Episode 64 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 64 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

وہ ہوٹل کے ہال میں ساحر کے ساتھ موجود تھی  ٹیبل لوازمات سے بھری ہوئی تھی اس کے انکار کے باوجود اس نے بہت کچھ آرڈر کر دیا تھا اور بڑے اصرار سے اسے ہر ڈش پیش بھی کی تھی اور خود بھی بڑی سخاوت کے ساتھ اس کا ساتھ دیتا رہا تھا۔
”ساحر صاحب! بتایئے نا اعوان سے آپ کے فرینڈز کی ملاقات ہوئی؟ انہوں نے اعوان کو ڈھونڈ لیا ہے؟“ وہ فکر مند لہجے میں اس سے مخاطب ہوئی تھی۔
”جی ہاں  میری ملاقات ہوئی ہے اس سے۔“ وہ سنجیدہ تھا۔
”کیا بات ہوئی ہے؟ وہ کیسے ہیں؟ کب آ رہے ہیں واپس؟“ فرط مسرت سے اس کا چہرہ کھل اٹھا تھا۔
”آپ کافی پئیں نا۔“ وہ عجیب انداز میں گویا ہا۔
”میں یہاں کافی پینے نہیں آئی ہوں ساحر! یہ سب میں نے اس لئے کھایا ہے کہ آپ کہہ رہے تھے کہ کھانے کے بعد آپ مجھے اعوان کے بارے میں بتائیں گے پلیز مجھے بتائیں وہ کب آ رہے ہیں؟ میں بہت مشکل میں ہوں۔

(جاری ہے)

“ وہ خفگی سے گویا ہوئی تھی۔
”آپ ناراض مت ہوں  میں نے یہ سب آپ کو اصرار کرکے اس لئے کھلایا ہے  ابھی جو میں آپ کو حقیقت بتاؤں گا اس کے بعد آپ شاید کھانا پینا چھوڑ دیں گی۔“ اس کے لہجے میں نرمی اور اپنائیت تھی  مگر ماہ رخ کا پریشانی سے چہرہ زرد ہو گیا تھا  دل کی دھڑکن رکنے لگی تھی۔
”کیا حقیقت ہے ساحر! آپ صاف صاف بتائیں  اعوان وہاں خیریت سے تو ہیں؟ پلیز جھوٹ مت کہئے گا مجھ سے۔
”ارے آپ تو زرد ہو گئی ہیں پلیزی کول ڈاؤن۔“ وہ اس کی طرف دیکھ کر پریشانی سے بولا۔
”پلیز ساحر بتائیں میں ہر بات سننے کا حوصلہ رکھتی ہوں۔“
”مجھے آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے پہلے ڈاکٹر…“
”آپ مجھے صرف اعوان کے بارے میں بتائیں آپ نے نہیں بتایا تو میں اس کھڑکی سے چھلانگ لگا دوں گی۔“ وہ جس کھڑکی کے قریب بیٹھے تھے وہ اس کی طرف اشارہ کرکے ہذیانی انداز میں گویائی ہوئی تو ساحر کو اس کی ذہنی کیفیت کا احساس ہوا اور وہ دھیرے سے مسکرا کر گویا ہوا۔
”وہ ٹھیک ہے  زندہ ہے  انجوائے کر رہا ہے۔“
”نہیں کوئی بات ہے جو آپ مجھ سے چھپا رہے ہیں۔“
”پہلے آپ میرے ساتھ باہر چلئے وہاں چل کر بتاتا ہوں۔“ وہ اس کے ساتھ پارک میں آ گیا تھا کیونکہ شام ابھی ہوئی نہیں تھی اور سردی کے باعث وہاں اکا دکا لوگ ہی موجود تھے وہ ایک بنچ پر اس کے ساتھ بیٹھ گیا تھا۔
”اب بتا بھی دیجئے کیوں میرے صبر کا امتحان لے رہے ہیں؟“ چند لمحے وہ اس کی طرف دیکھتا رہا پھر گویا ہوا۔
”وہ آپ سے شادی کرنے کا وعدہ کرکے گیا تھا؟“
”ہاں  وہ اپنے والدین کو راضی کرنے گئے تھے اور اعوان کو یقین تھا وہ اس کی بات مان جائیں گے۔ ہماری شادی میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔“ وہ خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولی۔
”اعوان نے… وہاں شادی کر لی ہے۔“ وہ آہستگی سے بولا۔
”جی نہیں! ایسا نہیں ہو سکتا ہے اعوان میرے علاوہ کسی اور لڑکی سے شادی نہیں کر سکتے  ساحر… آپ کو غلط انفارمیشن ملی ہے۔
اعوان ایسا نہیں کر سکتے  مجھے یقین ہے ان پر۔“ اتنی سخت سردی میں پسینہ پسینہ ہو گئی تھی  بہت ابتر حالت تھی اس کی جیسے سب لٹا بیٹھی ہو۔
”ریلیکس ماہ رخ! میں آپ کی دلی حالت سمجھ سکتا ہوں  جب میں نے سنا تھا بے حد کنفیوژ ہو گیا تھا پھر آپ کی تو بات ہی اور ہے  محبت کی ہے آپ نے اس بے وفا سے۔“ وہ بھی بے حد شرمندہ و نادم دکھائی دے رہا تھا۔
”میری خود بات ہوئی تھی اعوان سے  جب میں نے اسے آپ کے حوالے سے باتیں سنائی تو وہ مجھ سے بھی جھگڑنے لگا تھا اور کہہ رہا تھا میں آپ سے کہہ دوں  اس کو بھول جائیں آپ۔“
”اوہ! میں کیسے یقین کر لوں؟ کس طرح خود کو یقین دلاؤں؟“ جلتی ہوئی خواہشوں کا ڈھیر تھا جو اس کی آنکھوں سے بہنے لگا تھا۔ گلفام کا سیاہ چہرہ  قدیم طرز کا بنا وہ عام سا گھر اور وہ ہی خواہشوں کی چادر میں ملفوف روتی  سسکتی زندگی اسے دکھائی دے رہی تھی اور وہ سسک سسک کر رونے لگی تھی  کیا کچھ نہیں کیا تھا اس نے عالی شان زندگی حاصل کرنے کیلئے اور ہاتھ کیا آیا تھا؟
”پلیز… پلیز ماہ رخ! آپ روئیں مت  آپ کے آنسو مجھے تکلیف دے رہے ہیں۔
اعوان کریکٹر لیس شخص تھا میں جانتا ہوں اس کو بچپن سے  آپ کو اس لئے نہیں بتایا تھا کہ آپ کو جب یقین نہیں آتا۔“
”یقین تو مجھے اب بھی نہیں آ رہا ہے۔“
”میں ایک بات کہوں آپ سے؟“ وہ سنجیدگی سے بولا۔
”کیا کہیں گے آپ ساحر صاحب! آپ کے دوست نے میرے سارے خواب بکھیر دیئے  میری خواہشوں کو بے رنگ کر ڈالا ہے۔“ اس کے اندر ماتم ہو رہا تھا۔
حسرتیں نوحہ کناں تھیں۔
”میں آپ کی خواہشوں میں سچائی کے رنگ بھرنا چاہتا ہوں  میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔“ وہ اس کی طرف دیکھ کر کہنے لگا تھا۔
”آپ اعوان کی بے وفائی کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں؟“
”نہیں  مجھے آپ سے پہلی نظر میں ہی محبت ہو گئی تھی۔“
###
صباحت کو عادلہ سے حقیقت معلوم ہوئی تھی پھر کچھ عادلہ نے اس طرح رو رو کر پری کو پرپوز کئے جانے کی خبر سنائی تھی کہ بیٹی کے آنسوؤں نے ان کے اندر کی سوتیلی ماں کو پوری طرح بیدار کر دیا تھا۔
انہوں نے بھی سوچ لیا تھا اپنی بیٹی کے آنسوؤں کا بدلہ وہ پری کو خوب ذلیل و خوار کرکے لیں گی اور اس کو اتنا زچ کریں گی کہ وہ یہاں سے بھاگتی نظر آئے گی۔
آغاز وہ کر چکی تھیں گو کہ ان کی سازش ناکام ہو گئی تھی۔ مذنہ اور اماں جان نے ہر بات کلیئر کر دی تھی مگر وہ ہار ماننے والی نہ تھیں۔ ان تمام باتوں کو خوب بڑھا چڑھا کر عامرہ اور آصفہ کو فون پر بتا چکی تھیں اور یہاں کی طرح وہ بھی اپنی بیٹیوں کیلئے طغرل کی طرف سے آس لگائے بیٹھی تھیں۔
اس خبر نے ان کو بھی حواس باختہ کر ڈالا اور وہ فوراً ماں کے پاس چلی آئی تھیں اور آتے ہی گلے شکوے شروع کر دیئے تھے۔
”اماں! یہ کیا سنا ہے ہم نے  طغرل پری سے شادی کر رہا ہے؟“ آصفہ کشنز پر کور چڑھاتی پری کو گھورتے ہوئے بولیں۔
”اچھا یہ خبر تم تک بھی پہنچ گئی؟ جب ہی دوڑی دوڑی آئی ہو  ورنہ ماں کی یاد تو تم کو کبھی نہیں آتی ہے۔
”ارے اماں جان! آپ کو ہماری ضرورت ہی کیا ہے آپ کی ساری محبتیں سمیٹنے کیلئے یہ پری ہی کافی ہے  آپ کو ہماری یاد کیا آئے گی۔“ آصفہ کی خونخوار نظریں پری پر ہی جمی تھیں۔
”جب وہ بلا اس گھر سے جا رہی تھی  تب ہی کہا تھا آپ سے اماں کہ اس فتنے کو مت روکیں  دفع کریں اس کو بھی اس کی ماں کے ساتھ مگر آپ نے ہماری ایک نہ سنی اور روک لیا اس فتنے کو اور دیکھ لیں  آج یہ کس طرح ہماری بیٹیوں کے حق پر ڈاکہ ڈال رہی ہے اپنی ماں کی طرح۔
”اپنی زبانوں کو لگام دو تو بہتر ہے تم دونوں  ورنہ مجھ سے پھر شکایت مت کرنا کہ اس عمر میں میں نے تم پر ہاتھ اٹھایا ہے۔ حد ہوتی ہے الزام تراشیوں کی بھی  کیوں تم سب اس بے چاری معصوم بچی کے پیچھے پڑ گئی ہو؟“ اماں کا جاہ و جلال جاگ اٹھا تھا۔
”رہنے دیں اماں! رہنے دیں  نواسیوں کی فکر نہیں ہے آپ کو صرف اور صرف اس کی فکر رہتی ہے آپ کو۔
گھر میں اور بھی پوتیاں ہیں آپ کی  کبھی ان سے آپ نے اتنی محبت نہیں کی۔“
”تم کون ہوتی ہو مجھ سے یہ سب پوچھنے والی؟ ارے میری پری کی جیسی بن کر تو دکھائے کوئی  دن رات خدمت کرتی ہے میری۔“ اس دوران پری شاکڈ بیٹھی تھی۔
”بس اماں!آپ کو اس کی اچھائیاں ہی نظر آتی ہیں۔ وہ جو طغرل کے ساتھ منہ کالا کرکے آئی تھی صبح کے ٹائم  وہ بھی اچھی بات ہے؟ ہمارے خاندان میں ایسا ہوا ہے کبھی؟“
”آصفہ! اللہ کے قہر سے ڈرو کیا اول فول بک رہی ہے  تجھے معلوم ہے کتنا بڑا بہتان لگا رہی ہو تو؟“ اماں حیرت و صدمے سے بیٹیوں کی طرف دیکھتی رہ گئی تھیں اور اس لمحے پری کے جسم میں بھی برق سی دوڑی تھی اور وہاں سے اٹھی تھی اور بھاگتی کمرے سے نکل گئی تھی۔
طغرل جو ابھی آفس سے آ کر اپنے کمرے میں جانے ہی والا تھا جب اس نے پری کو تیزی سے سیڑھیوں کی طرف بھاگتے ہوئے دیکھا تو لمحے بھر کو یہ سمجھ ہی نہیں سکا کہ وہ کیوں بھاگ رہی ہے مگر پھر دوسرے لمحے ہی اسے کسی خطرے کا احساس ہوا تھا۔
وہ ہاتھ میں پکڑا بریف کیس وہیں رکھ کر سیڑھیوں کی طرف بھاگا تھا  وہ سیڑھیاں چھت کی طرف جا رہی تھیں۔
وہ چھت پر گیا تو بارش بہت تیز ہو رہی تھی دھواں دھواں سا بارش کی شدت سے بکھرا ہوا تھا۔
وسیع و عریض چھت پر اس نے دیوانہ وار نظریں دوائی تھیں اور سائیڈ کی باؤنڈری وال پر چڑھتی پری کو دیکھ کر وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھا تھا۔
”کیا کر رہی ہو تم؟ وہاں کیوں چڑھ رہی ہو  گر جاؤ گی؟“
”چلے جائیں آپ یہاں سے  یہ سب کچھ میں آپ کی وجہ سے ہی کر رہی ہوں  میری موت کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔
“ وہ روتے ہوئے اوپر چڑھنے کی کوشش کے دوران چیخی تھی اور طغرل کو اس بھری برسات میں تارے نظر آنے لگے تھے۔
”پاگل ہو گئی ہو تم؟ خود کشی کا مطلب سمجھتی ہو۔“ اس نے تیزی سے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑنا چاہا جو اس نے جھٹکے سے چھڑا لیا تھا۔ باؤنڈری وال خاصی اونچی تھی جس پر چڑھنا اس دھواں دار بارش میں مشکل لگ رہا تھا  مستزاد اس پر طغرل اسے روکنے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ اس سے بچنا چاہ رہی تھی۔
”آپ جب سے پاکستان آئے ہیں میری زندگی آپ نے سزا بنا دی ہے۔“
”اوکے میں واپس چلا جاؤں گا  مگر تم یہ حرام موت مرنے کا ارادہ کینسل کر دو  میں جلد واپس چلا جاؤں گا۔“
وہ دونوں ہاتھوں سے اسے اوپر چڑھنے سے روکنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ دوسرے لمحے وہ اس کے مضبوط بازوؤں کی گرفت میں تھی وہ اس طرح تھامے ہوئے اسے باؤنڈری وال سے دور لے گیا تھا۔
اسی لمحے ہانپتی کانپتی اماں جان وہاں آئی تھیں اور ان کے پیچھے عامرہ  آصفہ  صباحت تھیں۔ جو آنکھیں پھاڑ ان دونوں کو دیکھ رہی تھیں۔
###
جب جب راتیں اپنا آنچل کھولنے لگتی ہیں
کیوں پلکیں اشکوں کے موتی رولنے لگتی ہیں
جب میں تنہا ہوتی ہوں اور کوئی ساتھ نہیں
مٹی گارے کی دیواریں بولنے لگتی ہیں
”پوچھئے دادی جان! اس سے  یہ خود کشی کیوں کرنا چاہتی تھی؟ اگر مجھے ذرا دیر ہو جاتی ان محترمہ کے ارادے بھانپنے میں تو… یہ ابھی عالم بالا پر پہنچ چکی ہوتیں۔
“ اس نے ان کے آگے پری کو دھکیلتے ہوئے غصے سے کہا۔ اماں نے اس کے بارش سے شرابور وجود کو سینے لگا لیا تھا اور روتے ہوئے گویا ہوئیں۔
”یہ کیا کرنے چلی تھی تو؟ تجھے ذرا بھی خیال نہیں آیا اس بوڑھی دادی کا؟ کس طرح صبر کرتی میں  کیا کہہ کر لوگوں کے الٹے سیدھے سوالوں کے جواب دیتی  جو جوان لڑکیاں اس طرح حرام موت مرتی ہیں مرنے کے بعد وہ برے ناموں سے پکاری جاتی ہیں  لوگ کیا کیا باتیں بناتے ہیں  رسوائیوں کے نت نئے خنجر سے گھر والوں کے دل فگار کرتے ہیں۔
”اپنی ماں کی طرح نت نئے ڈرامے کرنے کی عادت ہے اس کو۔“ مثنیٰ نے بھی اسی طرح کے حربے دکھا کر بھائی جان کو الو بنایا تھا۔ عامرہ کے لہجے میں سخت کبیدگی تھی۔
”یہ سب نوٹنکی تمہیں پھانسنے کیلئے کی جا رہی ہے بیٹا! ابھی کچھ دیر قبل تو یہ کمرے میں تھی  جیسے ہی تمہارے آنے کی آہٹ سنی  ویسے ہی یہ کمرے سے نکل کر یہاں چھت پر پہنچ گئی۔
“ آصفہ طغرل کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں۔
مذنہ جو اپنے کمرے میں سو رہی تھیں وہ بھی شور و غل سن کر وہاں پہنچ گئی تھیں اور ناسمجھ انداز میں طغرل کی طرف دیکھ رہی تھیں جو کوٹ سوٹ میں شوز سمیت ان کے سامنے شرا بور کھڑا تھا۔
”پھوپو جان! آپ نے میرے آنے کی آہٹ سنی تھی؟“ وہ سنجیدہ انداز میں ان سے مخاطب ہوا تھا۔
”نہیں  میں نے تو نہیں سنی  اتنی گرج چمک میں کون سنے گا؟“ وہ اس کی بات پر اتنا بوکھلائیں کہ خود ہی اپنے الزام کی نفی کر بیٹھی تھیں ان کی مدد کو آگے بڑھتی ہوئیں صباحت بولیں۔
”آپ کے واپس آنے کا ٹائم تو سب کو ہی معلوم ہے۔“
”آج تو میں بارش کی وجہ سے آفس ٹائم سے پہلے لوٹ آیا ہوں۔“ اس کی بات پر وہ بھونچکاسی رہ گئی تھیں۔
”مجھے بے حد معذرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے  آپ لوگ نہ جانے کیوں پارس کے خلاف ہو گئے ہیں  ابھی پھوپو جان آپ نے کہا یہ میرے قدموں کی آہٹ سن کر چھت پر آئی ہے حالانکہ ابھی آپ نے خود اعتراف کیا اس طوفانی بارش میں قدموں کی آہٹ کوئی نہیں سن سکتا تھا۔
آنٹی! آپ کا خیال ہے پارس میرے آفس سے واپسی کے ٹائم سے واقف ہے اس لئے اس نے یہ وقت چوز کیا  یہ سب ڈرامہ کرنے کیلئے…“ وہ اس وقت وہاں بنے چھجے کے نیچے تھے جو بارش سے محفوظ تھا۔
”میں حلفیہ کہتا ہوں ایسا کچھ نہیں ہے یہ محض اتفاق ہے میں آفس سے آکر کمرے میں جا رہا تھا جب اتفاقیہ میری نگاہ اس پر پڑی اور مجھے محسوس ہوا یہ روتے ہوئے چھت پر جا رہی ہے  گھر میں جو کل سے ٹینشن چل رہی ہے وہ خیال مجھے آیا اور میں فوراً ہی یہاں آیا تو دیکھا یہ محترمہ باؤنڈری وال پر چڑھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
”سن لیا تم لوگوں نے  ٹھنڈک پڑ گئی تمہارے کلیجوں میں یا ابھی بھی کوئی حسرت باقی ہے؟“ دادی جان نے طنزاً کہا۔
”کوئی کچھ بھی کہے اماں جان! ایک بار جس سے اعتماد اٹھ جائے  وہ لاکھ صفائیاں دینے سے بھی واپس نہیں آتا ہے۔“ صباحت ترچھی نگاہوں سے طغرل کو دیکھتے ہوئے گویا ہوئیں۔
”مائنڈ اٹ آنٹی! میں نے صفائی پیش نہیں کی اور نہ ہی میری عادت ہے صفائیاں دینے کی۔
کل جو کچھ آپ نے کہا وہ میں اس لئے چپ چاپ سنتا رہا کہ مجھے انکل کی عزت کا خیال ہے آپ سمجھ رہی ہیں جو آپ نے دیکھا سب ویسا ہی تھا تو یہ آپ کی بھول ہے۔ پارس کل بھی شبنم کے قطروں کی طرح پاکیزہ تھی اور آج بھی ان برستی بوندوں کی طرح پاکیزہ ہے۔“ وہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔
”اماں جان! یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا یہ سب دیکھنے کیلئے ہم پاکستان آئے تھے؟ غیروں میں رہتے ہوئے برسوں گزر گئے اور ہم پر کسی نے انگلی نہیں اٹھائی اور اپنوں میں آئے ابھی زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا اور یہاں میرے بچے کو اس طرح رسوا کیا جا رہا ہے  اس کی بے عزتی کی جا رہی ہے۔
“ مذنہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔
”بھابی جان! آپ دل خراب مت کریں۔“ آصفہ نے آگے بڑھ کر چاپلوسی سے کہا تو عامرہ اور صباحت بھی آگے بڑھ آئی۔
”ہم اپنے بچے کو کیوں رسوا کرنے لگے بھلا  وہ ہمارا خون ہے۔“
”مجھے تو اللہ نے بیٹا دیا نہیں ہے  طغرل کو ہی میں اپنا بیٹا سمجھتی ہوں بھابی! آپ بے فکر رہیں  ابھی طغرل غصے میں ہے  ان کا موڈ درست ہو جائے گا تو میں خود ان سے معافی مانگوں گی۔
“ صباحت نے ان کے ہاتھ تھام کر کہا۔
”مذنہ کا موڈ آف ہی رہا  وہ ان کی باتوں کو نظر انداز کرتی ہوئیں اماں اور پری کے پیچھے چلی گئی تھیں۔
”چل گیا بیٹے کے ساتھ ساتھ ماں پر بھی جادو  دیکھا بھابی کے تیور کس طرح آنکھیں بند کرکے بات کی ہے ہم سے۔“
”جب اماں ہی ہمارا ساتھ نہیں دے رہیں تو کون دے گا عامرہ!“

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط