہت سے واقعات پر کسی کو یقین آ سکتا ہو۔ میری زندگی بہت سے ناقابل یقین واقعات کا مجموعہ ہے اور شاید اس کا انجام اسی مقام اورا یسے المناک حالات میں ہی لکھا ہے۔“ کشف نے ماریہ سے کہا۔ جس نے خصوصی طور پر اس ملاقات کا اہتمام کروایا تھا اور اس کے لیے اسے کن مشکلات اور کن واقعات اور کن مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا ان کی تفصیل بتانے کی اس نے ضرورت محسوس نہ کی تھی۔

”جیسا بھی ہے نساء، تم مجھے ضروری واقعات بتاؤ… یہ بہت ضروری ہے اس کے بغیر میں تمہیں کس طرح تمہاری نجات کی ضمانت دے سکتی ہوں…“ ماریہ نے اصرار کیا۔
”میری نجات تو اب زندگی سے نجات میں ہی ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے میں جانتی ہوں کہ خود کشی حرام ہے اور میں یہ… بھی جانتی ہوں کہ میرے مذہب میں بحالتِ مجبوری حرام کو حلال سمجھنے کی رعایت بھی ہے لیکن یہ المیہ میرے ساتھ ہے کہ مجھے اس دن کے بعد سے کوئی بھی ایسی چیز ہی نہیں ملی جس سے میں اپنی زندگی کا خاتمہ کر سکوں اور اپنا گلا بھی نہیں دبا سکتی کہ میرے ہاتھوں میں طاقت ہی نہیں ہے۔

(جاری ہے)

”تم مرنے کا سوچو بھی نہیں… زندگی بار بار تھوڑی ملتی ہے۔“ ماریہ نے اسے تھپکا۔
”تم جسے زندگی کہہ رہی ہو وہ میرے لیے ذلت کا ایک ایسا باب ہے جو ختم ہی ہونے میں نہیں آ رہا… جانے یہ میری کس غلطی کی سزا ہے…؟“ وہ سسکی۔ ”یہ سب میرے ساتھ کیوں ہوا … کیوں…؟ کیا میں اتنی مضبوط تھی کہ میرا اللہ مجھے ایسی سزا نما آزمائش کے لیے چنتا…؟“ کیوں میرے وجود کو اتنا پامال کیا گیا…؟ وہ وجود جس میں قرآن ایک امانت کی طرح محفوظ ہے یا شاید تھا… اب تو میں بھولنے لگی ہوں… لیکن اس میں میرا کیا قصور ہے…؟ کیا اب بھی میرا اللہ روز قیامت مجھے اندھا اٹھائے گا… کیا قصور ہے اس سب میں میرا…؟“ وہ ہذیانی انداز سے چیخنے لگی۔
ماریہ نے اسے ساتھ لگا لیا، ایسا کرتے ہوئے اسے بہت کراہیت محسوس ہوئی کیونکہ اس کے ڈھانچے نما وجود سے بہت ناگوار بو آ رہی تھی۔
”میں تم پر ہونے والے ظلم کو دنیا پرآشکار کروں گی نساء…!“ ماریہ نے تسلی دی۔ ”انہیں علم نہیں کہ قلم میں کتنی طاقت ہوتی ہے انہیں صحافی کے قلم کی قوت کا ندازہ نہیں لیکن کم از کم تم یقین کرو کہ مجھے تمہارے اللہ نے شاید اسی لیے بھیجا ہے کہ تمہارے اوپر ہونے والے ظلم کے بارے میں لوگوں کو علم ہو… سب کو معلوم ہو کہ دنیا میں مہذب ترین کہلانے والے ملک کے باشندے عورتوں پر آج کے دور میں بھی کیسے کیسے بربریت کے مظاہرے کرتے ہیں۔
”ماریہ تم لکھو گی سب کچھ کیا…؟“ کشف نے نظر اٹھا کر بے یقینی سے ماریہ کی طرف دیکھا، ماریہ کو وہ چہرہ کسی مردے کا ساچہرہ لگا جس پر آنکھوں کی جگہ گڑھے سے نظر آ رہے تھے مگر ان گڑھوں میں آنکھیں تھیں اور ان آنکھوں میں امید کی کرن… ”کیا تمہارے لکھنے سے میری آزمائش ختم ہو جائے گی…؟ کیا مجھے میرے جگر کے ٹکڑے مل جائیں گے۔“
”کون…؟“ ماریہ چونکی۔
”کیا تمہارے بچے بھی ہیں…؟ اور تمہارا شوہر…؟“ ماریہ جوش سے بولی۔ ”پلیزنساء مجھے بتاؤ اپنے بارے میں یہ سب بہت ضروری ہے۔“
ض…ض…ض
”مہیر سے شادی کو دس برس بیت چکے ہیں اور اس سے علیحدگی کو تین برس…“ کشف کی یادوں کے در کھلنے لگے۔
”وہی مہیر جس سے حادثاتی طور پر میرے ہاں دو جڑواں بچوں کی ولادت بھی ہوگئی تھی سارے واقعات بے ترتیب ہوں گے ماریہ… مجھے جو بھی جہاں یاد آئے گا میری ذہنی رواسی طرف چل نکلے گی۔
”کوئی بات نہیں… تم بولتی جاؤ، ربط اور ترتیب میں خود ہی قائم کر لوں گی۔“ ماریہ نے کاغذ پر لکیریں کھینچتے ہوئے نظر اٹھائے بغیر کہا۔ ”تم رکو نہیں، میں متوجہ ہوں پوری طرح۔“
”چلو میں تھوڑا سا توقف کرتی ہوں اور پھر ترتیب قائم کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔“ کشف ذرا دیر کو رکی۔
”ٹھیک ہے۔“ ماریہ نے خوشی سے کہا۔
”میری اماں نے اکیلے ہی میری تربیت کی تھی کیونکہ میرے باپ کا سایہ میرے سر پر نہ تھا گھر کی دال روٹی کے لیے میری اماں نے دنیا کے مہذب ترین کام کا انتخاب کیا یعنی گھر میں بچوں کو قرآن پاک کی تربیت دیتیں۔
میں نے اتنے پاکیزہ ماحول میں ہوش سنبھالا، ناظرہ قرآن پاک پڑھ چکی تو اماں کے دل میں مجھے قرآن پاک حفظ کرانے کی خواہش جاگی خود انہیں بھی نصف کے لگ بھگ قرآن پاک زبانی یاد تھا مگر وہ صرف دہراتے رہنے کی وجہ سے تھا باقاعدہ حفظ انہوں نے نہیں کیا تھا اسکول میں پانچ جماعتیں پاس کر چکی تو مجھے ایک ادارے میں حفظ قرآن کے لیے ڈال دیا گیا۔ تین سال سے بھی کم عرصے میں، میں نے قرآن پاک حفظ کر لیا۔
”زبردست…“ ماریہ نے داد دی۔ ”کیا تمہیں پورا قرآن زبانی یاد ہے؟ ایک ایک لفظ…؟“
”ہاں… میں نے ایک ایک لفظ یاد کیا تھا لیکن اسے یاد رکھنے کے لیے باقاعدہ دہرانا پڑتا ہے ہر روز لیکن میں… بدقسمتی سے اتنے عرصے سے باقاعدگی سے دہرا ہی نہیں سکی اور پچھلے شاید تین برس سے تو میرے ساتھ وہ کچھ ہوا ہے کہ مجھے اپنا نام بھی بھولنے لگا ہے۔
میری دماغی صلاحیتیں مفلوج ہوتی جا رہی ہیں سب سے پہلے تو تیر مہیر نے ہی مارا تھا… سب سے پہلے تو اسی نے مجھے پاگل ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔“
ض…ض…ض
لیڈی ڈاکٹر نے سختی سے مجھے وہ دوا کھانے سے منع کر دیا، اس نے بتایا کہ وہ دوائیں مجھے ہمیشہ کے لیے بانجھ کر سکتی ہیں۔ میں اس بات سے بہت پریشان ہوئی اور خود ہی دل میں سوچا کہ اولاد کی محبت بڑے بڑوں کی سوچ کر بدل دیتی ہے یہی سوچ کر میں نے مصمم ارادہ کر لیا۔
اگر میں مہیر کو سیدھے سبھاؤ یہ بات کہتی تو وہ غصے میں آ جاتا اور شاید سختی پر اتر آتا۔ حسب معمول وہ مجھے گولی کھانے کے لیے دیتا تو کبھی میں اسے منہ میں ہی ایک طرف رکھ کر بعد ازاں تھوک دیتی تھی تو کبھی صفائی سے اپنے گریبان میں ڈال لیتی تھی خود پر جبر کے میں نے مہیر پر اپنا التفات بڑھا دیا، یہ سوچ کر کہ شاید میری یہ کوشش اس کی منفی سوچوں اور غلط حرکتوں کو بدل دے وہ ذرا سا حیران تو ہوا لیکن اس کا رویہ بھی مجھ سے ذرا مثبت ہوگیا۔
گھر سے باہر وہ جو کچھ بھی کرتا پھر رہا تھا گھر میں وہ ایک سلجھا ہوا مہیر بن گیا۔ میں جانتی تھی کہ جن درندوں کے منہ کو خون لگا ہوتا ہے ان کی عادت چھٹتی نہیں مگر خود پر جبر کرتی، صبر کرتی رہتی۔ جسمانی نظام تو بگڑا ہوا ہی تھا پہلے سے ہی گولیاں کھا کھا کر اس لیے مہیر کو شک بھی نہ ہوا… اس وقت میں کالج میں پڑھ رہی تھی، امتحانوں کے دوران میری طبیعت خراب ہو گئی، رینی آنٹی اور مہیر مجھے لے کر ایمرجنسی میں گئے تو ان پر انکشاف ہوا کہ میں پریگننٹ تھی اور وہ بھی ایک نہیں دو بچے…“ مہیر نے تو یقینا سر پکڑ لیا ہو گا… حالات کی ڈور اس کے ہاتھ سے نکل چکی تھی۔
میں کالج کے بعد بس ڈرائیورنگ سیکھ رہی تھی اسکول بس چلانے کی ملازمت حاصل کرنے کے لیے… ڈاکٹر نے چند دن مجھے اسپتال میں رکھا مہیر کی آنکھوں میں ناراضی صاف دیکھی جا سکتی تھی لیکن میں نے اس سے یہی کہا کہ مجھے خود علم نہ تھا، گولیوں کی بابت وہ اس لیے نہیں پوچھ رہا تھا کہ وہ مجھے وٹامن کی گولیاں کہہ کر کھلا رہا تھا ڈاکٹر نے ہی مجھے بتایا تھا کہ اس نے ڈاکٹر سے اس سلسلے کو ختم کرنے کی بھی درخواست کی تھی جس پر ڈاکٹر نے اسے ناراض ہو کر کہا تھا کہ اس سے میری جان کو بہت خطرہ تھا اور پھر میری شادی شدہ زندگی میں وہ دن آیا جس سے بڑھ کر خوشی مجھے کسی دن بھی نہ مل سکتی تھی میں دو بیٹوں کی ماں بن گئی تھی صحت مند اور مکمل بچے… انہوں نے میرے وجود کی تکمیل کر دی تھی میں نے اپنی زندگی کا جیسے مقصد پا لیا تھا۔
”پھر تم نے پڑھائی وغیرہ سب چھوڑ دی…؟“ ماریہ نے بے تابی سے پوچھا۔
”پڑھائی…؟“ کشف خلا میں گھورنے لگی۔ ”ٹھہرو مجھے یاد کرنے دو…“
”مہیر کا رویہ کیسا تھا بچوں کے ساتھ…؟“ ماریہ نے پوچھا۔
”بس کچھ ناراض ناراض سا…جیسے وہ اس کے بچے نہ ہوں، وہ رو رہے ہوتے تو کبھی انہیں نہ بہلاتا، وہ گھر میں جیسے ایک اجنبی سا بن کے رہنے لگا تھا…“ کشف کھوئے کھوئے لہجے میں یاد کرتے ہوئے بولی۔
”ہاں، میں نے اپنا امتحان دیا تھا اسپتال سے فارغ کر دیا گیا تھا مجھے، گاڑی چلا لیتی تھی اور میں اسلامی مرکز بھی جاتی تھی۔“
”بہت اچھا…“ ماریہ نے کہا۔ ”تم ذہن پر زیادہ زور نہ دو… آرام سے یاد کرو…“
”مہیر کو میرا اسلامی مرکز جانا بھی پسند نہیں تھا… اسی لیے وہ ایک روز اسلامی مرکز پہنچ گیا اور اس نے ہنگامہ آرائی کر دی۔
”کیا کیا اس نے…؟“
”اصل میں وہ کوئی بہانہ ڈھونڈ رہا تھا… میں اس روز بچوں کو رینی آنٹی کے پاس چھوڑ کر آئی تھی کہ ہمارا کوئی اہم لیکچر تھا اور مجھے مرکز سے کال آئی تھی کہ کوشش کروں اس روز ضرور مرکز پہنچنے کی۔“
”میرا ڈاکٹر بننے کا خوب ادھورا رہ گیا تھا اس لیے مرکز میں سب مجھے ڈاکٹر کہنے لگے تھے۔“
”مگر تم تو بس ڈرائیونگ سیکھ رہی تھیں…؟“ ماریہ نے پوچھا۔
”وہ میں، اس وقت سیکھ رہی تھی جب میرے دل میں یہ ارادہ مصمم تھا کہا اب مجھے مہیر کے ساتھ نہیں رہنا… مگر پھر حالات نے کروٹ لے لی… میں تنہا رہنے کی صورت میں اپنے لیے ممکنہ ذرائع آمدن کی خاطر بس چلانا سیکھ رہی تھی کیونکہ اس ملازمت میں نہ کوئی خطرات تھے اور نہ ہی مردوں کے درمیان رہ کر کام کرنے کے مسائل۔“ کشف رسان سے بولی۔
”تو تم اسلامی گئیں…؟“
”ہاں…! اس روز اسی سلسلے میں کانفرنس تھی کہ امریکا میں گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد سے دنیا بھر میں ہم مسلمانوں پر حیات تنگ ہو رہی ہے اور ہر جگہ کوئی نہ کوئی جواز ڈھونڈ کر مسلمانوں کا ناطقہ بند کیا جا رہا ہے ہم یہی بحث کر رہے تھے اور کوئی حل ڈھونڈ رہے تھے کہ امت مسلمہ کو ان اسلام دشمن سازشوں کے خلاف کیسے متحد کیا جائے بند کمرے میں ہم چند عہدے داروں کا اجلاس تھا اس اجلاس کے بعد ہمیں مزید کچھ اراکین کو بھی شامل بحث کرنا تھا اور پھر ایک لائحہ عمل وضع کرنا تھا۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider