Episode 49 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 49 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

سب ناشتے کی ٹیبل پر موجود تھے جب فیاض نے پری کی چیئر خالی دیکھ کر اماں جان سے استفسار کیا
”اماں جان! پری کی طبیت ٹھیک ہے ناں؟ وہ ناشتہ نہیں کرے گی؟“
”وہ نانی کے ہاں چلی گئی ہے۔“
”کس ٹائم گئی ہے؟ شام تک تو گھر میں تھی وہ…“ فیاض کے ساتھ ساتھ طغرل بھی چونکا تھا۔ جوس کا گلاس اس نے واپس رکھ دیا تھا۔ اس کے ماتھے پر شکنیں درآئی تھیں۔
”بارہ بجے کے بعد گئی ہے  میں نے ایک نیند لے بھی لی تھی  کہنے لگی ڈرائیور آگیا ہے نانو کے ہاں جا رہی ہوں  میں نے کہا بھی صبح چلی جانا مگر تم تو جانتے ہی ہو  وہ جس چیز کی ضد پکڑ لے کرکے ہی چھوڑتی ہے۔ اس لئے میں نے بھی خاص توجہ نہیں دی اور جانے دیا اسے۔“
”ارے طغرل بھائی! آپ نے کیوں ناشتہ چھوڑ دیا…؟“ صباحت کی نظریں طغرل کے چہرے پر تھیں جہاں کچھ الجھنیں نمایاں تھیں۔

(جاری ہے)

عادلہ اس کی دلی کیفیت سے بے خبر مسکرا کر گویا ہوئی تھی۔ جب کہ عائزہ بے فکری سے ناشتہ کر رہی تھی جیسے یہاں موجود نہ ہو۔
”کیا ہوا طغرل! ناشتہ کئے بنا کیوں اٹھ رہے ہو؟“ فیاض بھی چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔
”انکل! جوس لے لیا ہے میں نے… ناشتے کی گنجائش نہیں ہے۔ سائٹ پر جانا ہے فیکٹری کی کنسٹرکشن میں کچھ پرابلم کری ایٹ ہو رہی ہے۔
“ وہ اٹھتے ہوئے سنجیدگی سے گویا ہوا۔
”اب ناشتہ تو کر لو… یہ مسئلے تو زندگی میں چلتے ہی رہتے ہیں۔“ اماں جان کو ہمیشہ کی طرح اس کا خیال آیا۔
”دادو! بھوک لگے گی تو باہر کر لوں گا ناشتہ! آپ فکر مت کریں۔“
”اوکے  میں بھی آتا ہوں سائٹ پر  ایک امپوٹنٹ میٹنگ ہے اس کے بعد  وگرنہ ابھی ساتھ ہی چلتا آپ کے۔“
”ناٹ مینشن انکل! جب بھی آپ فری ہو جائیں تو آ جایئے گا۔
“ وہ سب کو سلام کرکے چلا گیا۔
صباحت کی نگاہوں نے دیکھا تھا کہ پری کے ذکر پر اس کے چہرے پر کئی رنگ بکھرے تھے اور ناشتے کی طرف بڑھتے اس کے ہاتھ ساکت ہو گئے گئے تھے اور وہ جوس بھی پورا نہ پی سکا تھا۔ اس کا اظہار انہوں نے عادلہ بھی کیا تھا کمرے میں آنے کے بعد۔
”مما! آپ کیوں ایسی باتیں کرکے میرا دل دھڑکاتی رہتی ہیں؟“
”ویسے کیا تمہارا دل دھڑکتا نہیں ہے؟ ایسی باتوں سے ہی دھڑکتا ہے؟“ وہ اس کو گھور کر گویا ہوئیں۔
”جب آپ پری اور طغرل کا نام ساتھ لیتی ہیں تو میرا دل بڑے درد بھرے انداز میں دھڑکتا ہے پھر آپ کو کیوں شک ہو رہا ہے کہ ان دونوں میں ہی کوئی بات ہوئی ہے جو پری رات کو چلی گئی ہے۔“ عادلہ نے ماں کو بغور دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”جب اماں نے بتایا تھا پری کے جانے کا  وہ چونک اٹھا تھا اس کے چہرے پر ایسی کوئی بات تھی جس نے مجھے چونکا دیا  ضرور ہماری غیر موجودگی میں ایسی بات ہوئی ہے ان دونوں کے درمیان۔
“ صباحت کا لہجہ پر یقین تھا۔
”کیا ہوا ہوگا مما! میرا دل گھبرا رہا ہے۔“
”صبر کرو  جو کچھ ہے جلد سامنے آ جائے گا۔“
###
وہ کالج سے نکلی تھی حسب توقع اعوان کار لئے کھڑا تھا اس کو باہر نکلتے دیکھ کر وہ قریب چلا آیا  اس کے چہرے سے لگ رہا تھا وہ کئی راتوں سے سکون سے سویا نہیں ہے  کچھ بیمار اور بکھرا بکھرا لگ رہا تھا۔
”رخ پلیز… بات سنو میری…“ اس نے قریب آ کر کہا۔
”اعوان! خدا کے واسطے جب تک میں نہ کہوں  یہاں نہ آؤ۔“ اس نے خوف زدہ انداز میں ادھر ادھر دیکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا۔
”کچھ دیر کیلئے میرے ساتھ چلو  قسم سے میں تمہارا زیادہ ٹائم نہیں لوں گا پلیز… پلیز رخ!“ اس کا انداز منت بھرا تھا۔ رخ نے رسٹ واچ میں ٹائم دیکھا اور ایک بار پھر کار میں بیٹھنے سے پہلے چاروں طرف گہری نظروں سے جائزہ لیا تھا  اطمینان ہونے کے بعد وہ بیٹھ گئی۔
اعوان کے چہرے پر ایک دم ہی خوشی پھیل گئی تھی۔ دونوں خاموش رہے تھے وہ اس کو جلد ہی ایک ریسٹورنٹ میں لے آیا اور ایک سیپریٹ کیبن میں وہ بیٹھ گئے تھے۔
”یہ سب کیا ہے رخ! تم مجھے محبت کرنے کی سزا دے رہی ہو؟“ وہ بیٹھتے ہی شکایتی انداز میں کہنے لگا۔
”ایک ہفتہ ہو گیا اور تم مجھ کو ٹائم نہیں دے رہی ہو  جانتی ہو میں ایک دن بھی تم سے نہ ملوں تو میرا وقت نہیں گزرتا اور تم نے پورا ایک ہفتہ مجھ سے ملے بغیر گزار دیا ہے۔
”میں کیا اس طرح تم سے نہ ملنے پر خوش ہوں اعوان! میری بھی ایسی ہی حالت ہے  مجھے بھی تم سے ملے بغیر کچھ اچھا نہیں لگ رہا ہے۔“ وہ اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر گویا ہوئی۔
”پھر کیا مجبوری ہے؟“ اس نے اس کا ہات تھامتے ہوئے پوچھا۔
”ہے کوئی مجبوری… اب تمہیں کیا بتاؤں؟“
”مجھے نہیں بتاؤ گی تو کس کو بتاؤ گی؟ کوئی نہ کوئی تو ایسی بات ہے جو ہمارے ملنے میں رکاوٹ بن رہی ہے اور میں… ہر رکاوٹ کو ہٹانے کی طاقت رکھتا ہوں رخ! تم ایک بار بتاؤ تو سہی۔
“ وہ محبت سے اس کا ہاتھ تھام کر اصرار کر رہا تھا اور وہ سوچ رہی تھی کس طرح بتائے کہ گلفام کو اس پر شک ہو گیا ہے۔ وہ حیلے بہانوں سے اس کے کالج آنے جانے کی روٹین کی نگرانی کرتا رہتا تھا اور وہ بھلا اتنی آسانی سے اس کی پکڑ میں آنے والی کہاں تھی؟ چکر دے کر اس کی گرفت سے بچ نکلتی تھی مگر اس کے بعد اس نے بہت سوچ کر اعوان سے کچھ دن نہ ملنے کا فیصلہ کر لیا تھام گلفام سے بعید نہ تھا کہ وہ اس کھوج میں خاموشی سے اس کا پیچھا کرنا شروع کر دے۔
”اعوان! محبت میں دوری بھی آنی چاہئے  یہ محبت کو کم نہیں کرتی بلکہ بڑھاتی ہے اور میں چاہتی ہوں ہماری محبت بہت بہت بڑھ جائے اور ہم…“
”کیوں تڑپا رہی ہو؟ جانتی ہو میری محبت کی کوئی حد نہیں ہے تمہاری جدائی میں  میں بیمار ہو گیا ہوں  راتوں کو نیند نہیں آ رہی ہے مجھے۔“ وہ اس کی بات کاٹ کر مخمور لہجے میں گویا ہوا۔
”راتوں کو نیند نہیں آ رہی ہے تو… دن میں سو جایا کرو ناں۔
“ وہ شوخ انداز میں گویا ہوئی تو وہ بھی مسکرا دیا۔
”میری جان پر بنی ہوئی ہے اور جناب کو اٹھکھیلیاں سوجھ رہی ہیں۔“
”کچھ کھانے کو آڈر کرو گے یا باتوں سے ہی پیٹ بھروانے کا ارادہ ہے؟“
”میں تو دیدار یار سے ہی سیراب ہو جاؤں گا  تمہارے لئے آرڈر کرتا ہوں  کیا منگواؤں؟“ وہ مینیو دیکھتے ہوئے گویا ہوا۔
وہ ریسٹورنٹ سے باہر نکلے تھے کہ اعوان سے ایک بیرون ملک سے آیا ہوا دوست ٹکرا گیا۔
”ہیلو!“ وہ کنکھیوں سے آگے بڑھنے والی ماہ رخ کو دیکھتے ہوئے اعوان سے گرم جوشی سے گلے ملا  اعوان کے انداز میں بھی گرم جوشی تھی۔
”کیسے ہو تم؟ کب آئے کینیڈا سے؟“
”کل رات ہی آیا ہوں۔“ پھر رخ کی طرف اشارہ کرکے پوچھا۔
”یہ کون ہے؟“
”اندازہ لگاؤ؟“ وہ مسکرایا۔
”تمہاری گرل فرینڈ ہے اور کون ہو سکتی ہے؟“ وہ اطمینان سے بولا۔
”گرل فرینڈ نہیں… تمہاری ہونے والی بھابی ہے۔“ وہ سنجیدگی سے بولا۔
”اوہ رئیلی! مبارک ہو۔ شی از ویری پریٹی اینڈ گوجز گرل۔“
”تھینکس یار! آؤ میں تمہیں رخ سے ملواتا ہوں۔“ وہ اسے لے کر ماہ رخ کے پاس آ گیا۔ ”رخ! یہ میرا کلوز فرینڈ ہے فاخر خان! ہم نے ایک ساتھ ہی تعلیم حاصل کی اور ہمارا بچپن بھی ساتھ گزرا ہے  مجھے یہ بہت عزیز ہے۔
”ہیلو! آپ سے مل کر اچھا لگا۔“ فاخر نے اس کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے شوخ لہجے میں کہا تھا۔ اس کا بڑھا ہوا ہاتھ دیکھ کر اس نے ہچکچا کر اعوان کی طرف دیکھا تھا۔ جس نے مسکراتے ہوئے رضا مندی سے کہا تھا۔
”ارے یار! ملا لو ہاتھ  یہ میرا دوست ہے  بھائی ہے میرا۔“ اس نے مسکراتے ہوئے اس سے مصافحہ کیا۔
###
طغرل پری کے سخت رویئے کی وجہ جان ہی نہ سکا تھا کہ وہ کیوں اس کے ساتھ اس طرح کا سخت رویہ اختیار کرتی ہے؟
کیوں اس کی بے تکلفی کو وہ معیوب سمجھتی ہے؟ وہ کسی احساس کمتری کا شکار تھی یا احساس برتری کا…؟
وہ رات بھر اسی سوچ میں گزار کر بھی کچھ حاصل نہ کر پایا تھا اور صبح ناشتے پر جب اسے معلوم ہوا کہ وہ رات کو ہی اپنا نانو کے ہاں جا چکی ہے تو اس کا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا تھا۔
ایک دن قبل ہی اس نے ڈرائیور کو واپس کیا تھا اس کی بات مانتے ہوئے اور اب اس طرح اس کا جانا کیا معنی رکھتا تھا۔ اسی سوچ میں وہ سائٹ پر گیا تھا۔ یہاں آ کر کسی کام میں بھی دل نہیں لگ رہا تھا۔ فیاض کے سائٹ سے جانے کے بعد وہ بلاوجہ ہی سڑکوں پر کار دوڑاتا پھرتا رہا اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
پری کیوں گئی؟
کسی طرح بھی یہ سوال حل نہ ہو سکا تو اس نے جیب سے سیل نکال لیا۔
###
وہ بیڈ پر دونوں ہاتھوں کو گھٹنوں کے گرد لپیٹے بیٹھی تھی۔ جب مثنیٰ  عشرت جہاں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی تھیں۔ وہ ان کو دیکھ کر بھی اس طرح بیٹھی رہی تھی۔
”پری! وہاں کسی سے جھگڑا ہوا ہے؟ کسی نے کچھ کہا ہے تمہیں؟“ وہ اس کی پشت پر ہاتھ رکھ کر گویا ہوئی تھیں۔ عشرت جہاں بھی اس کے قریب ہی بیٹھ گئی تھیں۔
”کیا کر لیں گی آپ؟ اگر کسی نے مجھ سے جھگڑا بھی کیا ہو  کسی نے مجھے کچھ کہا بھی ہو تو…؟“ اس نے جھکی نگاہیں اٹھا کر ان کی طرف دیکھا تو وہ نگاہیں جھکانے پر مجبور ہو گئی تھیں کہ کیا کچھ نہیں تھا ان آنکھوں میں…
شکایتیں… گلے… محرومیاں… وہ اس سے نگاہی ملانے کے قابل نہ رہی تھیں۔
”بتائیں مما! آپ وہاں جا کر میری سائیڈ لے سکتی ہیں؟ میری حمایت میں بول سکتی ہیں؟“
”آہ! یہ وقت آ گیا تھا  جس وقت سے بچنے کی انہوں نے ہر ممکن کوشش کی تھی لیکن جو حقیقت ہوتی ہے وہ وقت پر ضرور اپنا چہرہ دکھاتی ہے اور جواب طلب کرتی ہے۔
وہ جواب طلب کر رہی تھی اور ان کے پاس کوئی جواب ہی نہ تھا۔ وقت نے انہیں لاجواب کر دیا تھا اور اتنا بے بس و بے اختیار کہ آج وہ اپنی ہی بیٹی کے آگے نگاہیں جھکائے بیٹھی تھیں۔
”ہونہہ! آپ تو مجھے ہی جواب نہیں دے پا رہی ہیں آگے میری حمایت میں کس طرح کچھ کہہ سکیں گی مما!“ رنجیدہ لہجے میں کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے تھے۔
”کیا بات ہوئی ہے پری! بتاؤ تو سہی میری جان! پھر تم دیکھنا تمہاری مما اور نانو بالکل کمزور نہیں ہیں۔ ہم تمہاری حمایت بھی لے سکتے ہیں اور تمہیں کچھ کہنے والوں کے منہ بھی توڑ سکتے ہیں۔
“ عشرت جہاں نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔
”جب آپ کو اور پاپا کو ساتھ نہیں رہنا تھا تو مجھے دنیا میں لانے کی کیا ضرورت تھی؟“ وہ روتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہہ رہی تھی۔ ”مجھے اس دنیا میں لاکر کس بات کی سزا دی ہے آپ نے اور پاپا نے؟ آپ نے اپنی دنیا الگ بسا لی تو پاپا نے علیحدہ  آپ دونوں کی زندگیوں میں کوئی کمپلیکس  کوئی کمی نہیں آئی۔
آپ کو یہاں سعود کی موجودگی میں میری یاد نہیں آتی ہو گی تو وہاں پاپا کو ایک نہیں تین بیٹیاں مل چکی ہیں۔“ وہ بے ربط انداز میں بولے جا رہی تھی
مثنیٰ کے چہرے پر کئی رنگ تھے  عشرت جہاں بھی گم صم دیکھے جا رہی تھیں اس کی طرف جس کا وہ آج ایک نیا روپ دیکھ رہی تھیں۔
”ایک بندھن توڑ کر دوسرے بندھنوں میں بندھ کر آپ نے نئی دنیائیں آباد کر لی تھیں  فائدہ ہی فائدہ تھا آپ لوگوں کی زندگیاں لاس سے دور رہی تھیں۔
لاس صرف میرے نصیب میں آیا ہے میں وہ پتھر ہوں جو صرف ٹھوکروں کی زد پر رہتا ہے۔“ وہ بری طرح رو رہی تھی۔
”پری! تم پتھر نہیں ہو  تم میری جان ہو  سعود سے زیادہ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔ تم کو چاہتی ہوں  میرا یقین کرو میں جھوٹ نہیں بول رہی  تمہارے معاملے میں کبھی بھی جھوٹ نہیں بول سکتی۔“ وہ بھی بری طرح رو پڑی تھیں۔
”یقین کرو پری! مثنیٰ جھوٹ نہیں بول رہی ہے  یہ تم سے بے حد محبت کرتی ہے  سعود سے زیادہ چاہتی ہے۔“ عشرت جہاں نے اسے گلے لگاتے ہوئے اسے تسلی دی تھی۔ تینوں ہی رو رہی تھیں۔
کئی آنسو تھے…
مسرتوں کے
محرومیوں کے
پچھتاؤں کے

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط