Episode 44 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 44 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

مہیر جانے کیا سوچ کر وہاں چلا آیا تھا باہر سے اس نے پوچھا تو اسے علم ہوا کہ ہماری کوئی خاص کانفرنس تھی، وہ باہر کے عملے سے بدتمیزی پر اتر آیا اور زبردستی آ کر کانفرنس والے کمرے کا دروازہ دہاڑ سے کھول دیا… ہم فرشی نشستوں پر بیٹھے تھے کمرے میں کل دس افراد تھے جن میں ہم تین عورتیں بھی شامل تھیں وہ اندر آتے ہی ہذیان بکنے لگا۔
”یہاں بے حیائی کا مرکز کھلا ہوا ہے…“
”بدکاری کا اڈا…“
”مذہب کی آڑ میں مرد وزن گل کھلا رہے ہیں۔
“ اور جانے کیا کیا، وہ بکتا جا رہا تھا اور ہم سب تصویر حیرت بنے اسے دیکھ رہے تھے۔
”کون ہے یہ…؟“ پروفیسر اکرام صاحب نے پوچھا۔
”میرا شوہر ہے…!“ میں نے یہ کلمات جانے کتنی اذیت سے کہے تھے اور اس کے لیے میں کرب کی کتنی ہی منزلوں سے گزری تھی… ندامت سے میرا سارا جسم پسینے پسینے ہو گیا تھا۔

(جاری ہے)

”مہیر…“

”السلام علیکم مہیر صاحب…! آئیے آئیے کیسے مزاج ہیں آپ کے…؟ مجھے پروفیسر اکرام اللہ کہتے ہیں…“ پروفیسرصاحب اٹھ کر مہیر کی طرف بڑھے اور اپنا ہاتھ مصافحے کے لیے بڑھایا۔
”وعلیکم…!“ مہیر نے پروفیسر کے مصافحے کے لیے بڑھایا ہوا ہاتھ نظر انداز کرتے ہوئے رکھائی سے جواب دیا۔ ”تو آپ ہی یہاں پر خبیثوں کے خبیث ہیں…؟“
صرف یہیں پر اکتفا نہیں، اس نے اور بھی بہت فضول گفتگو کی، اپنے ہی بچوں کی ولدیت سے بھی انکار کر دیا اور جتنی باتیں وہ وہاں کھڑے ہو کر کہہ کر گیا، اس سے بڑھ کر اس نے اخبارات کے ذریعے اگلا اور اسلامی مرکز کے بارے میں ناشائستہ باتیں پھیلا دیں، لوگوں نے اپنے بچوں اور بچیوں کو اسلامی مرکز بھیجنا بند کر دیا، میں اس روز اسلامی مرکز سے گھر واپس نہیں گئی، رینی آنٹی کے پاس چلی گئی، میرے بچے بھی وہیں پر تھے۔
کبیر انکل اور رینی آنٹی کو بٹھا کر میں نے ساری بات بتائی، رینی آنٹی کو تو مہیر ہی ٹھیک لگتا تھا جب کہ کبیر انکل مہیر سے بہت ناراض تھے اورا س کی گستاخی پر اسے جان سے مار دینے کے درپے تھے، رینی آنٹی نے مجھے ہی برا بھلا کہا اور یہاں تک کہہ دیا کہ انہیں بھی ان بچوں کی ولدیت پر شک تھا کیونکہ مہیر تو ابھی بچے چاہتا ہی نہ تھا۔
”مہیر کی چاہت یا نہ چاہت سے کیا ہوتا ہے آنٹی…؟ یہ تو اللہ کی دین ہے، جب وہ دینا چاہتا ہے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا جب وہ نہیں دینا چاہتا توہ کوئی اور دے نہیں سکتا۔
”مانتی ہوں یہ بات… لیکن یہ تو دینے والے نے تمہیں دیے ہیں۔ مہیر اگر کوئی بات کہہ رہا ہے تو یقینا اس میں کوئی صداقت ہو گی… اگر اسے لگتا ہے کہ کہ یہ بچے اس کے نہیں ہیں تو پھر وہ ٹھیک ہی سمجھتا ہو گا۔“ رینی آنٹی کے لہجے میں شک اور تکبر تھا میرا بدن لرزنے لگا۔ رینی آنٹی تو مجھے جانتی تھیں اور میری ماں کو بھی وہ کیوں کر ایسی بات کر سکتی تھیں… میں نے طاق پر رکھا قرآن پاک اٹھایا… کبیر انکل اور رینی آنٹی کے سامنے کھڑے ہو کر بسم اللہ پڑھ کر اسے کھولا اور اپنے سینے سے لگا لیا۔
”اس قرآن کی قسم ہے مجھے… جو میرے سینے میں بھی محفوظ ہے کہ مجھے آج تک مہیر کے سوا کسی مرد نے چھوا بھی نہیں… ما سوائے بڑی مجبوری میں کبھی نبض دیکھنے کے لیے ڈاکٹر کے، مہیر کی زندگی میں، میں ایک باکرہ کی حیثیت سے آئی تھی… اور میرے جسم اور روح پر صرف مہیر کا حق ہے…“ میں دھاڑیں مار مار کر رونے لگی… ”خدارا مجھ پر ایسا الزام نہ لگائیں میں اس کی تاب نہ لا سکوں گی، اماں سنیں گی تو کیا سوچیں گی…؟“
”اماں…؟“ رینی آنٹی کی آواز کافی بلند تھی۔
”کون سی اماں…؟“
”میری اماں…“ میں نے روتے ہوئے کہا۔
”تمہاری اماں تو مر گئی… کیا تمہیں نہیں علم…؟“
”کیا کہہ رہی ہیں آنٹی…؟“ میں نے قرآن پاک کو واپس طاق پر رکھا۔
”تمہاری اماں تو تمہیں میرے سر منڈھ کر ایک ہفتہ بھی زندہ نہ رہی تھیں تبھی مر گئی تھی…“ رینی آنٹی کتنی بڑی بات اتنی سفاکی سے بیان کر رہی تھیں اور میں گھٹنوں کے بل گر کر کر بناک انداز میں چیخنے لگی تھی… جیسے اماں کی موت اسی وقت واقع ہوئی تھی… میرے لیے تو ایسا ہی تھا، مجھے تین سال ہو گئے تھے اماں سے بچھڑے ہوئے اور مجھے علم ہی نہ تھا کہ اماں بہت دور جا چکی ہیں کبھی نہ آنے کے لیے۔
جانے قرآن پر میری قسم کا انکل اور آنٹی کو یقین آیا تھا کہ نہیں… لیکن میں اپنے بچے لے کر گھر آئی تو میرا ذہن تیزی سے کام کر رہا تھا اب مجھے مزید یہ سب کچھ برداشت کرتے رہنے کی ضرورت نہ تھی مجھے یہ ڈر رہتا تھا کہ اگر میں نباہ نہ کر سکی تو اماں کیا سوچیں گی اب مجھے یہ ڈر نہیں رہا تھا اب میں اس فکر سے آزاد ہو گئی تھی اور مجھے جو بھی فیصلہ کرنا تھا، صرف اپنے اور اپنے بچوں کے مفاد کے لیے کرنا تھا۔
میں مکمل طور پر بچوں ہی کے کمرے میں منتقل ہو گئی تھی مجھے کسی کو بھی دکھانے کے لیے مزید ڈرامہ کرنے کی ضرورت نہ تھی میں نے مہیر کو کہہ دیا تھا کہ وہ مجھے خود طلاق دے دے ورنہ میں شرعی عدالت سے طلاق لے لوں گی وہ پہلے تو خاموش ہو گیا تھا لیکن پھر وہ اٹھتے بیٹھتے مجھے گالیاں دینے لگا تھا جو بسا اوقات میری برداشت سے باہر ہو جاتی تھیں۔
اس روز جانے کتنا عرصہ ہو گیا تھا کہ ہم دونوں کے درمیان بات چیت بند تھی، بچے بیڈ پر سو رہے تھے اور میں زمین پر گدا بچھا کر حسب معمول سو رہی تھی… مجھے مہیر کی موجودگی کا احساس ہوا، وہ مجھ سے معافی مانگ رہا تھا، عورت بھی تھی اورا س کی بیوی بھی پھر وہ جتنا بڑا کھلاڑی تھا اسے عورتوں کی نبضوں کا اندازہ تھا میں ایک بار پھر سادگی میں اس کی باتوں میں آ گئی، میرا دل پسیج گیا اور میں خاموشی سے مہیر کے کمرے میں منتقل ہو گئی۔
بچوں کے ساتھ اس کا رویہ نہیں بدلا تھا لیکن مجھے امید تھی کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل میں اولاد کی محبت ضرور ڈال دیں گے، اسی امید پر میں اس کے ساتھ پھر سے نارمل زندگی بسر کرنے لگی۔
قدرت نے ایک بار پھر مجھے ماں بننے کے مرحلے میں داخل کر دیا تھا۔ اب تو مہیر جانتا تھا کہ میں گھر پر ہی رہتی تھی اور اسے اپنے اور میرے درمیان رشتے اور تعلق پر کوئی شبہ نہ تھا… میں نے جونہی اسے خبر بتائی وہ خاموش ہو گیا۔
”مہیر آپ کو خوشی نہیں ہوئی کہ اللہ تعالیٰ ہم پر کتنا مہربان ہے…؟“
”ہوں…“ مہیر نے مختصر ترین جواب دیا۔
”ہوں کیا…؟“ میں نے اصرار کیا۔ ”ہاں یا نہیں…؟“
”ٹھیک ہے…! لیکن پہلے دونوں بچوں کی وجہ سے میرے دماغ میں الجھن سی ہے…“ مہیر نے کہا تھا۔
”کیا الجھن ہے؟“ میں نے کریدا تھا۔
”میں تو ابھی بچے چاہتا ہی نہیں تھا…“
”لیکن میں تو بہت دعا کرتی تھی اور دعا میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔
“ میں نے کہا تھا۔ ”مہیر…! اگر آپ کو مجھ پر کوئی شک ہے تو میں اس کے بارے میں قرآن پر حلف دے چکی ہوں… مزید کوئی کسر باقی ہے تو آپ اپنا اور ان بچوں کا ڈی این اے ٹیسٹ… کروا لیں۔“
”رہنے دو…“ مہیر نے بے پروائی سے کہا۔ ”میں کسی انکشاف کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ابھی تو مجھے شک ہے… شک یقین میں بدل گیا تو بہت گڑبڑ ہو سکتی ہے…“ اس کا ترکش تیروں سے بھرا ہوا تھا۔
اخبارات کے ذریعے اسلامی مرکز کی بہت بدنامی ہو چکی تھی بلکہ اب تو الزامات میں سازشوں اور دہشت گردی کے منصوبوں کی تیاری کے الزامات بھی شامل ہو چکے تھے… جس کی وجہ سے پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری تھا۔ جس پر ذرا سا شک گزرتا کہ اس کا اسلامی مرکز میں آنا جانا رہا ہے انہیں گرفتار کر کے تفتیش کرنے کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ جاری تھا۔
اس رات مہیر گھر پر نہ تھا جانے کہاں تھا، میں بچوں کے ساتھ کمرے میں سو رہی تھی بچے دو سال کے ہو گئے تھے جانے کیوں اچانک میری آنکھ کھل گی۔
میں نے بیڈ لیمپ جلا کر وقت دیکھا رات نصف سے ز یادہ گزر چکی تھی میں نے غور کیا تو مہیر کے موبائل فون کی گھنٹی بج رہی تھی جس کی وجہ سے میری نیند خراب ہوئی تھی۔
تو گویا مہیر گھر آ چکا تھا۔ میں نے دل میں سوچا اور اٹھی اس کے کمرے میں جھانک کر دیکھا وہ گہری نیند سو رہا تھا فون باورچی خانے کے کاؤنٹر پر رکھا تھا اس پر بابر کا نام چمک رہا تھا۔
بابر، مہیر کا وہ دوست تھا جو بقول کبیر انکل کے اس کو بگاڑنے کا باعث… بنا تھا میں نے غیر ارادی طور پر سبز بٹن دبا دیا اور کان سے لگا لیا۔
”باس…!“ بابر کی آواز سرگوشی نما تھی… ”مال سپلائی ہو گیا ہے اور رقم کل تمہارے اکاؤنٹ میں منتقل ہو جائے گی۔ چند دن مجھ سے رابطہ نہ کرنا، اوکے…؟“ میرا جسم لرزنے لگا… کچھ عجیب سا لہجہ تھا اور عجیب سے الفاظ۔
میں کچھ بولتی تو اسے علم ہو جاتا کہ فون پر مہیر نہ تھا فون میرے ہاتھ میں ہی تھا کہ پھر بجنے لگا اسکرین پر پھر بابر کا نام تھا میں نے… گھبرا کر فون واپس رکھ دیا، گھنٹی تھوڑی دیر بجتی رہی پھر خاموش ہو گئی… میں نے اس کی وصول ہونے والی کالوں کو مٹا دیا اور واپس بچوں کے پاس کمرے میں آ گئی… میرا جسم ابھی تک کانپ رہا تھا جانے کس طرح کے کاموں میں مہیر ملوث تھا، میں سوچتے سوچتے پھر نیند کی وادیوں میں اترنے لگی نیچے فون کی گھنٹی پھر بج رہی تھی مگر مجھے اس سے کوئی غرض نہ تھی۔
صبح باورچی خانے میں گئی تو کاؤنٹر پر ٹیلی فون نہ تھا… یقینا مہیر مجھ سے پہلے وہاں آیا تھا اور فون لے کر آ گیا تھا میں ناشتے کی تیاری کرنے لگی… ساتھ ہی میں نے ٹیپ پر تلاوت لگا رکھی تھی اور اس کے ساتھ قرأت کر رہی تھی یک دم ٹیپ بند ہو گئی میں نے چونک کر مڑ کر دیکھا۔
”تم نے رات کو میرا فون کیوں اٹھایا تھا…؟“ مہیر کی آنکھوں میں جیسے خون اترا ہوا تھا… میں خوفزدہ ہو گئی اگر کہتی کہ نہیں اٹھایا تو جھوٹ ہوتا اور میں فوراً پکڑی جاتی… یقینا اسے بابر نے بتا دیا ہو گا کہ اس نے اسے فون کیا تھا یا شاید بعد میں آنے والی بابر کی کالوں کو دیکھ کر اس نے خود بابر کو کال کی ہو گی میں خاموش رہی۔
”میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں…“ اس نے مجھے کندھوں سے پکڑ کر جھنجوڑ ڈالا… ”میری بات کا جواب دو۔“
”غلطی سے سبز بٹن دب گیا تھا فون کی مسلسل گھنٹی سے میری آنکھ کھل گئی… نیچے آئی تو نیند میں تھی غلطی سے ہی بٹن دب گیا اور جونہی مجھے احساس ہوا کہ میں نے ہرا بٹن دبا دیا ہے میں نے فوراً لال بٹن دبا دیا فون واپس رکھ کر میں دوبارہ سو گئی تھی… کسی بابر کی کال تھی…“ میں نے اسے بتایا۔
”کیا بات ہوئی تمہاری بابر سے…؟“ اس نے چیختے ہوئے جھنجھوڑ کر پوچھا۔
”مہیر… میں کیوں بات کروں گی بابر سے…؟ میں تو اسے جانتی بھی نہیں۔“ میں نے خود اس کی گرفت سے چھڑوایا۔
”اس نے کیا کہا تم سے…؟“ مہیر نے لہجے کی سختی پر قابو پانے کی کوشش کی۔
”مہیر میں نے بتایا کہ میں نے غلطی سے سبز بٹن دیا تھا جونہی مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا میں نے فوراً فون بند کر دیا۔
تم اپنے دوست سے پوچھ لو کہ اگر میں نے اس سے کوئی بات کی ہو۔… میں نے تو فون پر ہیلو بھی نہیں کہا ہو گا…“ میرے لہجے میں اعتماد تھا اس کے لیے مجھ بہت کوشش کرنا پڑ رہی تھی۔
”سچ کہہ رہی ہو…؟“ اس کے چہرے پر شرمندگی نظر آنے لگی۔
”تم سے جھوٹ کیوں بولوں گی مہیر…؟ یہ اور بات ہے کہ تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں ہے…“ میں نے لمبی سانس کھینچ کر کہا تھا… ”تم نے تو مجھ سے میری ماں کی موت کی خبر بھی چھپائی…“ بڑے عرصے سے دل میں رکی ہوئی بات بالآخر شکوہ بن کر زبان سے پھسل گئی۔
”میں تمہیں بتا کر پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا…؟“ اس نے مجھے ساتھ لگا لیا۔
”میں تین سال تک اماں کو خط لکھ لکھ کر تمہیں دیتی رہی اور تم انہیں بھجواتے رہے… تم نے کبھی بتایا کیوں نہیں مجھے…؟“ میں ہچکیوں سے رونے لگی۔
”تمہارے وہ سارے خط میرے پاس محفوظ پڑے ہیں…؟“ اس نے انکشاف کیا۔
”کہاں ہیں وہ…؟ مجھے دے دو سارے خطوط پلیز…“ میں نے التجا کی۔
”دے دوں گا… مام کے گھر پر میرے لا کر میں ہیں… کسی دن لا دوں گا…“ اس نے مجھے پیار سے کہا۔
”ایک بات پوچھوں مہیر…؟“
” دو پوچھو…“ اس نے ہنس کر کہا۔
”مہیر…! مجھے آج تک علم ہی نہیں تھا کہ تم کیا کرتے ہو…؟“
”میں کاروبار کرتا ہوں…“ اس نے کہا۔
”کیا کاروبار…؟“ کس چیز کا کاروبار…؟“
”مختلف چیزیں ہی کئی طرح کی، مختلف ملکوں سے منگوا کر یہاں پر بیچتے ہیں…“ اس نے کہا۔
”کون سی مختلف چیزیں… مثلاً؟“ میں نے سوال داغا۔
”اب میں تمہیں مثلاً میں کیا بتاؤں بھئی… تمہیں کس طرح سمجھاؤں…؟“ اس کی زبان ہکلانے لگی۔ ”اور تم اتنی متجسس کیوں ہو رہی ہو میرے بارے میں آج…؟ تمہیں کوئی شک ہے کیا مجھ پر…؟ یا میرے کاروبار پر…؟“ اس نے میری آنکھوں میں جھانکا۔
”شک…! نہیں تو…“ میں گڑبڑا گئی۔ حالانکہ وہ غور کرتا تو سمجھ جاتا کہ میں کہنا چاہتی تھی کہ مجھے شک نہیں بلکہ یقین ہے کہ وہ کسی غلط دھندے میں ملوث تھا… ”تم ناشتے میں کیا لو گے…؟“ میں نے بات بدل دی۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider