”واہ ! وہ تمہیں دیکھتی ہے؟ دنیا اسے دیکھنے کے لیے ترستی ہے مائی ڈئیر۔“ وہ کھلکھلا کر اس سے کہہ اٹھی۔
”تم جانتی ہو وہ کس قسم کی عورت ہے پھر بھی تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے۔“ وردہ کو اس کے چہرے پر چھائی خوف کی زردی نے سنجیدہ کر دیا تھا۔
”نہیں۔ وہ نامعلوم کس طرح مجھے دیکھتی ہے کہ…مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے مجھے کچھ ہو جائے گا۔“ بڑی پر اسرار نگاہیں ہوتی ہیں اس کی۔
“ رجاء کے لہجے میں ابھی بھی خوف کی حکمرانی تھی۔
”تم نے اپنی امی ابو کو بتایا یہ سب…؟“
”نہیں……“اس نے آہستگی سے کہا۔
”کیوں……؟ تمہیں ان کو فوراً بتانا چاہیے۔“
”وہ کہیں گے بد گمانی گناہ ہے میری بات کو بد گمانی پر محمول کریں گے۔“
”تم اپنی امی کو اس وقت بتاؤ جب وہ تمہیں دیکھ رہی ہوتو ……“
”یہی تو مسئلہ ہے وہ کسی کی موجودگی میں نہیں دیکھتی ہے۔
(جاری ہے)
“
”فکر نہ کروتم۔ یہ مسئلہ سنی ہی حل کر سکتاہے۔ وہ ایسے لوگوں کو بالکل پسند نہیں کرتا جو اچھے کردار کے نہ ہوں۔ اب تم کو ہی یہ پرابلم سنی کو بتانی ہوگی۔ میں جانتی ہوں تم کہو گی ”تمہارا اس سے ملنانا ممکن ہے۔“ رجاء کو لب واکرتے دیکھ کروردہ جتانے والے انداز میں کہہ رہی تھی۔
”یہ میری مجبوری ہے، سمجھنے کی کوشش کرووردہ!“
”مل نہیں سکتی ہو……فون پر تو بات کر سکتی ہو۔
“ وردہ نے جھلائے ہوئے لہجے میں کہا تو رجاء خوشامدی لہجے میں بولی۔
”تم خود ہی بتاؤ کس طرح ممکن ہے؟ سارے دن امی گھر میں موجود رہتی ہیں۔ رات کو ابو لاؤنج کے ساتھ والے کمرے میں دروازہ واکرکے سوتے ہیں پھر……“
”ٹھیک ہے ، میں تمہاری پرابلمز سنی کو پہنچا دوں گی۔“ وہ کہہ کر چلی گئی تھی۔ دوسرے دن اس کے مسئلے کا حل موجود تھا۔
سنی نے اسے ”بلیک بیری“ گفٹ کیا تھا۔
وردہ اسے پکڑا کر فوراً ہی چلی گئی تھی۔
”وہ قیمتی سیل فون دیکھ کر ساکت رہ گئی تھی۔
###
”طغرل بھائی! دل لگ گیا آپ کا یہاں……؟“ عائزہ اس سے مخاطب ہوئی۔ وہ ٹی وی لاؤنج میں صوفے پر بیٹھا ایک ٹاک شو دیکھ رہا تھا۔
”دل……!“ اس نے چونک کر استفسار کیا پھر مسکرا کر بولا۔”میں یہاں دل لگانے نہیں آیا۔ آپ سب سے ملنے آیا ہوں۔
“
”کیوں……دل وہیں چھوڑ آئے گوری میموں کے لیے؟“ ناخنوں پر کیوٹیکس لگاتی عادلہ معنی خیز لہجے میں بولی۔
”ہاں، سمجھ سکتی ہو۔“ اس نے اس کی طرف دیکھے بنا اطمینان سے کہا۔
”یہاں کیا آپ کو دل دینے والیوں کی کمی تھی طغرل بھائی!“ عادلہ سخت بد مزہ ہوئی منہ بنا کر بولی۔
”یہ کیا دل و دماغ کی باتیں لے کر بیٹھ گئی ہو۔ کوئی اچھی سی بات کریار!“ اس نے ٹی وی بند کر کے بیزار لہجے میں کہا۔
”کیا اچھی بات کریں؟ ہمیں تو گھر ہی میں رہنا ہوتا ہے، دادی کو تفریح پسند ہے نہ پکنک اور نہ ہی کوئی ہلہ گلہ۔“
”اوہ بہت افسوس ہوا۔ لیکن فکر مت کرو بہنو جب تک میں یہاں ہوں آپ کو تفریح پر لے جاتا رہوں گا۔“
”ارے واقعی! پھر تو بہت مزا آئے گا۔ خو ب مزے کریں گے ہم۔“ وہ دونوں ہی بے تحاشا خوش ہو گئیں۔ سیروتفریح کی وہ دلدادہ تھیں لیکن اماں جان کی طرف سے عائد پابندیوں کے باعث شتر بے مہارنہ بن سکی تھیں۔
صباحت اتنی فرماں بردار نہ تھیں جو ساس کی باتوں پر من وعن عمل پیرا ہوتیں یا بچیوں کو یہ سعادت مندی سکھاتیں۔ وہ اماں جان کی لا علمی میں ہر وہ کام کرتی تھیں جو روبرو کرنے سے گریز کیا جاتا تھا۔ کیونکہ صباحت نے کبھی ساس کو وہ عزت رتبہ نہ دیا تھا جس کی وہ حق دار تھیں بظاہر تو وہ بڑی خوش اخلاقی وادب کا مظاہرہ کیا کرتی تھیں۔
”دادی جان سے اجازت آپ لیا کریں باہر جانے کی، وہ تو ہمیں کبھی بھی اجازت نہیں دیں گی۔
“ عادلہ نے حتمی انداز میں کہا۔
”جی ہاں! اور دادی کو غلطی سے بھی یہ نہ بتائیے گا کہ یہ ہماری خواہش ہے۔“ عائزہ نے بھی عادلہ کی ہاں میں ہاں ملائی تھی۔
”میرے خیال سے تو دادی جان بے حد نرم مزاج اور محبت کرنے والی ہیں۔“ طغرل کی بات پر عادلہ نے اس کی طرف دیکھا تھا۔ سفید و سرخ رنگت، مردانہ نقوش خوب صورت تھے۔ آنکھیں اعتماد کی چمک سے روشن تھیں۔
ایک بے نام سی جنوں خیزی و سرکشی اس کی ذات میں پنہاں تھی۔ ایک ایسی کشش جو دیکھنے والی آنکھ کو متحیر کرتی تھی۔ عادلہ کا دل چاہا وہ چپکے سے اسی کا ہو جائے۔ کوئی دوسری نگاہ اس کی طرف اٹھے ہی ناں اور وہ کسی جگنو کی طرح اس کو دل کی مٹھی میں قید کرلے۔ یہ حقیقت تھی طغرل کو جب سے اس نے دیکھا تھا تب سے ہی اس کے دل کی دیا بدلی بدلی تھی۔ وہ اس کے قرب کے مواقع تلاش کرتی تھی۔
”دادی جان! صرف اس گھر میں ایک ہی ہستی سے پیار کرتی ہیں اور وہ ہستی ہے ان کی لاڈلی چہیتی پری کی……جوان کے حواسوں پر ہر وقت چھائی رہتی ہے ہمیں تو وہ اس قابل سمجھتی نہیں کہ محبت کریں۔“ عائزہ جو عادلہ کی کیفیت سے بے خبر تھی، منہ بسور کر بولی۔
پری کے نام پر وہ چونکا تھا اسے یہاں آئے ایک ہفتے سے زائد ہو چکا تھا اور اس عرصے میں وہ ایک بار بھی اس سے نہیں ملی تھی۔
پہلے تو اس نے خود ہی اس کو نظر انداز کیا تھا لیکن اس وقت اس کا نام سن کر اس سے ملنے کی خواہش انگڑائی لے کر بیدار ہوئی تھی۔ وہ پوچھ بیٹھا۔
”وہ محترمہ کہاں پائی جاتی ہیں؟ ابھی تک ان سے میرا ٹکراؤ نہیں ہوا ہے۔ کیا پری کہیں گئی ہوئی ہے؟“ اس نے عادلہ سے استفسار کیا تھا۔
”وہ کہاں جائے گی……؟ یہیں گھر میں ہوتی ہے ہر وقت ۔“
”حیرت! کہاں ہوتی ہے، مجھے کہیں دکھائی نہیں دی ابھی تک……؟“ اس کے انداز میں حیرانی تھی۔
عادلہ کو جلن سی محسوس ہونے لگی تھی۔
”وہ ایسی ہی ہے سٹریل مزاج، مجال ہے جو کسی کو برداشت کرے، ہر ایک سے لزنے جھگڑنے والی، بدتمیزو بدمزاج لڑکی ہے وہ۔“
”وہ ابھی تک ایسی ہی ہے جنگلی بلی کی طرح غرانے والی، نوچنے والی……میں سمجھا تھا وقت نے اسے بدل دیا ہو گا۔“
”کچھ لوگ ہوتے ہیں ایسے جن کو وقت بھی بدل نہیں سکتا۔ آپ کے آنے سے کچھ عرصہ قبل تک وہ دادی جان سے لڑتی رہی تھی۔
“
”دادی جان سے ……! مگر کیوں؟“ اس کے اندزز میں ناگواری درآئی تھی۔
”کمرے کی وجہ سے……“ عادلہ نے بھولپن کی اداکاری شروع کر دی۔
”’کیا کمرے کی وجہ سے……یہ کیا بات ہوئی؟۔
”دراصل جو کمرا آپ کو دیا گیا ہے وہ پری کا کمرا ہے، وہ اپنے کمرے میں کسی کو برداشت نہیں کرتی۔ میں نے بہت چاہا وہ اپنا کمرا کسی طرح مجھے دے دے چند دنوں کے لیے مگر اس نے انکار کر دیا۔
پھر آپ کے آنے کا ہو اتو دادی نے کہا وہ کمرآپ کے لیے خالی کر دے اور یہیں سے وہ دادی کی دشمن بن گئی۔ نامعلوم کس طرح وہ کمرا خالی کرنے پا آمادہ ہوئی ہے۔“ عادلہ نے مہارت سے اس کو معلومات بہم پہنچائی تھیں۔
’اوہ! سمجھا میں تو کہیں بھی ٹھہر جاتا یہاں اور بھی کمرے ہیں۔ دادی نے خوامخواہ اس کی منتیں کیں۔“ وہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔
”کمرے تو بہت ہیں مگر پری کے کمرے جیسا کوئی نہیں۔
وہ اپنے کمرے کی بہت حفاظت کرتی ہے اس لیے اس کا کمرا سب سے زیادہ صاف و خوب صورت ہے۔“
”اس کو تو شوق ہے صفائی کا۔ اب دادی کے کمرے میں رہ رہی ہے تو وہاں کی ماسی بنی رہتی ہے۔“ عائزہ کی ہنسی استہزائیہ تھی۔
###
وہ عشاء کی نماز ادا کرنے کے لیے وضو کر کے واش روم سے باہر آئی تو پاپا کو دادی کے پاس بیٹھے دیکھ کروہیں رُک گئی تھی وہ ماں بیٹے اپنی گفتگو میں مگن تھے یا اس کی موجودگی ان کے لیے ایسی اہمیت نہ رکھتی تھی کہ وہ نگاہ اٹھا کر دیکھتے۔
وہ دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑی ہو گئی تھی۔
اس نے کبھی اپنے باپ کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ کبھی کبھار وہ مسکراتے تھے تو ان کی آنکھیں اس مسکراہٹ کا ساتھ نہیں دیتی تھیں۔ اس نے ان کی آنکھوں میں حزن و ملال دیکھا تھا۔ کسی کو کھونے کا دکھ دیکھا تھا… ایسا دکھ جو بچپن سے اس کے اندر بھی پروان چڑھتا رہا تھا۔
”ارے تم وہاں کیوں دیوار سے چھپکلی کی طرح چپکی کھڑی ہو۔
یہاں آؤ۔“ دادی کی اس کی طرف نگاہ اٹھی تو وہ گویا ہوئیں۔ وہ خاموشی سے ان کے نزدیک آکر بیٹھ گئی تھی۔
”تم نے شاپنگ کی تھی؟ میں نے کہا تھا مزید رقم کی ضرورت ہو تو کال کر لینا۔“ فیاض صاحب نے اچٹتی ہوئی نگاہ اس پر ڈالتے ہوئے کہا۔
”وقت کہاں ملا بچی کو شاپنگ کا…؟ دوسرے دن یہ جاتی اور اس رات کو بہو اور طغرل بنا اطلاع کے آگئے تب سے اب تک مہمانوں کی آمدورفت ختم نہیں ہو رہی ہے۔
عادلہ اور عائزہ کو تو کام کے ذکر سے ہی گھبراہٹ ہونے لگتی ہے اور رہیں تمہاری بیگم صاحبہ، تو ان کو بس ہدایتیں دینی آتی ہیں، کام وام نہیں ہوتا ان سے پھر ظاہر یوں کرتی ہیں گویا سارے گھر کے کام وہ ہی سمیٹ رہی ہیں۔ شامت آئی ہے تو اس بچی کی، تم نے شاپنگ کے لیے جو رقم دی تھی وہ میرے پاس ہے۔ پری نے مجھے دے دی تھی۔“ انہوں نے بہو اور پوتیوں کے رویے کا بھانڈا پھوڑا تھا۔
”اماں جان! آپ پریشان نہ ہوں۔ میں ایک اور ملازم رکھوادوں گا۔“
”ارے یہ ملازم بڑے بدذات ہوتے ہیں ۔ کتنا ہی اچھا کام کرنے والے کیوں نہ ہوں کام میں ڈنڈی مارنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ نامراد۔“
”ٹھیک ہے، میں صباحت کو سمجھاتا ہوں، اس کو اپنے فرائض ذمے داری سے ادا کرنے ہوں گے۔“ وہ اماں سے اجازت لے کر چلے گئے۔
”اب دیکھنا صباحت کو کس طرح بے عزت کرتا ہے فیاض، ساری اکڑ نکل جائے گی بیگم صاحبہ کی بڑی مہارانی سمجھتی ہے خود کو۔
“
”دادی جان! آپ کو پاپاسے مما کی شکایت نہیں کرنی چاہیے تھی اب خوا مخواہ ان میں لڑائی ہو گی۔“ پری اہستگی سے بولی۔
”ارے خوامخواہ کیوں…میں نے سچ کہا ہے۔ صباحت خود کو نا معلوم کیا سمجھنے لگی ہے۔ سیدھے منہ بات ہی نہیں کر رہی ہے۔ عورت مرد کے پیر کی جوتی ہے۔ اس کو اس کی جگہ پر ہی رکھنا مناسب ہے۔ پھر فیاض اچھی طرح جانتا ہے سر کی جگہ کس کے لیے ہے اور پاؤں کی کس کے لیے ……“ وہ کچھ کہتے کہتے ایک دم رک گئیں تھیں۔
پری نے محسوس کیا پھر چپ رہی۔
”بڑی بہو چند دنوں کے لیے اپنے ماموں کے ہاں مری گئی ہیں۔ اب مہمان نہیں آئیں گے۔ تم ایک آدھ دن اپنی نانو کے گزار کر آجاؤ۔ کل بھی تم کہہ رہی تھیں کہ فون آیا تھاان کا۔ بہت یاد کر رہی ہیں تمہیں۔“
”آپ کو چھوڑ کر کیسے جاؤں؟ آج کل آپ کے جوڑوں میں درد بھی زیادہ ہے۔“
”تمہارا دل چاہ رہا ہے جانے کو…؟“ عینک درست کر کے انہوں نے اس کی طرف کھوجتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں دادی!“ اس کی زبان و سرانکار میں ساتھ پلے تھے۔
”ٹھیک ہے… ورنہ میں سوچ رہی تھی اگر تم چلی گئیں تو پریشانی ہو جائے گی۔ طغرل میری محبت میں اپنی ماں کے ساتھ مری نہیں گیا۔ تمہارے جانے کے بعد میں کس طرح بچے کا خیال رکھتی۔ اسے کھانے پینے کا مسئلہ ہو جاتا۔“ وہ صاف گوئی سے اس کو حقیقت بتانے لگیں جو اس کو پتنگے لگا گئی۔