Last Episode - Betian Phool Hain By Shireen Haider

آخری قسط - بیٹیاں پھول ہیں - شیریں حیدر

دفتر میں کس کا دل لگنا تھا اس روز… کام کرتی کچھ تھی اور ہوتا کچھ تھا، کچھ اس کے پیغامات بار بار آ رہے تھے… اس کی بے تابیوں کی داستانیں… وقت نہ گزرنے کی شکایتیں اور کیفیت دل کی حکایتیں… ایسی رومانوی باتیں کہ دل ریل گاڑی کی رفتار سے دھڑک رہا تھا- 
” نتالیہ… آپ ہوش میں تو ہیں؟ “ باس سر پر کھڑے تھے-
” کیوں سر… “ میں ہڑبڑا کر اٹھی-
” آپ نے دفتر کے سارے کمپیوٹرز کے password تبدیل کر دئیے ہیں اور مجھے بتایا تک نہیں… صبح سے log in کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، اب جا کر علم ہو ا ہے کہ کسی نے password تبدیل کردئے ہیں اور وہ کسی کوئی اور نہیں ، میڈم نتالیہ ہیں… “
”سر password تو ہر ہفتے تبدیل ہوتے ہیں… “
” مگر ہر ہفتے آپ میرے کمپیوٹر میں password خود بخود آ کر save بھی تو کر دیتی ہیں… “
” سوری سر… بھول گئی اس دفعہ… میں ابھی کر دیتی ہوں … “
” کوئی ضرورت نہیں … بس آپ مجھے بتا دیں… “
” needy “ میں نے انہیں password بتایا-
” ویسے سب کچھ ٹھیک تو ہے نا؟ “ انہوں نے پوچھا-
” جی سر… “ میں نے تھوک نگل کر کہا-
” گھروں کے معاملات کو گھروں پر چھوڑ کر آئیں تو ہی دفتری معاملات درست رہ سکتے ہیں! “ انہوں نے مجھے تنبیہ کی-
” نہیں سر… ایسی کوئی بات نہیں!“ میں نے تصحیح کی، ” یونہی ذرا طبیعت ٹھیک نہیں تھی!“
” ویسے دیکھنے میں تو آپ مجھے ہر روز سے زیادہ بہتر لگ رہی ہیں… “ میں نظر چرا کر رہ گئی، واقعی میرا حلیہ میرے بیان سے قطعی میل نہ کھا رہا تھا- باس چلے گئے تو میں نے گہری سانس لی، کیا ہو گیا تھا مجھے، اپنے کام پر ایسی بڑی بڑی غلطیاں کروں گی تو بے عزتی تو ہو گی نا… میں نے پیغامات بھیج کر نیڈی کو ساری بے عزتی کی تفصیل بتائی اور وہ سن کر خوب محظوظ ہوا-
ض…ض…ض
دفتر سے نکلی تو دائیں بائیں دیکھ رہی تھی کہ کوئی مجھ سے پوچھ نہ لے کہ میں اس وقت کہاں جا رہی تھی، حالانکہ میری پوزیشن ایسی نہ تھی کہ کوئی مجھ سے سوال کرتا مگر دل میں چور ہو تو ساری دنیا کوتوالی نظر آتی ہے- گاڑی میں بیٹھ کر میں نے چادر اوڑھی، گاڑی بھی اپنی نہ لائی تھی کہ پہچان نہ لی جاتی بلکہ اس گاڑی سے پہلے جو گاڑی میرے تصرف میں تھی وہ لے کر آئی تھی جو کہ فالتو کھڑی تھی اور کبھی کوئی چلاتا اور کبھی کوئی- 
سخت ٹینشن ہو رہی تھی، ساتھ ساتھ اس کے پیغامات آ رہے تھے، میں نے اسے بتایا کہ میں دفتر سے نکل آئی تھی، اس نے بتایا کہ وہ بھی روانہ ہو چکا- دل نئی تال پر دھڑک رہا تھا، عشق اور پھر چور ی کی یہ ملاقات، ایک نئے تھرل کا سامنا ہونے والا تھا- اس وقت میں سب بھولے ہوئے تھی، اپنی حیثیت، اپنا مقام، اپنا نام… بس یہ یاد تھا کہ اسے ملنے جا رہی ہوں -
” کہاں پہنچی ہو؟ “ بار بار اس کا پیغام آ رہا تھا، میں اسے جواب دیتی اور اس کی location کے بارے میں سوال کرتی- فاصلہ طے ہی نہ ہو رہا تھا، میں نے ٹیپ کا بٹن آن کیا کہ کوئی موسیقی ہی سن لوں - 
” ابھی ہم اٹھارویں پارے میں سورة النور کی تلاوت اور ترجمہ سنیں گے… آواز ہے … کسی نے تلاوت کی کیسٹ لگا رکھی تھی، میں نے دوسری کیسٹ کی تلاش میں نظر دوڑائی مگر نہ پا کر اسے ہی آن رہنے دیا، بند کرنے کا سوچا تو ضمیر نے ملامت کی کہ اللہ کیا سوچے گا کہ میں نے قرات سننا گوارا نہیں کیا- اس اللہ کی ناراضی کے ڈر سے میں اسے بند کرتے کرتے رک گئی اور تلاوت چلتی رہی اور میں گاڑی چلاتے ہوئے ساتھ ساتھ اسے پیغامات بھی بھجوا رہی تھی-
” ان میں سے ہر شخص پر اتنا گنا ہ ہے جتنا اس نے کمایا ہے اوران میں سے جس نے اس کے بہت بڑے حصے کو سر انجام دیا ہے، اس کے لئے عذاب بھی بہت بڑا ہے!“
”اللہ تعالی تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ پھر کبھی بھی ایسا کام نہ کرنا اگر تم سچے مومن ہو!“
”ایمان والو … شیطان کے قدم بقدم نہ چلو- جو شخص شیطانی کاموں کی پیروی کرے تو وہ بے حیائی اور برے کاموں کا ہی حکم کرے گا!“ 
”اللہ تعالی جسے پاک کر دینا چاہے، کر دیتا ہے-“
”کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالی تمہارے قصور معاف فرما دے؟ اللہ تعالی قصوروں کو معاف فرمانے والا مہربان ہے- “
ہر پیغام کے وقفے میں میری توجہ تلاوت اور ترجمے کی طرف مبذول ہو جاتی اور میں اس طرح اسے سن رہی تھی کہ جیسے یہ سب میرے سر کے اوپر اوپر سے گزر رہا ہو-میں ہوٹل میں پہنچ گئی تھی، قرات سورة النور کی چھبیسویں آیت پر تھی، میں بے ارادہ ہی رک گئی کہ یہ آیت پوری ہو جائے- آیت کی تلاوت اور ترجمہ تمام ہوا- میں نے چادر اپنے ارد گرد لپیٹی اور ہر طرف دیکھتی ہوئی باہر نکل آئی-
” میں پہنچ گئی ہوں … “ میں نے پیغام بھیجا-
” میں دس منٹ میں پہنچتا ہوں … تم اند ر چلو یا گاڑی میں بیٹھ کر انتظار کرو… “
” میں اندر جا رہی ہوں … “ میں نے لکھا اور اندر کی طرف چلی، گاڑی میں بیٹھ کر انتظار کرنے سے مجھے ہمیشہ کوفت ہوتی ہے-
” آج تو میں تمہیں دیکھوں گا… محسوس کروں گا! “ 
” اچھا… دیکھ تو لیا، محسوس کیسے کرو گے؟ “ میں نے ایک کونے کی طرف کی میز سنبھال کر اسے پیغام بھیجا کہ میں کہاں بیٹھی ہوں…
” محسوس کیسے کرتے ہیں بھلا، چھو کر … “
” چھو کر؟ “ میں نے لکھا، ” کیسے چھوؤ گے تم مجھے… مجھے تو ابھی تک اس نے بھی نہیں چھوا جس سے میرا نکاح ہوا ہے… “
” وہ وہ ہے اور میں میں ہوں … “ جواب آیا، ” جو حق تم نے مجھے دیا ہے وہ اسے کہاں حاصل ہے؟ مجھ سے تمہیں محبت ہے… ہے نا؟ “
” شاید… “ میں ہاں کا لفظ بھی نہ لکھ سکی-
” تمہیں ابھی تک اپنی محبت پر شک ہے تتلی؟ “
” میں نے کب کہا یہ… “
” مطلب تو یہی سمجھ میں آیا ہے مجھے، میں تمہیں چھونا چاہتا ہوں اور تم کہتی ہو کہ ممکن نہیں… کیا میں اس ملاقات کے بعد بھی تشنہ ہی رہوں گا؟ “ 
” ملو تو پھر دیکھتے ہیں کہ کیا ہو گا؟ “
” پہلے وعدہ کرو… “ اس نے اصرار کیا-
” میں ایک شریف لڑکی ہوں اور اس طرح کا وعدہ نہیں کر سکتی! “
” تم شریف ہو تو میں بھی ایسا ہی شریف ہوں … یقین کرو کہ تم میری زندگی میں آنے والی پہلی لڑکی ہو… اور ہم شرافت کی ایک حد تو توڑ ہی رہے ہیں نا، میں اور تم دونوں … یوں چوری چھپے ملنا، میری تو خیر ہے، تم جو کچھ کر رہی ہو وہ اس سماج کے اصولو ں کے مطابق بہت بڑا گنا ہ ہے! “
” اب یہاں بلا کر تم مجھے یوں گناہ اور ثواب کے چکروں میں الجھا رہے ہو؟ “
” الجھا نہیں رہا جانِ جان… کہہ رہا ہوں کہ جب ہم مل ہی رہے ہیں، ایک گناہ کر ہی رہے ہیں تو چھو کر ایک گناہ اور سہی… “ وہ یہ پیغام بھیج کر شاید ہنس رہا ہو گا… اور میرے کانوں میں چھبیسویں آیت کا ترجمہ گونج رہا تھا، 
”خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لائق ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لائق ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لائق ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لائق ہیں …“ 
میری ذات کی دھجیاں اڑ گئیں… میں کیا تھی اور کیا کرنے جا رہی تھی، کیا میں خبیث تھی… ہاں وہ تو جو کر رہا تھا سو کر رہا تھا تو کیا میں بھی اسی کے پیچھے چل پڑی تھی آنکھیں بند کئے… اس نے پہلے مجھ سے رابطہ کیا تھا، میرے دل نے کہا، تو حوصلہ افزائی تو میں نے کی نا… دماغ نے جواب دیا- میری یاد کے نہاں خانوں سے نکل نکل کر ایک ایک لفظ جو میں نے اس کے پیغامات کی حوصلہ افزائی کے لئے اسے بھیجا تھا مجھے سامنے نظر آ نے لگا… میں بے دیکھے اس کے عشق میں گوڈے گوڈے ڈوب چکی تھی اور اس نے تو کہہ دیا تھا کہ ہم جوکچھ کر رہے تھے وہ گنا ہ تھا… مجھے کیوں اس کا احساس نہ ہوا تھا -
” پانچ منٹ میں میں تمہارے پاس ہوں گا اور اس کے ایک منٹ کے بعد تم میری بانہوں میں!“ اس کے آخر میں مسکراتا ہوا چہرہ… کتنا یقین تھا اسے اس بات پر- میری ٹانگیں لرزنے لگیں، میں ہمت کر کے اٹھ کھڑی ہوئی، بیرا لپک کر میرے پاس آیا کہ شاید مجھے کسی چیزکی ضرورت ہو گی، میں نے اسے جانے کا اشارہ کیا اور تیزی سے باہر کی طرف لپکی-اس سے پہلے کہ وہ آ جائے…
” میں جا رہی ہوں … “ میں نے اسے آخری پیغام بھیجا،” اس کے بعد مجھے کبھی پیغام نہ بھیجنا… “ اور میں نے فون بند کر دیا- بھاگ کر گاڑی کے پاس پہنچی اورشام تک سڑکوں پر بے مقصد گاڑی میں گھومتی رہی- گھر پہنچی تو سرمد پہلے سے موجود تھا… میں نے رک کر اسے دیکھا، سلام کیا اور اپنے کمرے میں آ گئی-
وضو کر کے نماز پڑھی، وہ میرے کمرے میں آ گیا،” کیسی رہی پارٹی؟“ اس نے پوچھا-
” کون سی پارٹی؟ “ میں نے غائب دماغی سے پوچھا، ” ہاں ہاں … وہ… پارٹی کینسل ہو گئی! “
” اچھا … وہ کیوں ؟ “ حیرت سے اس نے پوچھا-
”وہ جس نے پارٹی پر بلایا تھا اس کے ساتھ کوئی مسئلہ ہو گیا… “ میں نے بودا سا بہانہ گھڑا-
” تم باقی لوگ خود ہی کر لیتے پارٹی! “ سرمد نے مشورہ دیا، ” پیسے تو تھے نا تم لوگوں کے پاس؟“
”آں ہاں … “ میرا چہرہ بھی شاید میری بد حواسی کی چغلی کھانے لگا تھا-
” تم ٹھیک تو ہو نتالیہ؟ “ اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور میں بے اختیار ہو کر اس کے سینے سے چمٹ گئی… اس نے مجھے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا-
” آئی ایم سوری سرمد… “ اس کے ہونٹوں کا لمس میرے بالوں سے ہوتا ہوا، میرے سر کی کھال سے میرے دماغ تک اتر گیا، میں نے خود کو دل و جان سے اس کے حوالے کر دیا-
ض…ض…ض
خالہ کا یقین واثق تھا کہ سخت سے سخت دل عورت بھی کبھی نہ کبھی مرد کی محبت سے نرم پڑ جاتی ہے… اور بعض عورتیں ٹھوکر کھا کر سنبھلتی ہیں… جن سب کو آپ اتفاق سمجھ رہے ہیں، وہ سب میرے پلان کا حصہ تھے، مجھے ایک دفعہ باتوں باتوں میں عائشہ نے بتایا تھا کہ نتالیہ کو بچپن میں کچھ کزنز شرارت سے تتلی کہتے تھے، کیونکہ وہ ہر ایک کی توجہ کے لئے بھاگتی پھرتی تھی… 
میرے ذہن نے ایک منصوبہ ترتیب دیا اور اس پر عمل کر کے میں نے اسے آزمایا، سوچا کہ اگر وہ نیڈی سے ملنے کے لئے رک جاتی… تو سرمد کو کھو دیتی، اگر وہ وہیں بیٹھی رہ جاتی تو میرے دل سے اٹھ جاتی- میں نے اسے للچایا اور ایک ایسی محبت میں گرفتار کیا جس کا کوئی انت نہیں ہوتا- ا س کے اندر کی عورت کو جگایاا ور دیکھنا چاہا کہ اگر میری محبت میں طاقت ہوئی اور میرے جذبوں میں صداقت تو وہ لوٹ آئے گی، بصورت دیگر وہی ہوتا جس کا مطالبہ اس نے اول روز ہی کر دیا تھا -
دیر سے ہی سہی مگر میں نے اسے پا لیا تھا، اب وہ مجھے پیار کرتی ہے، کھلی آنکھوں سے مجھے دیکھتی ہے اور بابا اور خالہ آ ئیں گے تو یہ سن کر خوش ہوں گے کہ جلد ہی ان کے آنگن میں ننھی کلکاریاں گونجیں گی ، انشا اللہ… 
ض…ض…ض
جس بات کو وہ دونوں نہیں جانتے تھے، وہ یہ تھی کہ جسے سرمد اپنی محبت کی طاقت سمجھ رہا تھا وہ دراصل کلام پاک کی وہ طاقت ہے کہ جو دلوں پر پڑے قفل توڑ دیتی ہے… سخت سے سخت دل کو بھی موم کر دینے والی طاقت اللہ سے محبت ہے جو انسان کو راہ سے بھٹکنے نہیں دیتی، اس ٹیپ کا اِس وقت اس گاڑی میں لگے ہونے میں سرمد کی کوئی پلاننگ نہ تھی-، بلکہ یہ اللہ کی پلاننگ تھی جس نے اسے اس کھائی میں گرنے سے بچا لیا- 
سرمد فتح اور نتالیہ جرم کے اس احساس میں مبتلا رہ کر جئیں گے جس کا اظہار وہ دونوں ایک دوسرے سے نہ کرسکیں گے… نتالیہ نے اپنا فون نمبر تبدیل کر لیا اور facebook اپنی اس ID کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا ہے- اس نے اپنی زندگی میں اس گناہ کے باب کو ختم کر دیا ہے مگر سرمد اب بھی کبھی کبھار اس ID پر اسے پیغامات بھیجتا ہے ، یہ چیک کرنے کے لئے کہ کہیں ا س کی محبت میں کمی محسوس کر کے وہ دوبارہ needy کی طرف نہ پلٹ جائے… 

Chapters / Baab of Betian Phool Hain By Shireen Haider