”ارے بابا! تم تو ایسے گھبرا رہی ہو گویا کسی جرم کا اقرار کر رہی ہو۔ تم کتنا بھی مجھ سے حال دل چھپانے کی کوشش کرو، کامیاب نہیں ہو گی کیونکہ تمہاری آنکھیں وہ داستان سنا رہی ہیں جو تم چھپانا چاہ رہی ہو۔“ وہ اس کی زرد پڑتی رنگت دیکھتے ہوئے مضبوط لہجے میں بولی۔ ”میری زندگی میں جب بھی کوئی شخص آیا تو میں سب سے پہلے تم سے ہی ذکر کروں گی۔ اپنی ہم راز بناؤں گی، میرے نزدیک دوستوں سے ایسی باتیں چھپانا دوستی کی توہین ہے۔
ایسے لوگوں کو دوستی کرنی ہی نہیں چاہیے جو دوست ودوستی کا مفہوم نہ جانتے ہوں۔“ مسکراتی وردہ کے چہرے پر یکلخت اُداسی چھا گئی۔ وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ” میں جا رہی ہوں۔“ وہ ناراض انداز میں جانے کو تیار ہو گئی۔
”ابھی تو آئی ہو، بیٹھو نا پلیز! میں ایسے تمہیں جانے نہیں دوں گی۔
(جاری ہے)
“ وہ اس کو ناراض دیکھ کر پریشانی سے گویا ہوئی۔
”ادھر تم میری دوسی پر اعتبار نہیں کر تیں، اُدھر سلمان نے میرا دماغ خراب کیا ہوا ہے ہر وقت اس کے لبوں پر تمہارا نام ہی رہتا ہے۔
وہ تم سے ملنا چاہتا ہے، باتیں کرنا چاہتا ہے۔ اسے کسی پل قرار نہیں ہے۔ میں آج اس کے اصرار پر آئی ہوں۔“ وہ آہستہ آہستہ کہہ رہی تھی۔
سلمان کے نام پر دل پُر زور انداز میں دھڑکا تھا۔ لمحے بھر کو وہ کانپ گئی۔
”وہ سمجھتا ہے تم میری قریبی دوست ہو، مجھ سے کوئی بات نہیں چھپاتی ہو گی۔“ وہ روٹھے روٹھے انداز میں کہہ کر اسے شرمندہ کر رہ تھی۔
”یہ میں نے کب کہا کہ تم میری بہترین دوست نہیں ہو؟“
”ہاں……! تب ہی مجھ سے اپنے اور سلمان کے پیار کے بارے میں چھپا رہی ہو۔“
”پیار……؟“ اس کے لبوں سے بے آواز نکلا تھا۔
”ہاں پیار! تم دونوں ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے ہو کیا؟“ وردہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر مضبوط لہجے میں کہا۔
”نہیں…… ایسا نہیں ہے۔ میں نے ایسا سوچا بھی نہیں ہے اور میں سوچ بھی نہیں سکتی ہوں ایسی بات۔
“وہ سخت الجھن آمیز لہجے میں کہہ رہی تھی۔ وردہ نے کچھ لمحے اسے حیرانی سے دیکھ پھر ہنس کر بولی۔
”بے وقوف! محبت بھی کبھی سوچ کر کی جاتی ہے؟ یہ بغیر سوچے سمجھے خود، بخود ہو جاتی ہے۔“
”وردہ! پلیز میں بہت پریشان ہوں۔“ وہ جو پہلے ہی ان جذبوں سے تو حواس باختہ تھی، ان سے فرار چاہتی تھی، نادان نہیں تھی۔ جانتی تھی کہ وہ جس خاندان جس ماحول سے وابستہ تھ، وہاں ایسے خواب دیکھنے کی بھی مما نعت تھی، پھر کس طرح ایسے جذبوں کی پزیرانی ممکن ہوتی بھلا؟ اس کا سابقہ پہلی مشکل سے پڑا تھا، جہاں ایک شخص کا تصور زندگی بن جاتا تو کبھی دوسرے پل ہی خوف زدہ کر دیتا تھا۔
”مجھ پر بھروسا کرور جا! ویسے تمہیں میری ضرورت ہو نہ ہو مگر جب معاملہ دل کا ہوتا ہے تو پھر ضرور مجھ جیسی جان نچھاور کرنے والی دوست کی ضرورت پڑتی ہے۔ اچھے دوست کسی خزانے سے کم نہیں ہوتے ہیں۔ ”نامعلوم وردہ کے لہجے کا گداز پن تھا یا اس کے دل نے شکست قبول کرلی تھی۔ وہ اس کے آگے ہر جذبہ، ہر احساس عیاں کرتی چلتی گئی تھی۔
”یہ اضطراب وبے چینی……پتا دیتے ہیں کہ تم کو سنی سے محبت ہو گئی ہے۔
”سب سن کر وہ یُر یقین لہجے میں گویا ہوئی۔
”پلیز ! خاموش رہو۔ ”وہ بدحواسی سے بولی۔
”میں توخاموش ہو جاؤں گی۔ اپنے دل کی آواز کو کس طرح خاموش کرو گی؟“ وردہ کے چہرے پر زبردست مسرت تھی گویا اس کی محبت اس نے ہی دریافت کی ہو۔ بار بار وہ رجاء کو مبارک باد دے رہی تھی۔
###
آج پھر
زرد ہوا!
میری دہلیز پر
خشک پُتے بکھیر گئی!
میں انہیں سمیلنا چاہوں
تو بھی سمیٹ نہیں پاتی
کہ
ماضی کی تلخ یادیں بھی تو میرے ذہن پر ایسی ہی بکھری ہیں
جس طرح یہ پُتے
میری دہلیز پر!
”پری! کیا سوچ رہی ہے؟ اتنی گہری سوچ……! کب سے تجھے سوچوں مین ڈوبا دیکھ رہی ہوں۔
دادی اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر محبت سے گویا ہوئیں۔ اس نے دادی کی نگاہوں میں بہت دنوں بعد شفقت و پیار دیکھا تھا۔
”دادی! میں نانو کے پاس ہو کر آجاؤں چند دنوں کے لیے؟“
”زیادہ دن تو نہیں ہوئے تمہیں گئے ہوئے پھر کیوں جانے کی پڑگئی؟“ وہ قریب ہی صوفے پر بیٹھتے ہوئے گویا ہوئیں۔
”ایک ماہ سے زیادہ ہو چکا ہے نانوں کے ہاں گئے ہوئے مجھے۔
“
”تمہاری ماں سے بات ہوئی ہے کیا جو جانا چاہ رہی ہو؟“ دادی کے لہجے میں تھکن سی اتر آئی تھی۔
”نہیں! مما سے بات ہوئے خاصا وقت گزر گیا ہے۔ میں سوچ رہ تھی، تائی جان کے آنے سے قبل میں چند دن نانو کے ہاں رہ کر آجاؤں۔“
’اچھا……رہ کر آجاؤ، پھر تو جلد موقع نہ مل سکے گا اور وہاں سے شاپنگ بھی کر لینا۔ تم اپنے لیے کچھ نئے سوٹ خرید لینا۔
“
”ٹھیک ہے دادی جان! میں آپ کے لیے بھی کچھ کپڑے لے آؤں گی۔“ ان کی اتنی فراخدلی پر وہ خوش ہو کر گویا ہوئی۔
”نہیں، مجھے ضرورت نہیں ہے۔“
”کیوں ضرورت نہیں ہے دادی! یہ کیا بات ہوئی بھلا؟“
”ابھی تو بنائے تھے کئی جوڑے وہ ٹھیک ہی ہیں۔ مجھے شوق نہیں ہے بلا ضرورت کپڑوں کا، یہ خبط تو تمہاری اور بہنوں کو چڑھا رہتا ہے۔
مجھے تو یہ فضول خرچی ذرا پسند نہیں ہے۔“
”اماں جان! یہ جو سب میں اور لڑکیاں کرتی ہیں، یہ آپ کی اور آپ کے بیٹے کی عزت بڑھانے کے لیے کرتی ہیں۔ یہ کوئی فضول خرچی نہیں ہے۔ ”صباحت ساس کی آواز کچن سے سن کر وہاں آ کر ناراضی سے گویا ہوئیں۔
”آئے ہائے! ہماری عزت کب سے گھٹنے لگی۔ جس کو تم اور تمہاری لڑکیاں اس طرح فضول خرچیاں کر کے بڑھا رہی ہو؟“ دادی تھوڑی پر ہاتھ رکھ کر استہزائیہ حیرانی سے گویا ہوئی تھیں۔
”میں اور میری بیٹیاں خوب صورت ملبوسات زیب تن کریں گی، بہترین دکھائی دین گی تو لوگ آپ کی اور فیاض کی تعریف کریں گے کہ کس ٹھاٹ باٹ سے رکھا ہوا ہے بیوی اور بیٹیوں کو ورنہ قبر کا حال تو مردہ ہی جانتا ہے۔ ”صباحت طنز کے تیز چلانے میں اماں سے دس ہاتھ آگے تھیں۔
”اچھا جی! ابھی ٹھاٹ باٹ کا ذکر کر رہی تھیں اور اب قبر کا مردہ بھی بن گئیں؟ واہ بھئی واہ!“ اماں جان کا پارہ ایک دم چڑھ گیا۔
”آپ سے بھی حد ہے اماں! مجھے مردہ ہی بنا ڈالا؟“ صباحت خود کو مردہ کہے جانے پر سخت حواس باختہ ہوئی تھیں۔
”تم نے خود ہی تو یہ بات کہی ہے۔ تم کو بھلا کس چیز کی کمی ہے جو تم نے قبر کا حال مردہ جانے کی مثال دے کر اپنی تنگ دستی و حرماں نصیبی کا ذکر کیا ہے۔ جتنا عیش و آرام میرا فیاض تم لوگوں کو دے رہا ہے خراب کا روبار کے باوجود اتنا کوئی دوسرا مرد نہیں دے سکتا ہے۔
پھر بھی تم ناشکر اپن کرتی ہو، وہ مجھے بالکل پسند نہیں۔“ صباحت بڑبڑاتی ہوئی وہاں سے جانے لگیں۔
”آہ! میرے بچے کے نصیب میں بیوی کا سکھ لکھا ہی نہیں ہے۔“
”جس گھر میں آپ جیسی ساس ہوگی وہاں سکھ بھاگ جاتے ہیں۔“ صباحت کمرے سے نکلتے ہوئے دل ہی دل میں گویا ہوئیں۔
”دادی جان! آپ اس قدر غصہ مت کیا کریں۔“ پری جو ان ساس بہو کے درمیان ہونے والی جھڑپ کے دوران خاموش رہی تھی، صباحت کے جانے کے بعد نرمی سے ان سے مخاطب ہوئی۔
”بات جب غصے والی ہوگی تو غصہ ہی آئے گا قہقہے نہیں لگائے جائیں گے۔ خود تو جیسے تیسے بس گئیں مگر اب مسئلہ ہے بچیوں کی تربیت کا۔ لڑکیاں پھول کی طرح خوب صورت ہوتی ہیں تو کانچ کی طرح نازک بھی اور اسی احتیاط ودانش مندی سے ان کی تربیت بھی کی جاتی ہے……“ وہ کسی بپھرے سمندر کی مانند اشتعال میں تھیں۔ ”لیکن بہو بیگم کو احساس ہی نہیں ہے، بیٹیوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر سمجھانا چاہیے، تنبیہ کرنی چاہیے صبر واستقامت اور میانہ روی کا درس دینا چاہیے۔
بچیوں کی تربیت بہترین خطوط پر نہ کی جائے تو آگے چل کر بگاڑ پیدا ہوتا ہے جو مشکلات کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔“ اماں جان اپنا سارا تجربہ اپنی ساری ذہانت نچوڑ کر بہو اور پوتیوں کو پلانا چاہتی تھیں اور صباحت کو ساس کی نصیحتوں اور و غط سے بڑی چڑتھی۔
”دادی جان! تائی جان کے لیے مینیو تو بتائیں……میں بنا لیتی ہوں، وہ آئیں گی تو مشکل نہیں ہوگی، وقت پر کھانا بن جایا کرے گا۔
“
اسے معلوم تھا اب دادی غصہ کرتی رہیں گی، اس وقت تک جب تک مما سے بڑی جنگ نہ ہو جائے………تو ان کا موڈ بدلنے کے لیے اس کو آج کل کے پسندیدہ موضوع پر لانے کے لیے ذہانت استعمال کرنی پڑی تھی۔
###
رضیہ جب عادت ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد قیلولہ کے لیے لیٹی تھیں۔ حاجرہ کے آنے پر ان کے سادہ چہرے پر شفیق مسکان اُبھر آئی تھی۔
”معاف کرنا بہن! مجھے معلوم ہے تم اس وقت آرام کے لیے لیٹتی ہو مگر بات کرنے کے لیے یہی وقت مناسب ہوتا ہے۔
رات میں بھائی منیر اور بچے ہوتے ہیں۔ ”وہ کارپٹ پر ان کے قریب ہی بیٹھ گئی تھیں۔
”کوئی بات نہیں حاجرہ بہن! گھر تمہارا ہے جب دل چاہے آؤ بلا جھجک۔“
”محبت و اخلاق تو تم پر ختم ہوتا ہے ورنہ اگر سب عورتیں اس نئی پڑوسن جیسی ہوگئیں تو دنیا ہی تبا ہو جائے گی بڑی خراب کردار کی عورت ہے۔ ”وہ فوراً ہی اصل موضوع پر آگئی تھیں۔
”میں نے تمہیں اس دن بھی منع کیا تھا کسی کے متعلق ایسی ناپسندیدہ بات کرنا گناہ ہوتا ہے۔
“ رضیہ کے لہجے میں نرمی تھی۔
”ارے گناہ تو اس وقت ہو جب میں جھوٹ کہوں، میں سچ کہہ رہی ہوں روز نئے نئے آدمی آتے ہیں اس کے پاس……ہاتھوں میں بڑے بڑے تھیلے لے کر، نامعلوم کیا مہنگی مہنگی چیزیں بھری ہوتی ہیں کھانے پینے کی۔“ ان کی حاسدانہ وبار یک نگاہوں سے شاپرز میں رکھی چیزیں بھی محفوظ نہ تھیں۔
”کسی کی عیب جوئی کرنا غیبت کہلاتا ہے۔
کسی کی بُرائی نہیں کرنی چاہیے۔“
”لویہ کیا بات ہوئی؟بُرے کو بُرانہ کہو؟“ وہ چہک اٹھیں۔
”ہاں! ہمارے دین کا یہی کہنا ہے۔“ رضیہ نے ان کے انداز کو نظر انداز کرکے کہا۔
”تم تو کبھی پردے کے باعث دروازے پر آتی نہیں ہو تو تمہیں کیا معلوم کہ محلے میں اس کے آنے سے کیسا اثر پڑرہا ہے۔ مرد تو رہے ایک طرف، جوان ہوتے لڑکے اس کے گھر کے پاس جمع رہنے لگے ہیں اور تو اور دوسرے محلے کے لڑکے بھی اس گلی کے چکر لگانے لگے ہیں، سب کی نگاہوں کا محور ہے وہ۔
“
”یہ خیال تو ان بچوں کے والدین کو رکھنا چاہیے جو یہاں آرہے ہیں۔“
”اس میں بچوں کا کیا قصور……! یہ ساری وباء اس خراب عورت کی وجہ سے پھیل رہی ہے، جب تک وہ یہاں سے جائے گی نہیں یہ بگاڑ ختم ہونے والا نہیں ہے اگر چیونٹیوں کو بھگانا ہو تو گڑ کو پہلے ہٹانا پڑتا ہے۔“
”میں تو پھر یہی کہوں گی، دوسرے پر انگلی اٹھانے سے بہتر ہے ہمیں اپنے بچوں کی اصلاح کرنی چاہیے۔ بچوں کو جب بداعمالیوں کا چسکا پڑ جاتا ہے تو وہ پھر گناہوں کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ اگر قدم ایک بار بہک جائیں تو مشکل سے درست راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔“ حاجرہ ایک بار پھر اپنا سامنہ لے کر رہ گئیں۔