Episode 46 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 46 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

”کیا تمہیں کسی وکیل سے رجوع کرنے کا حق نہیں دیا گیا تھا… آخر تم امریکی شہر تھیں…؟“ ماریہ نے اس کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ اس کا جسم روتے ہوئے باقاعدہ جھٹکے لے رہا تھا۔
”مجھے جلد ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ میں کسی باقاعدہ پولیس کی تحویل میں نہ تھی… مجھ سے جو بھی پوچھ گچھ کی جا رہی تھی اس سے میرے خلاف کوئی بھی الزام ثابت نہیں ہو پا رہا تھا پھر میں نے چپ سادھ لی، ان کے سوالوں کے جواب دینا چھوڑ دیے یہی مطالبہ کیا کہ پہلے مجھے وکیل فراہم کیا جائے۔
”مہیر… تمہارے شوہر نے کبھی تم سے رابطہ نہیں کیا تھا…؟“ ماریہ نے پوچھا۔
”کیا تھا…!“ ایک آہ نما آواز برآمد ہوئی۔
”مجھے یہ سمجھانے کہ مجھے اپنے خلاف سارے جرائم تسلیم کر لینے چاہیں کہ مقدمہ عدالت تک پہنچے اور پھر عدالت سے رحم کی درخواست کر سکوں گی۔

(جاری ہے)

”پھر تم مان گئیں…؟“ ماریہ نے بے تابی سے پوچھا۔
”ہاں…“ اس نے آہستگی سے کہا۔
”یہ تم نے کیا بے وقوفی کی… تم اگر قصور وار نہیں تھیں تو پھر یہ کیوں مان گئیں…؟“ ماریہ چیخی۔
”میں نے اس کی بات مشروط کر کے مان لی۔“ کشف نے وضاحت کی۔ ”میں نے اس سے کہا کہ مجھے اپنے بچوں سے ملوائے اور اس کے علاوہ ایک وکیل فراہم کیا جائے۔“
”یہ تم نے اچھا کیا…“ ماریہ مسکرائی ”پھر کیا ہوا…؟“
ض…ض…ض
”وہ اٹھ کر چلا گیا پھر وہ ایک ہفتے کے بعد آیا… بچے اس کے ساتھ تھے… میں بچوں سے لپٹ گئی اور مہیر کا شکریہ ادا کرنے لگی… بچوں کی وجہ سے جھجک گئی ورنہ مہیر کی اس مہربانی پر تو میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں خوشی سے اس سے لپٹ جاؤں… میں نے تشکر بھری نظروں سے اسے دیکھا پھر اس نے مجھے ایک بڑا سا لفافہ دیا۔
”اس میں… کچھ رقم ہے… تمہاری اور بچوں کی ٹکٹیں ہیں بچوں کا سامان بھی ہمراہ ہے تم بچوں کو لے کر پاکستان چلی جاؤ…“
”اور تم…؟“ میں نے اس سے پوچھا۔ ”میں کہاں جاؤں گی… اب تو اماں بھی نہیں ہیں…!“ میں نے سوال کیا۔
”وہ تمہارا اپنا ملک ہے وہاں تم محفوظ رہو گی… یہاں تو حالات موافق نہیں ہیں…“
”حالات تو تم نے ہی غیر موافق کیے ہیں۔
مہیر… اب تم ہی مہربانی کرو… ایک وکیل کر دو… میں اپنا مقدمہ لڑوں گی آخر میں اس ملک کی شہری ہوں…“ میں نے اس کی منت کی۔
”امریکا میں غداروں کی شہریت منسوخ کر دی جاتی ہے…“ وہ طنز سے بولا۔
”میں نے امریکا سے کوئی غداری نہیں کی… میں سات برس سے اس ملک میں ہوں میں تو کبھی پلٹ کر اپنے ملک… بھی نہیں گئی…“ میں نے دلیل دی۔ ”تم مجھے پاکستان نہ بھیجو مجھے اپنا مقدمہ لڑنے دو… میں جیت جاؤں گی میرا اللہ مجھے کبھی مایوس نہیں کرے گا مہیر میں تمہاری منت کرتی ہوں…“ مگر اس پر میری کسی التجا کا اثر نہ ہوا وہ بچے، سامان اور کاغذات چھوڑ کر چلا گیا اور میں اپنے بچوں سے لپٹ کر بھول گئی کہ میں کیسی مصیبت میں مبتلا تھی، بچے بھی مجھ سے مل کر بہت خوش ہوئے وہ مجھ سے دو ماہ دو رہے تھے… شہیر کو تو میں دودھ پلاتی تھی جو اسی وجہ سے چھوٹا مگر اس کے گود میں آتے ہی میری ممتا کے خشک سوتے پھر سے سیراب ہو گئے میں ہر دکھ ہر تکلیف کو پھر سے بھول گئی۔
ض…ض…ض
”تو کیا تمہارے بچے تمہارے ساتھ حوالات میں بند تھے کیا…؟“ ماریہ لکھتے لکھتے رکی۔ ”کس قانون کے تحت…؟“
”وہ کوئی باقاعدہ حوالات تھی ہی نہیں…!“ کشف نے پُرخیال انداز میں کہا۔ ”شاید مجھے کسی ایجنسی والوں نے اپنی حراست میں لیا تھا کیونکہ جب مجھے وہاں سے نکالا گیا تو بند وین میں ہونے کے باوجود مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ کوئی رہائشی علاقہ تھا ور مجھے بچوں سمیت کسی گھر سے نکالا گیا تھا۔
”تمہیں کچھ اندازہ ہوا کہ تم کہاں تھیں… کس شہر میں…؟“ ماریہ نے بے تابی سے پوچھا۔
”نیو یارک میں…!“ کشف نے کہا تو ماریہ اچھل پڑی۔
”تو تم بیاہ کر شکاگو گئی تھیں اور وہیں سے تمہیں گرفتار کیا گیا تھا۔“ماریہ نے حیرت سے کہا۔
”کچھ دن تک تو میں شکاگو میں ہی تھی… لیکن پھر کسی طرح مجھے نیویارک منتقل کیا گیا شاید بے ہوشی کا انجکشن وغیرہ لگا کر…“ بات کرتے ہوئے کشف کے چہرے پر الجھن سی تھی۔
”تو کیا تمہیں کمرے کی تبدیلی کا احساس بھی نہیں ہوا…“ ماریہ نے سوال کیا۔
”کمرا…؟“ وہ بڑبڑائی۔ ”نہیں…“
”کیوں…؟“
”دونوں کمرے…“ وہ کچھ کہتے کہتے رکی… گہری سوچ میں گم… ”شاید“…!
”میں شاید کسی کمرے میں تھی ہی نہیں…“ اس نے یقین سے کہا۔
ض…ض…ض
”اس تنگ اور اندھیرے کمرے میں، میں اپنے بچوں سمیت لیٹی ہوئی تھی جب دہاڑ سے کمرے کا دروازہ کھلا، تنگ سا بمشکل دو فٹ کا دروازہ اور اس میں پھنس کر کھڑا ہوا ایک آدمی۔
”اٹھو…!“ اس نے حکم دیا۔ ”اپنا سامان اور بچے لے کر باہر نکلو…“
میں نے ذرا سی بھی تاخیر نہ کی۔ کمرے کے دروازے کے بالکل ساتھ ویگن کا عقبی حصہ چپکا کر ویگن کھڑی کی گئی تھی۔ رات کا وقت تھا، باہر کی آوازوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ رہائشی علاقہ ہے… کمرے میں باہر سے کوئی آواز نہ آئی تھی… نہ ہی ویگن کا پچھلا دروازہ بند ہونے کے بعد باہر کی آوازوں سے کوئی تعلق رہا… لیکن ویگن کا دروازہ بند کرنے کے لیے اسے چند فٹ آگے کیا گیا تو مجھ پر حیرت انگیز انکشاف ہوا… میں ائیرپورٹ پہنچنے تک تیزی سے سوچتی رہی کہ ائیر پورٹ پہنچ کر کوئی کوشش کروں گی ایک دفعہ کسی درست جگہ پر اپنی آواز اٹھانے میں کامیاب ہو جاتی تو پھر میڈیا تک پہنچنا کوئی مسئلہ نہ ہوتا ائیرپورٹ پر مجھے وہ موقع میسر آ سکتا تھا۔
اپنی بقا کی جنگ لڑنا تھی تو اس کے لیے شاید میرے پاس یہی آخری موقع تھا لیکن میرے سارے منصوبے ادھورے رہ گئے جب جہاز کے بالکل قریب جا کر ویگن رکی ایک سیڑھی کی مدد سے ہمیں جہاز کے جس حصے میں پہنچایا گیا یہ سب سے عقب میں تھا اور ہمیں ساتھ لے کر آنے والا آدمی بھی ہمارے ساتھ ہی جہاز کے اس حصے میں بیٹھے ہوئے سبھی لوگ ایسے تھے جن کو امریکا سے نکالا جا رہا تھا، میرے ہاتھ سے ایک سنہری موقع پھسل چکا تھا یا شاید وہ موقع کبھی آیا ہی نہ تھا… جہاز کے عملے کا رویہ بھی ہمیں امتیازی لگا اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
نیند تو وہی ہے ناں… کہ سولی پر بھی آ جاتی ہے۔… سو میں بھی بچوں سمیت نیند کی وادی میں اتر گئی تمام راستہ سوتے جاگتے گزرا بڑے دونوں بچے سیٹوں پر اور شہیر میری گود میں سو رہا تھا میں نے شہیر کو اپنی گود سے سیٹ پر منتقل کیا اور مہیر کا دیا ہوا لفافہ کھولا جس میں سے صرف ایک ٹکٹ اور پاسپورٹ نکالا گیا تھا رقم اچھی خاصی تھی مجھے ایک لمحے کو احساس ہوا کہ مہیر کے دل میں اب بھی میرے لیے محبت موجود ہے۔
چلو کبھی نہ کبھی تو وہ میرے پیچھے آئے گا بچوں کی خاطر اور محبت کی اس چنگاری کی خاطر جو اب بھی اس کے دل میں راکھ کی تہوں کے نیچے دبی ہوئی ہو گی۔ میں نے خود کو تسلی دی۔ پیسے میں نے گن کر واپس رکھے ڈالرز کے ساتھ کچھ پاکستانی کرنسی بھی تھی اسے معلوم تھا کہ مجھے فی الفور رقم کی ضرورت ہو گی… میں نے ایک سیل بند لفافہ نکالا… اسے کھولا… جہاز میں اناؤنسمنٹ ہو رہی تھی کہ ہم تھوڑی دیر میں نیچے اترنے والے ہیں لیکن میرا وجود تو ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اوپر کی طرف جا رہا تھا فضاؤں میں بکھر رہا تھا، میں آنسوؤں کی دھند کے پار اپنے ہاتھوں میں لرزتے اس کاغذ کو دیکھ رہی تھی جس پر طلاق نامے کے الفاظ نمایاں تھے۔
ض…ض…ض
”کیا مطلب… تم کسی کمرے میں نہیں تھیں…؟ تو پھر کہاں تھیں تم…؟“ ماریہ نے حیرت سے پوچھا۔
”میرا اندازہ ہے کہ مجھے کسی ٹرالر میں رکھا گیا تھا…!“ کشف نے آہستگی سے کہا
”ٹرالر میں…؟“ ماریہ نے زور دے کر پوچھا۔
”ہاں جو ٹرالر Carvan کہلاتے ہیں یعنی موبائل گھر…“
”حیرت ہے… میں تو سمجھ ہی نہیں سکی کہ تمہاری گرفتاری کی وجوہات کیا تھیں، طریقہ کیا تھا اور تمہیں اس طرح پاکستان بھجوانے کے پس منظر میں کیا محرک تھا…“
”لالچ…“ کشف نے سرد آہ بھر کر کہا۔
”کیسا لالچ…؟ کس کو لالچ تھا…؟“ ماریہ حیران تھی۔
”امریکی قوانین کے مطابق اگر مہیر مجھے طلاق دیتا تو میں اس کی تمام جائیداد میں پچاس فیصد کی حقدار تھی اس نے یہ سارا کھیل اپنی جائیداد بچانے کے لیے کیا اور فقط حق مہر کے دس ہزار ڈالر ادا کر کے تحریری طلاق دے کر مجھے فارغ کر دیا… یہ سارا ڈراما اس کے اسی بدکردار اور غنڈے نما آدمیوں نے تیار کیا ہو گا جو کہ اس مکروہ کاروبار میں اس کے شراکت دار تھے… مجھے برباد کر دیا اس نے … میرے وجود کو گھائل اور روح کو تار تار کر دیا اس نے… میں اس زمین پر غلیظ ترین چیز بن کر رہ گئی ہوں میرا وجود کیسا متبرک تھا قرآن کا امین اور اس شخص نے اپنی جائیداد بچانے کے لیے مجھے اس جہنم میں پھینک دیا…“ وہ ہیجانی انداز میں چیخنے لگی… اتنی کربناک چیخیں اور وحشت کا عالم کہ ماریہ خوفزدہ ہو گئی… کشف کی چیخوں کی آواز سے بہت سے لوگ متوجہ ہوئے اور بھاگتے ہوئے قدموں کی آوازیں قریب آنے لگیں ماریہ کو بہت الجھن ہونے لگی اس کی اتنی مضبوط کہانی کے تانے بانے الجھ رہے تھے۔
”اس نے میرے ساتھ وہ کیا کہ میرا اللہ اسے کبھی معاف نہیں کرے گا… تم جانتی ہو ماریہ میرے ساتھ کیا ہوتا رہا ہے…“ وہ رو رہی تھی۔ ”میں درندوں کی درندگی کا شکار ہو گئی۔ اے میرے اللہ… میرے رب… تو سمیع ہے… تو بصیر ہے… یا اللہ تو دیکھ رہا ہے اور سن رہا ہے…؟“ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھی اس نے اپنا چہرہ اور ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر رکھے تھے۔ ”تو ہی کوئی راہ نکال دے… تو تو سب جانتا ہے…“ جیل کا عملہ پہنچ گیا تھا ماریہ مرے مرے قدموں سے باہر نکل گئی… کشف تب بھی کچھ بڑبڑا رہی تھی… اسے سکون کے لیے انجکشن لگا دیا گیا اس کا ذہن اندھیروں میں ڈوب رہا تھا… لیکن اسے روشنی کی کرنیں نظر آ رہی تھیں۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider