Episode 18 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 18 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

شدت کا حبس و گرمی موسلادھار بارش میں بدل گئی تھی۔
باہر بارش زوروں پر تھی تو اندر پارٹی اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی۔ ڈانسنگ فلور پر کئی جوڑے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے محور قص تھے۔ خوش بُوئیں، قہقہے اور رنگ ہر سو بکھرے ہوئے تھے۔ یہ شہر کے مشہور بزنس مین کی طرف سے دی گئی ایک گیٹ ٹو گیدر تھی جس میں مراعات یافتہ طبقے کے لوگ شامل تھے۔ ان کے بلند قہقہے و سرگوشیاں ماحول میں بکھری ہوئی تھیں فکر معاش تنگ دستی وبدحال زندگی کی صعوبتوں سے ناواقف وہ لوگ پارٹی کے ہر لمحے کو زندگی سمجھتے ہوئے انجوائے کررہے تھے۔
ان ہی لوگوں میں ایک خوب صورت چہرہ بظاہر ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے وہاں موجود تھا مگر ان حسین بوجھل آنکھوں میں اضطراب تھا اضطرار تھا وہ جلدازجلد یہاں سے فرار چاہتی تھیں۔

(جاری ہے)

مما نے اطلاع دے دی تھی پری کے آنے کی اور وہ سنتے ہی بے قرار ہوگئی تھیں۔ وہاں جانے کے لیے لیکن صفدر جمال نے جانے کی اجازت نہ دی یہ کہہ کر کہ آج کی پارٹی ان کے کاروباری تعلقات کے لیے بے حد ضروری ہے وہ پارٹی سے واپسی پر ان کو مما کے ہاں ڈراپ کردیں گے وہ حسب عادت خاموش رہی تھیں۔

وہ جانتی تھیں ان کی ہر پارٹی کاروبار کے لیے اہم ہوتی ہے جو وہ کبھی تنہا اٹینڈ کرنے کے عادی نہ تھے۔ سو وہ سیاہ فینسی سلور کام والی ساڑھی میں سیاہ پتھروں کی جیولری اور ہلکے میک اپ میں ہمیشہ کی طرح دلفریب و باوقار دکھائی دے رہی تھیں۔ پارٹی بڑی بددلی سے اٹینڈ کی تھی۔ رقص کا بھی ایک ہی راوٴنڈ لیا تھا۔ صفدر کے اصرار پر بھی دوسرے راوٴنڈ کے لیے راضی نہ ہوئی تھیں۔
صفدر جمال دوست کی بیگم کے ساتھ محو رقص تھے۔ مثنیٰ کے لیے ایسے نظارے کسی حسد و جلن کا باعث نہ تھے وہ ایسے مناظر کی عادی تھیں۔ صفدر جمال بے حد کشادہ روشن خیال آدمی تھے۔
”ڈارلنگ! آج تو آپ کو پارٹی میں دلچسپی ہی نہیں ہے۔ اس طرح بیٹھی ہیں گویا کسی نے سر پر پستول رکھ کر بٹھایا یو۔“ صفدر جمال ڈانس سے فارغ ہوئے تو ان کے برابر میں رکھی کرسی پر بیٹھتے ہوئے مسکرا کر گویا ہوئے تھے۔
”آپ نے کہا تھا زیادہ ٹائم نہیں لگائیں گے، اب پارٹی ختم ہونے والی ہے۔“
”اوہ! یہ بات ہے ورنہ میں تو سمجھا تھا مسز نیلوفر کے ساتھ مجھے رقص کرتا دیکھ کر آپ رقابت کا شکار ہوگئی ہیں۔ وہ شوخی سے گویا ہوئے۔ مثنیٰ نے ایک نگاہ ان پر ڈالی پھر دھیرے سے مسکرا کر گویا ہوئیں۔“
”یہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں، میں آپ کو کسی بھی عورت کے ساتھ دیکھ کر حسد محسوس نہیں کرسکتی۔
“ ان کے لہجے میں خاصا اعتماد تھا۔
”کاش ! آپ محسوس کریں، میری خواہش ہے یہ …!“ کچھ دیر کے لیے دونوں کے درمیان خاموشی قائم ہوگئی تھی۔ گہری خاموشی!
”چھ ماہ ہوگئے ہیں مجھے پری سے ملاقات کیے … وہ مما کے ہاں میری خاطر آئی ہے۔ ایک ایک لمحہ مجھ پر بھاری گزر رہا ہے۔“ اس گمبھیر خاموشی کومثنیٰ کی بھاری آواز نے منتشر کیا۔
”سعود کے لیے بھی آپ کو اس قدر جذباتی نہیں دیکھا میں نے … !“ وہ طنزیہ انداز میں گویا ہوئے تھے۔
 
”پری … بیٹی ہے میری“
”سعود بھی آپ کا بیٹا ہے۔ کیا آپ نے اسے جنم نہیں دیا؟“ ان کے انداز میں وہی ناگواری و سردمہری درآئی تھی جوتکرار کا باعث بنتی تھی۔
”صفدر! سعود لڑکا ہے آزاد اور اپنی منوانے والا جب کہ پری لڑکی ہے جو بے بس اور دوسروں کی مرضی پر چلتی ہے۔“ ان کا لہجہ چٹخا ہوا تھا۔
”دوسروں کے نہیں وہ اپنے باپ کے گھر میں رہ رہی ہے پھر…“
”پلیز یہ موضوع ختم کرو میں اس پر بات کرنا نہیں چاہتی۔
“ وہ کہتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئیں۔ صفدر جمال نے بھی میزبان جوڑے کو اپنی میز کی طرف آتے دیکھ کر لبوں پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے موڈ درست کرلیا۔
واپسی کا سفران کا خاموشی سے کٹا تھا۔
”مما! پری کہاں ہے؟“ گھر میں داخل ہوتے ہی سلام کے بعد انہوں نے بڑی بے تابی سے پری کے متعلق پوچھا۔
”سوگئی ہے، کافی انتظار کرتی رہی تھی تمہارا۔“
”آنٹی! مجھے اجازت دیں۔
“ صفدر جو اُن کو اندر تک چھوڑنے آئے تھے، عشرت جہاں بیگم سے مخاطب ہوئے تھے۔ مثنیٰ اندر چلی گئی تھیں۔
”ہلکی پھلکی بارش نے طوفانی بارش کا رخ اختیارر کرلیا ہے صفدر! رات میں رک جائیں، میں جانے نہیں دوں گی۔“
عشرت جہاں صفدر کی ساس ہی نہیں خالہ بھی تھیں۔ وہ ان کی بڑی بہن کے بیٹے تھے اکلوتے !بہن کے حوالے سے وہ عزیز تو پہلے ہی تھے، داماد بن کر عزیز تر ہوگئے تھے، اسی استحقاق سے انہوں نے ان کو روکنا چاہا تھا۔
”آنٹی !کوئی مسئلہ نہیں ہے بارش کچھ وقت میں تھم جائے گی۔“ مگر عشرت جہاں کے بے حد اصرار پر صفدر کو وہاں رُکنا پڑا تھا۔
”بے حد آہستگی سے دروازہ کھول کر مثنیٰ کمرے میں داخل ہوئی تھیں اندرٹھنڈک کے ساتھ نیلگوں اندھیرا بکھرا ہوا تھا۔ بیڈ پر وہ بے خبر سورہی تھی۔ مثنیٰ بے آواز قدموں سے چلتی بیڈ کے قریب آکر رکی تھیں۔ پری کا چہرہ کمبل سے باہر تھا۔
براوٴن بال تکیے پر بکھرے ہوئے تھے، اس کے سفید چہرے پر ستواں ناک و دراز پلکیں نمایاں تھیں۔ ان کو وہ بے حد کمزور لگی تھی۔ صاف ستھری رنگت میں سرخی کی جگہ پیلاہٹ نے لے لی تھی۔ مثنیٰ پیار بھری نگاہوں سے بیٹی کو دیکھ رہی تھیں۔ وہ عموماً اس کو اسی طرح سوتے ہوئے دیکھ کر اپنی ممتا کی پیاس بجھاتی تھیں۔ نامعلوم کیا وجہ تھی، کیا پچھتاوا تھا کہ وہ جاگتے میں کبھی بھی اس سے پیار نہ جتاسکی تھیں۔
اپنی محبت کا اطہار تو دور، وہ کبھی اس سے نگاہ ملاکر بات نہیں کرسکتی تھیں کہ عجیب سا حجاب و تکلف ان کے درمیان مانع تھا۔ پھر نامعلوم ان کی نگاہوں کی بے تاب تپش سے یا مما کی بے خودی کہ بے خبر سوتی پری کچھ بے چین سی ہونے لگی۔ ساکت پلکوں میں جنبش ہونے لگی تو وہ اسی طرح دبے قدموں سے واپس مما کے کمرے میں آگئیں۔“
”دیکھ لیا بیٹی کو …؟ “ عشرت جہاں نے بیٹی کے رنجیدہ چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”جی ! آپ نے دیکھا کس طرح کمزور ہوگئی ہے پری پہلے سے؟“
”کمزور نہیں اسمارٹ کہو، آج کل تو لڑکیاں دیوانی ہوتی جارہی ہیں دبلی ہونے کے لیے … اور لوگ بھی ایسی سوکھی سڑی لڑکیوں کو پسند کرتے ہیں۔“
”مما! کمزور اور اسمارٹ ہونے میں فرق ہے پری کمزور ہورہی ہے۔ “ مثنیٰ نے ماں کی دلیل کو رد کرتے ہوئے کہا۔
”وہم کا کوئی علاج نہیں ہیے۔
لوگ خوش ہوتے ہیں ہماری بیٹیاں اسمارٹ ہیں اور تم بلاوجہ کی فکریں پالتی ہو۔ لڑکیاں ہزاروں جتن کررہی ہیں دبلا ہونے کے لیے ، خود کو سمارٹ کرنے کے لیے اور ایک تم ہو جو سرے سے دماغ ہی علیحدہ رکھتی ہو سب سے۔“ عشرت جہاں کو ان کی پریشاننی و فکر ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔
”آپ نہیں جانتیں، وہ لوگ کتنے ظالم اور سفاک ہیں خود غرض اور مفاد پرست ہیں اول درجے کے، میری بیٹی کو بے دام کی کنیز بناکر رکھتے ہوں گے، اس کا چہرہ غور سے دیکھیں آپ ! شادابی وبے فکری وہاں نام کو نہیں ہے۔
اس عمر میں لڑکیاں پھولوں کی طرح شاداب و تروتازہ رہتی ہیں۔“ ان کی آنکھوں میں نمی اُترنے لگی تھی۔
”تم یہ کیوں بھول جاتی ہو کہ اس کا باپ بھی ہے وہاں پر…“
”باپ … ہونہہ! “ انہوں نے زہر خند لہجے میں کہا۔
”مجھے یقین ہے وہ پری کو نگاہ اٹھا کر دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا ہوگا۔“
”یہ تم کس بنا پر کہہ سکتی ہو؟“ وہ ازحد حیران ہوتی تھیں۔
”پری کا چہرہ مجھ سے مشابہہ ہے اور وہ مجھ سے نفرت کرتا ہے۔“
”مگر پری تو بہت تعریفیں کرتی ہے باپ کی …“
”پری میری بیٹی ہے، سمجھوتا کرنا جانتی ہے ورنہ مجھے یقین ہے …“
”خیر چھوڑو اس ذکر کو تمہارا خاوند ہے بیٹا ہے، گھر ہے دولت جائیداد کسی شے کی کمی نہیں ہے تمہیں، کسی ملکہ کی طرح رہتی ہو۔ گزرے وقت کو مت چھیڑا کرو۔
صفدر کو رات کے لیے روک لیا ہے میں نے۔“
###
چوٹ اتنی گہری بھی نہ تھی کہ وہ لگتے ہی ہوش و حواس سے بیگانہ ہوکر زمین بوس ہوجاتی ہے۔ بے ساختہ گرنے کے باعث پیشانی اس کی فرش سے ٹکرائی تھی۔ بے ہوش وہ اس ذہنی شدید ابتری و کشمکش کے باعث ہوئی تھی جو وردہ کے ساتھ جاتے ہوئے اس کے اندر یکلخت کسی طوفان کی مانند برپا ہوا تھا پھر وردہ کے ناروا رویے نے بھی ثابت کردیا تھا کہ وہ کسی اور ہی مقصد کے لیے اسے لے کر جانا چاہ رہی تھی۔
یہ ادراک صرف لمحے بھر میں اس کو ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں، غنودہ حالت میں گزرا وقت کسی فلم کی طرح اس کے ذہن کی اسکرین پر چل رہا تھا۔ وہ وردہ کے ساتھ جاتے جاتے ایک دم بھاگ کر سامنے گیٹ کی طرف بڑھتی ہے، گیٹ کھل جاتا ہے، وہ اندر گرتی ہے، پیچھے وردہ کے قدموں کی صدا وہ سنتی ہے مگر اگلے پل اپنے اردگرد تاریکی پھیلتی دیکھتی ہے اور اس کو ہوش نہیں رہتا ہے۔
اب وہ ہوش میں آرہی تھی۔
چند ساعتیں وہ چھت پر لٹکتے فانوس کو دیکھتی رہی تھی۔ کچھ لمحے بعد ہی اس کو احساس ہوگیا کہ وہ کسی اجنبی جگہ پر، اجنبی لوگوں کے ساتھ ہے اور وہ گھبرا کر اٹھی تھی۔ اس وقت وہ ایک خوب صورت سجے سجائے کمرے میں تھی۔ اس کے سوا کوئی دوسرا وہاں موجود نہ تھا۔ وہ تیزی سے بیڈسے اترنے لگی تھی کہ معاًگیٹ کھلا اور اندر آنے والی خاتون کو دیکھ کر اس پر سکتے کی سی کیفیت طاری ہوگئی تھی۔
”خدا کا شکر ہے، آپ ہوش میں تو آئیں۔ ایک گھنٹے سے آپ کا انتظار کررہی ہوں۔ “ وہ دلکشی سے کہتی ہوئی اس کے قریب ہی بیٹھ گئی تھیں۔ ”گھبراوٴ نہیں، خوف زدہ مت ہو۔ میں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاوٴں گی۔“ وہ رجاء کی آنکھوں میں اترتے ہوئے خوف کو محسوس کرکے نرمی سے بولیں۔ رجاء کی آنکھوں میں اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔ اس کے قریب براجمان خاتون وہ تھیں جو پورے محلے میں رسوا تھیں۔
رضیہ خالہ اور دوسری محلے دار خواتین نے مردوں کو وقت بے وقت وہاں آتے دیکھا تھا۔ محلے کے آوارہ نوجوان بھی ان کے گھر کے قریب بیٹھے پائے جاتے تھے۔ خالہ رضیہ کے شوہر نے خود گواہی دی تھی ان کی بے راہ روی کی کہ وہ خود کو بڑی مشکل سے محفوظ رکھ سکے تھے۔ ان کے چنگل میں پھنسنے سے … اور اب وہ خود ان کی گرفت میں تھی۔ ساری راہیں مسدور محسوس ہورہی تھیں۔
کہیں سے کوئی راہ، کوئی روزن دکھائی نہ دے رہا تھا۔ اس کو کیا معلوم تھا پناہ ھاصل کرنے کے لیے وہ جس دروازے پر دستک دے رہی ہے وہ جگہ سب سے غیر محفوظ و خطرناک ہوگی۔
”میں جانتی ہوں، اس وقت تم پر کیا بیت رہی ہے۔“ اس کی سراسیمہ حالت و آنکھوں میں نمی اترتی دیکھ کر وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر گداز لہجے میں گویا ہوئیں پھر وہ ایک دم ہی اپنے حواس گم کر بیٹھی ان کا مہربان انداز! گویا اس کے ضبط و حوصلے کا بند ٹوٹ گیا۔
وہ خوب روئی ، انہوں نے بھی اس کو رونے سے روکا نہیں۔ جب خوب رونے کے بعد وہ چپ ہوئی تو انہوں نے اس کو پانی پلایا پھر وہ نوڈلز لے آئی تھیں۔ جب ذہن طوفانوں کی زد میں ہوا اور دل پر ملامت کی شرمندگی چھائی ہو تو بھوک ازخود ہی مٹ جاتی ہے۔ بھوک و پیاس کا بھی احساس سویا ہوا تھا۔ اس کے انکار کے باوجود انہوں نے زبردستی اس کو چند چمچ کھلادیئے تھے۔
”میں گھر جانا چاہتی ہوں۔“ رجاء نے ٹشو پیپر سے منہ صاف کرتے ہوئے کہا۔
”گھر جاکر اپنی امی کو کیا بتاوٴ گی؟“ وہ ٹرالی کچن میں رکھ کر آئیں تو گویا ہوئیں۔”وہ معلوم کریں گی، پکنک سے اتنی جلدی کیوں چلی آئیں اور تہاری دوست جو گھر کے اندر چھوڑ کر جاتی ہے وہ باہر سے ہی یوں چلی گئی؟“ حالات بے حد سیدھے و عام تھے مگر رجاء کے پریشان ذہن کو ایک بار پھر شدید جھٹکادے گئے تھے۔
اس کی آنسوووٴں سے بوجھل آنکھوں میں حیرانی درآئی تھی۔
”آپ … آپ… آپ کو کیسے معلوم ہوا یہ سب؟“
”اس قدر حیران مت ہو ، آپ کی نازک صحت کے لیے اتنا حیران ہونا اچھا نہیں ہے۔“ وہ اس کی حیران پریشان صورت دیکھ کر دلکشی سے مسکراکر گویا ہوئی تھیں۔
رجاء کے لیے آج کا دن انکشافات کا دن تھا۔
”مجھے یہ بھی معلوم ہے وردہ اور آپ کے درمیان کیا چل رہا ہے اور …“وہ کہتے کہتے معنی خیز انداز میں چپ ہوگئی تھیں۔
”اور … اور کیا؟“ وہ شدید حواس باختہ ہوگئی تھی۔ وہ مسکراہٹ دبائے کچھ توقف کیے اس کو دیکھتی رہی تھیں۔ ان کے خوب صورت چہرے پر عجیب سے رنگ تھے، بھوری آنکھوں میں ناقابل فہم چمک تھی۔
”میں آپ کے لیے چائے بناکر لاتی ہوں۔ اتنا روئی ہیں کہ سر میں درد ہوگیا ہوگا۔“ وہ اس کا سوال گول کرکے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
”مجھے چائے کی ضرورت نہیں ہے۔ ابھی آپ نے دعویٰ کیا تھا کہ آپ میری کیفیت سمجھ رہی ہیں پھر آپ کیوں اتنے پر اسرار طریقے سے بات کررہی ہیں۔ آپ یہ سب کیسے جانتی ہیں جو صرف میں اور وردہ جانتی تھی؟“ وہ روہانسے لہجے میں بولی۔

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط