Episode 42 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 42 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

”آپ میری زندگی میں کس کس طرح اپنی حکومت قائم کر بیٹھیں کہ مجھے معلوم ہی نہ ہو سکا کہ میں آپ کے وجود کا اس گھر میں اس حد تک عادی ہو چکا ہوں۔ یہ مجھے آپ کی غیر موجودگی میں معلوم ہوا کہ میں  صفدر جمال آپ کی موجودگی کا اسی طرح عادی ہو گیا ہوں  جیسے دل سے دھڑکن مانوس ہوتی ہے  جس طرح چاند سے چاندنی وابستہ ہوتی ہے اور جس طرح پھول سے خوشبو وابستہ رہتی ہے  اسی طرح میں بھی آپ کے بغیر ادھورا اور نامکمل تھا۔
“ بیڈ روم کی نیلگوں روشنی میں صفدر جمال اپنے دل کی حکایتیں بیان کر رہے تھے۔ ”آج میں اقرار کر رہا ہوں مثنیٰ! صفدر جمال دنیا کے تمام رشتوں کے بغیر جی سکتا ہے مگر آپ کے بغیر زندگی  زندگی نہیں لگتی ہے۔“
”اچھا…!“ مثنیٰ دھیرے سے مسکرا دی۔
”آپ کو میری باتوں پر یقین نہیں آرہا ناں!“ وہ بے اختیار لہجے میں بولے۔

(جاری ہے)

”صفدر! کیا ہو گیا ہے آپ کو… کس قسم کی باتیں کر رہے ہیں؟“
”آپ کو میری محبت کی شدتوں کا احساس نہیں ہے  میں اپنی سچی محبت کا یقین دلانا چاہتا ہوں  آپ جو کہیں گی وہ میں کرکے دکھاؤں گا۔
“ مثنیٰ کی چند روزہ جدائی نے ان کو بہت جذباتی و حساس بنا دیا تھا۔ مثنیٰ نے ان کے شانے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے کہا۔
”میں آپ کے ساتھ ہوں آپ کے پاس ہوں  اس سے زیادہ اور ہماری محبت کا ثبوت کیا ہو سکتا ہے صفدر! جو عورت اگر اپنے شوہر کے ساتھ رہنا نہ چاہے تو کوئی زبردستی اس کو روک نہیں سکتا ہے۔“
”پچھلے دنوں جو آپ کا رویہ ہے  بے رخی اور نفرت میں نے دیکھی تھی آپ مجھ سے بات کرنے میں میری صورت دیکھنے کی روا دار نہ تھیں  ان دنوں احساس ہوا مجھے اگر خدانخواستہ تم ایسا ہی رویہ میرے ساتھ رکھتیں تو میں…“
”اب چھوڑیں ان باتوں کو  کیوں آپ یاد کرکے ڈسٹرب ہوتے ہیں؟“ مثنیٰ نے مسکرا کر ٹالنا چاہا۔
”یقین کرو  میں ابھی تک ڈرا ہوا ہوں  اگلی بار کبھی مجھ سے اس طرح خفا مت ہونا ڈیئر! ورنہ زندگی کے معنی ہی بدل کر رہ جائیں گے۔“ صفدر جمال کا لہجہ محبت میں چور خاموش سا ہو یا تھا۔
”آپ بھی کبھی میرے اعتماد بھروسے کو متنزلزل کرنے کی سعی نہ کیجئے گا۔ خواہ بات کیسی بھی ہو  معاملہ کوئی بھی ہو۔ میں کمزور عورت نہیں ہوں اور نہ ہی میرے اعصاب کمزور ہوئے ہیں  جب میں خوشیوں میں آپ کے ساتھ ساتھ ہوتی ہوں تو دکھ و آزمائش کی گھڑی میں کس طرح آپ کو تنہا چھوڑ سکتی ہوں؟ آپ نے یہ سوچ بھی کیسے لیا تھا کہ اتنی بڑی پریشانی مجھ سے چھپا کر آپ خود سب برداشت کرتے رہیں گے؟ میں آپ کے دکھ و سکھ کی ساتھی ہوں صفدر!“ انہوں نے کہتے ہوئے ان کے شانے سے سر ٹکا دیا تھا۔
”شکریہ مائی ڈیئر! میں تو بہت خوش ہوں آج  آپ کے منہ سے یہ اقرار محبت سننے کیلئے کتنے عرصے ترستا رہا ہوں میں۔“ شدت جذبات سے ان کی آوازکانپ رہی تھی۔
”آپ نے سعود کے متعلق کیا سوچا ہے؟ وہ اب شادی شدہ ہے اور اس ماہ میں اس کی تعلیم بھی مکمل ہو جائے گی پھر وہ واپس آئے گا نہ پاکستان؟“ وہ اب سنجیدگی سے کہہ رہی تھیں۔
”یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے  میں اس کی مرضی میں دخل اور دینے کا فیصلہ کر چکا ہوں  اس نے خود کشی کرکے ہمارے اعتماد اور حق کو جھٹلایا ہے  اس کی سزا یہی ہو گی کہ جو کرنا چاہے  کرے۔
ہم اس کی صرف مالی امداد کر سکتے ہیں اور اس سے زیادہ کچھ اور نہیں۔“
”درست فیصلہ ہے آپ کا اور اس میں  میں بھی آپ کا ساتھ دوں گی کیونکہ کسی بھی اولاد کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی ناجائز خواہشوں کیلئے والدین کو اس طرح اذیت دے۔“
###
دوسرے دن ”فیاض ولا“ میں خوب گہما گہمی تھی۔
دعوت رات کی تھی مگر صباحت بیگم نے صبح سے پورا گھر گویا سر پر اٹھایا ہوا تھا۔
ملازماؤں کی شامت نے بے چاریوں کو بوکھلایا ہوا تھا۔ خود صباحت بھی بوکھلاہٹ و پریشانی کا شکار تھیں  ان کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کس ترتیب سے کام کروائیں جو ہر کام وقت پر ہو جائے  اماں جان نے کوشش بھی کی کہ وہ ن کی مدد کروائیں مگر وہ ایک شاطر اور کینہ پرور عورت تھیں جو کسی بھی حال میں نہیں چاہتیں کہ کل کو فیاض یا اماں ہی یہ جتائیں کہ پری کے بیمار پڑنے پر وہ تمام انتظامات نہ سنبھال سکیں۔
پری کو رات کے نامعلوم کس پہر تیز بخار چڑھ گیا تھا اور صبح تک وہ بخار میں جل رہی تھی۔ اماں نے صبح ہی ڈاکٹر کو بلا کر چیک اپ کروایا تھا جس کی میڈیسن سے ٹمپریچر کم تو ہوا تھا لیکن مکمل ختم نہیں ہوا تھا اور وہ بے سدھ پڑی تھی۔ پہلی بار پری کی تمام ذمے داری صباحت پر آئی تھی اور وہ جو ہمیشہ اس کی محنت پر اپنے نام کی مہر لگایا کرتی تھیں  اب محسوس کر رہی تھیں کہ گھر کی ذمے داریاں کتنی تھکا دینے والی ہوتی ہیں اور کتنی ذہانت و سلیقہ مندی سے ان کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے یہ سب سمجھنے کے باوجود وہ پری سے محبت محسوس نہ کر رہی تھیں کہ کتنے جھنجٹوں سے اس نے ان کی جان چھڑا رکھی ہے اور اس احساس کے بجائے وہ اس کو کوس رہی تھیں۔
”مما! میری میچنگ کی سینڈل نہیں مل رہی ہے اور میری جیولری یاد سے ضرور رکھیے گا بیگ میں۔ کہیں پارلر جا کر خوار نہ ہونا پڑے جائے۔“ عادلہ اور عائزہ ساتھ وہاں آئی تھیں اور ان سے مخاطب ہوئی تھیں۔ صباحت جو پہلے ہی گھریلو معاملات سنبھال نہ پا رہی تھیں  ان کی باتوں پر غصے سے گویا ہوئیں۔
”تم میرے ساتھ گھر میں تو کیا مدد کرواؤ گی  الٹے اپنے کام بھی جان پر ہی ڈال رہی ہو؟ اب ایسی بھی کیا کاہلی کہ اپنا سامان بھی تم دونوں سنبھال کر نہیں رکھ سکتی ہو  حد کرتی ہو۔
”عائزہ کو تو آپ نے دلہن ہی بنا دیا ہے  یہ تو اپنے ہاتھ سے کھاتے ہوئے بھی ہم پر احسان عظیم کر رہی ہے  کام تو یہ کیا کرے گی۔“ عادلہ عائزہ کو گھورتے ہوئے کہہ اٹھی تھی۔
”تم تو بس جلتی ہی رہو مجھ سے اور کر بھی کیا سکتی ہو؟“ عائزہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”میں اور تم سے جلوں گی۔“ عادلہ نتھنے پھلاتی اس کے مقابل آن کھڑی ہوئی۔
”تم میں کون سے سرخاب کے پر لگ گئے ہیں جو میں تم سے جل رہی ہوں؟ تمہاری منگنی کیا ہو رہی ہے پاگل ہی ہو گئی ہو مارے خوشی کے…“
”شرم کرو عائزہ! عادلہ بڑی ہے تم سے  کیا تم تم کرکے بات کر رہی ہو؟ اور عادلہ! تم بھی کیوں اس قدر بدمزاجی کا مظاہرہ کرنے لگی ہو؟“ ہمیشہ کی طرح انہیں ان دونوں کے درمیان مداخلت کرنی پڑی تھی۔
”مما! غلطی آپ کی ہے  پاپا کہہ بھی رہے تھے پہلے بڑوں کا نمبر ہوتا ہے  بعد میں چھوٹوں کی باری آتی ہے اور آپ اپنی ضد پر اڑی رہیں  دادی جان بھی آپ کی وجہ سے اس کی منگنی کرنے پر راضی ہوئی ہیں ورنہ مجھے معلوم ہے وہ کبھی ایسا نہیں ہونے دیتیں اور نہ ہی اس کو اترانے کا موقع ملتا۔
“ صباحت نے غور سے بیٹی کا چہرہ دیکھا تھا جہاں حسد و ملال  غصہ و تنفر واضح تھا کہ وہ عائزہ کی ہونے والی منگنی سے خوش نہیں ہے۔
”عائزہ! جا کر پہلے اپنا سامان بیگ میں رکھو اور دیکھنا کچھ رہ نہ جائے اگر کچھ رہ گیا تو مسئلہ ہو جائے گا  یہاں کوئی ہوگا بھی نہیں جو دے آئے۔“ عائزہ نے ماں کے سنجیدہ موڈ کو دیکھ کر چپ چاپ جانے میں عافیت جانی اور وہ چلی گئی تو وہ منہ پھلائے کھڑی عادلہ کے پاس آ کر گویا ہوئیں۔
”مجھے تم سے یہ توقع نہ تھی کہ تم اس بات کا سوگ مناؤ گی کہ تم سے پہلے عائزہ کا رشتہ پکا ہو رہا ہے ورنہ یہ واویلا تو پری کا حق بنتا ہے۔ ایک سال بڑی ہے تم سے۔ اس کے انداز سے تو کسی طرح بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ کسی کمپلیکس کا شکار ہو رہی ہے تمہاری طرح اور یہ میری نہیں بھابی جان کی خواہش ہے کہ انہوں نے تمہارے لئے نہیں بلکہ عائزہ کیلئے رشتہ کا کہا اور میں ایسے بہترین پرپوزل کو تمہارے بڑے ہونے کے خیال سے رد نہیں کر سکتی تھی۔
”چھوڑیں مما! جب آپ کو ہی احساس نہیں ہے تو پھر عائزہ کو کیا ہوگا؟“
”او میری جان! تم کیوں ناراض ہوتی ہو؟“ انہوں نے منہ پھلائے ہوئے کھڑی عادلہ کو گلے لگاتے ہوئے پیار سے کہا تھا۔
”تمہاری بہن کی پہلی خوشی ہے  خوشی خوشی استقبال کرو اس خوشی کا  مجھے امید ہے بہت جلد تمہارے حصے میں بھی ایسی خوشیاں آنے والی ہیں۔“
”سچ مما! آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں ناں!“ وہ مسکرا اٹھی تھی۔
”ہاں! میں نے کبھی غلط کہا ہے جو اب کہوں گی بھلا!“
”مگر مما! آپ جانتی ہیں میں طغرل سے محبت کرتی ہوں اور وہ ہے کہ میری طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا  جب دیکھو سویٹ سسٹر  ڈیئر سسٹر پکارتا رہتا ہے۔“ وہ ان کے شانے سے لگ کر گویا ہوئی۔
”پرواہ مت کرو  پہلے فیاض بھی مجھے اسی طرح پکارتے تھے اور دیکھ لو  آج میں ان کے بچوں کی ماں اور اس گھر کی مالکن بنی بیٹھی ہوں۔
”مگر آپ یہ کیوں بھول رہی ہیں مما! پاپا کو کھو کر آپ نے پایا ہے۔“
”اور تم طغرل کو کھونے مت دینا کیونکہ کھویا ہوا آدمی جب عورت کی زندگی میں آتا ہے تو وہ ادھور ہوتا ہے  کسی ایسی عمارت کی مانند جس کے کچھ خاص حصے منہدم ہو کر گر جائیں اور پھر جڑ نہ پائیں وقت کی حرارت ان کو ریزہ ریزہ کرکے خاک بنا کر اڑا دے۔
”اوہ مما! آپ مجھے کہہ رہی ہیں خوش رہنے کیلئے اور خود اداس ہو رہی ہیں۔
آپ فکر نہ کریں میں طغرل کو کھونے نہیں دوں گی  چلیں آئیں میرے ساتھ  میں عائزہ سے بھی سوری کہہ دوں۔ غصے میں بہت کچھ میں اس کو بھی کہہ چکی ہوں  جو مجھے کہنا نہیں چاہئے تھا۔“
”شکر ہے تم نے بھی کچھ عقل مندی کا مظاہرہ کیا  ورنہ میں سمجھ رہی تھی ہم آپس میں الجھتے رہے تو اس سے ہمارے دشمنوں کو فائدہ ہو جائے گا  ویسے بھی دشمنوں کو شکست دینے کیلئے ہمارا ایک ہونا بہت ضروری ہے اور تم کو عائزہ سے جھگڑنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے  عائزہ بہت ذہین و فطین لڑکی ہے جو تمہیں خوب گائیڈ کرے گی۔
###
چلو ہم بھی وہاں جائیں
جہاں اک چاند اپنی چاندنی سے پیار کرتا ہے
جہاں جگنو چمکتے ہیں
جہاں شمع پر منڈلاتے ہوئے بے تاب پروانے
سلگ کر خاک میں ملتے نہیں ہیں  زندہ رہتے ہیں
چلو اس اور چلتے میں
جہاں اک مور اپنی مورنی کے ساتھ رقصاں ہے
جہاں پر دور تا حد نظر پھولوں کی وادی ہے
ہم اس گاؤں میں ٹھہریں گے
جہاں لوگوں کے میلے ہیں
دنیا کے جھمیلے میں کوئی بھی گم نہیں ہوتا
چلو ہم بھی وہاں جائیں
تمام زیست بتا آئیں
کار دھول اڑاتی کب کی نگاہوں سے غائب ہو چکی تھی۔
وہ سکتے کی کیفیت میں کھڑی تھی۔ خواہشوں کی رنگیں تتلیاں جو کبھی افق کے اس پار اڑی نظر آتی تھی  ایک دم ہی اسے قریب  بہت قریب دکھائی دینے لگی تھیں۔ ان کے دلکش رنگ اس کو اپنے آس پاس بکھرے دکھائی دینے لگے تھے  ان کے وجود سے نکلتی روشنیوں سے اس کی آنکھیں چندھیانے لگی تھیں  اس نے آنکھیں بند کیں تو ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔
”کی گل اے کڑیئے؟“ ایک آدمی نے جو کئی لمحوں سے اس کو اس طرح کھڑے دیکھ رہا تھا  آگے بڑھ کر کرختگی سے پوچھا۔
”کوئی… کوئی بات نہیں ہے بابا جی!“ اس نے اجنبی آواز پر آنکھیں کھول کر دیکھا تھا  قمیص شلوار میں ملبوس سر پر پگڑی باندھے وہ باریش شخص بہت تفکر بھرے انداز میں اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔ وہ جواب دے کر تیز تیز قدموں سے آگے بڑھ گئی تھی اور خود کو ملامت کر رہی تھی کہ اس نے خوابوں میں گم ہونے سے قبل یہ بھی نہ دیکھا کہ اسٹاپ پر کھڑی ہے۔ موسم میں تو بہت حبس تھا  گرمی عروج پر پہنچی ہوئی تھی۔
مگر کچھ موسم ایسے ہوتے ہیں جو دل کی خوشی سے مشروط ہوتے ہیں پھر آج اس کے دل پر محبت کا موسم تھا۔
خواہشوں کا موسم تھا
ارمانوں کا موسم تھا۔

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط