Episode 43 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 43 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

مسکراہٹ از خود اس کے ہونٹوں پر کسی شوخ کلی کی مانند کھل اٹھی تھی۔ یہ علاقہ اس کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر تھا۔ پہلے کچھ بھینسوں کے باڑے آئے تھے  باڑوں سے چند گز کے فاصلے پر ایک ندی بہتی تھی  اس ندی کے گدلے پانی میں سارے دن بیٹھی بھینسیں ندی کا ہی حصہ محسوس ہوتی تھیں۔ باڑوں سے ملحق گوالوں کے کچے پکے گھر بنے ہوئے تھے  جہاں باہر پلنگ ڈالے مرد تاش کھیلنے میں مگن رہتے تھے پھر شام میں وہاں لوگوں کی لائنیں لگ جایا کرتی تھیں جو آس پاس کی آبادی سے تازہ اور خالص دودھ خریدنے آتے تھے۔
ایک چھپر کی اوٹ میں کھڑے ہو کر اس نے جلدی سے اپنے بکھرے بال سمیٹے ہونٹوں سے لپ اسٹک رگڑ ڈالی اور چادر اچھی طرح اوڑھ کر آگے بڑھی تھی جب اس کی نگاہ ایک عورت پر پڑی تھی جو بالٹی میں پانی بھر کر اس طرف لے جا رہی تھی جہاں ندی سے نکلنے کے بعد بھینسوں کو چارہ ڈالا جا رہا تھا اور اسی دوران ہی دودھ نکالنے کا کام شروع کیا جاتا تھا۔

(جاری ہے)

گوالے بہت چالاکی سے پہلے ہی بالٹی میں پانی بھر کر اس میں دودھ نکالتے تھے  لوگ تھوڑے فاصلے پر ہونے کے باعث بالٹی میں پانی تو نہ دیکھ پاتے تھے بس ان کی آنکھوں کے سامنے بالٹی میں گرتی دودھ کی دھاریں ہوتی تھیں جو جھاگ سے لبالب ہوتی تھیں اور لوگ وہ خالص و تازہ دودھ خریدنے شوق سے آتے تھے۔

اس نے کتنی بار وہاں سے گزرتے ہوئے ایسے مناظر دیکھے تھے اور مسکرا کر رہ جاتی تھی اب وہ کس کس کو بتاتی اور کیوں بتاتی کہ وہ دودھ تازہ ضرور ہے مگر خالص نہیں۔
وہ گھر میں داخل ہوئی تو امی اور چچی کپڑے دھونے میں مصروف تھیں۔ آنگن میں بندھی ڈوریوں پر کپڑے سوکھ رہے تھے اور گھر میں قدم رکھتے ہی اس کی خوشیوں کے رنگ سے چمکتی خواہشوں کی تتلیاں غائب ہو گئی تھیں۔
اب ہر سو جلتے ارمانوں کی ریت تھی جو اس کی آنکھوں میں چھبنے لگی تھی۔
”ارے ماہ رخ! وہاں کیوں رک گئی بیٹی!“ ثریا کی نگاہ اس پر پڑی۔
”کتنی بار کہا ہے میرے آنے سے پہلے یہ دھوبی گھاٹ بند کر دیا کریں  مجھے الجھن ہوتی ہے۔ سارے دن کالج میں دماغ کھپاؤ  بسوں کے دھکے کھاؤ پھر دو میل پیدل چل کر گھر تک آؤ تو یہ سب دیکھ کر تھکن بڑھ جاتی ہے میری۔
“ وہ پاؤں پٹختی ہوئی اندر کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی۔
”کیوں دل جلاتی ہو اپنا  ہم تو پہلے ہی کپڑے دھو کر فارغ ہو جاتے اگر خالہ غفورن ملنے نہ آ جاتیں تو… ان کی وجہ سے دیر ہو گئی ہے اور بس ابھی کچھ دیر میں ہی فارغ ہو جاتے ہیں۔“ ثریا تیز تیز ہاتھ چلاتی ہوئی گویا ہوئی تھی۔
”بہت ہو گیا ثریا! زیادہ اس لڑکی کے ناز نخرے اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔
نہ ہوتی ہے برداشت کی بھی… بدبخت  ہمارے کام میں مدد تو کیا کروائے گی  الٹا ہمیں ہی باتیں سنا رہی ہے۔“ فاطمہ کو اس کی ہٹ دھرمی و بے نیازی سخت ناپسند تھی۔ اس وقت بھی بیٹی کو بدمزاجی کا مظاہرہ کرتے دیکھ کر ان سے رہا نہ گیا تھا۔
”ارے جانے بھی دیں آپا! ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے وہ بھی  ایک تو کالج یہاں سے کوسوں دور ہے پھر بسوں کی سواری الگ کوفت میں مبتلا کر دیتی ہے اور ہمارے گھر سے اسٹاپ بھی بہت دور پڑتا ہے  پڑھائی میں علیحدہ بچی کو مغز ماری کرنی پڑتی ہے  اگر گھر آ کر بھی سکون نہ ملے تو وہ بچی اس طرح پریشان ہو گی ناں!“ ثریا کے لہجے میں اس کیلئے محبت شدت سے عیاں تھی۔
”اس کے دماغ دن بدن آسمان پر رہنے لگے ہیں  اپنے آپ کو مہارانی سمجھنے لگی ہے وہ  مجھے ڈر لگنے لگا ہے اس کی اڑان سے ثریا! ایک جست میں ہی اوپر آسمان کی بلندی کو چھونے کی کوشش میں پر بھی ٹوٹ جاتے ہیں اور وجود بھی۔“ فاطمہ نلکے کے نیچے کپڑوں کا پانی نکال کر نچوڑتے ہوئے آزردگی سے کہہ رہی تھی۔
”آپا! سوچوں کی اڑان تو بلند رکھنی چاہئے۔
“ ثریا نے کپڑوں کا ٹب سکھانے کی غرض سے اٹھاتے ہوئے جٹھانی کو تسلی دی تھی۔
فاطمہ اور ثریا نے مل کر فٹا فٹ کپڑے دھونے کے بعد پورے گھر کی صفائی کر ڈالی تھی۔ ماہ رخ جو کمرے میں جا کر سو گئی تھی  جب سو کر اٹھی تو سرمئی فرش آئینے کی طرح چمک رہا تھا  کپڑے بھی آدھے سے زیادہ سوکھ چکے تھے اور تہہ کرکے رکھے جا چکے تھے۔ دور آنگن کے دوسرے سرے پر صرف رسی پر موٹی والی چادریں سوکھ رہی تھیں۔
چائے کی سوندھی خوشبو فضا میں پھیلی ہوئی تھی۔
اس نے دیکھا ماں اور چچی کچن میں کھانا پکانے میں مصروف تھیں۔
”اف! صبح گھر کے کام سے فارغ ہو کر کپڑے دھونے بیٹھ گئی ہوں گی پھر اس دوران مہمان داری بھی کی پھر کپڑے دھو کر صفائی کی اور اب رات کے کھانے کی تیاریوں میں لگی ہوئی ہیں مگر چہرے پر تھکن ہے نہ کوئی بے زاری…!“ واش بیسن کے آئینے سے وہ کچن کا منظر دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ وہ تھکتی کیوں نہیں ہیں۔
”رخ! ذرا یہ چائے تو گلفام کو دے دینا جا کر…“ ثریا نے آواز دی تھی۔
”تم لو گی چائے؟“ اس کو مگ تھماتے ہوئے استفسار کرنے لگیں۔
”میں چائے کہاں پیتی ہوں اور اس وقت تو بالکل موڈ نہیں ہو رہا ہے۔“
وہ چائے لے کر گلفام کے کمرے میں آ گئی  گلفام کہیں جانے کیلئے تیار کھڑا تھا۔ سفید شلوار سوٹ میں اس کی سیاہ رنگت نمایاں ہو رہی تھی  اپنے کمرے میں ماہ رخ کو دیکھ کر وہ کھل اٹھا  اس کی سیاہ بھنور آنکھوں میں چاہت کے دیپ جل اٹھے تھے۔
”اوہ آج تو چاند میرے کمرے میں ہی طلوع ہو گیا ہے  مقدر چمک اٹھے ہیں میرے تو… بڑی خوش نظر آ رہی ہو  کیا بات ہے بھئی!“
”اپنی چائے پکڑو  سیاہ فام! مجھ سے زیادہ فری ہونے کی کوشش مت کرنا۔“ اس کو چائے کا مگ دیتے ہوئے وہ اٹھلا کر بولی تھی۔
”تم سے فری کون ہو رہا ہے  میں تو خوش ہو رہا ہوں  آج بہت دنوں بعد تمہیں خوش دیکھا ہے اس لئے… میں تمہیں ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتا ہوں۔
“ وہ چاہت بھرے لہجے میں گویا ہوا۔
”سنو! ایک کام تھا تم سے… پہلے وعدہ کرو کسی کو نہیں بتاؤ گے؟“ وہ کچھ جھک کر راز دارانہ لہجے میں گویا ہوئی۔
”اس سے پہلے کبھی کسی کو بتایا ہے جو اب بتاؤں گا؟ چلو پھر بھی وعدہ کرتا ہوں۔“
”مجھے اپنی دوست کے ہاں پارٹی میں جانا ہے اور امی کبھی بھی اجازت نہیں دیں گی  تم ان سے کہنا تمہارے دوست کی بہن کی شادی ہے جس میں تم مجھ کو لے جانا چاہتے ہو۔
“ وہ جس کیلئے آئی تھی اس نے وہ مدعا بیان کر دیا تھا۔
”لیکن میرے دوست کی کسی بھی بہن کی شادی نہیں ہے اور اگر ہو گی تو وہ تو سب کو یعنی سب گھر والوں کو بلائیں گے صرف تم کو کیوں بلائیں گے؟“ وہ حسب عادت سادگی سے نہ سمجھنے والے انداز میں بولا تھا۔
”ارے بدھو! تو میں کب کہہ رہی ہوں سچ مچ تمہارے دوست کی بہن کی شادی ہو رہی ہے۔ پہلے میری بات سمجھ تو لو میں کہہ کیا کر رہی ہوں  بے وقوف!“ اس نے جھنجلاتے ہوئے دوبارہ پوری بات دہرائی تھی۔
”اوہ! اس کا مطلب ہے مجھے جھوٹ بولنا پڑے گا  یہ بات تو اچھی نہیں۔“ اس کی بات سمجھ کر وہ چائے پیتے ہوئے گویا ہوا۔
”میری خاطر تم ذرا سا جھوٹ نہیں بول سکتے کیا!“ وہ گداز لہجے میں بولی۔
”بات جھوٹ کی ہے اور ماں باپ کے یقین کو خراب کرنے کی بھی ہے رخ! تم ڈرو نہیں  میں خود تائی جان سے اجازت لے لوں گا  یہ میرا وعدہ ہے۔“
”اگر انہوں نے ساتھ جانے یا کسی اور کو ساتھ بھیجنے کی بات کی تو میں نہیں جاؤں گی  وہاں بڑے بڑے امیر لوگ آئیں گے کوئی ساتھ گیا تو بے عزتی ہو جائے گی  سیاہ فام! میں نے سب کو بتا رکھا ہے  میں بہت امیر خاندان کی بیٹی ہوں۔
”فکر مت کرو  میں سب سنبھال لوں گا تمہیں جھوٹ بھی بولنا نہیں پڑے گا اور کام بھی ہو جائے گا۔“ اس نے پر اعتماد لہجے میں کہا۔
###
سارا دن ہی وہ غنودگی میں رہی تھی  اب نامعلوم ڈاکٹر کی دی گئی خواب آور دوائیوں کا اثر تھا یا جسم میں ہونے والی درد کی ٹیسوں کا وہ سوتی جاگتی کیفیت کا شکار ہو رہی تھی۔ اس دوران اس نے محسوس کیا تھا کئی لوگوں کی کمرے میں آمد رہی تھی مگر وہ غنودہ کیفیت کے باعث آنکھیں نہ کھل سکی تھی۔
جب وہ پوری طرح ہوش میں آئی تو دادی جان اس پر دم کر رہی تھیں۔ پستئی چکن کے سوٹ میں ملبوس دادی نے کانوں میں جڑاؤ بالیاں پہنی ہوئی تھیں۔ کانوں کے گرد ہی موتیا کے پھول کی بالیاں بھی لٹکی ہوئی تھیں۔ ہاتھوں میں طلائی کنگن تھے  ان کی تیاری گواہ تھی کہ تقریب ہو رہی ہے۔ اس نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے ان سے کہا تھا۔
”تقریب ختم بھی ہو گئی اور عائزہ کے سسرال والے چلے بھی گئے۔
“ وہ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے گویا ہوئی تھیں اور وہ حیرت زدہ ہو رہی تھی۔
”اوہ میں اتنا سوئی ہوں آج؟ تقریب بھی ختم ہو گئی اور مجھے پتا ہی نہیں چلا۔ میں اتنی گہری نیند کی تو عادی نہیں ہوں۔“
”تم اتنی دکھی کیوں ہو رہی ہو میری بچی! پوری تقریب میں کسی کو تمہارا خیال نہیں آیا کہ تم موجود نہیں ہو۔ ہاں  فیاض بے چینی سے تمہارے پاس کئی چکر لگا کر گیا۔
وہ پریشان ہے  باپ ہے ناں اس لئے  صباحت کی نظروں میں تم ملازمہ سے بھی بدتر ہو۔ میں جانتی تھی  اتنی تکلیف کے باوجود تم بخار کم ہونے پر سکون سے نہ لیٹو گی اور کام میں لگ جاؤ گی  اس احسان فراموش کی خدمتوں میں  اس لئے ڈاکٹر کی اجازت سے میں نے تم کو نیند کی گولی زیادہ دے دی تھی اور سارے دن صباحت کا تماشا دیکھتی رہی تھی۔“
”دادی جان! کیا سوچ رہی ہوں گی عائزہ اور مما کہ میں ان کی خوشیوں میں شریک بھی نہیں ہوئی ہوں  سارا دن سونے میں گزار دیا؟“ وہ روہانسی ہوئی۔
”ارے بس بس رہنے دو  کیوں زبان کھلواتی ہو ساری رات بخار میں آگ کی مانند جلتی رہی ہو پھر درد سے الگ بے حال ہو رہی تھیں  وہ تو اللہ بھلا کرے میرے بچے طغرل کا جو رات میں بھی کئی مرتبہ آیا اور پھر صبح ڈاکٹر کو بھی وہ ہی بلا کر لایا ہے جس کی دوا سے اب جا کر تمہارا بخار اترا ہے تو تم اٹھ کر بیٹھی ہو۔ رکو پہلے میں جا کر فیاض کو خبر کر دوں کہ تم اٹھ گئی ہو  وہ بھی رات سے بے حد پریشان ہے۔
“ وہ بیڈ سے اٹھنے لگی تھیں کہ پری نے انہیں روک لیا۔
”پاپا یہاں مجھے دیکھنے آئے تھے دادی جان!“ وہ اشتیاق بھرے لہجے میں گویا ہوئی تھی کہ یہ بہت بڑی خبر تھی اس کیلئے۔
”ہاں… ایک بار نہیں کئی بار آیا تھا  بہت پریشان ہو گیا تھا تمہاری حالت دیکھ کر… باپ ہے وہ تمہارا  منہ سے اظہار بے شک وہ نہیں کرتا مگر بہت محبت کرتا ہے تم سے… اور کیوں نہ کرے؟ تم پہلی اولاد ہو اس کی۔
“ دادی کی باتوں نے اس کے مردہ ہوتے تن میں نئی روح بیدار کر دی تھی۔
”چلو اٹھ کر منہ ہاتھ دھو لو اور کپڑے بدل لو۔ ایک ہی دن میں ہفتوں کی بیمار دکھائی دے رہی ہو  فیاض بھی تمہیں ہشاش بشاش دیکھے گا تو خوش ہو جائے گا۔“ وہ اٹھ کر واش روم کی طرف بڑھ گئی تھی۔
کھانے کی ٹیبل پر صرف وہ تین نفوس موجود تھے۔ صباحت اور ان کی بیٹیاں مہمانوں کے جانے کے بعد ہی اپنے کمروں میں چلی گئی تھیں۔
طغرل ایک دوست کے ہاں مدعو تھا  وہ سرشام ہی جا چکا تھا۔
”کیسی طبیعت ہے آپ کی بیٹا!“ وہ ان کے قریب آئی تو انہوں نے نرمی سے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔
”جی پاپا! ٹھیک ہوں میں۔“ خوشی کے احساسات سے وہ کانپ اٹھی تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے تھے۔ یہ شفقت بھری آواز محبت کا احساس دیتا لہجہ اس کے تر سے ہوئے دل کو سکون دینے لگا تھا۔
ایک عرصے سے وہ اس لہجے اس احساس کو ترس رہی تھی۔
”واہ! ٹھیک ٹائم پر آ گیا ہوں۔“ طغرل ڈائننگ روم میں آتے ہوئے شوخ لہجے میں گویا ہوا اور اس کے برابر والی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
”تم تو کہہ رہے تھے کسی دوست کے ہاں دعوت میں جاؤ گے؟“ اماں نے اس کو دیکھتے ہوئے استفسار کیا
”میں نے کال کی تھی کہ کھانا یہاں آکر کھائے ہم سب کے ساتھ ہی۔
“ فیاض صاحب نے طغرل کے کہنے سے قبل ہی وضاحت پیش کی تھی۔
”اچھا ہی کیا ورنہ میرا دل خراب ہو رہا تھا کہ گھر کی دعوت چھوڑ کر بچہ باہر یاری دوستی نبھائے گا۔“ دادی کے لہجے میں اطمینان اتر آیا تھا۔
”آپ کیا محسوس کر رہی ہیں؟ درد تو نہیں ہے اب!“ وہ اس سے مخاطب ہوا تھا۔ بہت احترام و تمیز تھی اس کے لہجے میں وہ جانتی تھی یہ سب پاپا اور دادی کو متاثر کرنے کے طریقے ہیں جب کہ حقیقت تو یہ تھی کہ اس کے گرنے اور تکلیف دہ حالت کی اصل وجہ وہ خود تھا اور اب بھی کتنی بے تکلفی سے اس کے برابر میں بیٹھ گیا تھا بغیر کسی ندامت کے۔
”ٹھیک ہوں۔“ دل ہی دل میں اسے گالیوں سے نوازتے ہوئے اس کو کہنا پڑا۔
”آپ لوگ اتنا لیٹ کھانا کیوں کھا رہے ہیں  صباحت آنٹی  عادلہ  عائزہ وغیرہ کہاں ہیں؟“ روسٹڈ چکن پلیٹ میں ڈالتے ہوئے گویا ہوا۔
”پری اور آپ کا انتظار تھا اس لئے ڈنر لیٹ ہو گیا  آپ کی آنٹی اور کزنز تھک گئی ہیں اس لئے آرام کرنے اپنے کمروں میں چلی گئی ہیں۔
”پاپا! آپ کافی پئیں گے؟“ وہ اٹھتے ہوئے پوچھنے لگی۔
”آپ نے کھایا کیا ہے ابھی؟ پہلے کھانا کھا لیں  کافی نہیں لوں گا۔“
”اس کا تو چڑیا جیسا پیٹ ہے  یہ اتنا ہی کھاتی ہے بس!“ دادی نے اس کی طرف داری کی۔
”انکل کافی پی لیجئے  آپ کے صدقے میں مجھے بھی مل جائے گی  میرا دل چاہ رہا ہے کافی پینے کو۔“ طغرل نے کہا۔
”تمہیں معلوم ہے فیاض اور میں اس ٹائم کافی یا چائے نہیں پیتے ہیں کہ پھر نیند اڑ جاتی ہے تمہیں کافی بنا دے گی پری!“ دادی نے لاڈ بھرے لہجے میں کہا جس کی تائید پاپا نے بھی کی تھی اور ساتھ ہی اسے کافی بنانے کو بھی کہا اور اس نے جلتی بھڑکتی نگاہ اس پر ڈالی تھی۔ طغرل کی نگاہ اس پر نہیں تھی  وہ پلیٹ میں موجود اسپیگٹھی کا رول کر رہا تھا  کانٹا ہاتھ میں پکڑے مگر وہ اس کی گھنی سیاہ مونچھوں کے نیچے ہونٹوں پر مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ وہ اس کی دلی حالت سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔
”بدروح! نامعلوم کیوں میرے پیچھے پڑ گیا ہے اگر میں پاپا اور دادی جان کو بتا دوں کہ اس خبیث شخص کی وجہ سے ہی میں گری تھی اور میرا آج کا فنکشن بھی خراب ہوا ہے اور عائزہ کو بھی دلہن بنے نہیں دیکھا میں نے۔“ بڑبڑاتے ہوئے اس نے کافی تیار کی اور ڈائننگ روم میں آئی تھی مگر وہاں کوئی نہ تھا  وہ دادی کے روم میں آئی وہاں بھی دادی کمبل اوڑھے سونے کی تیاری میں تھیں تب وہ اس کے کمرے میں چلی آئی۔
دروازہ کھلا ہوا تھا اور وہ باہر بالکونی میں کھڑا آسمان پر کچھ تلاش کر رہا تھا۔
”کافی لے لیجئے!“ وہ اندر نہیں گئی تھی  دہلیز پر ہی کھڑی تھی۔
”یہاں تک آ گئی ہو تو اندر آنے میں کیا پرابلم ہے؟“ اس نے وہیں کھڑے کھڑے پوچھا۔
”طغرل بھائی! میں اندر نہیں آؤں گی  آپ آ کر لے لیں۔“
”اندر کیوں نہیں آؤ گی؟“ وہ اس کے قریب آ گیا۔
”ناراض ہو مجھ سے یا مجھ پر اعتبار نہیں ہے؟“
”میں آپ سے کوئی بات کرنا نہیں چاہتی  پلیز!“ وہ کافی کا مگ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے سخت لجے میں گویا ہوئی تھی۔
”اس کا مطلب ہے ناراض ہو  مجھے پسند نہیں کرتی ہو اور جو لوگ کسی کو پسند نہ کریں  وہ دشمن ہوتے ہیں اور دشمنی میں لوگ ایک دوسرے کو قتل بھی کر ڈالتے ہیں۔“ وہ سینے پر بازو باندھے اس کی جانب دیکھ رہا تھا جس کے سر پر ڈالے گئے دوپٹے نے اس کے چہرے کا احاطہ کیا ہوا تھا  کافی کے مگ سے نکلتی بھاپ میں اس کے چہرے کا عکس دل فریب تھا۔
وہ کسی خونخوار بلی کی طرح اس کو گھور رہی تھی۔
”اس بکواس سے مطلب کیا ہے آپ کا!“ وہ غرائی۔
”یہی کہ پہلے کافی تم پیو پھر میں پیوں گا۔“
”مجھے اس ٹائم کافی نہیں پینی ہے  سمجھے آپ!“
”ہوں! سمجھ تو رہا ہوں  تم کافی اس لئے نہیں پی رہی کہ اس میں زہر ملا کر لائی ہو تا کہ میں…“ اس کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ وہ غصے بھرے انداز میں آگے بڑھی اور مگ بالکونی سے نیچے پھینک دیا جبکہ وہ ارے ارے کہتا ہوا اس کے پیچھے دوڑا تھا مگر تب تک وہ مگ پھینک چکی تھی۔
”یہ کیا بات ہوئی… تم مذاق بھی نہیں سمجھتی؟ تمہاری حس لطیف بالکل زیرو ہے۔“ وہ حیران انداز میں بولا تھا اور قبل اس کے کہ وہ کچھ کہتی  لان میں اچانک آف ہونے والی لائٹس نے دونوں کو ہی چونکا دیا تھا لمحے بھر قبل نیچے لان میں ڈم لائٹس روشن تھیں اور اب اندھیرا ہو چکا تھا۔
”یہ لائٹس کس نے آف کی ہیں؟“ وہ گھبرا کر اس سے مخاطب ہوئی تھی جو خود بھی خاصا حیران کھڑا تھا۔
”معلوم نہیں؟“
”کچھ الیکٹریکل پرابلم ہوئی ہو گی۔“
”نہیں  اگر ایسا ہوتا تو پھر فیوز آؤٹ ہو جاتا۔“
”پھر کیا ہوا ہے  لان کی ہی لائٹس کیوں آف ہوئی ہیں؟“ وہ دونوں ہی بالکونی میں کھڑے لان میں جھانک رہے تھے جہاں گھپ اندھیرا پھیلا ہوا تھا اور آسمان پر چھائے بادلوں کے باعث روشنی کی ایک کرن بھی دکھائی نہ دے رہی تھی۔
وہ بالکونی سے ہٹنے ہی والی تھی جب اچانک عقبی حصے سے ایک سایہ سیاہ چادر میں لپٹا نمودار ہوا تھا۔ پری کی نگاہ جیسے ہی اس بہت آہستہ آہستہ حرکت کرتے ہوئے سائے پر پڑی  خوف سے اس کی آنکھیں پھٹ گئی تھیں۔ وہ دہشت سے چیخنے والی تھی کہ طغرل نے آگے بڑھ کر اس کے منہ پر اپنا ہاتھ مضبوطی سے جما دیا تھا۔
”خاموش رہو۔“ اس نے سرگوشی کی اور اسی طرح منہ پر ہاتھ رکھے رکھے کمرے میں لے آیا تھا پھر ہاتھ ہٹا کر دروازے کی طرف بھاگا تھا۔ پری کے حواس بکھرے ہوئے ہی تھے۔
”طغرل بھائی! کہاں جا رہے ہیں آپ… وہ کوئی انسان نہیں ہے۔“
”خاموش رہو اور میرے پیچھے آنے کی کوشش مت کرنا۔“ وہ جاتے ہوئے سخت لہجے میں گویا ہوا۔

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط