Episode 57 - Betian Phool Hain By Shireen Haider

قسط نمبر 57 - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

” یہ تمہارا اور سرمد کا کمرہ ہے بیٹا… “ خالہ نے میرا سامان پہلے ہی رکھوا دیا تھا، کھانے کے بعد انہوں نے مجھے آرام کرنے کو کہا اور میری راہنمائی اس کمرے تک کی، ” تم آرام کرو، شام میں بات ہو گی، مجھے تم سے کچھ اہم باتیں کرنا ہیں بیٹا… “
” جی اچھا… “ کہہ کر میں نے ان سے جان چھڑوائی، میرے اندر کا ابال انہیں دیکھتے ہی ٹھنڈا پڑ جاتا ، اتنی با رعب اور نفیس سی شخصیت تھی ان کی-
” کسی چیز کی ضرورت ہو تو اپنی بیڈ سائیڈ کی میزپر نصب گھنٹی کے بٹن کو دبا دینا، کوئی نہ کوئی آ جائے گا اور انٹر کام بھی رکھا ہے جو کہ سیدھا باورچی خانے میں ہے، بٹن دبا کر جو بھی بنوانا ہو ، باورچی کو بتا دینا… وہ بنا دے گا، ہر طرح کے کھانے وغیرہ بنا دیتا ہے… “ انہوں نے وضاحت کی اور باہر نکلیں تو میں نے گہری سانس لی-
اب مجھے سوچنا تھا، اس سے پہلے میں نے کمرے کا جائزہ لیا، وسیع کمرہ، ہلکے رنگ کے دبیز قالین، کھڑکیوں پر پڑے بھاری پردے، جن کے عقب میں جالی کے پردے تھے، بیڈ پر بچھا ہوا مخملیں بیڈ کور… بہترین انتخاب کی عکاسی کرتا تھا، غالبا سب کچھ سرمد نے خود چنا ہو گا… انتخاب تو اس کا اچھا ہے ہی… میں نے بیڈ کے کراؤن پر لگے ہوئے بڑے سے آئینے میں اپنا عکس دیکھا…
سائیڈ ٹیبل پر ایک قیمتی سا فون پڑا تھا اور ایک ٹیبtab… میں نے انہیں دیکھا، بالکل نئی نکور… اپنی طرف سے اٹھا کر میں نے انہیں درمیانی میز پر رکھ دیا، کمر ٹکا کر بیڈ پر لیٹی ہی تھی کہ سرمد کمرے میں آگیا-
” خالہ کا خیال ہے کہ مجھے بھی آرام کرنا چاہئے، پچھلے چار دنوں نے بہت تھکا دیا ہے…“ اپنی ٹائی کی گرہ کھولتے ہوئے وہ کہہ رہا تھا… ہوتا جو وہ کوئی پیکر جمال تو اپنی پوروں سے اس کی تھکن چن لیتی، مگراسے دیکھ کر ہی اس تصورسے کراہت آئی، لاکھ چاہتی مگر خو دکو اس سے باز نہ رکھ پاتی۔

(جاری ہے)

یہ سوچ کر کہ اب وہ اس بیڈ پر لیٹے گا، جہازی سائز کا ہونے کے باوجود مجھے لگا کہ میں اس کے بہت قریب ہو جاؤں گی- میں اٹھ بیٹھی، کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ میرے گریز کو محسوس نہ کرتا-
” لیٹی رہو تم… “ اس نے فوراً کہا، ” میں اس بیڈ پر نہیں سوؤں گا… “ اس نے ایک دیوار کا پردہ ہٹایا جو میں نے ہٹا کر نہ دیکھا تھا، میں سمجھی کہ کھڑکی ہو گی مگر وہ متصل کمرہ نظر آیا، ” میرا زیادہ تر وقت ویسے بھی لائبریری میں ہی گزرتا ہے… میں وہیں لیٹ جایا کروں گا تا کہ تمہیں تکلیف نہ ہو… “
” میں وہاں سو جاتی ہوں … “
” یہ گھر اور یہ کمرہ اب تمہارا پہلے ہے اور میرا بعد میں… “ وہ اس کمرے کی طرف بڑھ گیا اور میں آرام سے لیٹ گئی، کھانے کا خمار چڑھا اورجانے کتنی ہی دیر سوتی رہی تھی میں، جاگی توشام ڈھل رہی تھی، سرمد کمرے میں نہ تھا- میں نے اٹھ کرشاورلیا اور عام سے کپڑے پہن کر باہر نکلی، اندازے سے لاؤنج کا رخ کیا، جہاں گھر کے باقی لوگ چائے پر میرا انتطا ر کر رہے تھے-
” تھکاوٹ اتری ہماری بیٹی کی یا نہیں… “ بابا نے شفقت سے پوچھا-
” جی… “ میں نے مختصراً کہا اور کپوں میں چائے انڈیلنے لگی-
” بھئی میری اور سرمد کی بحث ہو رہی تھی کہ اب تمہیں ملازمت جاری رکھنی چاہئے یا چھوڑ دینی چاہئے… “ بابا نے مسکرا کر کہا- میں خاموش رہی… 
” بابا کہتے ہیں کہ تمہیں ملازمت کی ضرورت نہیں… جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ جس کے پاس ٹیلنٹ ہو ، اسے ضرورت ہو نہ ہو… اپنے ٹیلنٹ کو آزمانا ضرور چاہئے… “ سرمد یوں بات کر رہا تھا جیسے وہ اپنی بہت چاہنے والی بیوی سے بات کر رہا ہو-
” میں پہلے بھی ضرور ت کے لئے جاب نہیں کر رہی تھی بابا… اور اس جاب سے جو تنخواہ مجھے ملتی ہے وہ میری ضرورت سے بہت زیادہ ہے… “
” ارے واہ… “ بابا نے کہا، ” پہلی لڑکی دیکھی ہے یار جو کہہ رہی ہے کہ پیسہ اس کی ضرورت سے زیادہ ملتا ہے اسے- میں نے تو کسی کو ایسا قناعت پسند نہیں دیکھا اور لڑکیوں کی ضروریات تو کبھی ختم ہی نہیں ہوتیں… “ وہ ہنس کر سرمد سے کہہ رہے تھے-
” نتالیہ عام لڑکی نہیں ہے اور مجھے یقین ہے کہ اپنی زندگی کے ہر معاملے میں قناعت پسند بھی! “ خالہ نے کہا تو ان کی بات کی تہہ میں چھپے مطلب کو غالباً صرف میں ہی سمجھ پائی تھی- بابا اور خالہ چائے پی کر چہل قدمی کے لئے لان میں گئے تو ہم دونوں اکیلے رہ گئے-
” مجھے کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں، اس کا فیصلہ مجھے خود ہی کرنا پسند ہے، مجھے دوسروں کے اشاروں پر ناچنے کی عادت ہے نہ ہی اپنے فیصلوں اور اپنی زندگی کے معاملات میں کسی کی دخل اندازی کرنا پسند ہے… خواہ وہ آپ ہوں ، خالہ یا بابا … “ میں نے غصے سے کہا اور پیر پٹختی واپس اپنے کمرے میں لوٹ آئی-
” مجھے تمہارا اس انداز سے بات کرنا قطعی پسند نہیں آیا نتالیہ… “ وہ میرے پیچھے پیچھے ہی کمرے میں آگیاتھا، ” کوئی میرے بابا اور خالہ کی توہین کرے… ہر گز نہیں نتالیہ!“ اس نے انگلی اٹھا کر کہا، ” تمہیں مجھ سے نفرت ہے تو مجھ سے بات کرو، کوئی زور زبر دستی نہیں، تم چھٹکارا چاہتی ہو تو میں ایک لمحہ نہیں ضائع کروں گا تمہیں آزاد کرنے میں… میں اگر چار دن سے تمہارا یہ رویہ اور بد تمیزیاں برداشت کر رہا ہوں تو اس لئے نہیں کہ مجھے تم سے کوئی لالچ ہے… صرف اس لئے کہ مجھے بابا اور خالہ سے محبت ہے، میں انہیں کوئی دکھ نہیں دینا چاہتا… میرے صبر اور میری برداشت کو نہ آزماؤ، تمہیں فیصلے کا اختیار دیا ہے تو مجھے اپنا فیصلہ جب چاہے سنا دینامگر اگر اس کے بعد تم نے بابا یا خالہ سے اس طرح بات کی تو میں خود ہی فیصلہ کر لوں گا… مجھے گھر میں ڈیکوریشن پیس رکھنے کا کوئی شوق نہیں!!“
 وہ میرے سر پر بم پھوڑ کر چلا گیا… جس بات سے مجھے اماں نے بارہا منع کیا تھا وہی ہوا تھا- میں نے اپنے غصے میں ان بزرگوں کا احترام بھی بھلا دیا تھا اور ان کے سامنے بد تمیزی سے بات کی تھی، حالانکہ میں اس بات کا خود بھی اعتراف کرتی ہوں کہ میں نے ایسے شفیق بزرگ کہیں نہ دیکھے تھے- مجھے دل میں احساس شرمندگی ہوا مگر اب اس کا کیا فائدہ… 
مجھے جو بھی منصوبہ بندی کرنا تھی اسی گھر میں رہ کر کرنا تھی، اماں کے پاس جاتی تو وہ نصیحتوں کے انبار لگا دیتیں اور میں کچھ بھی نہ کر پاتی- تب تک، جب تک کہ میں کسی آپشن پر غور نہ کر لیتی، کوئی راستہ نہ پا لیتی ، تب تک مجھے یہ سب برداشت کرنا تھا-
ض…ض…ض
” یہ فون اور ٹیب تمہارے لئے لایا تھا میں انگلینڈ سے… “ سرمد نے میری طرف دونوں چیزیں بڑھائیں-
” آپ رکھیں، میرے پاس فون ہے اور ٹیب میں استعمال ہی نہیں کرتی… “ میں نے ادائے بے نیازی سے کہا، ” اور اگر مجھے کچھ چاہئے ہو گا تو میں خود لے لوں گی، میرے پاس پیسوں کی کوئی کمی نہیں ہے… “
” کمی نہ بھی ہو تو تم عورتوں کوخود پر رقم خرچ کرنے کا کوئی شوق نہیں ہونا چاہے خود اپنی محنت سے کماتی ہوں …بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ اپنی کمائی کو ہر عورت بچا بچا کرر کھتی اور شوہر کے پیسوں کو خرچ کر کے خوشی محسوس کرتی ہے! “اس نے ہنس کر کہا تو میں جل گئی… جیسے کوئی بہت پیار کرنے والے شوہر اور بیوی کے مابین مکالمہ ہو رہا ہو- 
” شکریہ! “ کہہ کر میں نے دونوں چیزیں تھام لیں، ظالمانہ تجزیہ تھا اس کا، واقعی میں اپنی تنخواہ میں سے اپنے لئے کوئی بڑا خرچہ کرتے ہوئی دس بار سوچتی تھی- کپڑے ، جوتے وغیرہ تو عام سی چیزیں ہیں، بہنوں اور ان کے بچوں کے علاوہ اماں کے لئے بھی کبھی کبھار کسی موقعے کی مناسبت سے تحائف بھی لے لیتی تھی مگر واقعی اس طرف خیال نہ کیا تھا کہ سائنس کی یہ جدید ایجاد میرے پاس ہو اور پوری دنیا سکڑ کر میری مٹھی میں آ جائے- ایک اتنی بڑی فرم کے کمپیوٹر سیکشن کی انچارج ہو نے کے باوجود میں نے اس بارے میں نہ سوچا تھا- 
” استعمال تو کرنا آتا ہو گا نا تمہیں؟ “ اس نے پوچھا تو میں صرف اسے دیکھ کر رہ گئی، ”یوں ہی پوچھ لیا تھا، میں نے لیا تھاتو مجھے تو استعمال نہیں کرنا آتا تھا! “
” اسی لئے آپ نے مجھے دے دیا؟ “ میں پھٹ سے بولی-
” یہ تمہارے ہیں، سفید رنگ میں اور اسی طرح کے سیاہ میں میرے پاس ہیں، اس نے اپنے والے اپنے دراز سے نکال کر مجھے دکھائے… میں نے سوچا ہمارے ساتھ میچنگ ہو جائیں گے…“ وہ خود ہی ہنس کر اپنی بات سے لطف اندوز ہو رہا تھا، مجھے اس کی اس بات پر تو نہیں البتہ اسے ہنستے دیکھ کر ضرور ہنسی آ گئی، اس کی ہنسی کو بریک لگ گئی اور وہ چونک کر مجھے دیکھنے لگا… ” تم ہنستی ہوئی بہت اچھی لگتی ہو!!“

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider