Episode 32 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 32 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

نیم کے درخت پر دھوپ سونا نچھاور کر رہی تھی۔ شریر چڑیاں اس کی شاخوں پر ایک دوسری سے اٹھکھیلیاں کرنے میں مصروف تھیں۔ ان کی چہکار سے آنگن گونج رہا تھا۔ گھر میں اس وقت بے حد خاموشی تھی اور اس سناٹے میں گونجتی چڑیوں کی چہکار وہاں پلنگ پر بیٹھے گلفام کو بہت سکون پہنچا رہی تھیں۔ اس نے جیب سے نوٹ نکالے اور گننے لگا۔
”سو… دوسو… ایک ہزار تین سو پچاس روپے… اتنے کم روپوں میں ایک خوبصورت انگوٹھی بھی نہیں آئے گی  میں چاہتا ہوں اپنی رخ کو سونے کا پورا سیٹ لا کر دوں۔
کتنی خوش ہو گی وہ  جب میں اس کو سونے کا سیٹ لا کر دوں گا۔ وہ حیران ہو جائے گی اور جب وہ حیران ہوتی ہے تو اور بھی حسین دکھائی دیتی ہے۔“ وہ ہاتھوں کو تکیہ بنا کر چارپائی پر لیٹ کر اس کے تصور میں گم ہو گیا۔

(جاری ہے)

”رخ… غصے میں بھی اتنی حسین لگتی ہے  جتنی مسکراتے ہوئے لگتی ہے  وہ مجھ سے تو ہر وقت خفا رہتی ہے اور مجھے پسند بھی نہیں کرتی۔
ضروری تو نہیں وہ مجھے اچھی لگتی ہے تو میں بھی اسے اچھا لگوں۔“ وہ مسکراتے ہوئے خود کلامی میں مصروف تھا۔ ”ضروری تو یہ ہے وہ مجھے اچھی لگتی ہے اور ساری زندگی اچھی لگتی رہے  محبت میں لین دین نہیں چلتا۔محبت سودا تو نہیں ہے کہ ایک بیچتا ہے  ایک خریدتا ہے۔ محبت تو ایک قلعہ ہے  اس کو فتح کرنا آسان کام نہیں ہوتا اور میں رخ کے دل کے دروازے پر اس وقت تک دستک دیتا رہا ہوں گا  جب تک وہ دروازے میرے لئے وا نہیں ہو جاتا۔
فاطمہ نماز سے فارغ ہو کر باہر آئیں تو گلفام کو اس طرح لیٹے دیکھ کر پیار سے گویا ہوئیں۔
”گلفام! اس طرح کیوں لیٹے ہو بیٹے! میں تکیہ لاکر دیتی ہوں  آرام سے لیٹو۔“ وہ تکیہ لانے کیلئے مڑیں۔
”نہیں نہیں تائی جان! میں جا رہا ہوں  آپ تکیہ مت لائیں۔“ وہ ان کو دیکھتے ہی احتراماً اٹھ گیا۔
”نائٹ ڈیوٹی کے بعد ابھی آئے ہو  اب کہاں جا رہے ہو؟ کچھ دیر آرام کر لینا پھر چلے جانا۔
کسی دوست کی طرف ہی جانا ہوگا نا!“
”نہیں تائی جان! دوست کی طرف نہیں جاؤں گا۔ اب تو دوستوں سے کبھی کبھی آتے جاتے ملاقات ہو جاتی ہے بس۔“
”پھر کہاں جانے کا ارادہ ہے  جس کی خاطر تم آرام بھی نہیں کر رہے ہو؟“ فاطمہ حیرت سے گویا ہوئی۔
”وہ… میں نے ایک سپر سٹور پر بات کی ہے  دن میں وہاں پر نوکری کروں گا۔ معقول تنخواہ مل جائے گی یہاں سے تو میری تنخواہ دگنی ہو جائے گی۔
”گلفام! انسان ہو تم… مشین نہیں ہو جو چوبیس گھنٹے کام کرو گے۔ بندہ اپنی استطاعت کے مطابق ہی کام کرے تو بہتر ہے ویسے بھی ہم کو ایسی کوئی ضرورتیں تنگ نہیں کر رہی ہیں  جن کی خاطر تم خود کو مشین بنا لو۔“
”تائی جان! آپ کو کیا معلوم یہ سب کس کی ضرورت کیلئے اور اپنی خواہش پوری کرنے کیلئے ہی تو کر رہا ہوں…“ وہ دل ہی دل میں ان سے مخاطب ہوا تھا۔
”ایک تو ماہ رخ سے بہت تنگ ہوں…“ وہ آنگن میں پھیلے نیم کے پتے جھاڑو سے سمیٹتے ہوئے بڑبڑائیں۔
”کوئی غلطی ہو گئی اس سے؟“ ماہ رخ کے نام پر اس کا دل دھڑکا تھا۔
”غلطی نہیں  غلطیاں کہو  اس عمر میں لڑکیاں گھر داری سیکھتی ہیں  گھر کو بناتی سنوارتی ہیں اور وہ پڑھائی میں لگی رہتی ہیں۔“ انہوں نے جھنجلا کر کہا تھا۔ وہ مسکرا کر اٹھ گیا۔
###
وہ گھر سے فرار حاصل کرنا چاہتا تھا تبھی بلا مقصد کار مختلف سڑکوں پر دوڑائے پھر رہا تھا۔ وہ سب برداشت کر سکتا تھا  ہر دکھ جھیلنے کا حوصلہ رکھتا تھا مگر دادو کو کوئی تکلیف پہنچے… وہ آرزدہ ہوں  ان کا دکھ کسی قیمت پر وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ اس کی نگاہیں تیزی سے ادھر ادھر سے گزرنے ہر لڑکی کے چہرے پر پڑ رہی تھیں کہ شاید ان میں سے کوئی پری ہو۔
صبح سے شام ہو گئی تھی۔ اس نے ان جگہوں کو بھی چھان مارا تھا  جہاں کبھی اس کا گزر بھی نہیں ہوا تھا۔ وہ کہیں نہیں تھی۔ پری شاید کسی پرستان کی پری کی طرح اوجھل ہو گئی تھی۔ بوجھل قدموں کے ساتھ اب وہ گھر کی طرف لوٹ رہا تھا۔
اندر قدم رکھتے ہی سب چہروں کو اس نے پریشان و متفکر پایا تھا۔ دونوں پھوپیوں کو فیملیز کے ساتھ موجود پا کر اسے سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ پری کے فرار کی خبر ان تک بھی پہنچ گئی ہے۔
”کہاں چلے گئے تھے طغرل!“ بے حد پریشانی سے فیاض صاحب اس کے قریب آ کر سنجیدگی سے گویا ہوئے۔
”دادی جان کیسی ہیں؟“ وہ آہستگی سے گویا ہوا۔
”طبیعت بگڑ گئی تھی ان کی…“
”پھر…! کیا وہ ہسپتال میں ہیں؟“ وہی ہوا تھا جس کا خدشہ اس کو اب تک ستاتا رہا تھا۔ بھلا دادی اتنا بڑا صدمہ کس طرح برداشت کر سکتی تھیں  وہ ان کی بات قطع کرکے بولا۔
”نہیں… ڈاکٹر گھر پر ہی چیک اپ کرکے گیا ہے۔ اب ان کی طبیعت بہتر ہے وہ نیند کے انجکشن کے باعث سو رہی ہیں۔“
”شکر ہے اللہ کا!“ اس نے گہرا سانس لیا۔
”آپ فریش ہو کر آئیں  ضروری بات کرنی ہے آپ سے۔“ انہوں نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر تھپتھپاتے ہوئے کہا تو اس کو خیال آیا وہ سارا دن نائٹ سوٹ میں مختلف جگہوں پر مارا مارا پھرتا رہا تھا  اس کو نہ اپنے لباس کا خیال رہا تھا نہ بے ترتیب حلیے کا… وہ ہر بات سے بے پروا بس پری کو ڈھونڈنے میں سرگرداں رہا تھا۔
”سارا دن کہاں رہے طغرل! ہم سب اتنے پریشان تھے۔“ کھانے کی ٹیبل پر آصفہ پھوپو نے استفسار کیا۔
”اچھا ہوا تم آ گئے  ہم گھبرا کر مذنبہ بھابی کو کال کرنے والے تھے۔“ چھوٹی پھوپو عامرہ نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
”پری کی وجہ سے میری بچی کی پہلی خوشی میں رکاوٹ پڑ گئی ہے  نامعلوم کس منحوس گھڑی میں جنم لیا تھا اس لڑکی نے۔
“ صباحت کا مزاج بری طرح بگڑا ہوا تھا  دوسروں کے چہروں پر بھی تاثرات کچھ اچھے نہ تھے  کھانا خاموشی میں کھایا گیا۔
”ارے کتنا کم کھایا ہے تم نے؟“ اسے اٹھتا دیکھ کر صباحت نے کہا۔
”بھوک نہیں ہے آنٹی!“ اس نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”اماں جان کی فکر ہو گئی ہے تم کو۔“
”جی… میں ان کے پاس جا رہا ہوں۔“
”وہ سو رہی ہیں ابھی۔
”میں ایک نگاہ ان کو دیکھنا چاہتا ہوں۔“
وہ وہاں سے سیدھا ان کے کمرے میں آ گیا  دادی بے خبر سو رہی تھیں۔ ان کے سوئے ہوئے چہرے پر بھی فکر و دکھ کی پرچھائیاں دیکھی جا سکتی تھیں  وہ گم صم کھڑا کافی دیر تک ان کے چہرے کو دیکھتا رہا۔ پھر اس کی نظر اس طرف پڑی  دادی کے برابر میں جہاں پری سوتی تھی  وہ جگہ خالی تھی۔ چادر اس حصے کی بے شکن تھی۔
اس کے خون میں پھر ابال اٹھنے لگے۔ وہ رات کو اس کی نگاہوں کے سامنے فرار ہوئی تھی۔ وہ سمجھ رہا تھا صباحت آنٹی کی باتوں سے دل برداشتہ ہو کر وہ اپنی نانو کے گھر چلی گئی ہو گی مگر وہاں صبح چوکیدار نے بتایا کہ اس کی نانو پہلے ہی کسی اور جگہ جا چکی تھیں۔
وہ وہاں نہیں گئی تو کہاں گئی ہے؟
”طغرل! اماں سو رہی ہیں۔ آئیں کچھ باتیں کرتے ہیں۔
فیاض صاحب کے آنے کی اسے خبر نہ ہو سکی تھی ان کی دھیمی آواز پر وہ چونک کر پلٹا اور ان کے ساتھ کمرے سے نکل آیا۔ وہ اس کو لے کر ٹیرس پر آ گئے جہاں کرسیاں اور ٹیبل رکھی تھیں۔ بوگن ویلیا کی بیلیں گرل سے خوبصورت انداز میں لپٹی ہوئی تھیں اور اک جانب رکھے گملوں میں پودے لگے ہوئے تھے جن کے پھولوں کی بھینی بھینی خوش بوئیں فضا کو معطر کر رہی تھیں۔
اس جگہ پر اس نے اکثر پری کو بیٹھے دیکھا تھا۔
”کیا ایسی ایمرجنسی تھی بیٹے! جو آپ بنا کچھ کہے صبح سے گھر سے غائب تھے؟ میں کچھ دیر قبل گھر آیا تو معلوم ہوا آپ صبح سے گھر میں نہیں ہیں  آپ کا سیل فون بھی کمرے میں تھا۔ یہاں آپ کے کسی سے تعلقات نہیں ہیں جو ہم سوچتے کہ آپ وہاں ہوں گے  رابطہ بھی نہیں کر سکتے تھے کہ سیل فون گھر میں ہی موجود تھا۔
”آپ رات گھر پر نہیں تھے چچا جان!“ ان کے انداز گفتگو سے طغرل کو محسوس ہوا وہ شاید ابھی گھر پر گزرنے والی قیامت سے لاعلم ہیں۔
”جی! رات ایک دوست کا فون آیا کہ اس نے مچھلی کے شکار کا پروگرام بنایا تھا اور بھی دوست تھے  میں نے سوچا چلتے ہیں  کچھ وقت گھر سے دور رہ کر طبیعت فریش ہو جائے گی۔ یہاں آیا تو معلوم ہوا آپ صبح اپنے کمرے میں نہیں تھے  کار لے کر کہیں گئے ہیں  سیل فون بھی آپ کے پاس نہیں ہے تو میں گھبرا گیا۔
”سوری چچا جان! آپ سب کو تکلیف ہوئی  دراصل میں صبح ہی آؤٹنگ پر نکل گیا تھا اور راستہ بھول گیا تھا۔“
اس کو مناسب نہ لگا کہ خود بتانا  جو ہوا!
###
”جویریہ! تمہاری برتھ ڈے پر میں نہیں آ سکتی  سوری!“ کالج سے واپسی پر وہ معذرت کرنے لگی۔
”یہ کیا بات ہوئی  یہ کیسی دوستی ہے ہماری کہ نہ تم میرے گھر آتی ہو اور نہ مجھے بلاتی ہو  کتنی پارٹیز پر تمہیں بلایا ہے تم نے ہر بار بہانہ کر دیا ہے  میں جانتی ہوں شاید ہم لوگ تم جتنے امیر نہیں ہیں  تمہاری نسبت ہمارا اسٹیٹس کم ہے  مگر دوستی امیری غریبی کب دیکھتی ہے؟ میں تمہیں اپنے منگیتر سے ملوانا چاہتی ہوں۔
“ جویریہ اس کے انکار سے خاصی دل برداشتہ تھی۔
”مائی ڈیئر! پلیز مائنڈ مت کرو۔ اب تم تو جانتی ہی ہو ناں پپا کا حلقہ احباب اتنا وسیع ہے کہ ہر روز ہی کہیں نہ کہیں انوائٹ ہوتے ہیں اور آج بھی پارٹی میں جانا ضروری ہے ورنہ پپا خفا ہوں گے۔“ اس کے معذرتی لہجے میں بڑی مٹھاس تھی۔
“نامعلوم کیوں جس دن میں تمہیں کسی پارٹی میں انوائٹ کرتی ہوں اس دن ہی تمہارا کہیں جانا انتہائی ضروری ہوتا ہے“
”میری جان! میری زندگی ایسے اتفاقات سے بھری پڑی ہے۔
“ وہ فخریہ انداز میں مسکرائی پھر شوخی سے گویا ہوئی۔
”فکر مت کرو  میں آؤں گی نہیں مگر گفٹ ضرور دوں گی۔“
”تم میری برتھ ڈے پر آتیں وہ ہی میرا گفٹ ہوتا  اب میرے لئے گفٹ لائیں بھی تو میں دوستی ختم کر دوں گی۔“
”اچھا ہے… میری ٹینشن دور کر دی۔“ وہ دل میں اس سے مخاطب ہوئی تھی۔
”تمہاری گاڑی ٹھیک نہیں ہوئی ہے میرے ساتھ چلو  میں تمہیں ڈراپ کر دوں گی  شوفر گاڑی لا چکا ہے۔
“ اس کو اسٹاپ کی طرف جاتے دیکھ کر جویریہ نے پیشکش کی۔
”ارے نہیں… نہیں میں وین میں چلی جاؤں گی۔“ وہ ایک دم ہی پریشان ہو کر کہنے لگی۔
”کیا میں اس لائق بھی نہیں ہوں کہ تمہیں تمہارے گھر تک ڈراپ کر دوں؟ چلو اندر مت بلانا  میں باہر سے ہی تمہارا محل دیکھ لوں گی۔“ جویریہ کا سادہ لہجہ طنز سے پاک تھا  وہ اس سے محبت بھی کرتی تھی اور اس کی خوبصورتی سے مرعوب بھی بہت زیادہ تھی۔
”تم بالکل غلط سمجھ رہی ہو جویریہ! میرے گھر کے دروازے تمہارے لئے ہمیشہ کھلے رہیں گے  تم کبھی بھی شوق سے آؤ۔“
”کبھی بھی کیوں  ابھی کیوں نہیں…؟“ جویریہ بھی آج اس کے صبر کا امتحان لے رہی تھی اور وہ کبھی ایسی صورتحال کا سوچ بھی نہ سکی تھی کہ جھوٹ پر جھوٹ کی اینٹوں سے بنا اس کا تصوراتی محل یوں کبھی ٹوٹنے تک بھی آ جائے گا۔
”ارے! کیا ہو گیا؟ تم اتنا گھبرا کیوں رہی ہو رخ؟“
”میں سوچ رہی ہوں گھر والے سب انکل کے ہاں گئے ہوئے ہیں اور وہاں سے ہی ان کی شادی کی سالگرہ میں شرکت کریں گے  مجھے بھی وہاں جانا ہے  گھر میں ملازموں کے سوا اور کوئی نہ ہوگا۔“
”کوئی بات نہیں  میں تمہیں وہیں ڈراپ کر دیتی ہوں  مائنڈ مت کرنا میں اندر نہیں چلوں گی  گھر جا کر مجھے پارلر بھی جانا ہے۔
”ارے نہیں! میں جانتی ہوں تمہیں بھی برتھ ڈے کی تیاری کرنی ہے۔“ رخ کے چہرے پر سکون در آیا تھا۔ گاڑی اس نے ڈیفنس کے سب سے خوبصورت بنگلے کے آگے کوائی اور اس وقت تک کھڑی جویریہ کو ہاتھ ہلاتی رہی جب تک اس کی کار نگاہوں سے اوجھل نہ ہو گئی۔ پھر بڑی سرعت سے اس نے شانوں پر پھیلے خوبصورت تراشیدہ بالوں کو لپیٹ کر جوڑے کی شکل دی تھی پھر بیگ سے شال نکال کر اوڑھی اور اسٹاپ کی طرف چل پڑی۔
وہیں سے اسے اس کے علاقے کی بس ملنی تھی جو ڈیفنس سے بہت فاصلے پر واقع تھی۔ یہاں سے اسے دو بسیں بدلنی پڑتیں۔
وہ گھر پہنچی تو شام ڈھل رہی تھی  فاطمہ اس کے انتظار میں دروازے کے چکر لگا رہی تھیں اس کو گھر میں داخل ہوتے دیکھ کر انہوں نے غصے میں اتنی دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو وہ چڑ کر بولی۔
”امی! میں گورنمنٹ بس میں آتی ہوں  آپ نے میرے لئے کوئی کار نہیں لے رکھی جو مجھے ٹائم پر پہنچائے گی  پبلک ٹرانسپورٹ میں تو دیر سویر ہو ہی جاتی ہے۔
”ہاں ہاں… اب اپنے باپ کو کہہ وہ چوری کرے  ڈاکے ڈالے تاکہ مہارانی کیلئے کار اور ڈرائیور رکھ لے  آج کار کی آرزو جاگی ہے  کل ہوائی جہاز کی فرمائش کرنا  ناشکری لڑکی۔“
ان کے عاجز انداز پر وہ اندرونی کمرے کی جانب بڑھ گئی۔

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط