Episode 56 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 56 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

” میں تو اسے تمہاری بے وقوفی ہی کہوں گا نتالیہ… “ گاڑی چلاتے ہوئے اس نے میری ” مظلومیت “ کی داستان سن کر بڑے تحمل سے کہا-
 ” کیا؟؟؟ میری بے وقوفی یا تم لوگوں کی مجھ سے دھوکہ دہی؟ “
” کیا دھوکہ دیا گیا ہے تمہیں… تم نے خود ہی عائشہ سے کہا تھا کہ اگر لڑکا تمہیں دیکھے بغیر شادی کرنا چاہتا ہے تو تم بھی اسے دیکھے بغیر شادی کرو گی! “ اس نے زور سے کہا، ” کہا تھا یا نہیں؟“
” کہا تھا مگر… “ میں ہکلائی، ” میں تو نہیں جانتی تھی کہ اگر وہ کسی طرح سے بھی معذور نہیں تو … کم از کم آپ سب لوگوں نے دیکھاتھا اور آپ جانتے ہیں کہ اپنے ساتھی کے انتخاب میں میں کس کس پہلو کو سوچ سکتی تھی، میں کم صورت سہی ذاکر مگر میری رنگت تو صاف ہے نا… “
” خدا کے لئے نتالیہ … رنگت کو اتنا اہم مسئلہ نہ بناؤ کہ اس کو لے کر تم اپنی اور سرمد کی زندگی اجیرن کر لو… اس میں کوئی جسمانی نقص ہے نہ شرعی عیب… وہ اپنا دامن بچا کر زندگی گزارنے والا مردہے نتالیہ اور یہ مرد کی بہت اہم خوبی ہوتی ہے… ہم لوگ بھی اس جیسے با کردار نہیں ہیں، میں بھی نہیں… میری زندگی میں بھی کئی گوشے ہیں، کئی پہلو ہیں جو میری بیوی کے علم میں نہیں، اگر چہ اس سے اسے کوئی فرق نہیں پڑنے والا مگر اسے مجھ پر بد اعتمادی تو ہو سکتی ہے نا…“
” آپ یہ سب اس لئے کہہ رہے ہیں کہ آپ کو ایک بد صورت جیون ساتھی نہیں ملا… میں سمجھتی تھی کہ آپ مجھے جانتے ہیں اور آپ سے بڑھ کر کسی کو میرے اس مسئلے کا احساس نہیں ہو گا، مگر آپ سب آپس میں ملے ہوئے ہیں… “ وہ بہت کچھ کہتا رہا اور میں نہ سننے کی اداکاری کرتی رہی، گھر پہنچی تو میرا منہ سوجا ہوا تھا، میں نے اپنا بیگ صوفے پر پھینکا اور دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا- سب لوگ وہیں تھے،بہنیں اور ان کے شوہر… اماں نے مجھے کندھو ں سے تھام کر صوفے پر بٹھا دیا اور مجھے رونے دیا، کوئی مجھے تسلی نہ دے رہا تھا اور مجھے تو یوں لگا کہ وہ سب بہرے تھے، کوئی مجھے سن ہی نہ رہا ہو جیسے… میں سب سے چھوٹی اور سب کی لاڈلی اس وقت یوں تھی جیسے دیار غیر میں میں کسی میلے میں کھو گئی تھی، کوئی مجھے پہچان بھی نہ رہا تھا-
آنسوؤں کی بھی ایک حد ہوتی ہے، میری دھاڑیں پہلے ہچکیوں میں اور پھر سسکیوں میں بدلیں اور ایک وقت آیا کہ میں سسکیاں لے لے کر بھی تھک گئی… میرے روتے روتے ہی بہنیں اپنے اپنے کمروں میں چلی گئی تھیں، صرف اماں ، ذاکر اور عائشہ بیٹھے رہ گئے- 
” تھک گئی ہو گی رو رو کر… “ ذاکر نے جوس کا گلاس میری طرف بڑھایا، ” یہ پی لو تا کہ تمہیں اور رونے کے لئے ہمت مل جائے… “ میں نے جھکا ہوا سر اٹھایا اور اس کی آنکھوں میں دیکھا، وہاں کچھ نہ تھا، میں شرارت ڈھونڈ رہی تھی-
” میرے ساتھ کیوں کیا ایسا اماں آپ سب نے؟ “ میں نے جوس کا گلاس ہاتھ سے ہٹایا-
” تمہارے بھلے کے لئے… تمہیں اچھا مستقبل دینے کے لئے… “ اماں نے کہا-
” اسے اچھا مستقبل کہتی ہیں آپ… اتنے تاریک مستقبل کو اچھا کہتی ہیں آپ…“ میں نے غصے سے کہا تو ذاکر کی ہنسی نکل گئی-
” اچھا اگر کافی رو لیا ہے تو اٹھ کر منہ دھو لو پہلے… “ عائشہ نے کہا تو مجھے اندازہ ہوا کہ میں نے میک اپ بھی نہ اتارا تھا جو کہ اب جانے کس طرح میرے منہ پر پھیل چکا ہو گا- خاموشی سے اٹھ کر میں اپنے کمرے کے غسل خانے کی طرف چلی جہاں ساری بہنوں کے بچے سو رہے تھے، آئینے پر نظر پڑتے ہی مجھے اپنی شکل نظر آئی تو میں بھوت لگ رہی تھی… کوئی مجھے اس حال میں دیکھتا تو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتا- میں خود اس وقت کتنی بد صورت لگ رہی تھی، وہ میں جاننا نہ چاہتی تھی، کاجل کی سیاہ لکیریں میرے گالوں پر لائنوں کی صورت چل رہی تھیں ، جیسے میں نے کسی جوکر کا میک اپ کر رکھا ہو-
پانی میں بھی بڑی طاقت ہے… واپس آئی تو میرے وجود کی جلن بھی آنکھوں کی جلن کے ساتھ کم ہو چکی تھی- میں اسی صوفے پر ٹک گئی، اماں نے میرا سر اپنی گود میں رکھ لیا، میں خاموشی سے لیٹ گئی، ” تمہیں وقت بتائے گا کہ میرا انتخاب تمہارے لئے اچھا تھا یا نہیں، ممکن ہے کہ میں نہ ہوں وہ وقت دیکھنے کے لئے، مگر تم خود اعتراف کر و گی… اس کی اچھائی دیکھنے کے لئے جس دیدہء بینا کی ضرورت ہے وہ ابھی تمہارے پاس نہیں ہے… “
” اس سے اچھا تھا اماں کہ میں نابینا ہوتی، مجھے اس کو دیکھنا ہی نہ پڑتا… “ میں سسکی، ”مجھے اس سے کراہت محسوس نہ ہوتی… “
” یوں نہیں کہتے بیٹا… کالے رنگ سے نفرت کرنا، اللہ کی بنائی ہوئی چیز سے اتنی کراہت کرنا ، گناہ ہوتا ہے نتالیہ… “ اماں نے فوراً میرے منہ پر ہاتھ رکھا… ” دنیا کی ہر عورت اپنے گھر بسانے کو نابینا بن کر رہتی ہے بیٹا، ہر مرد میں کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا ہے کہ جسے نہ دیکھا جانا، نہ جاننا ہی عورت کے حق میں بہتر ہوتا ہے… نظر انداز کرتی ہے تو گھر بستے ہیں بیٹا… تم ہو نہیں تو خود کو نابینا سمجھنا شروع کر دو… “ اماں کی یہ دلیل میرے اوپر سے ہی گزر گئی-
” میں خوش نہیں ہوں اماں اور ناخوشی میں جینا نہیں چاہتی… “
” خوشی تو ایسی تتلی ہے بیٹا کہ ہم لاکھ اس کے پیچھے بھاگیں ،ہاتھ نہیں آتی اور آ جائے تو اس کے رنگ چھوٹ جاتے ہیں اور وہ ہمیں بری لگنا شروع ہو جاتی ہے… خوشی دسترس میں نہ ہونے والی چیز کا تصور ہی تو ہے اس سے زائد کچھ نہیں …“ ذاکر اٹھ کر چلا گیا تو اماں اور عائشہ دیر تک مجھے سمجھاتی رہیں، جب تک کہ باہر سرمد کی گاڑی کے ہارن کی آواز نہ آئی، گھر میں اتنے ڈرائیور ہوتے ہوئے اور اپنی بہنوں کے مہمان ہونے کے باوجود وہ خود مجھے لینے آیا تھا، میں خاموشی سے ان لوگوں سے ملی جو کہ اب تک جاگ رہے تھے اور میرے جانے کا سن کر اپنے اپنے کمروں سے نکل آئے تھے-
سرمد نے آگے بڑھ کر میرے لئے گاڑی کا دروازہ کھولا، میں خاموشی سے بیٹھ گئی، منہ سے شکریہ کا لفظ بھی نہ نکلا، سر جھکا کرا س نے اماں کو تعظیم دی اور گھوم کر آ کر ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی- 
” آئس کریم کھاؤ گی؟ “ سرمد نے پوچھا تو میں نے نفی میں سر ہلا دیا، ” ناراض ہو مجھ سے؟ “
” نہیں… “ میں نے مختصراً کہہ کر نگاہیں کھڑکی سے باہر جما دیں، نظر کو کسی اور طرف مرکوز کر کے ہی زندگی گزر سکتی ہے، میں باہر کے نظاروں کی طرف متوجہ ہو گئی-
ض…ض…ض
دعوت ایک پوری تقریب تھی، اماں کے علاوہ میری سب بہنوں کو بمعہ اہل و عیال بلایا گیا تھا اور دونوں طرف آبادی کافی تھی اس لئے حاضرین کی تعدا د بلا مبالغہ سینکڑوں میں تھی، خالہ نے اس روز بھی اصرارکر کے مجھے پارلر بھجوایا تھا، جہاں سے تیار ہو کر میں سیدھی اسی ہوٹل میں پہنچی جہاں پر دعوت کا بندوبست تھا- ہال میں تیز موسیقی کے ساتھ بچے رقص کر رہے تھے، ہنسی تھی، مسکراہٹیں تھیں اور قہقہے تھے… ایک میں ہی تھی جو اندر تک مغموم تھی اور کسی چیز سے لطف اندوز نہ ہو رہی تھی، خود کو مہمان خصوصی کہلوا کر بھی میں کوئی خصوصی سلوک نہ روا رکھ پا رہی تھی ان سب کے ساتھ… 
وہ اپنی محبت کا اظہار لفظوں اور بوسوں سے کر رہی تھیں، فخر سے اپنے سسرالیوں سے میرا تعارف کروا رہی تھیں… ہماری اکلوتی بھابی… اتنی لائق ہیں، اتنی ذہین اور میں … شاید میرا منہ سوجا ہو ا تھا جو ذاکر نے مجھے ملتے ہوئے کہا کہ کسی اور کی نہیں تو اپنی خاطر ہی مسکرا دوں کہ کوئی ایک آدھ اچھی تصویر بن جائے… میں پیچ و تاب کھا کر رہ گئی- اماں کی اتنی طویل تقریر اور سمجھانے کا اثر فقط اتنا ہی ہوا تھا کہ میں نے سرمد کو فی الفور چھوڑنے کا ارادہ چند دنوں تک کے لئے موٴخر کر دیا تھا- اس کے ساتھ نہیں رہنا تھا… یہ میرا حتمی فیصلہ تھا-
کون رہ سکتا ہے کسی کے ساتھ یوں ساری زندگی کہ جس کو دیکھنے کو جی نہ چاہے، آنکھ دیکھی مکھی کون نگل سکتا ہے بھلا… سرمد کی بہنیں اس تقریب کے بعد واپس چلی گئیں- اماں نے فون کیا کہ وہ مجھے لینے آ رہی ہیں تو میں نے منع کر دیا، مجھے جا کر ان کی نصیحتیں نہیں سننا تھیں، اپنی حکمت عملی وضع کرنا تھی اور اس کے لئے مجھے تنہائی چاہئے تھی جو کہ سرمد کے ساتھ رہتے ہوئے مجھے میسرتھی، ہم تین دن سے ساتھ ہونے کے باوجود کوسوں میلوں کی دوری پر تھے-

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider