Episode 36 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 36 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

سردی کی گلابی شام سرمئی ردا اوڑھنے لگی تھی  دن لپیٹا جا رہا تھا رات کی چادر تننے والی تھی۔ لان میں لگے درختوں پر بنے گھونسلوں میں پرندوں کی آمد شروع ہو چکی تھی۔ نگ برنگے پرندوں کی آوازوں سے فضا گونج رہی تھی۔ مثنیٰ کافی دیر تک کھڑی سب دیکھتی رہی تھیں پھر وہ بالکونی سے ہٹ کر اپنے کمرے میں آ گئی تھیں۔ ان کے بال بکھرے ہوئے تھے  لباس پرشکن تھا  چہرہ میک اپ سے عاری بالکل سادہ تھا۔
ان کی چال میں تھکاوٹ و شکستگی تھی۔ وہ بیڈ پر بے جان انداز میں بیٹھی تھیں۔ کوریڈور سے ٹرالی کھینچنے کی آواز آ رہی تھی اور اس آواز نے ان کے چہرے پر ایک ناگوار احساس پیدا کر دیا تھا۔ ان کا دل تو چاہا تھا اٹھ کر دروازہ لاک کر دیں مگر وہ اپنی جگہ سے جنبش بھی نہ کر سکیں۔ حتیٰ کہ دروازے کے قریب آ کر آواز رک گئی تھی۔

(جاری ہے)

دوسرے لمحے دروازہ کھلا  پہلے عشرت جہاں کا مسکراتا چہرہ دکھائی دیا  وہ اندر آئیں تو پیچھے ملازمہ ٹرالی لئے اندر چلی آئی۔

عشرت جہاں ملازمہ کو جانے کا اشارہ کرتے ہوئے خود ٹرالی سے لوازمات نکالنے لگیں۔ مثنیٰ نے منہ بنا کر کہا۔
”مما! میں نے آپ سے کہا بھی تھا مجھے بھوک نہیں ہے پھر بھی آپ ٹرالی بھر کر لے آئیں  میں کچھ نہیں کھاؤں گی۔“
”دو دن گزر گئے ہیں آپ کو یہاں آئے ہوئے اور کھانے کے نام پر آپ نے صرف چکھا ہے  اس طرح سے تو وقت نہیں گزر سکتا ہے  کسی اور کی زیادتیوں کی سزا آپ اپنے پیٹ کو کیوں دے رہی ہو مثنیٰ؟“ عشرت جہاں کا انداز ایسا تھا جیسے وہ کسی کم عمر بچے کو بہلا رہی ہوں۔
”اس پیٹ نے تو دھوکا دیا ہے مجھے مما! نو ماہ اسی کوکھ میں  میں نے سعود کو رکھا تھا  جب دنیا میں آیا تو سب سے بڑھ کر چاہا اس کو  گورنس کے ،ہوتے ہوئے بھی رات دن جاگی  بھرپور وقت دیا سے کہ جو کچھ میں پری کو نہ دے سکی تھی  وہ پیار محبت اور توجہ سب اس کو دی اور اس نے کیا دیا بدلے میں…؟“ آنسوؤں نے ان کے رخساروں کو پھر بھگونا شروع کر دیا تھا۔
”مثنیٰ! جانتی ہو ایک ماں کا اس وقت کتنا سخت امتحان ہوتا ہے جب اس کی اولاد اس کے سامنے رو رہی ہو اور ماں اس کے آنسو نہ صاف کر سکے  اسے دلاسے کے چند لفظ بھی نہ کہہ سکے۔ اپنی اس ناکامی پر وہ مرتے دم تک خون کے آنسو بہاتی رہتی ہے۔“ مثنیٰ نے چونک کر ماں کا دھواں دھواں چہرہ دیکھا۔ وہ عورت جو ایک ماں کے روپ میں ان کیلئے شجر سایہ دار بنی ہوئی تھیں اس لمحے ان کو بہت کمزور کھولی لگی تھیں۔
کسی دیمک زدہ ستون کی مانند۔
”ان دو دنوں میں صفدر کے بے شمار فون آ چکے ہیں میرے پاس  سعود بھی بار بار فون کر رہا ہے  دونوں شرمندہ ہیں۔ تم سے بلا اجازت اس نے شادی کر لی صفدر کی اجازت سے  اس کی موجودگی میں… لیکن اب دونوں باپ بیٹے شرمندہ ہیں  معافی مانگ رہے ہیں  صفدر تو آج صبح آئے بھی تھے  ملنا چاہتے تھے آپ سے مگر میں نے اجازت نہیں دی۔
”کیسی معافی اور کیسا حق؟ مما! میں ان لوگوں سے تعلق توڑ چکی ہوں۔ میں ان سے نہیں ملوں گی اور نہ آپ یہ کوشش کیجئے گا۔“ مثنیٰ کے لہجے میں قطعیت تھی۔ عشرت جہاں چونک کر گویا ہوئیں۔
”کیا مطلب ہے اس بات کا؟“
”وہ ہی مما! جو آپ سمجھ رہی ہیں۔“
”رشتے اتنے آسانی سے ٹوٹنے کیلئے نہیں ہوتے ہیں مثنیٰ!“
”تو کیا اعتماد اور اعتبار اتنی آسانی سے ٹوٹنے کیلئے ہوتے ہیں کہ مطلب پڑا تو توڑ دو  غرض پڑی تو جوڑ لو  ٹوٹے ہوئے برتن بھی اگر جوڑ دیئے جائیں تو وہ بدنما ہی نظر آتے ہیں۔
پھر رشتے کس طرح اس سے محفوظ رہ سکتے ہیں؟“ وہ اس وقت بہت جذباتی ہو رہی تھیں۔
”برتنوں اور رشتوں میں بہت فرق ہوتا ہے بیٹی! ٹوٹے ہوئے برتن پھینک دیئے جاتے ہیں ان کی جگہ نئے برتن لے لیتے ہیں لیکن رشتے کتنے ہی پرانے کیوں نہ ہوں  ٹوٹے پھوٹے ہوں تو ان کو جوڑا جاتا ہے  ان کی بدنمائی کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے اس لئے کہ نئے رشتے پرانے رشتوں کی جگہ کبھی نہیں لے سکتے اور کبھی مجبوراً کرنا پڑ جائے تو سب الٹ پلٹ ہو کر رہ جاتا ہے۔
میں تو یہی مشورہ دوں گی کہ…“ وہ پلیٹ میں لوازمات رکھ کر ان کی طرف بڑھاتے ہوئے بولیں۔ ”معاف کر دو صفدر اور سعود کو۔“
”ہرگز نہیں! بات معافی سے بہت آگے بڑھ چکی ہے۔“
”مثنیٰ! کیا پھر اپنی کہانی دہراتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہو؟ جو میں نے کیا تھا  جو فیاض کی ماں نے کیا تھا  وہ ہی تم پھر سے کرنا چاہتی ہو؟“ عشرت جہاں کا لہجہ سپاٹ تھا۔
###
ان کے درمیان خاموشی طویل ہوتی جا رہی تھی۔ پری اس انداز میں بیٹھی تھی جیسے اس کے علاوہ کوئی اور وجود ہی یہاں موجود نہ ہو جب کہ طغرل کی سوچ کا مرکز اس کی ذات بن گئی تھی کہ یہ حقیقت ہے۔
ہم دو لوگوں کے بارے میں زیادہ سوچتے ہیں۔ ایک وہ جو ہم کو پسند کرتے ہیں اور دوسرا وہ جو ہمیں پسند نہیں کرتے  وہ بھی اک نفسیاتی دباؤ کا شکار ہونے لگا تھا۔
پری کی یہ بے نیازی و بے رخی اس کیلئے چیلنج بننے لگی تھی۔
”تم کچھ ٹائم کیلئے یہ فراموش نہیں کر سکتی ہو کہ تم مجھ سے کتنی نفرت کرتی ہو  کتنا ناپسند کرتی ہو  میں یہ نہیں کہوں گا کہ تم مجھ سے ایسا کوئی تعلق نہ رکھو کیونکہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔“ اس بے مقصد خاموشی سے اس کو ٹائم کے ضائع ہونے کا احساس ہونے لگا تو وہ گویا ہوا۔“ میں جو بھی کچھ کر رہا ہوں وہ دادی جان اور ماموں جان کیلئے کر رہا ہوں کیونکہ مجھے ان کی عزت و وقار عزیز ہے  گزشتہ تین دنوں سے میری زندگی سخت عذاب کا شکار ہے۔
مجھے نہ صحیح سے نیند آ رہی ہے اور نہ کھانا پینا اچھا لگ رہا ہے  میں بہت زیادہ ڈپریسڈ ہوں۔“ پپا اور دادی جان کے نام پر وہ چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
”میں جانتا ہوں تمہیں میری ڈپریشن سے بھی کوئی سرو کار نہیں ہوگا لیکن ماموں جان اور دادو جان سے تو تم محبت کرتی ہو  نا؟“ وہ جو پتھر بنی بیٹھی تھی۔ اس کے سنجیدہ لہجے اور بار بار پپا اور دادی کے ذکر کرنے اس کے دل میں ایک دم سے ہلچل سی پیدا کر دی تھی۔
اس بات سے وہ اچھی طرح واقف تھی  بے شک وہ اس سے زیادتی کر سکتا تھا  اپنے نزدیک اس کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہ تھا مگر ان دو معتبر رشتوں سے اس کو دلی محبت تھی  پپا اور دادی جان کو وہ دل و جان سے چاہتا تھا۔ بے لوث محبت کرتا تھا ان سے اور اس طرح بار بار ان کا ذکر کرنا اس کو پریشان کرنے کیلئے کافی تھا۔
”بے شک!“ اس کو لب وا کرنے ہی پڑے۔
”ان کی خاطر ہی سہی  تم کو مجھ سے دوستی کرنی پڑے گی۔“
”دوستی…؟ بات اس کے بغیر بھی ہو سکتی ہے۔“
”لیکن جب تعلقات اچھے نہ ہوں گے تم مجھ پر کس طرح اعتبار کر سکتی ہو اور میں تم پر کیونکر اعتماد کر سکوں گا؟“ اس کی یہ منطق پری کو غصہ دلانے لگی تھی۔
”جب آپ کو مجھ پر اعتماد و اعتبار نہیں ہے تو آپ نے مجھے بلوایا ہی کیوں ہے؟ یہ سب آپ کو مجھے یہاں بلوانے سے پہلے سوچنا چاہئے تھا۔
“ اس کا بگڑتا مزاج دیکھ کر طغرل کے ہونٹوں پر مسکراہٹ در آئی  جس کو چھپانے کیلئے اس کو گردن جھکانی پڑی تھی۔ ”آپ اپنے دن و رات کس طرح گزارتے ہیں اور کہاں گزارتے ہیں یہ آپ سے کوئی پوچھتا نہیں ہے لیکن مجھے گھر سے باہر گزارنے والے ایک ایک پل کا حساب دینا پڑتا ہے  آپ بلاوجہ میرا ٹائم ضائع کر رہے ہیں اور ایک یہ معید ہے جو نامعلوم کہاں جا کر بیٹھ گیا ہے۔
“ طغرل کی مسکراہٹ پری سے چھپ نہ سکی تھی۔ اس کو غیر سنجیدہ دیکھ کر وہ جل کر گویا ہوئی تھی اور طغرل کو سچ مچ سنجیدہ ہونا پڑا تھا اور پھر وہ گزشتہ دن کی ہر بات اس کو بتاتا چلا گیا تھا وہ حیرت سے سب سن رہی تھی۔
”میں یہی سمجھا تھا تم آنٹی کے خراب رویئے کی وجہ سے گھر چھوڑ کر اپنی نانو کے ہاں چلی گئی ہو۔ وہ رات میں نے بڑی پریشانی سے گزاری تھی ایسا لگ رہا تھا گویا اس رات کی صبح نہیں ہو گی  دنیا ختم ہو جائے گی  رات ختم نہیں ہو گی۔
صبح ہوتے ہی میں کار لے کر سیدھا تمہاری نانو کے ہاں گیا تھا  وہاں چوکیدار نے بتایا کہ تم ان کے ساتھ نہیں گئی ہو وہ تنہا گئی تھیں۔ یہ خبر سن کر مجھے لگا میرے قدموں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہے اور میں پاتال میں اترتا جا رہا ہوں۔“
”آپ نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ میں گھر چھوڑ کر جا بھی سکتی ہوں  وہ بھی رات کے اندھیرے میں…؟ ممی کا یہ رویہ پہلی بار نہیں تھا میرے ساتھ… میں ان کے رویوں کی عادی ہو چکی ہوں۔
“ طغرل کے انکشافات نے اس کو تجسس کے ساتھ ساتھ تذلیل کا احساس بھی بخشا تھا اس کی بدگمانیوں کی کوئی حد نہ تھی  وہ ایسی گری ہوئی لڑکی سمجھتا تھا اس کو جو رات کی تاریکی میں گھر کی عزت اور پپا و دادی کے اعتماد کو روند کر چلی جائے گی  تب ہی وہ اس سے کل اس انداز میں پیش آیا تھا کہ سڑک سے زبردستی ہاتھ پکڑ کر اس کو کار میں بٹھا کر گھر لے آیا تھا  کس قدر جارحانہ رویہ تھا اس کا جیسے وہ اس کو قتل کرنے کے در پے ہو۔
اتنا بدظن و متنفر تھا کہ ایک لفظ اس سے سننے کا روا دار نہ تھا  یہاں تک کہ اس کی سگی ماں کو بھی برا بھلا کہتا رہا تھا۔
”ہم جو سمجھتے ہیں وہی عکس ہماری نگاہوں میں بنتا چلا جاتا ہے اور میں بھی جو سوچ رہا تھا اپنے اردگرد ویسا ہی مجھے دکھائی دے رہا تھا  میں ذہنی تھکن کا اس حد تک شکار ہو گیا تھا کہ میرے ذہن نے یہ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا کہ میں خود پر بھی غور کروں۔
نائٹ ڈریس میں بنا کسی کو بتائے سب کے بیدار ہونے سے پہلے میں گھر سے نکل گیا تھا اور ذہنی خلفشار کا یہ عالم تھا کہ سیل فون بھی ساتھ نہ لے جا سکا اور نہ ہی مجھے خیال آیا کہ سیل فون گھر پر ہے۔“
”آپ کو خیال آتا بھی کیوں…؟“ اس نے کاٹ دار لہجے میں کہا۔ ”آپ تو یہ سوچ رہے ہوں گے کہ گھر میں کسی کو آپ کا خیال ہوگا  سب میرے گھر سے بھاگنے کے باعث ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے ہوں گے۔
”میں نے کہا ناں! میرے اعصاب شل ہو چکے تھے جو میں نے دیکھا وہ حقیقت تھی اور میرے پریشان ہونے کی وہی وجہ تھی اور اس کے سبب ہی میں محسوس کر رہا تھا پھر ماحول بھی کچھ ایسا ہی سامنے آ رہا تھا۔ گھر آیا تمہیں سارا دن ہر جگہ ڈھونڈ کر تو معلوم ہوا گھر میں سب موجود ہیں۔ عامرہ  آصفہ پھوپو اور تمام کزنز سب کے چہروں پر پریشانی تھی اور معلوم ہوا دادی جان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے  اسی سے میں ڈر رہا تھا  مجھے معلوم تھا دادو یہ سب برداشت نہ کر پائیں گی  میرا دماغ بالکل گھوم گیا تھا۔
نامعلوم اس وقت میرے چہرے پر کیا تاثرات ہوں گے جو کسی نے بھی مجھ سے یہ پوچھنے کی کوشش نہ کی کہ میں صبح سے کہاں تھا؟ پرسوں رات بھی میں نہیں سو سکا تھا اور کل صبح ملازمہ کو بتا کر میں گھر سے نکل گیا تھا۔ اس عزم کے ساتھ کہ تم کہیں نہ کہیں سے ڈھونڈ کر لے کر آؤں اور تم مجھے مل گئیں۔ تمہاری باتوں کو  تمہاری لاتعلقی کو میں ایک فراڈ سمجھ رہا تھا  گھر جا کر معلوم ہوا کہ دادی میری وجہ سے فکر مند ہو کر بیمار ہو گئی تھیں اور گھر میں تمام لوگ میری گمشدگی کی وجہ سے آئے تھے۔
بعض دفعہ ہم غلطی پر غلطی کرتے ہیں اور خود کو درست سمجھتے ہیں اور اپنی زیادتیوں کو بھی اپنا حق سمجھ کر استعمال کرتے ہیں۔“ اس کی بھاری آواز میں یک دم شرمندگی و ملال در آیا تھا۔
”آئی ایم سوری پری! میں واقعی بے حد شرمندہ ہوں  کل تمہارے ساتھ میرا رویہ بے حد خراب تھا  مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا ہے تمہاری بے عزتی کرنے یا اس انداز میں بات کرنے کا… جس انداز میں  میں نے تم سے بات کی تھی۔
“ جواباً وہ خاموشی سے اسی طرح گردن جھکائے بیٹھی رہی تھی۔ ”میں تمہیں مجبور نہیں کروں گا معاف کرنے پر  مگر ایک گزارش تم سے ضرور ہے میری کہ اس پراسرار مسئلے کو حل کرنے کی سعی ضرور کرو کہ وہ لڑکی کون تھی جو اس رات پوری پلاننگ سے گھر سے گئی تھی اور کس ساتھ؟“ اس نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
”ایک بات پوچھوں آپ سے؟“
”ہاں… ضرور!“
”بالکل سچ سچ بتائیں گے؟“
”ہاں… کیوں نہیں…؟“ وہ حیرانگی سے گویا ہوا۔
”آپ نشے میں ہیں؟“ اس کا لہجہ معنی خیز تھا۔ طغرل نے چونک کر اس کی طرف دیکھا تو وہ بھی اس ہی کی طرف دیکھ رہی تھی… عجیب لڑکی تھی  جو نہ اس کی شخصیت سے متاثر تھی اور نہ وجاہت سے مرعوب دکھائی دیتی تھی ورنہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا کسی لڑکی کے بس کی بات نہ تھی۔ اس کی تو ایک نگاہ سے ہی لڑکیاں پگھلنے لگی تھیں  موم کی طرح۔ ایک گہرا سانس لے کر اس نے ہی نگاہیں ہٹائی تھیں۔
”تم… یہ کس طرح کہہ سکتی ہو کہ میں نشے میں ہوں۔“
”ایسی احمقانہ بات نشے کی حالت میں ہی کہی جا سکتی ہے۔“ اس نے اس پر نگاہ ڈالی پھر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر تیزی سے سرخی چھائی تھی  جس لہجے میں اس نے بات کی تھی  اس انداز کو برداشت کرنے میں اس کو بڑی اذیت سے دوچار ہونا پڑا تھا  کل ایسی نشتر زنی اس نے کی تھی اور آج اسے جھیلنی تھی سو وہ تیار تھا۔
”اگر احمقانہ باتیں صرف نشے کی حالت میں ہی کی جاتی ہیں تو پھر تم ہر وقت ہی نشے میں رہتی ہو کیونکہ تم تو ایسی ہی باتیں کرتی ہو۔“
”دراصل سچ بولنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے طغرل بھائی! اور سچ کو سننا بھی  آپ اپنا الزام اتنی آسانی سے میرے سر نہیں ڈال سکتے ہیں۔“ وہ منہ بنا کر گویا ہوئی۔
”سچ اور جھوٹ کا فیصلہ تم کس طرح کر سکتی ہو؟ تمہارے سامنے میں اب اپنی صفائیاں پیش نہیں کروں گا  خواہ تم کچھ بھی سمجھو۔“
پری کی سرد مہری بتا رہی تھی وہ اس سے کسی بھی صورت سمجھوتا کرنے والی نہیں ہے۔ اس نے سوچا جو کچھ اس نے دیکھا اس کو نگاہوں کا دھوکا سمجھ کر فراموش کر دینا چاہئے  وہ شاید اس کی نگاہوں کا دھوکا ہی تھا۔

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط