Episode 11 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 11 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

”اچھا ! ابھی ابھی آپ کہہ رہی تھیں میں نانو کے گھر جا کر رہ آؤ تو وہ جھوٹ تھا؟“
”فضول گوئی کیوں کرتی ہے۔ چل ! اتنی دیر سے وضو کر کے آئی ہوئی ہے۔ نماز ادا کر……بلاوجہ کی باتوں میں وقت ضائع کررہی ہے۔“ دادی کو فوری اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ اسے ٹالتے ہوئے گویا ہوئیں۔
”میں آپ کے اس لاڈلے کی ملازم نہیں ہوں جو آپ مجھے سمجھ رہی ہیں۔
“ وہ نماز کی چادر باندھتے ہوئے بدمزاجی سے گویا ہوئی تھی۔
”میں پوچھتی ہوں کس بناء پر تم اتنی اکڑ دکھا رہی ہو؟ ہیں……! دماغ ہی تمہارے آسمان کو چھونے لگے ہیں طغرل کو تم نے سلام تک کرنا بھی گوارانہ کیا۔ اس بچے سے اس طرح چھپتی پھرتی ہو جیسے اسے ”چھوت“ کی بیماری ہو جو اڑ کر تمہیں لگ جائے گی۔“
دادی جان جو اس کاگریز واجتناب بددلی سے براداشت کر رہی تھیں ، کہہ اٹھیں۔

(جاری ہے)

”اگر میں تمہیں کچھ کہہ نہیں رہی ہوں تو اس کا یہ مقصد نہیں کہ تم میرے سر پر چڑھتی چلی جاؤ۔ چھوٹے بڑے کا اداب و لحاظ بھول کر، میں نے تمہاری تربیت ایسی نہیں کی کہ تم گھر آئے لوگوں سے ایسی بد سلوکی کرو……“ابھی دادی کی ڈانٹ پھٹکار جاری تھی معاکھلے دروازے سے دلفریب مہک داخل ہوئی تھی۔ ساتھ ہی بھاری جوتوں کی آواز تو سرعت سے جائے نماز لے کر کمرے سے ملحقہ گیلری کی طرف بڑھ گئی۔
اسے معلوم تھا آنے والا طغرل تھا۔ وہ ہی ایسے ہوش ربا پر فیومز استعمال کرنے کا عادی تھا جو خاصے فاصلے سے اس کی آمد کا پتا دیتے تھے۔ اب بھی ایسا ہی ہوا تھا ۔ وہ کئی مٹ تک گیلری میں کھڑی یہ سوچتی رہی کہ وہ یہاں کیوں آیا ہے۔ اس سے قبل وہ کبھی رات کے وقت کمرے میں نہیں آیا تھا۔
”آؤ، آؤ بیٹے! کیا بات ہے ابھی تک سوئے نہیں؟“ طغرل کو دیکھ کر دادی کے چہرے پر مسکراہٹ روشنی بن کر پھیل گئی تھی۔
”نیند نہیں آرہی تھی اس لیے آپ کے پاس چلا آیا۔ آپ پریشان تو نہیں ہو رہی ہیں؟“ وہ ان کے قریب بیٹھ کر بولا۔
”میں اپنے بچے کے آنے سے پریشان کیوں ہوں گی۔ آؤ آرام سے بیٹھ جاؤ۔“ انہو نے پیچھے کھسک کر اسے مزید جگہ دی، ویسے تو اس ڈبل بیڈ پر خاصی جگہ تھی۔ وہ آرام سے بیٹھ ہی نہیں لیٹ بھی سکتا تھا۔ ان کا اسے مزید جگہ دینا اس مثل کو صادق کر رہا تھا کہ اصل گنجائش گھروں میں نہیں دلوں میں ہوتی ہے۔
اگر کسی سے ہم محبت کرتے ہیں، اپنا سمجھتے ہیں تو چھوٹی سی چھونپڑی میں بھی جگہ نکل آتی ہے اور کوئی اگر ہمیں نا پسند ہو تو محل میں بھی چھوٹی سی جگہ نکل نہیں پاتی ہے……یہی چاہت بھرا حال یہاں بھی تھا اور گیلری میں نماز کیلیے کھڑی ہونے والی پری اس کی پذیرائی پر جل کر رہ گئی تھی۔
”اتنے بڑے بیڈ پر آپ تنہا سوتی ہیں دادی جان!“ وہ ان سے مخاطب ہوا مگر اس کی متلاشی نظریں کمرے کا جائزہ لے رہی تھیں۔
”میں تنہا کہاں سوتی ہوں؟ پری سوتی ہے میرے برابر میں۔“
”پری؟ کون سی پری…لال پری، سبز پری یا کالی پری……؟“
”چل ہٹ……! مسخرہ پن مت کر۔ پری یعنی پارس سوتی ہے میرے پاس۔“
”سنا ہے پارس جس کو چھو جائے وہ سونے کا ہو جاتا ہے لیکن یہاں مجھے کوئی ایسی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے۔ اس کا مطلب ہے پارس اصلی نہیں ہے۔“ وہ گیلری میں کھلنے والی کھڑکی سے گلابی آنچل کی جھلک دیکھ چکا تھا۔
وہ سمجھ گیا وہ اس کی وجہ سے وہاں روپوش ہے، سومزے سے گویا ہوا۔
”بال کی کھال نکالناکہاں سے سیکھ لیا تم نے؟“ کیا پارس پتھر سچ مچ ہوتا ہے۔“
”میں کیا جانوں؟ میں نے اپنے بڑوں سے سنا تھا پارس پتھر ہوتا ہے اور جو اسے چھُو لے وہ سونے کا بن جاتا ہے۔“ وہ اس کی باتوں میں آگئی تھیں۔
”آپ نے اپنے بڑوں سے سنا اور یقین کر لیا اور شاید ان محترمہ نے بھی آپ کی سنی سنائی پر یقین کر لیا۔
تب ہی خود کو چھپا کر رکھتی ہیں کہ کوئی انہیں چھو کر سونا نہ بن لے جائے۔“ اسے نے قہقہہ لگاتے ہوئے اس پر طنز کیا تھا۔
”کمینہ! دل تو کر رہا ہے منہ توڑ کر ہاتھ میں دے دوں اس کا۔“ وہ جو نماز پڑھ کر اس کے جانے کے انتظار میں بیٹھ گئی تھی اس کے بے تکلفی سے خود پر کیے جانے والے طنز پرتپ کر بڑ بڑائی تھی۔
”ارے بچے! تو ابھی بھی نہیں سدھرا؟پری سے ابھی بھی تیری چھپڑ خانی ایسی ہی جاری ہے۔
کیا اب بھی تو لڑائیاں لڑے گا؟“
”ہونہہ! کتے کی دم بھی کبھی سیدھی ہوئی ہے جو یہ سدھرے گا؟“ وہ جو اس کی باتیں سن رہی تھی بڑبڑائی تھی۔
”نہیں……نہیں……میری ایسی جرأت کہاں کہ میں پری کی شان میں گستاخی کر سکوں؟“ اگر اس نے جادو کی چھڑی سے مجھے پھول بنا کر اپنے جوڑے میں لگا لیا تو میں مرجھا کر رہ جاؤں گا۔“ اس کے انداز پر دادی ہنس پڑی تھیں جبکہ مارے ضبط پری کا برا حال ہو رہا تھا۔
وہ سمجھ رہی تھی وہ یہ سب بکواس اس لیے کر رہا ہے کہ وہ غصے میں آکر اس کے سامنے چلی جائے اور وہ اس کے سامنے جانا نہیں چاہتی تھی۔ اسے لیے اس کی باتیں سن سن کر گیلی لکڑی کی مانند اندر ہی سلگ رہی تھی۔
”بس اب بہت ہو گیا۔ مت پریشان کرو پری کو……“ دادی کو معلوم تھا وہ کس طرح اندر ہی اندر سلگ رہی ہو گی اسی خیال سے وہ طغرل سے مخاطب ہوئی تھیں۔
”میں تو کسی کو پریشان نہیں کر رہا پھر کمرے میں آپ اور میرے علاو کوئی تیسر اشخص نہیں ہے۔“ وہ بھی اول نمبر کا کائیاں شخص تھا۔
”پری گیلری میں نماز پڑھ رہی ہے۔“ وہ اس کو بتا کر پری سے کہنے لگیں۔
”پری! کیا سورکعت نفل کی نیت باندھ کر کھڑی ہو گئی ہو؟“
”مجھے لگتا ہے دادی جان! شاید ہزاررکعت کی نیت باندھ لی ہے۔“طغرل کو نا معلوم کیوں بہت لطف محسوس ہو رہا تھا۔
”ہیں، ہیں طغرل! یہ چلبلاپن کہاں سے سیکھ لیا بچے!“
”جب وقت بھاری پڑتا ہے تو سب سکھا دیتا ہے۔“ وہ شرارتی انداز میں بولا۔
”اللہ نہ کرے، جو تم پر وقت بھاری پڑے…کیوں اول فول بک رہے ہو۔…؟ چلو جا کر سوؤ۔ زیادہ جاگنے سے دماغ چل گیا ہے تمہارا۔“ وہ تکیہ درست کر کے لیٹتے ہوئے گویا ہوئیں۔
”نیند نہیں آرہی دادی جان! آج ساری رات میں آپ سے باتیں کروں گا۔
“وہ قریب ہی نیم دراز ہو کر بولا۔
”اب میں سوؤں گی اور جاگی تو تہجد کے لیے آنکھ نہیں کھلے گی۔“ انہیں پری پر غصے کے ساتھ ترس بھی آنے لگا تھا۔ بلاوجہ ضد میں طغرل سے چھپ رہی تھی اور جوبات بلا سبب ہو وہ تکلیف کا باعث ہوتی ہے جیسے وہ اس وقت چھوٹی سی گیلری میں قید ہو کر رہ گئی تھی۔ اس کی عادت تھی عشاء کی نماز پڑھتے ہی سونے کی اور اسے نماز ادا کیے خاصا وقت گزر گیا تھا۔
نیند سے اس کی حالت بری ہو رہی تھی۔
”اچھا……کسی اور کی خاطر مجھے آپ بھگا رہی ہیں؟‘ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔
”ارے نہیں میرے بچے! ایسا نہیں ہے، بس مجھ سے اب جاگا نہیں جاتا ہے۔“ دادی نے جھٹ پٹ اس کی پیشانی چوم کر وضاحت کی تھی۔ اس کو بھی احساس ہوا کہ مذاق ہی مذاق میں وہ اب زیادتی کا مرتکب ہو رہا ہے تو وہ فوراً ہی معذرت کرتا ہو ااٹھ کھڑا ہوا۔
###
وہ ساری رات، سارا دن ایک آزمائش و کشمکش میں بسر ہوا تھا سیل فون اس نے بند کر کے اپنے ملبوسات میں چھپا کر رکھ دیا تھا۔ اس کے اندر جنگ چھڑ گئی تھی۔ ایک طرف اس کی نوزائیدہ محبت تھی دوسری جاب ماں باپ کا اعتماد و تربیت …بچپن سے اسے حالات کی اونچ نیچ سکھائی گئی تھی کہ کسی راہ پر قدم ڈگمگائیں ناں اور وہ راستہ بھٹک کر منزل نہ کھو بیٹھے۔
”میں اپنی رجا ء کو اعلیٰ تعلیم دلواؤں گی۔ ہمارے مذہب میں تعلیم حاصل کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ماں کی گود سے قبر کی آغوش تک علم حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تعلیم برائیوں سے بچاتی ہے، اچھائیاں سکھاتی ہے۔“امی کی پر یقین آواز اس کی سماعتوں میں کونجنے لگتی تو کبھی ابو کا پر اعتماد لہجہ اس کے ارادوں کو ڈانواں ڈول کر رہا تھا۔
”رجاء بیٹی! جوان بیٹی جب گھر سے باہر جاتی ہے تو اس کے سر پر والدین کی محبت، اعتماد و عزت کا تاج ہوتا ہے جس کی ہر قدم پر، ہر نظر پر حفاظت کرتی ہے، یہ تاج کانچ سے بھی زیادہ نازک اور ہیرے سے بھی بڑھ کر قیمتی ونایاب ہوتا ہے کہ ذرا سی لغزش، معمولی لڑکھڑاہٹ سے گر کر چکنا چُور ہوجاتا ہے اور کانچ ٹوٹ کر جڑتے نہیں ہیں اب یہ ہماری عزت ومان کا تاج تمہارے ہاتھوں میں ہے۔
کالج کا وہ پہلا دن تھا وہ گھر سے نکلنے ولی تھی جب ابو اس سے مخاطب ہوئے تھے۔ اس وقت اس نے کہا تھا کہ وہ جان دے دے گی مگر اس تاج کو ٹھوکر بھی نہ لگنے دے گی۔
آج دو سالوں میں ہی وہ سارے عہد بھول گئی تھی۔ ماں باپ کی برسوں کی محبت، سنی کی نوزائیدہ محبت اس محبت پر بازی لے جانا چاہتی تھی۔
”سنی کی محبت کو مت آزمانا کبھی…وہ بے حد جذباتی ہے، تم نے ذرا بھی اس کے جذبوں کو کچلنے کی کوشش کی تو وہ خود کو نقصان پہنچالے گا۔
وہ محبت کا ترس ہوا ہے۔ وہ تم میں اپنی دنیا دیکھتا ہے۔“ وردہ نے گلوکیر لہجے میں کہا تھا۔
یہ سب آوازیں روتی، چلاتی، مسکراتی، گنگناتی ہوئی آوازیں جو کسی آسیب کی طرح اس کے اندر حشر برپا کر رہی تھیں اور وہ سوچتی سیل فون وردہ کو واپس کر دے اور صاف کہہ دے کہ وہ اس ٹائپ کی لڑکی نہیں ہے جو اپنے والدین کے اعتماد و عزت کا خون کر کے اپنے لیے خوشیاں خریدے۔
وہ کسی منسوب ہو چکی ہے اور اسے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھائے۔ اس جیسی مذہبی گھرانے کی لڑکی کو یہ زیب نہیں دیتا۔ لیکن پھر اسے یاد آتا کہ سنی نے اگر خود کو کوئی نقصان پہنچالیا۔ اس کی مجبوریوں کو اس نے بے وقافی سمجھا تو وہ کس طرح خود کو معاف کر سکے گی……؟ایک طرف والدین کے اعتماد و عزت کا خون ہونے سے بچاتی تو دوسری طرف سنی اپنی بے وفافی کے خون میں لت پت دکھائی دیتا ہے۔
وہ سوچ رہی تھی کہ کوئی ایسی ترکیب مل جائے جس سے نہ تو والدین کا اعتماد مجروح ہو اور نہ ہی سنی سے جدا ہو سکے۔ ابھی و ہ اسی اُدھیڑ بن میں تھی کہ فون کی آواز سن کر کمرے کی طرف بھاگی تھی۔
###
دادی جان کو نزلہ اور کھانسی ہو گئی تھی۔ وہ ان کے لیے قہوہ بنانے کچن میں آئی اور قہوہ مگ میں ڈالنا چاہتی تھی کہ خوش بو کے زبردست جھونکے نے اسے اپنے حصار میں لے لیا تھا۔
قدموں کی آہٹیں بھی اس طرف آرہی تھیں۔
”اف خدایا! یہ یہاں کیوں آرہا ہے؟“ اس نے گھبراہٹ میں مگ کاؤنٹر پر رکھا اور خود کاؤنٹر کے دوسری طرف بیٹھ گئی تھی۔ اسی وقت طغرل کچن میں داخل ہوا تھا۔
”اوہ……! ابھی تو محسوس ہو رہا تھا یہاں کوئی ہے۔“ وہ کچن میں نگاہیں دوڑاتا اونچے لہجے میں بولا تھا۔
مگر یہاں تو کوئی نہیں ہے، چلنا چاہیے۔
“ وہ خود کلامی میں کہہ رہا تھا۔ دوسرے لمحے اس کے جاتے قدموں کی آوازیں دور ہوئیں تو یہ یقین کرنے کے بعد کہ وہ چلا گیا ہے، پری کاؤنٹر کے پیچھے سے نکل آئی تھی۔ وہ سمجھ گئی تھی وہ اسے تنگ کرنے کے لیے ایسی حرکتیں کر رہا ہے مگر وہ ہار مانے والی نہیں تھی۔ وہ سوچتی ہوئی آگے بڑھی تھی پھر حیرت سے وہ ساگت رہ گئی۔ طغرل سینے پر بازولپیٹے اطمینان سے کھڑا تھا کچن کے درمیان میں۔

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط