عادلہ مزے سے اوندھی لیٹی ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ کمرے کی حالت بری طرح ابتر تھی، وہ کشنز اردگرد پھیلائے میوزیکل شو دیکھنے میں مگن تھی کہ صباحت اندر داخل ہوئی تھیں۔ پہلی بار انہوں نے ناقدانہ نگاہوں سے بیٹی کے کمرے کی ابتری کو دیکھا تھا۔ عادلہ ماں کو دیکھ کر بھی اٹھی نہ تھی، صرف ایک نگاہ ڈال کر پھر محو ہوگئی تھی۔
”یہ کیا بے ہودہ انداز ہے … سیدھی ہوکر بیٹھو۔
“
”کیا ہوا مما! آج تو آپ بہت غصے میں ہیں؟“ عادلہ ان کے انداز پر حق دق سی اٹھ کر بیٹھ گئی اور حیرانی سے صباحت کی طرف دیکھ کر گویا ہوئی جواس کے قریب ہی بیٹھ گئی تھیں۔
”کمرے کا حال کیا کر رکھا ہے تم نے؟“
”پہلی بار تو نہیں آئی ہیں آپ؟ میرا اور عائزہ کا کمرا ایسا ہی ہوتا ہے۔“
”آج کے بعد نہیں ہونا چاہیے، تم سے زیادہ طغرل کاکمرا صاف و سمٹا ہوا رہتا ہے۔
(جاری ہے)
کبھی بھی چلے جاوٴ، مجال ہے جو ایک چیز ادھر کی ادھر ہو۔“
”وہ کمرا پری کا ہے اور آپ جانتی ہیں اس کو صفائی کا خبط ہے، ابھی بھی دادی جان اسی سے صفائی کرواتی ہیں وہاں کی۔“ عادلہ کے جواب نے صباحت کا موڈ مزید خراب کردیا، وہ غصے سے بولیں۔
”بڑے فخر سے کہہ رہی ہو… کیا تم ایسا نہیں کرسکتی ہو؟“
”وہاٹ… !“ عادلہ شدید حیرانی سے اچھل گئی تھی۔
”مما ! آج ہوا کیا ہے آپ کو …؟“
”کوئی انہونی بات نہیں کی ہے میں نے جو اس قدر حیران ہورہی ہو۔ آج دیکھا تم نے …“ وہ صوفے پر بیٹھ کر جلے کٹے انداز میں کہہ رہی تھی۔ ”کل تک طغرل… پری کی پرچھائیں سے بھی نالاں تھا اور … آج بات ہنسی مذاق تک پہنچ گئی ہے … اور کل وہ …“
”حقیقت یہ ہے مما! اس میں پری کا کوئی قصور نہیں ہے۔ طغرل خود ہی …“
”یہی بات تو مجھے کھٹک رہی ہے۔
“ وہ اس کی بات کاٹ کر کہہ رہی تھیں۔
”پری حسین ہے اور … اپنی آوارہ ماں کی طرح مردوں کے دل جیتنے کا فن آتا ہے اسے … بہت جلد وہ طغرل کو اپنے قابو میں کرلے گی اور ہم کچھ نہ کرسکیں گے ماسوائے ہاتھ ملنے کے۔“
”آپ فکر کیوں کرتی ہیں مما، میں بھی آپ کی بیٹی ہوں، پر ی کو ہرادوں گی۔“ عادلہ صباحت کے شانے پرر ہاتھ رکھ کر بولی، صباحت ایک نظر اسے دیکھ کرر رہ گئیں۔
###
دادی جان طغرل سے اعتراف جرم کروانے کے بعد اسے خوب ڈانٹ ڈپٹ کر اپنے کمرے میں آئی تھیں، جہاں پری منہ پھلائے بیٹھی تھی۔ ان کو دیکھ کر بھی اسی طرح بیٹھی رہی۔ دادی جانتی تھیں، وہ برامان گئی ہے۔
”اچھی طرح خبر لے کر آئی ہوں میں طغرل کی ، معافی مانگ رہا تھا، ہاتھ جوڑ کر … مگر میں نہیں مانی اور صاف کہہ دیا کہ جا کرپری سے معافی مانگو، اس نیک بچی کا تم نے دل دکھایا ہے، مذاق کرکے …“دادی اس کے قریب بیٹھ کر اس انداز میں کہہ رہی تھیں گویا اسے منا رہی ہوں۔
ان کے مسلسل بولنے کے بعد بھی پری ٹس سے مس نہ ہوئی تو انہیں غصہ آگیا۔ ”میں تم سے بات کررہی ہوں، دیواروں سے نہیں جو منہ بند کیے بیٹھی ہو۔ ذرا ذرا سی بات کو دل سے مت لگالیا کرو، آپس میں ایسے چھوٹے موٹے مذاق تو چلتے رہتے ہیں۔“
”اس کو مذاق کہتے ہیں دادی! کسی کی زندگی کی کوئی حیثیت نہیں ہے کیا!“ دادی کو غصے میں دیکھ کر وہ جھلا کر گویا ہوئی۔
”یہاں زندگی کی اہمیت کہاں سے آگئی؟“ ان کو آوٴٹ ہونے میں دیر کہاں لگتی تھی، پری کو گھور کر بولیں۔
”وہ جو انہوں نے حرکت کی تھی مرنے کی … قسم سے میرا دل بند ہوتے ہوتے رہ گیا تھا، پھانسی کا پھندا اپنی گردن میں محسوس ہونے لگا تھا، ابھی تک میرے دل کی دھڑکنیں بے قابو ہیں۔“
”پری ! کھانا تو نے خود تیار کیاتھا نا…؟“
”جی!“
”پھر کھانے میں زہر کون ملا سکتا تھا… جب کہ گھر میں کوئی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا اور تم کھانا بھی فوراً پکانے کے بعد لے بھی گئی تھیں تو خود سوچو وہ مذاق ہی کرسکتا ہے۔
اس کی عادت کو اچھی طرح جانتی ہو تم تو…“
”انہوں نے باتیں ہی ایسی کی تھیں کھانے سے پہلے کہ …“ اس کو اب احساس ہونے لگا اپنی بے وقوفی کا کس طرح بے وقوف بنی ہے۔
”خیر! یہ انسانی فطرت ہے، واقعے کی نوعیت کے مطابق پل بھر میں انسان وہ کچھ سوچ لیتا ہے۔ جس کو سوچنے میں گھنٹوں لگیں۔“
”ٹھیک کہہ رہی ہیں دادی جان! ایک منٹ میں، میں کہیں سے کہیں پہنچ گئی تھی مگر وہ سب کس طرح ہوا… ان کے منہ سے جھاگ کیسے نکلے؟“ وہ سب سے زیادہ اس کے منہ سے نکلتے جھاگ سے متاثر ہوئی تھی۔
”کتابیں تمہاری کمزوری ہیں جب بھی کوئی کتاب کھول کر بیٹھی ہو اردگرد سے بے گانہ ہوجاتی ہو اور تمہاری اسی عادت سے طغرل نے فائدہ اٹھایا، تم کتاب پڑھنے میں محوہوگئیں اور وہ خاموشی سے واش روم سے ٹوتھ پیسٹ منہ میں بھرلایا تھا اور وہ جھاگ پیسٹ کے تھے۔“
”اوہ … میرے خدا“ وہ کس وحشت بھرے انداز میں وہاں سے دادی کو پکارتی ہوئی بھاگی تھی۔
یہ سوچ کر خفت سے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔ ”مجھے بے وقوف بنا کر کتنا خوش تھا ۔ اس کی مسکراہٹ کا ساتھ آنکھیں بھی دے رہی تھیں منحوس کہیں کا! جب سے آیا ہے میری زندگی اجیرن کردی ہے۔“
”نامعلوم تم نے یہ عادت کس سے سیکھ لی ہے؟ بڑبڑانے کی …“
”طغرل بھائی آخر مجھے ہی کیوں پریشان کرتے ہیں۔ گھر میں عادلہ اور عائزہ اور دوسرے کزنز سے بھی خوب بنتی ہے پھر میرے ساتھ ہی کیوں وہ ایسا سلوک کرتے ہیں؟‘ ‘ دادی اماں کے دل میں تو تھی کرارا سا جواب دیں مگر اس کے چہرے پر پھیلی یاسیت نے ان کا دل گداز کردیا تھا۔
وہ نرمی سے گویا ہوئیں۔
”کسی کو دوست بنانے کے لیے اس کا دوست بننا پڑتا ہے۔ تم اس کے ساتھ اپنا رویہ اچھا رکھو گی، اخلاق برتو گی، عزت کروگی تو ازخود ہی وہ بھی تمہاری بات سمجھے گا، دوسروں جیسا رویہ تمہارے ساتھ بھی ہوگا۔“
”میں تو ان سے دور ہی رہتی ہوں، وہ خود ہی مجھے تنگ کرنے کا موقع ڈھونڈ لیتے ہیں، ان سے کہیں مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں۔
“و ہ سرجھکائے کہہ رہی تھی۔
”اچھا … کہہ دوں گی۔ “دادی نے گہری سانس بھر کر کہا۔
”دادی! پپا آج کل گھر بہت دیر سے آتے ہیں، بہت ڈسٹرب ہیں وہ …“
”ہاں! نامعلوم کن الجھنوں میں رہنے لگا ہے میرا بچہ! لاکھ بار کہہ دیا کہ بھائی سے بات کرے یا مجھے کرنے دے، بھائی کی مدد بھائی نہیں کرے گا؟ ایسا روپیہ کس کام کا جو اپنوں کے کام نہ آئے مگر فیاض جیسا خوددار کون ہوگا جو بھائی کے آگے نہ خود ہاتھ پھیلاناپسند کرتا ہے اور نہ مجھے پھیلانے دیتا ہے۔
“ وہ بھی خاصی افسردہ ہوگئی تھیں۔ ”کتنا درد رہتا ہے تمہیں باپ کی پریشانیوں کا…بیٹی تو تمہارے جیسی ہونی چاہیے جو باپ سے کچھ طلب نہیں کرتی، خود اس کی بہتری کے لیے دعا گو رہتی ہے۔“ وہ کہتے ہوئے نماز کے لیے اٹھ گئیں۔
###
وہ ایک لڑکی!
جوہر دم ہنستی رہتی تھی
خوابوں کے جزیرے پہ رہتی تھی
تتلیوں سے کھیلتی تھی
ساون رت میں وہ اکثر بھیگا کرتی تھی
اور گیت خوشی کے گاتی تھی
ندیا کے کنارے گیلی ریت پر
اپنائیت و چاہت سے
”محبت“ نام وہ لکھتی تھی
آج وہی لڑکی!
تنہائیوں کے آسیب میں جکڑی
تتلیوں سے روٹھی روٹھی
پت جھڑ کے موسم میں
برستی آنکھوں سے
درد بھرے گیت گاتی ہے
ندیا کے کنارے
پہروں وہ ”محبت “ کھوجتی ہے
پہروں وہ ” محبت “ کھوجتی ہے
ماہ رخ راکنگ چیئر پر ڈھیلے انداز میں آنکھیں بند کیے بیٹھی تھیں۔
ان کے چہرے پر تھکاوٹ و حزن پھیلا ہوا تھا۔ ملال و رنج کبھی ملبوس کی طرح ان کے وجود سے لپٹا ہوا تھا۔ سیاہ ریشمی بال جن میں کہیں کہیں چاندی کے تار شامل ہوچکے تھے وہ ان کی شخصیت کو پروقار بنارہے تھے۔
رجاء رخصت ہوکر سسرال روانہ ہوچکی تھی۔
رجاء کی شادی کے سبب پورا ہفتہ ان کا بہت مصروف گزرا تھا۔ رضیہ نے بڑی محبت و عقیدت سے ہر کام میں ان کو پیش پیش رکھا تھا، دوسرے لوگوں نے بھی ان کی بے حد عزت و احترام کیا تھا اور وہ اتنی محبت اپنائیت و احترام پاکر گھائل ہوتی رہیں، اندر ہی اندر روتی رہیں۔
رجاء کی رخصتی کے بعد مہمان رخصت ہوگئے تھے، رضیہ اور وہ تنہا تھیں۔ بیٹی کو رخصت کرتے وقت رضیہ نے بڑے ہمت و حوصلے سے کام لیا تھا، مگر تنہائی ملتے ہی وہ تمام آنسوان کے شانے پر سر رکھ کربہادیئے تھے۔
”ماہ رخ بہن! جب کبھی میں سوچتی تھی رجاء ایک دن اس گھر سے رخصت ہوگی کہ یہ حکم الٰہی ہے تو میرا دل بند سا ہونے لگتا تھا۔ میں سوچتی تھی کہ کس طرح اکلوتی بیٹی کو رخصت کروں گی؟“
”باجی! اسی بات کا مجھے بھی احساس ہے۔
آپ رجاء کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتی تھیں، ابھی تو اس کا فرسٹ ائر کا رزلٹ بھی نہیں آیا ہے اور … “ وہ دانستہ چپ ہوگئی تھیں۔
”میں جانتی ہوں، رجاء میری بہت پیاری اور بھولی بیٹی ہے لیکن بیٹیوں کو اتنا بھولا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ وردہ جیسی لڑکیاں جب انہیں ورغلائیں تو چھپائیں ماں سے اس ماں سے جس سے ہر بات کرتی ہیں اور یہاں آکر میرا اعتماد زائل ہوا۔
آپ جانتی ہیں دنیا کی چند قیمتی چیزوں میں ایک اعتماد بھی ہے۔ یہ اگر ٹوٹ جائے تو پھر کبھی نہیں جڑتا۔ میں نے اسی میں عافیت جانی کہ اس کی شادی کردوں۔“ ہوا کا تیز جھونکا کھرکی سے اندر داخل ہوا تھا۔ ٹیبل پر رکھے پیپرز شور کے ساتھ کمرے میں بکھر گئے تھے، ان کے بال بھی چہرے پر آئے تو وہ چونک کے سوچوں سے باہر نکلی تھیں۔
”خانم! کھانا لگادیا ہے۔
“ ملازم نے اندر آکر کھڑکی بند کرکے پردے درست کرتے ہوئے مودبانہ لہجے میں کہا تھا۔
”مجھے بھوک نہیں ہے۔“ انہوں نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”آپ نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ہے۔“ ملازم نے کہا۔
”بھوک نہیں ہے تو کس طرح کھاوٴں؟“
”اس طرح تو آپ بیمار پڑجائیں گی اور نواب صاحب…“
”بے فکررہو مروں گی نہیں۔“
”خدا نہ کرے خانم! میری عمر بھی آپ کو لگ جائے۔
“
”شہاب! اب مجھے ڈسٹرب مت کرو، نواب صاحب کی کال آئے تو کہہ دینا میں آرام کررہی ہوں، ٹیلی فون میرا آف ہے۔“
”خانم! کم از کم ایک گلاس دودھ ہی لے لیں، صبح سے …“
”پلیز شہاب! ایک عرصہ ہوگیا ہے تمہیں میری خدمت کرتے ہوئے تم یہ نہیں جان پائے کہ میرا انکار انکار ہی رہتا ہے۔ اوکے؟“ ملازم گردن ہلاتا رہ گیا۔ ماہ رخ نے بیڈ روم میں آکر دروازہ لاک کردیا تھا۔ وہ کتنی دیر تک کمرے کے درمیان میں کھڑی گہرے گہرے سانس لیتی رہی۔ ایک تھکن اعصاب پر سوار تھی۔ گویا صدیوں کا سفر طے کرنے کا ارادہ ہو۔