Episode 16 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 16 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

”ارے تم رک کیوں گئی ہو؟ جلدی قدم اٹھاؤ سنی انتظار کر رہا ہے۔“ گھر سے باہر قدم رکھتے ہی وہ رک گئی تھی۔ وردہ جو ا سکی بہترین دوست تھی اس کی دلی کیفیت سے آگاہ تھی۔ اس کا لرز تا ہاتھ پکڑ کر وہ گویا ہوئی تھی۔ رجاء کی کیفیت اس وقت عجیب تھی گویا ساکت ہو گئی ہو۔
”وردہ! پلیز مجھے چھوڑ دو۔ میں یہ سب نہیں کر پاؤں گی۔“ اس کی آواز میں لرزش تھی۔
اس کے دل کی دھڑکنیں وردہ خوبی سن رہی تھی۔
”بے وقوف مت بنو میرے ساتھ آؤ ابھی۔“ وردہ اس کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھتے ہوئے ترش لہجے میں گویا ہوئی۔
”میں گھر واپس جانا چاہتی ہوں پلیز مجھے جانے دو۔“ وہ بے جان انداز میں اس کے ساتھ کھینچتی جا رہی تھی۔
”گھر جا کر کیا بولو گی؟ سچ بتاؤں گی کہ تم ایک غیر محرم کے ساتھ ڈیٹ کر رہی تھیں؟“نسبتاً ایک سنسان گلی می رک کر وہ غرائی تھی۔

(جاری ہے)

”ہاں میں امی کو سچ بتادوں گی۔ ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے پر جو وہ سزا دیں گی وہ مجھے منظور ہو گی مگر میں یہ سب نہیں کر سکتی۔“ وہ ہچکیوں سے رودی تھی وردہ کا موڈ بُری طرح آف ہو گیا تھا۔
”یہ سب تمہیں سنی سے پیار کی پینگیں بڑھانے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا اب تمہیں میرے ساتھ چلنا پڑے گا ورنہ سنی گولی مار دے گا مجھے۔ ”وردہ کے لہجے میں سختی ابھرنے لگی تھی۔
”میں نے اس سے آج تک بات بھی نہیں کی ہے تم……“
”خاموش رہو میرا موڈ خراب مت کرو تمہیں میرے ساتھ چلنا ہو گا تم نے مجھ سے وعدہ کیا ہے اور تمہاری باتوں میں آکر میں بھی سنی کو وقت دے چکی ہوں تمہاری بہانہ بازیاں بہت دیکھ چکی ہوں اب کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔“ وردہ کا لہجہ سخت اجنبی و کٹھور تھا۔ یہ لہجہ یہ انداز کسی دوست کا ہر گز نہیں ہو سکتا تھا۔
رجاء کی حجاب سے جھانکتی بھیگی نگاہوں میں تحیر سمٹ آیا تھا۔“ چلو آگے بڑھو وہ پارک کے پاس کار لیے کھڑا ہے چند گھنٹوں میں واپس آجائیں گے۔ کیوں پریشان ہوتی ہو اور مجھے بھی کرتی ہو ڈئیر!“
”میں نہیں جاؤں گی۔“ رجاء سے اس نے ہاتھ چھڑا کر مضبوط لہجے میں کہا۔ اسے لگا امی بہت قریب قرآن کی تلاوت کر رہی ہوں۔ قریب……اتنے قریب کے اس کی سماعتوں میں مدہم و میٹھی قرأت گونجنے لگی تھی۔
’اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔“ اس کے کانوں میں صدائیں گونجتی چلی گئیں۔ صدائیں بلند تر ہوتی چلی گئیں۔“ ہم کو سیدھے راستے پر چلا ہم کو سیدھے راستے پر چلا۔
”کیا ہو گیا ہے تمہیں رجاء!“ وردہ اس کے چہرے کی بدلتی رنگت سے پریشان ہوگئی۔
”تم میری دوست نہیں ہو وردہ! تم جس راہ پر مجھے لے کر جانا چاہ رہی ہو وہ راہ بھٹکے ہوئے لوگوں کی راہ ہوتی ہے۔
“ وہ گویا کسی سحر سے آزاد ہوئی تھی۔ کیسی غیبی طاقت نے اس کی آنکھوں سے وہ غفلت ونافرمانی کی پٹی اُتار پھینکی تھی جو کچھ عرصے سے وردہ کے توسط سے اس کی آنکھیں پر باندھ دی گئی تھی۔ اب وہ مستحکم لہجے میں اس سے مخاطب تھی۔
”مجھے پروا نہیں تم مجھے دوست سمجھو یا دشمن…تم کو میرے ساتھ تو چلنا ہی پڑے گا۔“ وردہ نے خونخوار لہجے میں کہا اور اسی اثناء میں اپناء میں ایک کاروہاں آکر رُکی تھی کیوں کہ یہ تنگ عقبی گلی تھی اس طرف بنے گھروں کے دروازے کم کم ہی واہوتے تھے اور یہاں لوگوں کی آمدورفت نہ ہونے کے برابر تھی۔
یہی وجہ تھی کہ ان کے بحث و تکرار کی آواز یں بھی کسی کی سماعت سے نہ ٹکرا سکی تھیں۔ وردہ نے اس سے بحث کے دوران ہی ہاتھ پشت کی جانب کر کے قریب کھڑے سنی کو ایس ایم ایس کر کے بلوالیا تھا اور کاروہاں آتے دیکھ کر رجاء خوف زدہ ہو گئی تھی۔
”چلو اب مان جاؤ دیکھو سنی خود یہاں آگیا ہے۔“ وردہ چہکی۔
”تم نے اسے بلایا ہے؟“
”نہیں……وہ تمہاری خوش بُو سنگھ کر چلاآیا ہے۔
“ وہ ایک دم ہی بدل گئی تھی۔ رجاء اس کے بدلتے تیور دیکھ کر حق دق تھی۔ اس کا دل کہہ رہا تھا وردہ پر اعتبار کر کے اس نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔“ اتنامت سوچو فیصلے کمزور پڑ جاتے ہیں زیادہ سوچنے سے……دیکھو محبت تمہارے سامنے ہے اور تم فیصلوں میں وقت ضائع کر رہی ہو۔“ کار سامنے کھڑی تھی جس کے شیشے سیاہ تھے۔ وہ تاریکی اسے خود پر چھائی محسوس ہوئی تھی۔
وردہ نے مسکرا کر اس کا ہاتھ پکڑنا چاہا تھا سی وقت اس نے بلا سوچے سمجھے قریبی گھر کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہا دروازہ پہلے ہی بند نہ تھا اس کے دونوں ہاتھوں کے دباؤ سے کھل گیا اور وہ بے توازن ہو کر اندر گرتی چلی گئی۔
###
اماں جان کی دونوں بیٹیاں آئی ہوئی تھیں گھر مین خوب رونق ہنگامہ ہو رہا تھا۔ نواسے اور پوتیوں کی پوری فوج تھی ان کی ……البتہ طغرل اکلوتا پوتا تھا وہ کزنز میں گھر اشہزادہ گلفام بنا بیٹھاتھا۔
”تم نے کنوارے یہاں آکر ہماری ناک کٹوادی ہے یار! کم از کم ایک عدد میم ہی لے آتے تو کیا بگڑ جاتا تمہارا؟“ معید نے دکھی سی فریاد کی تھی۔
”اچھا……! اس سے طغرل بھائی کو کتنی نفل کا ثواب ملتا؟“ عادلہ نے معید کو منہ بنا کر کہا۔
”ارے نفل کا کیوں…ثواب تو فرض کا ملتا طغرل کو اگر یہ کسی میم کو لاتا تو……پہلے کسی غیر مسلم کو مسلم کرنا پڑتا ہے پھر شادی ہوتی ہے تو اس طرح طغرل کو ثواب مل جاتا اور ہم بھی فارن بھابی سب کو دکھا کر شومارتے بھئی!‘ مدثر کی آواز اندار آتی اماں جان نے سنی تھی اور قریب آکر بولیں۔
”پہلے خود تو اصل مسلمان بن جاؤ پھر دوسروں کی فکر کرنا۔“
”اماں جان! اس مدثر کو ہر وقت شادی بیاہ کی سوجھی رہتی ہے۔ ہر وقت اس کی زبان پر آنے والی کے تذکرے رہتے ہیں۔“ عامرہ اور آصفہ ماں کے قریب بیٹھی تھیں عارہ نے کہا تھا۔
”اے لو! تم نے لڑکی بھی دیکھ لی اور ماں سے ذکر بھی نہ کیا؟“ اماں سدا کی صاف گو تھیں۔ کھری بات کہنے میں وہ بہو بیٹی کا لحاظ نہ رکھتی تھیں۔
”ہائے اماں! یہ کیسے ہو سکتا ہے میں آپ سے پوچھے بنا اتنا بڑا کام کر لوں؟“
”تو یہ مدثر کیوں آنے والی کے گن گا رہا ہے؟“
”اماں! ایسی بات نہیں ہے میں نے بتایا تھا نا! شریف کاارادہ ہے دوست کی بیٹی کا مدثر کے لیے ان سے بات کی تھی۔“عامرہ نے ماں کو رسانیت سے سمجھایا۔ نوجوان پارٹی خاموشی سے کھسک لی تھی۔
”اچھا……ہاں تم نے بتایا تو تھا پھر کیا کہا ان لوگوں نے……؟“
”وہ کہہ رہے ہیں بیٹی دیں گے تو بیٹی لیں گے بھی یہ شرط ہے ان کی۔
”توج! ایسے رشتوں پر…… بڑی ناک چوٹی کے رشتے ہوتے ہیں یہ بڑی چٹیا گھسیٹی ہوتی ہے ایسے تعلقات میں ہمیں نہیں کرنے بابا!“
”امی! ہے تو بہت خطرے والا معاملہ!“ آصف نے بھی ماں کی تائید کی۔
”جس گھر سے بیٹی لی اس گھر میں بیٹی دینے کا کیا سوال ؟“
”’میں نے بھی شریف سے یہی کہا تھا وہ بات کریں گے ان سے……“
”اماں! یہ مذنہ بھابی کب تک مری سے آئیں گی؟ زمان نے پارٹی دینے کا کہا تھا۔
یہاں فون کیا تو معلوم ہوا بھابی بیگم پہلے ہی میکے روانہ ہو گئی ہیں۔ ابھی آئے دن ہی کتنے ہوئے تھے جو میکے بھاگ آئیں؟ سسرالیوں سے تو کوئی محبت ہی نہیں ہے۔ سالوں میکے میں گزار کر آئی ہیں اور یہاں دو ہفتوں میں ہی بھاگ گئیں اور آنے کا نام نہیں ہے۔“
عامرہ اور آصفہ مخصوص نندوں والے انداز میں کہہ رہی تھیں۔
”چہرے سے جتنی سادہ نظر آتی ہیں اندر سے گنوں کی اتنی ہی پوری ہیں۔
دونون بیٹا بیٹی اپنوں میں دے کر آئی ہیں اب طغرل بچا ہے اس کو بھی جلد ٹھکانے لگانے کی کوشش کریں گی۔“ آصفہ کو اندیشہ لا حق تھا۔
”ہاں! اس کے لیے بھی کوئی بھتیجی بھانجی لے آئیں گی۔ بھابھی تو پہلے ہی ہم سے دور ہیں، اب بھتیجوں کی صورتوں کو بھی ترسا کریں گے۔“
”اماں! طغرل آپ کی مٹھی میں ہے، اس کو اپنی مٹھی سے نکلنے مت دیجیے گا۔
میری تانیہ یا طیبہ، آپی کی ہمایا ابہیا … کوشش کیجیے گا کہ طغرل ان میں سے کسی کو پسند کر لے، اس طرح ہم بھابی بھتیجوں سے تو جڑے رہیں گے۔“
”ٹھیک کہہ رہی ہو آصفہ! میری اور تمہاری بیٹیوں میں کوئی فرق نہیں ہے، بس اب یہ معاملہ کو سنبھالنا ہے۔“
###
”اے! کیا تمہارے سر پر بال نہیں ہیں؟“ مہمانوں کے جانے کے بعد پری ہال کا بکھرا سامان سمیٹ رہی تھی جب وہ آکر اس سے مخاطب ہوا تھا۔
اس نے جواب دیا نہ سر اٹھا کر دیکھا بدستور فلور کشنز درست کرتی رہی۔
”میں تم سے بات کر رہا ہوں۔“ اس نے اس کے ہاتھ سے فلورکشن لے کر بڑے عب سے کہا۔“ میرے سوال کا جواب دو؟“
”میں غیر ضروری سوالوں کا جواب دینا پسند نہیں کرتی۔“
”میری بات کبھی غیر ضروری نہیں ہوتی ہے۔“ وہ اس کی پیشانی پر اپنی دی گئی چوٹ کا نشان دیکھنے کو بے قرار تھا اور اس کی بے قراریاں بڑھ رہی تھیں۔
یہ دیکھ کر وہ ہر وقت دوپٹا اس انداز میں لپیٹے رکھتی تھی کہ پیشانی کے ساتھ ساتھ اس کا آدھاوجود بھی دوپٹے میں ملفوف رہتا تھا۔ آج تنگ آکر وہ پوچھ بیٹھا تھا کہ کیا سرپا بال نہیں ہیں۔
”جا کر ان سے بات کریں جوآپ کی بات کو ضرور ی سمجھ کر جواب دینا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔“ اس کے مزاج پر پری کا استہزاء سخت گراں گزرا تھا۔
”پارس! میرا تم سے جھگڑا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
“ اس کے خوب صورت بھاری لہجے پر سنجیدگی در آئی تھی۔
”میں نے بھی آپ کو دعوت نہیں دی ہے جھگڑا کرنے کی۔“
”یہ جھگڑا نہیں تو کیا ہے؟ میری ہر بات کا الٹا جواب دے رہی ہو۔“
”آپ نے سیدھی بات کی کب ہے؟“ پری کے چہرے پر ناپسندیدگی تھی کہ اس کی بلاوجہ کی بحث اور بے تکلفی سے پکارنا اسے پسند نہیں آیا تھا۔
”طغرل بھائی! آپ یہاں ہیں؟“ عادلہ کب سے تیار ہو کر آپ کا انتظار کر رہی ہے۔
کیا آپ بھول گئے؟ آپ نے عادلہ سے لانگ ڈرائیو پر جانے کا وعدہ کیا ہے؟“ عائزہ بڑی عجلت میں اندار داخل ہوئی تھی۔
”ارے نہیں! ایسے وعدے میں کہاں بھولتا ہوں آؤ چلیں!“ وہ ہشاش بشاش سا عائزہ کے ساتھ آگے بڑھا تھا۔ عائزہ نے پری کو دیکھ کر بھی نہ دیکھنے والا انداز اپنایا تھا۔ عائزہ کمرے سے نکل گئی تو وہ جاتے جاتے مڑا تھا اور اس سے بولا تھا۔
”تم بھی آجاؤ ہمارے ساتھ……!“
جو آسماں پر ہمیشہ رہا ہے آج اسے
ہمیں بتانا ہے اک جگہ زمین بھی ہے
انا پرست ہے وہ ، جانتے ہیں ہم لیکن
وہ خود بلائے گا اس بات کا یقین بھی ہے
اس کا انداز مخلصانہ تھا۔
”نہیں شکریہ …… مجھے نہیں جانا کہیں بھی۔“ پری کے انداز میں بے نیازی تھی۔ ایک خاص قسم کی بے پروائی جو سامنے والے بندے کے پتنگے لگادیتی ہے اور یہی ہوا۔
طغرل کا موڈیکلخت سنجیدہ ہوگیا۔
”تم اتنے ذلت بھرے انداز میں کیوں بات کررہی ہو۔ “ وہ قدم آگے بڑھانے کے بجائے وہیں ڈٹ کر کھڑا ہوگیا تھا۔ پری کو اپنی بات میں اس کی بے عزتی کا کوئی پہلو نظر نہیں آیا تھا۔ وہ ویسے بھی اس کے ساتھ کسی لچک دار رویے کے حق میں نہ تھی کہ اس کی فطرت و مزاج کو وہ بخوبی سمجھ چکی تھی اور جانتی تھی وہ سدھرنے والا نہیں ہے۔
”میرے انکار میں آپ کی ذلت کس طرح ہوتی ہے؟“
”میں چاہتا ہوں تم ہمارے ساتھ چلو تفریح ہوجائے گی۔“
”تم شکل سے ہی نہیں، عقل سے بھی بور لڑکی ہو۔ ٹھیک ہے تمہاری مرضی میں ایسی بور لڑکیوں کی سنگت پسند بھی نہیں کرتا۔ “ وہ کہہ کر تیز تیز قدم اٹھاتا وہاں سے چلا گیا۔
”ہونہہ! میں کون سی تمہاری سنگت کے لیے مری جارہی ہوں۔
تم نے پہلے بھی مجھے زچ کیا ہے ہر لمحے دکھی کیا ہے، تمہاری بدمزاجی وہٹ دھرمی سے میرری یادداشت آج بھی زخم زخم ہے۔ “ اس کے جانے کے بعد وہ پزل سی ہوکرر صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔ ”میں جانتی ہوں تفریح کا تو صرف بہانہ ہے۔ تم بے تاب ہو اپنی لگائی گئی چوٹ کا نشان دیکھنے کے لیے ، تاکہ اپنی فتح کا جشن مناوٴ۔ میں ایسا ہونے نہیں دوں گی، اس نشان کو کبھی تمہارے سامنے نہیں لاوٴں گی۔
“ ان گنت بار خود سے کیے گئے عہد کو اس نے دہرایا تھا۔
”پری …… اوپری! “ دادی جان پکارتی اس کے کمرے میں آگئیں۔ ” تمہاری نانو نے ڈرائیور بھیجا ہے وہ ایک سوٹ کیس لایا ہے اور تمہیں لے جانے کا بھی کہہ رہا ہے۔ “ ان کے لہجے میں وہ مخصوص سردمہری تھی جو ایسے مواقع پر اکثر ہی امڈ آتی تھی، جس کے باعث وہ بالکل اجنبی دکھائی دیتیں۔
”ہاں ، میں نے بتایا تھا نا آپ کو …… کال آئی تھی ان کی ، وہ بلارہی ہیں۔ “
”تو چلی جاوٴ۔ چند دن رہ کر لوٹ آنا۔“ وہ سپاٹ انداز میں بولیں۔

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط