وہ دل کے ان بھیدوں سے کبھی روشناس نہ ہوئی تھی۔ پیار محبت، چاہت کے اس رخ سے وہ نا آشناہی رہتی اگر وردہ اپنے کزن سنی کا ذکر کر کر کے اس کی توجہ اس کی طرف مبذول نہ کروادیتی۔ چند دن قبل اس کی ملاقات سنی سے تب ہوئی تھی جب وہ وردہ کے ساتھ کو چنگ جارہی تھی اور سنی اتفاقاہی راستے میں مل گیا تھا۔ وردہ سے باتوں کے دوران اس کی پر شوق نگاہیں گاہے بگاہے اس کے چہرے پر ہی بھٹکتی رہی تھیں کہ حجاب کے باوجود اس کے چہرے پر پسینہ پھیل گیا۔
رجاء نے اس کو بالکل کوئی اہمیت نہ دی تھی جب کہ دوسرے دن سے ہی وردہ نے اسے سنی کا نام لے کر چھیڑنا شروع کر دیا تھا اور ہر گزرتا دن اس کی بے تابیوں کی داستان کو طویل کرتا گیا تھا اور پھریوں ہونے لگا کہ وہ کوچنگ آتے جاتے راہ میں اسے کھڑا ملتا تھا اور اس کو ایک نظر دیکھنے کے بعد چلا جاتا تھا۔
(جاری ہے)
شروع شروع میں وردہ اسے چھیڑتی تھی، اس کی محبت کی داستان سناتی تھی۔
وہ بہت سنجیدگی سے اس کی ہر بات کو ردکرتی آئی تھی۔ سنی کے کسی جذبے کی پزیرائی اس نے نہ کی تھی کہ اس کی تربیت اس کی ماں نے اس انداز میں کی تھی کہ وہ عام لڑکیوں کی طرح جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی سپنوں کی وادیوں مین بھٹک نہ سکی تھی، نہ کسی خوابوں کے شہزادے کی بانہوں میں با نہیں ڈالے خواہشوں کے پھول سمیٹے تھے بلکہ اسے تصوراتی دنیا سے دور رکھ کر حقیقت کا سامنا کرنے کی راہ کھائی تھی۔
وہ مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی تھی جہاں ہر کام مذہبی احکامات کے مطابق ہوتا تھا۔ گناہ وثواب کے دائرے میں ہی زندگی محدود تھی۔ سادگی اور سکون ان کے چہروں اور زندگی کو حسین بنائے ہوئے تھے۔ ابو، امی ،آپی اور ایک چھوٹا بھائی عباد۔ محبت کے رنگ ان رشتوں کی موجودگی مین اس نے محسوس کیے تھے ان محدود سے رشتوں میں بڑی خوشیاں تھیں۔ آج کل کے اس بے راہ روی کے دور میں ان کی مذہبی وسادہ زندگی عجوبہ تھی۔
لوگ ملنے سے کتراتے تھے، ان کے لیے لوگوں سے دوستی متضاد ماحول کے باعث مشکل رہی تھی۔ اسکول کے زمانے میں اس کی کسی سے دوستی نہ ہو سکی تھی۔ کالج لائف میں بھی ایسا ہی تھا۔ وہ تو خود آگے بڑھ کر وردہ نے اس سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ وردہ خوب صورت تھی شوخ و شریر تھی۔ جو دل چاہتا وہ کہہ دیتی، سوچ سمجھ کر بولنے کی عادی نہ تھی، نتیجتاًرجاء جیسی سنجیدہ وخاموش لڑکی ہنس پڑتی تھی۔
وردہ کی فیملی گزشتہ برس ہی ان کے محلے میں شفٹ ہوئی تھی۔ دونوں کے رہن سہن و طور طریقے ایک دوسرے سے متضاد تھے، وہ بے حد آزاد خیال لوگ تھے جن کو نہ مذہب سے کوئی رغبت تھی نہ دینوی احکامات کا خیال۔ وہ لوگ پردے کے پابند نہ تھے بلکہ سرے سے پردے کا کوئی تصور ہی نہ تھا۔ شروع شروع میں کئی بار امی نے اس سے کہا بھی کہ اسے وردہ کایوں بے پردہ گھومنا پسند نہیں ۔
تمہارے ابو دیکھیں گے تو دوستی پر اعتراض کریں گے اور امی کے اعتراض سے قبل ہی وہ اسے کئی بار پردے کے فوائد سمجھا چکی تھی مگر وہ ہر بار یہی کہہ کر ٹال دیتی۔
”اصل پر وہ تو آنکھوں کا ہوتا ہے، شرم و حیا کی اصل محور آنکھیں ہوتی ہیں ہم چہرہ پردے میں پوشیدہ کر جلیں گے تو آنکھیں کھلی رہیں گی ہر اچھے برے کام کی ابتدا آنکھوں سے ہوتی ہے۔
جب ہم آنکھوں کو نہیں چھپا سکتے تو چہرے کو کیوں چھپائیں؟“
رجاء نے اس کو بہت سمجھانا چاہا مگر جو سمجھنا نہ چاہے، اس سے زبردستی نہیں کی جا سکتی البتہ اس کے بار بار سمجھانے پر وہ اتنا ضرور کرنے لگی تھی کہ ان کے گھر آتے وقت دوپٹا کسی بوجھ کی طرح سر پر ڈال لیا کرتی تھی۔
آج عجیب بات ہوئی تھی۔
کوچنگ سے واپسی پر وہ راہ میں کھڑا تھا۔
اس کے گریزیاسردرویے کے باعث وہ براہ راست اس کو تو مخاطب نہ کر سکا تھا مگر در پردہ اپنے شکوے وشکایتیں اور بے قراریاں وردہ کو سنا گیا تھا اور وہ شرم و حیا کے باعث وہاں نگاہیں جھکائے کھڑی رہ گئی تھی، بہت کوشش کی کہ وہاں سے چلی جائے اور وہ نہ سنے جو دراصل اسے سنایا جا رہا ہے مگر اس کے قدم گو یا زمین سے چپک گئے تھے، چہرہ تھوڑی سے جالگا تھا، دل بُری طرح دھز کنے لگا تھا۔
”مجھے کیوں سنا رہے ہو؟ یہ میرے قریب کھڑی ہے اس کو کہہ دونا!“وردہ بنتے ہوئے گویا ہوئی تھی۔
”کہہ دینا………اگر محترمہ کے بے ہوش ہونے کا خطرہ نہ ہوتا تو………مجھے امید ہے کہ سمجھ تو گئی ہوں گی کہ یہ داستان عشق ان ہی کے لیے ہے۔ “ وہ اس بار براہ راست اس کی طرف دیکھ کر گویا ہوا تھا پھر یک دم اس کے بے جان جسم میں جیسے کوئی برقی رودوڑی تھی اور وہ ہنستی ہوئی وردہ کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے چلی آئی تھی۔
سنی کے جان دار قہقہے نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا۔ سلمان عرف سنی کو گفتگو کرنے کا فن آتا تھا وہ ایسا سا حرتھا جو کسی کو بھی اپنے لفظوں سے اسیر کر سکتا تھا۔ وہ نگاہوں سے سحر طاری کرنے کا منتر جانتا تھا۔
تو کیا وہ بھی اس کی نگاہوں کی اسیر ہوگئی تھی یا وہ محض ایک واقعہ تھا؟
وہ ساری رات کروٹیں بدلتی رہی۔ بے حد طویل، بہت بھاری رات تھی وہ۔
”کیا بات ہے رجاء! نیند نہیں آرہی……کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟“ امی کو نا معلوم کس طرح اس کی بے چینی کی خبر ہو گئی تھی۔
”طبیعت ٹھیک ہے، نیند نہیں آرہی ہے۔‘ ‘ وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی۔
”نیند نہیں آرہی تو اُٹھ کر تہجد کی نماز ادا کر لو، کیوں وقت ضائع کر رہی ہو؟“ پہلی بار اس کو نماز ادا کرنے میں وقت ہوئی وہ توبہ کرتی ہوئی نیت باندھنے لگی پھر فجر کے بعد ہی وہ سوئی تھی۔
”یا اللہ! کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ سارا دودھ اُبل اُبل کر گر رہا ہے اور تم قریب ہونے کے باوجود دیکھ ہی نہیں رہی ہو۔“ امی کی پریشان آواز پر وہ سوچوں سے باہر آئی تو معلوم ہوا سامنے رکھی دودھ کی دیگچی تقریباً خالی ہو چکی تھی، دودھ چولہے سے گرتا ہوا فرش پر بہہ رہا تھا۔
”اوہ………سوری امی! شاید میری آنکھ لگ گئی تھی۔“ وہ ماں کو سچ کیا بتاتی کہ وہ کل سے اب تک کسی پُراسرار وحسین دنیا میں پہنچی ہوئی ہے۔
”کوئی بات نہیں، ان دنوں محنت بھی بہت کرنے لگی ہو، رات بھی نہیں سوسکی ہو، جاکے اندر پلنگ پر سو جاؤ۔ میں یہاں کی صفائی کر لوں گی۔“
وہ چپ چاپ کمرے میں رکھے پلنگ پر آکر لیٹ گئی۔ وہ اپنی بدلتی کیفیت پر خود حیران تھی۔ کتنی جلدی بدل گئی تھی وہ……
###
”صباحت بیگم ! نوٹ درختوں پر نہیں لگتے ہیں کہ جب جی چہا توڑ کر لے آئیں، کڑی محنت و مشقت کے بعد رقم ہاتھ آتی ہے۔
“ چند دن قبل ہی انہوں نے ایک معقول رقم ان کو دی تھی، جو دل کھول کر انہوں نے فضول خرچی میں اُڑادی تھی اور اب پھر فیاض صاحب سے مطالبہ تھا کہ رقم دی جائے تا کہ وہ راشن لائیں۔ فیاض صاحب جو پہلے ہی تباہ ہوتے کاروبار کے باعث مالی مشکلات کا شکار تھے ان کے رقم کے اصرار پر برہمی سے گویا ہوئے۔
”ہمارے ہی نصیب کی خرابیاں ہیں یہ کہ گن گن کر پیسہ خرچ کرو ورنہ سچ تو یہ ہے کہ دوسروں کے لیے تو نوٹ درختوں پر ہی لگتے ہیں۔
“ ان کی برہمی پر وہ تب کر گویا ہوئیں۔
”گن گن کر خرچ کرنے والوں میں سے تم نہیں ہو۔“
”ایسا کس طرح کہہ سکتے ہیں آپ بتائیں تو مجھے ذرا؟“
’‘’اگر تم پیسہ سوچ کر خرچ کرنے کی عادی ہوتیں تو آج یہ گھر بھرا ہوتا اور میرا اکاؤنٹ بھی………جو تمہاری شاہ خرچیوں کے باعث دن بدن سکڑتا جا رہا ہے اور تم کو احسا س تک نہیں ہے۔“
”بھائی تو بھائی کا سہارا ہوتے ہیں، ایک آپ کے بھائی ہیں خود اپنے بیوی بچوں کو لے کر مستقبل بنانے آسٹریلیا چلے اور آج دیکھ لیں، کروڑوں کے مالک ہیں۔
کوسوں دور بیٹھ کر بھی یہیں کتنی جائیداد بنا ڈالی ہے لیکن کبھی بھائی کو سہارا دینے کا خیال نہیں آیا کہ بھائی کو بھی کسی طرح وہاں بلوالیتے یا ویسے ہی امداد کر دیتے۔ معلوم بھی ہے بھائی پر بیٹیوں کا بوجھ ہے، کوئی بیٹا نہیں ہے، خود تو دو بیٹوں کے باپ ہیں۔“
”میرے لیے اللہ ہی کافی ہے۔ اس کے علاوہ مجھے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔
خواہ وہ بھائی جان ہی کیوں نہ ہوں۔“ خود دار اوربا ہمت فیاض صاحب کو ان کی فریاد کسی تازیانے کی مانند لگی۔
”آپ تو یونہی شرما شرمی میں وقت گزاریں۔ یہ دوربلا وجہ خود داری کا نہیں ہے، دولت اس وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔“ صباحت جیسی کم فہم و نمائش پسند خاتون صرف اپنا مفاد عزیز رکھی تھیں۔
” مجھے اپنی عزت و خودداری جان سے بڑھ کر عزیز ہے۔
میں فاقوں سے مرنا پسند کروں گا مگر کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا میرے لیے موت سے بھی زیادہ تکلیف دہ عمل ہو گا۔
طغرل یا بھابی، کسی کے بھی آگے کوئی فضول بات کرنے سے قبل سوچ لینا، اس گھر میں تمہارے لیے کوئی جگہ نہ ہو گی۔“ وہ انہیں تنبیہ کر کے چلے گئے۔
”مما! پپا کو کیا ہوا، بہت غصے میں گئے ہیں یہاں سے؟“ عادلہ نے باپ کے جانے کے بعد کمرے میں آکر ماں سے پوچھا جو پہلے ہی منہ پھلائے بڑ بڑارہی تھیں۔
بیٹی کو دیکھ کر وہ تیز لہجے سے بولیں۔
”دھمکی دے کر گئے ہیں اگر کچھ سچ ان کی بھابی اور بھتیجے کو بتا دیا تو وہ مجھے ہمیشہ کے لیے اس گھر سے نکال باہر کریں گے۔“
”کیسا سچ……مما؟“ مارے تجسس کے وہ قریب بیٹھ گئی۔
”ان کے کمزور پڑتے بزنس اور مالی ابتر حالات کا۔“
”مما! ہمارے حالات تو ٹھیک ہیں، گھر میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
“
”وہی بات ہے نا بھرم بھاری، پٹارہ خالی۔ یہ سب وہ کس طرح برداشت کررہے ہیں وہ ہی جانتے ہیں۔ مگر میں کہتی ہوں اپنوں سے ناک لگانا درست نہیں۔“
###
تیز پرفیوم کی مہک وردہ کی آمد کی اطلاع دے رہی تھی۔
”سلام آنٹی!“وردہ نے آتے ہی رضیہ کو سلام کیا۔
”وعلیکم السلام! جیتی رہو، سلام ہمیشہ پورا کیا کرتے ہیں بیٹی!“
”آج کل شارٹ کٹ کا زمانہ ہے آنٹی! سب چلتا ہے۔
“ اس نے مسکراتے ہوئے بے پروانداز میں کہا تو رضیہ پیار سے اس سے مخاطب ہوئیں۔
”یہ عمدہ سوچ نہیں سے بیٹی! جن روایات و احکامات کا تعلق ہمارے مذہب سے ہو، وہاں شارٹ کٹ نہیں چلتا ہے۔ آئندہ خیال رکھنا۔“
رجاء کا چہرہ اسے دیکھ کر کھل اُٹھا تھا۔ امی کچن کی طرف چلی گئیں تو وہ اس کا ہاتھ تھام کر کمرے میں لے آئی۔
”سوری وردہ! تم نے برا تو نہیں مانا امی کی بات کا؟“ کارپٹ پر بیٹھتے ہوئے وہ شرمندہ انداز میں بولی کیونکہ وہ اس کی خفگی نوٹ کر رہی تھی۔
”اگر مجھے تم سے محبت نہ ہوتی تو میں یہاں قدم رکھنا بھی گوارانہ کرتی۔ بے حد تنگ نظر ماحول سے تمہارے گھر کا۔ کس قدر پابندیاں ہیں یہاں…… ویسے چلو، ویسے بیٹھو سر ڈھکو، چہرہ چھپاؤ۔ اوہ میرے خدا!“ وہ سخت بے زاری سے کہہ رہی تھی۔ رجاء نادم ہوئی جا رہی تھی۔ ”یہاں تو شایداپنی مرضی سے سانس لینے کی بھی اجازت نہ ہوگی کتنے گھٹے ہوئے حبس زدہ ماحول میں رہ رہی ہو تم، جہاں آزادی نام کو نہیں ہے۔
“
”کیا کروں، میں کچھ بدل بھی تو نہیں سکتی ہوں؟“ وہ مضطرب انداز میں ہولی۔
”ایمان داری سے بتاؤ، تمہارااس ماحول میں دم نہیں گھٹتا ہے؟“
”خداارا، کوئی اور بات کرو۔ چھوڑو اس موضوع کو۔“ دل تو چاہ رہا تھا کہہ دے اسے کہ کبھی اس ماحول سے شکایت نہ تھی، یہاں اسے سکون وراحت ملا کرتی تھی مگر جب سے دل کی دنیا بدلی تھی دل یہاں سے فرار چاہتا تھا۔
کسی ایسی بستی میں جانے کو بے قرار تھا جہاں تازہ محبتوں کے شگوفے مہک رہے ہوں لیکن وہ یہ احساسات خود سے بھی چھپانا چاہتی تھی تو اس سے کیسے شیئر کرتی بھلا۔
”اچھا……کیا بات کروں……؟ اچھی سی!“ وہ معنی خیز انداز میں بولی۔
”کوئی بات……جو دلچسپ ہو۔“
”مثلا……؟“ وہ بد ستور شرارت پر مائل تھی پوری طرح۔
”پلز! اس طرح نہ کرو، اچھا نہیں لگتا ہے۔“ اس کے شرمیلے انداز پر وہ ہنس پڑی تھی۔