ماریہ کے قلم کی کاٹ اس کے ملک میں تو مشہور تھی ہی مگر اس نے بین الاقوامی سطح پر تہلکہ مچا دیا، دنیا بھر کے رسائل اور اخبارات کے علاوہ ٹیلی وژن چینلز پر بھی افغانستان کی اس گمنام جیل میں موجود ایک بے قصور قیدی جو کہ مظلومیت کی انتہاؤں پر تھی کی خبریں نشر کی جا رہی تھیں… ان خبروں کا منظر عام پر آنا تھا کہ کئی انسانی حقوق کی تنظیمیں سرگرم عمل ہو گئیں اور کشف کو حکومتی کوششوں سے بازیاب کرا لیا تھا۔
وہ اسپتال میں زیر علاج اپنے بچوں کے لیے بلک رہی تھی اسے سکون آور دواؤں کے زیر اثر رکھا گیا تھا ذرا سا بھی ہوش آتا تو وہ ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہو جاتی اور بچوں کے نام لے کر روتی، ماریہ کو پکارتی… اپنے اللہ سے فریادیں کرتی۔
”ڈاکٹر کشف النساء…!“ اسے کہیں دور سے آواز آتی سنائی دی۔
(جاری ہے)
”کیا تم مجھے سن رہی ہو…؟“ اس نے بصد کوشش آنکھیں کھولیں… آنکھوں کی جنبش سے ہی اثبات کا اشارہ دیا۔
”کیا تم اپنے بچوں سے ملنا چاہتی ہو…؟“ سوال کیا گیا۔
”ہاں…“ پورے جسم کی طاقت اس ایک لفظ کو ادا کرنے میں صرف ہو گئی۔
”بچے تمہارے شوہر کے پاس ہیں، امریکہ میں…“ آواز پھر آئی۔ ”اور تمہیں امریکا ہی جانا پڑے گا ان سے ملنے… کیا تم جانا چاہو گی امریکا…؟“
”ہاں…!“ اس نے کوشش کر کے پھر یہ لفظ ادا کیا۔ وہ ایک تاریک باب زرندگی جسے بھلانے کو وہ ہر وقت کوشاں رہتی تھی وہ باب پھر کھل گیا تھا۔
”میں تھوڑے دنوں میں کاغذی کارروائی مکمل کر کے پھر آؤں گا… میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہوں گے اور تمہیں ان کے سامنے کہنا ہو گا کہ تم اپنی رضا سے امریکا جا رہی ہو کہ تم امریکا کی عدالت میں اپنا مقدمہ لڑنا چاہتی ہو… وہاں جا کر تم اپنی قوت ارادی سے ٹھیک ہونے کی کوشش کرو تاکہ تمہیں سکون آور ادویات نہ دی جائیں اور تم دیکھنے میں مریض بھی نہ لگو…“
بچوں سے ملنے کی خواہش اس کے بدن میں لہو کی ساتھ گردش کرتی تھی، ان بچوں کی خاطر اسے زہر کا پیالہ بھی پینا پڑتا تو وہ انکار نہ کرتی… اس نے پوری قوت ارادی سے خود کو سکون آور دواؤں کے استعمال سے نکالا اس کی حالت قدرے بہتر تھی اگرچہ یہ بہتر حالت بھی ایک ڈھانچے جیسی ہی تھی… اس کے نیم مردہ جسم میں امید کی کرن جگمگا رہی تھی… ابھی تو اسے کسی نہ کسی طرح ماریہ کا بھی شکریہ ادا کرنا تھا اسے معلوم ہوا تھا کہ ماریہ مسلمان ہو گئی تھی۔
ض…ض…ض
اس روز وارڈ میں صبح سے چہل پہل تھی اسپتال اور مریضوں کو بھرپور کوشش سے بہتر دکھانے کی کوشش ہو رہی تھی… پھر دوپہر کے قریب رش بڑھ گیا، اسے آدمی کی جھلک نظر آئی جو پچھلی دفعہ اکیلے اسے مل کر گیا تھا اس وقت وہ درجنوں لوگوں کے نرغے میں تھا، کیمرے، مائیک، رپورٹر، پولیس، سکیورٹی، کشف کو اندازہ ہوا کہ وہ کوئی بہت اہم آدمی تھا، وہ لوگوں کے سوالوں کے جوابات دے رہا تھا۔
”ہم ڈاکٹر کشف النساء پر کوئی زبردستی نہیں کر رہے وہ خود امریکا جا کر وہاں کی عدالت میں اپنے بچوں کی تحویل کے لیے مقدمہ لڑنا چاہتی ہیں…!“ کشف نے اس کی آواز سنی تب کیمروں اور مائیک کا رخ کشف کی طرف مڑ گیا ڈاکٹر نے براہِ راست سوال و جواب سے منع کر دیا کالے کوٹ میں ملبوس ایک آدمی آگے بڑھا۔
”مس کشف النساء میں آپ کا وکیل ہوں حکومت کی طرف سے آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ خود اپنی مرضی سے امریکا جا کر اپنا مقدمہ لڑنا چاہ رہی ہیں…؟“
”جی ہاں…!“ اس نے اعتماد سے کہا، یہ وہ اعتماد تھا جس کی تہہ میں اس خواہش کا گلا گھونٹا گیا تھا کہ وہ اس وقت چیخ چیخ کر سب کے سامنے خود پر ہونے والے ظلم اور بربریت کی داستان سنائے مگر اس طرح وہ اپنے بچوں سے ملنے کا ایک موقع کھو دیتی۔
”کیا آپ کو اس بات کا احساس ہے کہ آپ پر امریکا کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام ہے اور اس پر وہاں آپ کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے؟ کیا آپ ایسے حالات کے لیے خود کو تیار پاتی ہیں…؟“ وکیل نے پھر سوال کیا۔
”میں دہشت گرد نہیں ہوں اس لیے مجھے یقین ہے کہ میرے خلاف کوئی بات ثابت نہ ہو سکے گی۔“ اس نے آہستگی سے کہا… یہ سب مناظر براہِ راست دنیا بھر میں دکھائے جا رہے تھے… لندن میں صبح کے آٹھ بجے چائے کے ایک بڑے مگ سے ہلکی ہلکی چسکیاں لیتے ہوئے ماریہ بھی اس وقت ٹیلی وژن پر یہی مناظر دیکھ رہی تھی۔
”بے وقوف عورت…!“ اس نے تبصرہ کیا۔ ”کتنی مشکل سے اس کی جان چھوٹی تھی اور کیسا سنہری موقع گنوا رہی ہے… اسے اس وقت میڈیا پر دنیا بھر کے سامنے امریکا کا اصلی چہرہ دکھانا چاہیے جانے کس لیے امریکا جانا چاہتی ہے…“
”میں وہاں اپنے بچوں سے مل سکوں گی انہیں اپنے شوہر کی تحویل سے لے سکوں گی…“ ٹیلی وژن اسکرین پر کشف کے چہرے کا کلوز اپ دکھایاجا رہا تھا ماریہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
”اچھا ہے کہ اسے معلوم ہی نہیں کہ اس کے تینوں بچوں کو وہیں مار دگیا تھا… ورنہ وہ مر ہی جاتی…“ ماریہ بڑبڑاتے ہی چونکی۔ ”اسے معلوم ہونا… چاہیے کہ اس کے بچے مر چکے ہیں… وہ امریکا جا کر کسی اور مصیبت کا شکار ہونے والی ہے…“ ماریہ نے سوچا اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ اسے علم ہو تو وہ مر جائے…زندگی جی کر اسے کرنا بھی کیا ہے… ذہنی مریضہ بن چکی ہے…“ ماریہ نے ایک ٹھنڈی آہ بھری چائے کا مگ میز پر رکھ کر فون اٹھایا۔
”مجھے کسی طرح اس سے رابطہ کرنا ہو گا…“ دوسری طرف فون کی گھنٹی بج رہی تھی جب کسی نے فون اٹھایا تو وہ فوراً بولی۔ ”اسلام آباد میں اس وقت کون سا نمائندہ کشف کے کیس کی کوریج کر رہا ہے مجھے برائے مہربانی اس کا نمبر دے دیں۔
ض…ض…ض
”فاضل عدالت یہ چاہتی ہے کہ تم اپنی صفائی میں کوئی ثبوت یا گواہ ہے تو پیش کرو…!“
”میرے پاس کوئی ثبوت ہے نہ کوئی گواہ… تاہم اپنے سابقہ شوہر مہیر کو بلانے کی درخواست کرتی ہوں…“
اس نے اٹک اٹک کر جملہ مکمل کیا اسے یقین تھا کہ مہیر دل سے اس کی مخالفت کرے گا مگر پھر بھی دل خوش فہم کو اس سے کچھ امیدیں تھیں کمرئہ عدالت میں موجود مہیر کو گواہان کے کٹہرے میں پیش کیا گیا۔
اس نے مقدس کتاب پر سچ بولنے کا حلف اٹھایا۔
”ملزمہ بدقسمتی سے میری بیوی رہ چکی ہے…“ اس نے کہنا شروع کیا۔ ”لیکن یہ شادی جلد بازی کا نتیجہ تھی اور بے جوڑ… ملزمہ شاید امریکا پہنچنے کے لیے کسی ذریعے کی تلاش میں تھی جو اسے قسمت سے میسر آ گیا۔ امریکا پہنچ کر اس نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں جو کہ پاکستان اور امریکا میں موجود مذہبی جماعتوں اور مدارس کی سرپرستی کے باعث دنیا بھر میں جاری ہیں…“
”یہ سب جھوٹ ہے مہیر… تم نے مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر سچ بولنے کی قسم کھائی ہے۔
“
”خدارا مجھ پر یہ ظلم نہ کرو…“ اس کی آنکھوں سے آنسو ضبط کرنے کے باوجود بہہ نکلے۔
”ڈاکٹر کشف النساء!“ برائے مہربانی گواہ کے بیان میں مخل نہ ہوں…“ جج نے اسے سرزنش کی کشف سسکی۔
”کشف نہ صرف مجرمانہ سرگرمیوں میں مصروف رہتی تھی بلکہ وہ ذہنی مریضہ اور انتہا پسند خاتون ہے اس کا اندازہ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ جب میں نے اسے یہ بتایا کہ اس کی ماں مر گئی ہے تو اس نے باقاعدگی سے اپنی ماں کو خطوط لکھ کر مجھے دینا شروع کر دیے کہ میں ان کو پوسٹ کروں… یہ رہے وہ خطوط جس میں اس نے کھلم کھلا اظہار کیا ہے کہ اسے نہ میں پسند تھا نہ میری حرکتیں… تو صاف ظاہر ہے کہ ایک ناپسندیدہ شخص کے ساتھ رہنا دراصل اس کے ان مذموم عزائم کی تکمیل کی خاطر ہی تھا…“ مہیر کا بیان جاری تھا کہ وہ چیخی۔
”جھوٹ ہے یہ سب جھوٹ… اس نے کبھی مجھے میری ماں کی وفات کا نہیں بتایا… مجھے تو تین چار سال تک ان کی وفات کا علم ہی نہیں ہوا…“
”آپ ہی بتائیں جج صاحب… کیا یہ بات ماننے والی ہے…؟“ وہ مکاری سے مسکرایا۔
”میرے بچے مجھ سے ملوا دیں…“ وہ اتنی دیر کھڑی رہ کر نڈھال ہو گئی تھی جنگلے کو پکڑ کر قریب رکھے ہوئے اسٹول پر بیٹھ گئی۔
”دیکھا جج صاحب… اس نے میرے بچوں کو خود پاکستان میں کہیں چھپا کر رکھا ہے اور الٹا مجھ پر دعویٰ کر رہی ہے، بچے اس کے ساتھ ہی پاکستان گئے تھے مجھے شک ہے کہ اس نے انہیں کسی مدرسے میں ڈال دیا ہے تاکہ وہ بھی اس کی طرح انتہا پسند بن جائیں…“ مہیر کے الفاظ نہیں نشتر تھے… وہ سسکنے لگی۔ عدالت میں موجود ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کیا اور فاضل جج کو بتایا کہ ملزمہ مزید سوال و جواب کی متحمل نہ ہو سکے گی۔
ض…ض…ض
دماغی امراض کے اسپتال میں زیر علاج کشف اپنا زیادہ وقت بچوں کے لیے بنے ہوئے پارک میں گزارتی جہاں جھولا جھولتے ہوئے اپنی ماں کے گھر کے آنگن میں جا پہنچتی ہے وہاں کھیلنے والا ہر بچہ اسے اپنا ہی بچہ لگتا ہے۔ رات کو سوتی ہے تو بھی اسے یہی محسوس ہوتا ہے کہ اسے کے تینوں بچے اس سے لپٹے ہوئے ہیں وہ انہیں تھپکتی ہے لوریاں سناتی ہے… کبھی کبھار وہ اپنی چھوٹی چھوٹی باتیں کرنا شروع کر دیتی ہے اور اس کی مخاطب ماریہ ہوتی ہے۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ جس ملک میں جانور کی تکلیف پر بھی لوگ تڑپ اٹھتے ہیں اور جانوروں کے حقوق کی تنظیمیں انتہائی فعال ہیں اس ”مہذب“ معاشرے میں کسی معصومہ، حافظہ اور مظلومہ سے جانوروں سے بدتر سلوک کرنے والے لوگ موجود ہیں… اللہ نے انہیں ان کے اعمال کی سزا اس دنیا میں ہی دے دی ہے اور وہ کبھی کبھار تنہائی میں پچھتاووں کی آگ میں بھی جلتے ہیں لیکن ابھی تک اس ملک میں ایک شخص ایسا بھی ہے جس کی رسی ابھی تک دراز ہے اور اب بھی بے فکری سے زندگی بسر کر رہا ہے… مہیر…
مہیر، کشف کو کبھی بھولے سے بھی یاد نہیں آتا… اس کے ذہن کی سلیٹ سے شاید وہ حصہ مٹ گیا ہے… ہر روز صبح کشف کے کمرے سے خوش الحانی سے قرأت کی آواز آتی ہے… اس کے سینے میں محفوظ قرآن خودبخود اس کی زبان سے جاری ہو جاتا ہے وہ جو سمجھ بیٹھی تھی کہ وہ بھول گئی ہے… ہر روز باقاعدگی سے دہراتی ہے۔
”میرے لیے اللہ ہی کافی ہے…!“ کیونکہ اسے مجھ سے، آپ سے، ہم سب سے اور کوئی امید نہیں ہے۔