Episode 48 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 48 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

ڈاکٹر کشف النساء…“ اس کے کوپے کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تھا، اس نے تھوڑا سا دروازہ وا کیا اور جھانک کر باہر دیکھا تو دو آدمی تھے حلیے سے وہ پڑھے لکھے اور معقول لگتے تھے۔
”آپ کون ہیں…؟“ اس نے حیرت سے سوال کیا۔
”میں ڈاکٹر نہیں ہوں اور جب تک آپ نہیں بتائیں گے کہ آپ کون ہیں، میں بھی اپنا تعارف نہیں کرواؤں گی…“ اس نے ہٹ دھرمی سے کہا۔
”مما کون ہے باہر…؟ کیا بات ہے…؟“ عبداللہ کے سوال پوچھنے پر وہ بچوں کی طرف متوجہ ہوئی ہی تھی کہ باہر سے زور دے کر دروازہ مزید کھول دیا گیا۔
”سر وہی ہیں…“ اجنبی کے ساتھ والے آدمی نے کہا جو دیکھنے میں ہی ماتحت لگتا تھا۔ ”دیکھ لیں یہ بچے بھی تین ہی ہیں اور تصویر نکال کر دیکھ لیں وہی ہیں…“
”آپ لوگ کون ہیں اور کیسے جرأت ہوئی آپ کی کہ آپ اس طرح میرے کمپارٹمنٹ میں داخل ہو گئے ہیں، میں زنجیر کھینچ کر ٹرین روکتی ہوں…“ اس کے الفاظ ان دونوں کے ہاتھوں میں ریوالور دیکھ کر منہ میں ہی دم توڑ گئے بچے بھی خوفزدہ ہو گئے۔

(جاری ہے)

”مما یہ ڈاکو ہیں، فلموں والے…“ عبدالرحمن کی کپکپائی آواز آئی… مگر کشف جانتی تھی کہ وہ ڈاکو نہیں بلکہ مہیر کے بھیجے ہوئے کوئی غنڈے تھے۔
”کیا چاہتے ہو تم لوگ…؟“ اس نے اپنے کھوکھلے لہجے میں مضبوطی پیدا کرنے کی کوشش کی۔
”ہمیں تو کچھ نہیں چاہیے… کسی اور کو آپ کی ضرورت ہے…“
”کون… مہیر…؟“ اس نے سوال کیا۔
”مہیر تو بہت چھوٹا مہرہ ہے میڈم…“ اجنبی زہریلی… ہنسی ہنسا… ”آپ تو بہت بڑی شے ہیں اور دنیا کی سب سے بڑی طاقت والے ملک کو آپ کی ضرورت ہے۔“
”دیکھئے بھائی…“ وہ گڑگڑانے لگی۔ چیخنے کا کوئی فائدہ نہ تھاکہ ریوالور کی زد پر تھی اور یوں بھی چیخوں کی آواز ٹرین کی آواز سے بلند کیوں کر ہو سکتی تھی… ”آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے…“
”اس کا فیصلہ کرنے والے ہم نہیں ہیں آپ صرف یہ بتا دیں کہ امریکا میں آپ کو ڈاکٹر کشف النساء کے نام سے پکارا جاتا تھا…؟“ سپاٹ لہجے میں سوال کیا گیا۔
”ہاں… مگر میں ڈاکٹر نہیں ہوں… اور امریکا میں مجھ پر جو الزامات لگائے گئے تھے وہ درست نہیں تھے۔“ اس نے احتجاج کیا۔
”ہمارے فرائض میں یہ شامل نہیں کہ آپ پر عائد کیے گئے الزامات کی صحت جانچیں، ہمیں تو صرف آپ کو حفاظت سے ان کے حوالے کرنا ہے…“
”آپ اپنے ملک کی ایک بے گناہ لڑکی کو کس طرح امریکا کے حوالے کر سکتے ہیں…؟ آپ کون ہیں اس طرح کے کام کرنے والے…؟ کیا اس ملک میں کوئی حکومت نہیں، کوئی نظام نہیں، کوئی قانون نہیں…؟ اگر میں ملزمہ ہوں تو مجھے پولیس کے حوالے کریں…“ جانے کہاں اسے اس میں اتنی جرأت آ گئی تھی۔
”آپ برائے مہربانی سکون سے رہیں اور ہمیں ہمارا کام سکون سے کرنے دیں۔“ اجنبی نے پستول کے اشارے سے اسے سیٹ پر بیٹھنے کو کہا… اگلے اسٹیشن پر خاموشی سے ٹرین سے اتر کر ٹرین کے پچھلے ڈبے کی طرف چلنے کو کہا گیا… وہ خاموشی سے شہیر کی انگلی پکڑے چلنے لگی۔ عبدالرحمن اور عبداللہ اس کے دائیں بائیں چل رہے تھے جب کہ وہ دونوں اجنبی اس کے عقب میں تھے کوئی چھوٹا سا اسٹیشن تھا وہ نام بھی نہ دیکھ سکی اسٹیشن کی عمارت تمام ہوئی تو باہر کی طرف راستے کی طرف مڑنے کو کہا گیا وہ خاموشی سے تعمیل کرتی رہی۔
باہر ایک وین نما گاڑی دیکھ کر وہ مڑی اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ پھر ایک طویل سفر درپیش تھا جانے یہ سفر کب اور کہاں تمام ہو گا… ”بھائی پلیز… آپ ایک دفعہ میری بات تو سنیں…!“
”بھائی مت کہیں میڈم…!“ سفاکی سے کہا گیا۔
”مذہب اور ملک کے ناتے…“ وہ گھگیائی۔
”نہ ہمارا مذہب ایک ہے نہ ملک… اس لیے اب یہ درخواستیں بند کریں اور گاڑی میں بیٹھ جائیں۔
“ وہ بچوں سمیت گاڑی میں بیٹھ گئی… اس دفعہ سفر طویل تھا، راستے میں ہی ایک دو جگہ رک کر اس کو… باتھ روم وغیرہ جانے کی مہلت دی گئی… وہ بھی ہر دفعہ اندھیرے میں اور انجانی سی ویران جگہوں پر بچے خوف سے باقاعدہ لرز رہے تھے۔
”یااللہ… ان بچوں کو میرے ہاں جنم لینے کی اتنی بڑی سزا تو نہ دے…!“ اس کے دل سے دعا نکلی۔
یہ ایک سفر تمام ہوا تو کرب اور ظلم کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا… بچے سفر تمام ہونے کے بعد سے اسے نظر نہ آئے تھے، ایک دفعہ ان بچوں سے امریکا میں جدائی ہوئی تو دل کو ذرا سی تسلی تھی کہ باپ کے پاس ہیں مگر اب… اس پر انتہائی ذہنی اور جسمانی تشدد کیا جا رہا تھا، یہ اگلوانے کے لیے کہ گیارہ ستمبر کو امریکا میں ہونی والی تباہی میں وہ کس طرح سے ملوث ہے؟ کون کون سے گروہ اور کون کون سے لوگ اس کے ساتھی تھے؟ ان سب معلومات کی فراہمی پر اس کی آزادی کا وعدہ تھا مگر وہ کیا بتاتی…؟ اسے کچھ معلوم ہوتا تو بتاتی۔
اسلام آباد کی جس جامعہ کا پتا اس کے سامان سے برآمد ہوا تھا وہ اس وقت توجہ کا مرکز تھی اور حکومتی گھیرا اس کے خلاف تنگ ہو رہا تھا اس کا سلسلہ وہاں سے بھی منسوب کر دیا گیا تھا اس کے ہر ہر سچ کو جھوٹ سمجھا جا رہا تھا، وہ بے بسی کی انتہاؤں پر تھی جب ماریہ نے اس سے رابطہ کیا۔

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider