Episode 51 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 51 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

وطن واپس لوٹا تو لگا کہ ملک میں لوگوں کی سوچ بدل چکی ہے… مگر جلد ہی اندازہ ہوا کہ لوگوں کی سوچ نہیں بلکہ میری شخصیت، میرا مقام اور میری اہمیت بدل چکی ہے- بابا نے اپنا سارا کاروبا ر میرے حوالے کر کے خود کو ریٹائر کر لیا تھا، میرے ساتھ ہر روز شام کو ایک سیشن ہوتا جس میں وہ مجھ سے دن بھر کی کارکردگی کا پوچھتے اور مجھے بتاتے کہ کہاں کیا اس سے بہتر ہو سکتا تھا… وہ میرے لئے باپ کے علاوہ بہترین دوست بھی تھے ، استاد اور میرے راہنما بھی، میں نے زندگی کے سارے درس انہی سے سیکھے تھے، میں نے حالات سے لڑنا بھی انہی سے سیکھا تھا- اب میں انہیں دیکھتا تو دکھ ہوتا کہ انہوں نے میرے بغیر کئی سال کیسے تنہا گزارے ہوں گے… کاش انہوں نے اس وقت شادی کر لی ہوتی جب میں چھوٹا تھا، یوں وہ وہ اب بھی ایسے سمارٹ تھے کہ انہیں کوئی نہ کوئی رشتہ مل جاتا اورمیں بات بات میں ان سے کہتا تو وہ ہنس پڑے اور کہتے کہ اب ان کا نہیں بلکہ میری شادی کا وقت تھا… میرے دل کی کئی دھڑکنیں اتھل پتھل ہوتیں اور کئی چہرے یاد کے پردوں پر جھلملانے لگے، جن کے دلوں میں میری طلب تھی…
مصر کی فاطمہ… ٹریسی جو فرانس سے آئی تھی، چین کی گریس، یونان کی کامیا، انڈیا کی روشی، بنگال کی حسین آنکھوں والی کانتا اور پاکستانی حسن کا مجسمہ… نگاہ ناز!!! ان میں سے کئی اپنا مذہب بدلنے کو تیار تھیں، کئی ملک اور خاندان چھوڑنے کو…میں نے ان سب ہاتھوں کو جھٹکا تھا، کیونکہ مجھے شادی کرنا ہی نہ تھی- میری شرافت اور لڑکیوں سے بیزار طبیعت لڑکیوں کو اور بھی میری طرف مائل کرتی تھی، مگر میں کسی طرف مائل نہ ہوتا تھا…
 جس طرح بابا نے میرے لئے اپنی زندگی تج دی تھی اسی طرح مجھے بھی ان کی محبت کا بدلہ دینا تھا… مجھے ان کی تنہائی بانٹنا تھی… شادی کے نام سے یوں بھی ڈرتا تھا کہ میری بیوی میری ماں کی طرح نکلی تو میں مزید ٹوٹ جاؤں گا- میں شادی کر لیتا تو بابا مزید تنہا ہو جاتے، حالانکہ وہ کہتے تھے کہ انہیں تنہائی کی عاد ت ہو گئی تھی مگر جوں جوں ان کی عمر بڑھے گی ان کی صحت بھی متاثر ہو گی اور انہیں میری ضرورت اس سے بھی زیادہ ہو گی-
” ہم ایک دوسرے کے سہارے زیادہ بہتر زندگی گزار سکتے ہیں بابا!“
” ارے نہیں پگلے… مجھے اب زندگی تمہاری خوشیوں کے ساتھ گزارنی ہے، تمہاری بیوی سے خدمت کروا کے، تمہارے بچوں کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر ٹہلتے ہوئے… “ بابا کا چہرہ خوشی سے تمتمانے لگا تھا-
” جاگ جائیں بابا… “ میں نے ہنس کر کہا تھا، ” اس دور میں اس طرح کی بہوئیں ناپید ہو چکیں ! “ 
” ارے کیوں بابا… “ بابا نے منہ بسورا، ” میں ڈھونڈ کر لاؤں گا ایسی ہی پیاری بہو اپنے بیٹے کے لئے!“
ض…ض…ض
” بابا… آپ میری بات مانیں، نادرہ خالہ کو اب بھی یہاں لے آئیں… “ میں نے ان سے درخواست کی، ” میں گیا تھا ان سے ملنے… بہنوں کی شادیوں کے بعد وہ بالکل تنہا ہو گئی ہیں، اپنی بھابھیوں کے رحم و کرم پر پڑی ہیں، اکیلی رہ گئی ہیں وہ… “
” کہاں ملے تھے تم انہیں؟ “ بابا نے حیرت سے پوچھا، وہ کبھی نہ چاہتے تھے کہ میں اپنے ننھیال جاؤں ، جہاں میری ایک دن بھی پذیرائی نہ ہوئی تھی، مجھے اپنی بیٹی کی اولاد ہی نہ سمجھا تھا انہوں نے… مگر وہ کیسے سمجھتے، ان کی بیٹی نے نہ سمجھا تھا تو وہ کیونکر میری قدر کرتے-
بابا نے سب بہنوں کی شادیوں میں مہمان کی طرح شرکت کی تھی، وہ بھی شاید اس لئے کہ انہوں نے سارے اخراجات برداشت کئے تھے، بہنوں کو قدر آئی مگر بہت بعد میں… ماں نے کسی کی شادی میں شرکت کی اور کسی میں وہ اپنی مجبوریوں کے باعث نہ آ سکیں تھیں، اب باپ کی قدر کر کے وہ کیا کر لیتیں کہ اب تو ان کے اپنے سسرال ہی ان کے گھر تھے، ان سب کے رشتے نادرہ خالہ نے طے کئے تھے اور اچھی جگہوں پر کئے تھے… یہ سب باتیں خالہ نے مجھے اس ملاقات میں بتائی تھیں جو ہماری ایک شاپنگ مال کی فوڈ کورٹ میں ہوئی تھی-
میری نظریں انہیں تلاش رہی تھیں کہ وہ مجھ سے آ کر لپٹ گئیں…
” آپ نے کیسے پہچانا مجھے خالہ؟ “ میں نے سوال کیا تھا، ” میری رنگت سے نا؟“
” فضول باتیں نہ کرو میری جان… تم تو میرے لئے دنیا کے سب سے پیارے بیٹے ہو، سب سے انوکھے!“
” انوکھا تو میں ہوں البتہ دوسرے حصے سے مجھے انکار ہے… “میں نے ہنس کر کہا تو انہوں نے میرے کاندھے پر چپت لگائی، میری روح کی گہرائی تک اس چپت میں چھپا ہوا پیار اتر گیا-
” ایسی باتیں کر کے میرا دل نہ دکھا یا کرو… “
” جس کی ماں … “ میرے حلق میں پھندے پڑنے لگے، ” اس سے بڑا کیا ثبوت ہو سکتا ہے؟ “
” جس کی ماں دنیا کی سب سے بڑی بے وقوف عورت ہو… “ خالہ نے اپنے آنسو پونچھے، ” اس سے بڑی بد قسمتی کیا ہو سکتی ہے اس عورت کی کہ وہ اس کے بعد ماں ہی نہیں بن سکی… “
” ماں تو وہ کبھی بھی نہ بنی تھی خالہ… اس نے تو صرف بچے پیدا کئے تھے ، وہ تو جانور بھی پیدا کر لیتے ہیں، مگر … جانوروں کوتو اپنے بچوں سے محبت ہوتی ہے چاہے وہ جیسے بھی ہوں !!“ میرا دل کرب سے بھر گیا، آئس کریم کھاتے ہوئے خالہ سے باتیں ہوئیں، بار بار سوچتا تھا کہ میری ماں خالہ جیسی کیوں نہ تھی!! خالہ نے اپنے کئی دکھ میرے سامنے کھولے تھے…
ض…ض…ض
بابا کو منانا بہت مشکل کام تھا مگر میں نے انہیں منا اکر ہی دم لیا، نادرہ خالہ ہمارے گھر منتقل ہو گئیں مگر اس کے لئے انہیں بابا کے ساتھ شرعی رشتے میں بندھنا پڑا اور یوں ان دونوں کو عمر کے اس حصے میں ایک دوسرے کی رفاقت مل گئی جس نے ان دونوں کا مسئلہ حل کر دیا اور مجھے بھی خوشی محسوس ہوئی، میں تنگ نظر کبھی بھی نہ تھا، بابا جب بھی شادی کر لیتے، مجھے اس پر کوئی اعتراض نہ ہوتا-
پہلے بابا اکیلے میری شادی کے خواہاں تھے اب خالہ ان کے ساتھ تھیں، مہم تیز ہو گئی تھی تو میں نے بھی ہتھیار ڈال دئیے… ” چاند سی دلہن لاؤں گی میں اپنے لال کے لئے… “
” پلیز خالہ… چاند جیسی ہی لائیے گا… “ میں نے بے ساختگی سے کہا، ” کوئی نہ کوئی داغ ہو اس میں، بالکل چاند کی طرح… “
” داغ کیوں ہو اس میں اللہ نہ کرے … “
” تا کہ اسے میرے تن کے داغ اور میری کمزوریاں بری نہ لگیں … ا س کا ظرف کتنا بھی بڑا ہو خالہ، مگر جسے اس کی ماں نے دھتکار دیا ہو اسے کوئی اور لڑکی تب تک قبول نہ کرے گی جب تک اس لڑکی میں خود کوئی کمزوری نہ ہو… چاہے کوئی بیوہ ہو یا مطلقہ خالہ… مجھے کوئی اعتراض نہیں!“
” اب تم بے وقوفی کی باتیں بند کرو گے یا مار کھاؤ گے مجھ سے… “ خالہ کوشش کے باوجود اپنے آنسو نہ چھپا سکیں ، ” اللہ نے تمہارے لئے کوئی اتنی اچھی لڑکی رکھی ہو گی کہ تم اپنے سارے دکھ بھول جاؤ گے… “
” بابا اور آپ کے ہوتے ہوئے مجھے کوئی غم نہیں ہے خالہ… “ میں نے انہیں ساتھ لپٹا لیا، ان کے وجود سے میرے لئے مامتا ہی مامتا جھلکتی تھی- اس کے بعد خالہ نے اپنی زندگی کا مقصد ہی میرے لئے لڑکیوں کو تلاشنا کر لیا تھا، اٹھتے بیٹھتے وہ میرے سامنے اپنے اس روز کی مصروفیات بیان کرتیں، کہاں کہاں وہ رشتے دیکھنے گئیں اور انہیں کس رشتے پر کیا اعتراض ہوا، کس لڑکی میں انہیں کیا پسند نہ آیا… میں اس تفصیل کو سنتا اور ہنس دیتا، باتیں سنتے سنتے نیند آنے لگتی تو میں انہیں شب بخیر کہتے ہوئے کہتا کہ وہ اپنا مشغلہ جاری رکھیں…
ض…ض…ض
میرا نام نتالیہ ہے… میں چھ بہنوں میں سے آخری تھی اور اس میں کوئی شک نہ تھا کہ وہ سب حسن میں ایک سے بڑھ کی ایک تھیں، میں عام شکل و صورت کی حامل تھی-بچپن سے ہی مجھے خود پر پڑتی نظریں محسوس ہوتیں جن میں ترس اور ہمدردی ہوتی، کوئی میرے منہ پر کہہ بھی دیتا اور میں کڑھ کر رہ جاتی- بچپن سے جوانی کی حدود میں قدم رکھا تو تب تک میری تین بہنیں بیاہ چکی تھیں، میں نے اپنی کمزوریوں کو اپنی تعلیمی کارکردگی کے پردے میں چھپا لیا تھا، کامیابیوں پر کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہی تھی… بہنیں میٹرک پاس کرتیں تو رشتوں کی لائنیں لگ جاتیں، کسی نہ کسی کے نام قرعہ نکل آتا اور اپنے حسن کے بل بوتے پر انہوں نے عمر کے اس حصے میں ہی اپنی زندگیوں میں وہ مقام اور مرتبے حاصل کر لئے تھے جن کے لئے عام لڑکیاں سالوں جدوجہد کرتی ہیں-
کالج میں پہنچی تو باقی دو بھی بیاہ چکی تھیں، میری ماں اتنی خوش قسمت عورت تھیں کہ ان کے سب داماد عہدوں ، مرتبوں اور سیاسی مقام میں ایک دوسرے کی ٹکر کے تھے، بڑے بڑے خاندانوں میں ان کے سمدھیانے تھے، ابا کی سرکاری ملازمت معقول تو تھی مگر ایسی نہ تھی کہ انہیں ایسے عالی شان رشتے اپنی بیٹیوں کے لئے بے ڈھونڈے مل جاتے- میری فکر میں اماں مری جاتی تھیں، ” اسے کون پوچھے گا؟“یہ وہ فقرہ تھا جس کی تسبیح وہ بلا ناغہ دن میں دس بیس دفعہ سمرتی تھیں… میں اس گھر میں واحد نمونہ تھی جو کسی کو بھاتا ہی نہ تھا، واحد لڑکی جس کے توسط سے اس چھ بیٹیوں کے گھر میں پہلی بار رشتے کروانے والیوں کو آمد و رفت کا موقع ملا تھا-
اماں مجھ سے محبت تو کرتی تھیں مگر دل سے یہ احساس نہ جاتا کہ میری کم صورتی جانے مجھے کیا کیا دکھ دکھائے گی- میں بظاہر اماں کی باتوں کو نظر انداز کرتی مگر ان کا کہا ہوا ایک ایک حرف میرے دل پر نقش ہو جاتا تھا، کم صورتی نے مجھے بد مزاج بھی بنا دیا تھا… بہنوں میں سے جو کوئی مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کرتی کہ میں اپنی شخصیت کو خوب صورت نہ ہونے کے باوجود بھی کس طرح بہتر بنا سکتی ہوں تو میں انہیں سنا ان سنا کر دیتی اور کہتی کہ وہ اپنے حال میں خوش رہیں اور میری فکر میں نہ مریں-
تنہائی میں اپنا جائزہ لیتی تو اندازاہوتا کہ اگر میرے مزاج کا چڑچڑا پن کم ہو جاتا، میرے ماتھے کی تیوریاں ختم ہو جاتیں، خود ترسی سے نکل آتی تو شاید واقعی کچھ فرق پڑ جاتا…یہ سب وہ نکات تھے جو بہنیں مجھے بتاتیں اور میں ان پر توجہ نہ دیتی مگر ان کی باتیں دل میں تو اترتی تھیں نا…
یونیورسٹی میں میں نے اپنی قابلیت کے جھنڈے گاڑ دئیے… بڑے بڑے قابل طالب علموں کی دال میرے آ گے نہ گلتی تھی، میں نے اپنی کمزوریوں کو جان لیا اور اپنی طاقت کے بوتے پر انہیں نظروں کے سامنے سے ہٹا دیا، کوئی میری کم صورتی کانام بھی نہ لیتا تھا، ہر کوئی میرے گریڈز کی بات کرتا، میری ذہانت کی مثالیں دیتا، میری قوت گفتار اور فطانت کا ذکر کرتا- نتالیہ نام … ذہانت کی علامت بن چکا تھا- یونیورسٹی میں ایک دو لڑکوں نے لائن مارنے کی کوشش کی تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ کھلنڈرے اور عیاش تھے اور ان کا مقصد مجھ سے دوستی کر کے فقط امتحان کے دنوں میں میرے نوٹس سے فائدہ اٹھا نا تھا، ایسی لڑکی میں ہر گز نہ تھی کہ خود کو کھلونا بننے دیتی، ایک عزت نفس ہی تو تھی میرے پاس…

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider