”نہیں … نہیں طغرل ایسی گری ہوئی حرکت نہیں کرسکتا، مجھے یقین نہیں ہے، تمہیں غلط فہمی ہے۔ یہ بھائی ہے تمہارا پری! تم غلط سمجھی ہو۔ جو غلط کام کرتے ہیں، جن کے ارادے بد ہوتے ہیں وہ نگاہ ملانے کے قابل نہیں رہتے، ان کے چہرے سے مکر وہ ذہنیت جھانکنے لگتی ہے لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔ اس کا چہرہ چاند کی طرح روشن تھا جس پر کسی شرمندگی یا خجالت کی نہیں بلکہ غصے و رنج کی سرخی تھی۔
“ اس نے نگاہ اٹھا کر دادی کو دیکھا تھا پھر نگاہیں جھکالی تھیں شدید دکھ تاسف تھا ان آ نکھوں میں اور آنکھیں تو وہ جادوئی آئینہ میں جو ہمارے اندر کو بھی اسی طرح دکھاتی ہیں جس طرح ہمارے باہر کا عکس۔ دادی جو کسی خیال کے تحت کانپ اٹھی تھیں، طغرل کے چہرے و آنکھوں سے حقیقت جانچنے کے بعد نرمی سے گویا ہوئی تھیں۔
(جاری ہے)
”دادی جان!“ وہ دو قدم پیچھے ہٹتے ہوئے غم زدہ لہجے میں بولی۔
”آپ…! آپ ابھی ان کی حمایت لے رہی ہیں… یہاں بھی آپ کو میں جھوٹی لگ رہی ہوں؟ میں … !“
”دل چھوٹا مت کرو پری! میں کسی کی بھی جھوٹی حمایت نہیں لوں گی چاہے تم ہو یا یہ … تم دونوں برابر ہو میرے لیے۔ دونوں میرے بیٹوں کی اولاد ہو، میرا خون ہو میں کسی طرح کسی ایک کی حمایت لے سکتی ہوں۔ بتاوٴ؟“
”دادی جان! ان محترمہ کو اخلاقی تربیت کی بے حد ضرورت ہے۔
“وہ برہم نگاہ ان پر ڈالتے ہوئے گویا ہوا۔
”تم خاموش رہو، وہ بچی ہے ابھی…!“
”سوری دادی جان! یہ بڑی ہوگئی ہیں… بلکہ”بہت زیادہ“ بڑی ہوگئی ہیں اتنی بڑی کہ ان کو اخلاقیات کا کچھ خیال نہیں۔“ اس کے لفظوں میں بھی تپش تھی۔ پری نے اس کی طرف دیکھنا گوارانہ کیا، اس نے بھیگی نگاہوں سے دادی کی طرف دیکھا اور کہا۔
”جن کی مائیں نہیں ہوتیں ہیں ان لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔
کل کو اس سے زیادہ بھی میرے ساتھ ہوجائے گا تو پھر بھی آپ یقین نہیں کریں گی۔“ وہ روتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔
”یہ کیا کہہ دیا تو نے پری… پری! “ وہ گھبرائی ہوئی سی اس کے پیچھے جانے لگیں۔ تب ہی طغرل نے انہیں روک لیا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر صوفے پر بیٹھادیا۔
”یہ کیا کہہ گئی پری… اس کی ماں نہیں ہے … وہ بن ماں کی ہے؟“ ان کا نازک بدن دھیرے دھیرے کانپنے لگا تھا۔
رنج و دکھ سے … طغرل جو پہلے ہی شدید ذہنی دباوٴ کا شکار تھا، ان کی حالت دیکھ کر وہ سخت سراسیمہ ہوگیا۔ پری کی بات نے دادی کی حالت غیر کردی تھی۔
”آپ پریشان نہ ہوں دادو! ایسا ہوجاتا ہے کبھی کبھی۔“ دادی جان نے کوئی جواب نہیں دیا، لمحے بھر میں وہ پسینے میں شرابور ہوگئی تھیں اور گہرے گہرے سانس لینے لگی تھیں۔ طغرل نے ان کی طبیعت بگڑتے دیکھ کر فوراً اُن کو بازووٴں میں اٹھایا اور ان کے کمرے کا رخ کیا تھا۔
پری کمرے میں گھٹنوں میں چہرہ چھپائے رو رہی تھی۔ اس نے آہٹ پر سراٹھا کر دیکھا تو دادی نڈھال سی طغرل کے بازووٴں میں تھی، وہ بے حد پریشان سا انہیں اٹھائے اندر داخل ہوا تھا۔ وہ رونا بھول کر دادی کی طرف بڑھی تھی جن کو وہ بیڈ پر لیٹا چکا تھا۔
”کیا ہوا دادی کو…؟“ وہ بے حد پریشانی سے طغرل سے ہی مخاطب ہوئی۔
”اگر دادی کو کچھ ہوگیا ہے تو … میں تمہیں قتل کردوں گا۔
یاد رکھنا!“ اس کی بھاری آواز میں خوف ناک عزم تھا۔ پری نے جواباً خاموشی اختیار کی اور تیزی سے آگے بڑھ کر سائیڈ ٹیبل سے ان کے لیے دوا نکالنے لگی۔ ان کی یہ حالت عموماً ہوجاتی تھی۔ طغرل ڈاکٹر کو فون کرنے لگا تو دادی نے منع کردیا تھا۔وہ ان کے قریب بیٹھ کر سر دبانے لگا۔ پری نے ان کو دوا کھلائی، اس کے چہرے پر ایک دم پریشانی و تفکر عیاں ہونے لگا۔
طغرل بیڈ پر بیٹھا دادی کا سردبارہا تھا۔ وہ اس طرح بیٹھا ہوا تھا کہ دوسرے کے بیٹھنے کی گنجائش نہ تھی۔ پری دور سے ہی دادی کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ دل میں ان کی صحت یابی کے لیے دعا گو تھی۔ چند لمحوں قبل ہونے والی بدگمانیاں وہ فراموش کربیٹھی تھی، یاد تھا تو صرف یہ کہ … دادی اس کی کل کائنات ہیں، وہ ہیں تو سب کچھ ہے، وہ نہیں تو کچھ بھی نہیں ہے۔
”طغرل! بس کر… کب سے دبا رہا ہے، آرام آگیا ہے مجھے۔“ چند لمحوں کے بعد دادی کی پرسکون آواز نے ماحول میں چھائی وحشت و سناٹے کو شکست دی تو ان کی شیریں آواز نے ان دونوں کے تفکر سے لبریز اذہان میں سکون و مسرت کی لہریں سی دوڑادی تھیں۔
”شکر خدا کا دادی جان! میری بات مان لیں ڈاکٹر بلانے دیں مجھے۔“ وہ دادی کے ہاتھ چومتا ہوا اصرار کرنے لگا۔
”کیا کرے گا وہ مُوا ڈاکٹر آکر … ماسوائے سوئیاں چبھونے کے، تم جو میری اولاد میرے خاندان کے امین ہو، دراصل تم ہی میرے ڈاکٹر ، تم ہی میرے مسیحا ہو۔ میرا علاج تمہارے ہی ہاتھوں میں ہے، تمہاری محبت مجھے شفادے گی تو تمہاری لڑائیاں بیماری … ویسے بھی اس عمر میں خوشی برداشت ہوتی نہ ہی دکھ۔“
”دادی جان! اس دنیا میں آپ میری عزیز ہستی ہیں آپ سے بڑھ کر میں کسی سے محبت نہیں کرتا اور آپ کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہوں، ان محترمہ کو جو غلط فہمی ہوئی ہے… بلکہ خوش فہمی ہوئی ہے کہ میں نے ان کا ہاتھ پکڑا ہے تو بس اگر میں نے ازحد خود ایسی گری ہوئی حرکت کی ہو جو آپ کو ہی نہیں، مجھے میری نظروں سے گرادے… بلکہ اگر کسی کو آپ کے سر کا یقین نہ آئے تو میں اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہوں، غیر ارادی طور پر ان کا ہاتھ میرے ہاتھ میں آگیاتھا ، اگر جھوٹ بولوں تو ابھی مرجاوٴں۔
“ اس نے ان کے سرسے ہٹا کر ہاتھ اپنے سر پر رکھ لیا تھا اور بہت سنجیدہ لہجے میں گویا ہوا تھا، درحقیقت وہ غیر محسوس طریقے سے پری سے مخاطب تھا۔ اس کی پشت اس کی طرف تھی، وہ ازخود سیدھا نہ ہواتھا۔
”کیسی دادی کا دل ہلانے والی بات کرتے ہو طغرل! تم ہزاری عمر پاوٴ۔ مریں تمہارے دشمن۔“ وہ دھل کر گویا ہوئی۔
”میرے دشمن بڑے دھیٹ ہیں، آسانی سے نہیں مریں گے۔
“ پری کو محسوس ہوا وہ دانستہ اس کو سنارہا ہے۔ وہ مجبوراً چپ رہی تھی۔
”تم کیا وہاں کھڑی منہ بسور رہی ہو، یہاں آوٴ میرے قریب۔“ وہ زیادہ دیر اس سے خفا نہیں رہ سکتی تھیں۔ اس کا دل چاہاوہ بھاگ کر ان کے سینے سے لگ جائے۔ ان کو کہے گئے لفظوں کی گہرائی کا اس کو اب اندازہ ہوا تھا کہ وہ غصے و جذبات میں ان کو کتنا بڑا طعنہ دے گئی تھی جو کسی طرح بھی مناسب و برحق نہ تھا۔
”دادی جان! ابھی آپ لیٹی رہیں، آپ کو آرام کی ضرورت ہے۔ “ وہ جو پری کو سینے سے لگانے کے لیے اٹھ رہی تھیں، اس نے انہیں اٹھنے نہیں دیا تھا۔ پری کو آگے بڑھتے دیکھ کر دادی کے قریب ہی نیم دراز ہوگیا تھا۔ پری کے بڑھتے قدم رک گئے تھے۔ وہ جانتی تھی اس سے جو غصے میں انتہائی بے وقوفی ہوئی ہے اس کے بدلے میں اس کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
”دادی جان! چائے لاوٴں آپ کے لیے؟“ دور سے ہی دریافت کیا۔
”ہاں! لے آوٴ، طغرل اور اپنے لیے بھی لانا۔“وہ سر ہلاتی ہوئی کمرے سے نکل آئی، کچن میں جانے کے بجائے ٹیرس پر چلی آئی تھی۔ موسم ابرآلود تھا۔ بھیگی بھیگی ہوا نے اس کی اندر کی گھٹن کو قدرے سکون بخشا تو وہ گہرے گہرے سانس لیتی ہوئی خود کو ملامت کرنے لگی۔
”یہ کیا ہوگیا تھا مجھے … کیوں کہا میں نے اس کو ایسا… وہ لاکھ آزاد خیال سہی، یہاں آکر اس کی ہمت نہیں ہوسکتی، کسی ایسی ویسی حرکت کی۔
“
”جب اس کو معلوم تھا گھر میں دادی کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے پھر دادی جب عبادت کرتی ہیں تو اردگرد سے بالکل ہی غافل ہوجاتی ہیں پھر اس کو معلوم ہے تم کمرے میں تنہا ہو اس کو پسند نہیں کرتی ہو تو وہ کسی اچھی نیت سے نہیں آیا ہوگا۔ “ اس کے اندر سوال و جواب جاری تھے۔
”اس نے دادی کی قسم کھائی ہے اور میں جانتی ہوں، اس میں ڈھیروں برائیاں ہی، مگر وہ دادی سے اس قدر محبت کرتا ہے کہ کبھی ان کی جھوٹی قسم نہیں کھاسکتا۔
مجھے ہی غلط فہمی ہوئی تھی مگر میں نہیں مانوں گی۔“ وہ خود کو تسلی دے کر کچن میں چلی آئی چائے دادی کی من پسند تھی اس کو جب بھی ان سے کوئی بات منوانی ہوتی یا کوئی ناراضی دور کرنی ہوتی تو وہ ان کو چائے پلا کر ہی راضی کرلیا کرتی تھی۔
”دادی جان! آپ نے مجھے معاف کردیا نا! حالانکہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا اور نہ ہی میں اس کو ایسا تنگ نظر و تاریک ذہن سمجھتا تھا۔
“ پری کے وہاں سے جانے کے بعد وہ بیٹھ کرر ان سے رنجیدگی سے مخاطب ہوا تھا۔
”یہاں معافی تلافی کا سوال نہیں بیٹا! بات آجاتی ہے ہمارے رہن سہن اور عادت و مزاج کی، میں نے تصویروں میں دیکھا ہے تمہیں، کس طرح تم گوری میموں کے ساتھ جڑ کر بیٹھے ہو، کھڑے ہو، ان بے حیاوٴں میں تہذیب ہے نہ تمیز ہے۔“
”اوہ! آپ نے تصویریں کیسے دیکھ لیں؟“ وہ بری طرح خجل ہوا۔
”ابرو لے کر آئی تھی میرے پاس… میں نے تو ان بے حیاوٴں کو نگاہ بھر کر بھی نہ دیکھا اور تم ان سب سے کس بے تکلفی سے جڑے کھڑے ہو، تمہاری غیرت و حمیت اس وقت کہاں چلی گئی تھیَ“انہوں نے حقیقت میں اس کو بغلیں جھانکنے پر مجبور کردیا تھا۔ اس نے کبھی یہ سوچا ہی نہ تھا کلاس فیلوز اور فرینڈز کے ساتھ کے وہ یادگار لمحے جو تصویروں کی صورت میں قید ہوچکے تھے، کبھی ان کے سامنے بھی آجائیں گے اور وہ نگاہ نہ اٹھاسکے گا۔
”وہ … دادی! میرے ساتھ پڑھنے والی لڑکیاں ہیں، کچھ پپا کے دوستوں کی بیٹیاں ہیں۔“ وہ بری طرح پھنس گیا تھا۔
”تمہارے لیے تو نامحرم ہی ہوئیں نا سب کی سب…؟“
”وہ سب چلتا ہے۔ پپا نے آزادی دینے سے قبل ہمیں ہماری حد بھی سمجھادی تھی اور ہم نے کبھی وہ حد عبور کرنے کی سعی بھی نہ کی۔“
”ارے بچے# ! تو حد عبور کرنے میں پھر رہ ہی کیا جاتا ہے۔
ان ہی آزادیوں نے تمہیں یہ دن دکھایا ہے۔ اگر تمہاری عادت لڑکیوں سے بے تکلفی کی نہیں ہوتی تو تم غلطی سے بھی پرری کا ہاتھ نہیں پکڑسکتے تھے۔“ وہ دو ٹوک انداز میں گویا ہوئی تھیں۔
”میں یہاں کے ماحول ، ریت رواجوں کو جانتا ہوں، بھولا نہیں ہوں۔ رشتوں کا تقدس و احترام میرے اندر ہمیشہ سے موجود ہے۔“
”یہاں اور وہاں کیا…؟ عورت جہاں بھی ہو احترام کے قابل ہوتی ہے۔
ہر عورت کا ایک تقدس و وقار ہوتا ہے۔ میری یہ تربیت تو نہیں ہے کہ تم صرف گھر اور خاندان سے وابستہ عورتوں و بچوں کو احترام کی نگاہ سے دیکھو اور پھر مرد تو وہ ہی اصل ہوتا ہے جو ہر موقع، ہر جگہ پر اپنے نفس کو قابو کرے۔“
”اب ایسا نفس پرست میں نہیں ہوں دادی جان!“ اس نے ان کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے شرمسار لہجے میں کہا۔
”آپ سے دوری کا سبب یہ دوستیاں بنی ہیں، آپ میرے پاس ہوتیں تو مجھے کسی سے دوستی کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔
“
”ہاں ٹھیک کہہ رہے ہو۔ تمہاری ماں اور باپ تمہیں کتنا وقت دیتے ہوں گے یہ میں دیکھ رہی ہوں۔ بہو ایک ہفتے کا کہہ کر گئی تھیں، چار ہفتوں بعد بھی آنے کا ارادہ نہیں ہے۔ یہی حال تمہارے باپ کا ہے، بہن بھائی اپنے اپنے گھروں میں مگن ہیں، ایسے میں تم باہر دوستیاں نہ پالو گے تو کیا کرو گے؟“ دادی کو جلد ہی اس کی بات پر یقین آگیا تھا۔ وہ پری کے آنے سے قبل ہی کمرے سے چلا گیا تھا۔