Episode 76 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 76 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

فیاض بیڈ پر آنکھیں بند کئے نیم دراز تھے جب سے مثنیٰ کی ان سے اتفاقیہ ملاقات ہوئی تھی وہ سب سے کچھ زیادہ ہی تنہائی پسند ہو گئے تھے ان کی نگاہوں میں مثنیٰ کا چہرہ اس کا دھیما باوقار رکھ رکھاؤ گھومتا رہتا تھا شوخ و چنچل  اونچی آواز میں باتیں کرنے والی  بلند قہقہے لگانے والی مثنیٰ کم گو اور سنجیدہ ہو گئی تھی۔
”وہ خوش تھی یا مجھے جتانے کی کوشش کر رہی تھی؟ اگر وہ مجھے چھوڑ کر خوش ہے تو پھر اس کی آنکھوں میں بار بار امڈ آنے والی نمی کیوں تھی؟ جس کو وہ بہت نرمی سے ٹشو میں جذب کرتی تھی  وہ خوش تھی تو اس کے وجود سے ایک اداسی کیوں لپٹی ہوئی تھی؟ وہ مانوس اداسی جو میرے وجود سے بھی لپٹ گئی میرے دل کو بھی اس نے اپنی گرفت میں جکڑ لیا ہے اور جس سے میں شاید آخری سانس تک پیچھا نہ چھڑا پاؤں گا۔

(جاری ہے)

“ ان کی آنکھوں کے گوشوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔
”جب تم مجھ سے جدا ہوئی تھیں تو میں نے شدت سے یہ خواہش کی تھی کہ اب میں کبھی بھی تمہارا چہرہ نہ دیکھ پاؤں کہ مجھے معلوم تھا میں تمہیں دیکھوں گا اور پھر بھول نہ پاؤں گا  ہوا نا ایسا ہی میرے ساتھ  تمہیں دیکھا اور پھر کچھ مجھے اچھا نہیں لگ رہا ہے اور یہ بے اختیاری عمل ہے میں دہرے درد میں مبتلا ہو گیا ہوں  تمہیں کھونے کا دکھ حد سے سوا ہو گیا ہے تو دوسری طرف ضمیر کے کوڑوں کا بھی شکار ہو رہا ہوں  تمہیں یاد کرکے گناہ کا مرتکب ہو رہا ہوں۔
آہ! یہ کیسا مقام ہے میرے لئے تم جو کل تک میرے دل میں دھڑکن کی طرح بستی تھیں  آج میرے لئے شجر ممنوعہ ہو  غیر عورت ہو  بیوی کے ہوتے ہوئے میں غیر عورت کے بارے میں سوچ کر اس کے بھی حق سلب کر رہا ہوں۔“
”فیاض! آپ سو رہے ہیں؟ مگر یہ آنسو بہہ رہے ہیں؟“ صباحت اندر آئیں تو ان کی بند آنکھوں سے بہتے آنسو انہیں چونکا گئے۔
”سر میں درد ہو رہا ہے اس وجہ سے۔
“ وہ آہستگی سے گویا ہوئے۔
”میں چائے اور ٹیبلٹ لاتی ہوں آپ کیلئے…“
”بات سنو، ادھر آؤ۔“ وہ آنکھیں کھول کر گویا ہوئے۔
”جی!“ وہ قریب آئیں تو انہوں نے ہاتھ بڑھا کر ان کو قریب بٹھاتے ہوئے آزردگی سے کہا۔
”مجھے ٹیبلٹ کی ضرورت نہیں ہے اپنے ہاتھوں سے سر دباؤ آرام آ جائے گا  مجھے ضروری تو نہیں ہر درد کیلئے پین کلر ہی کھائی جائے۔
”آپ بھی عجیب باتیں کرتے ہیں ، اب وہ دور نہیں رہے جب بغیر ٹیبلٹ کھائے درد بھاگ جایا کرتا تھا، اب تو کھانا کھائیں یا نہیں کھائیں  میڈیسن تو کھانی پڑتی ہے۔“
”اگر تم سر دبا دو گی تو کیا ہو جائے گا؟“
”مجھ سے سر  پاؤں وغیرہ نہیں دبائے جاتے فیاض۔“ وہ کہہ کر آرام سے وہاں سے چلی گئی تھیں انہوں نے بڑے کرب سے آنکھیں بند کر لی تھیں  ماضی کا ایک دریچہ وا ہو گیا۔
”یار! درد میں آرام آ گیا ہے بس  اب ہٹ جاؤ۔“
”خاموش ہو جاؤ پلیز! مجھے معلوم ہے ابھی آپ کے درد ہے جب یہ ختم ہو گا مجھے معلوم ہو جائے گا  آپ خاموشی سے لیٹے رہیں۔“ مثنیٰ نے بہت نرمی سے ان کے سر کو دباتے ہوئے کہا۔
”تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ کس طرح معلوم ہوگا؟“ اس نے اٹھ کر اس کے دونوں ہاتھوں کو تھامتے ہوئے شوخی سے کہا۔
”میرے دل کو معلوم ہو جاتا ہے۔“ وہ مسکرائی۔
”ہوں  یہ بات ہے اور کیا کیا معلوم ہوتا ہے تمہارے دل کو؟“
”آپ زیادہ باتیں مت بنائیں  لیٹ جائیں میں تیل لے کر آ رہی ہوں  آپ کے مساج کرتی ہوں۔“ وہ بیڈ سے اترتے ہوئے گویا ہوئی تھیں۔
”ایک گھنٹے سے سر دبا رہی تھیں  اب ایک گھنٹہ مساج میں لگاؤ گی  اتنی محنت کرنے سے بہتر ہے ایک پین کلر دے دیا کرو۔
“ وہ اس کا آنچل تھام کر محبت سے گویا ہوئے۔
”جو محبت اور شفاء ہاتھوں میں ہوتی ہے وہ پین کلر میں کہاں۔“ ماضی کی بازگشت ان کی آنکھوں میں پھر نمی بھرنے لگی تھی۔
###
ساحر نے فون پر اس کو وہ حیات بخش خوش خبری سنا دی تھی جس کو سننے کیلئے وہ رات و دن دعائیں مانگ رہی تھی  آج وہ بے حد خوش تھی۔ رات گئے یہ گھر اس کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھوڑ دینا تھا مارے خوشی کے اس کے پاؤں زمین پر ہی نہیں ٹک رہے تھے  وہ تتلی کی مانند پورے گھر میں منڈلاتی پھر رہی تھی  اس کے مزاج میں موجود وہ چڑچڑا پن و بے زاری غائب تھی اس کی اس خوشی کو گھر میں سب نے ہی محسوس کیا تھا۔
وہ چچی کے ساتھ کچن میں کھانا بنانے میں مدد کر رہی تھی  آنگن میں کھانا کھاتے ہوئے فیض محمد نے قریب بیٹھی ہوئی فاطمہ سے جتانے والے لہجے میں مسکرا کر کہا۔
”دیکھو نیک بخت! کتنی خوشی خوشی کام میں لگی ہوئی ہے  تم تو ہر وقت شکایت کرتی رہتی ہو میری بچی کی  دیکھ لو اب کس طرح کام میں مصروف ہے۔“
”میں دشمن نہیں ہوں رخ کے ابا اس کی  بلکہ کوئی ماں اپنی اولاد کیلئے برا نہیں چاہے گی اور جہاں بات بیٹی کی آ جاتی ہے وہاں تو ہر ماں کا دل بے حد گداز ہو جاتا ہے۔
”پھر کیا بات ہے فاطمہ! تم مجھے اداس و غمگین نظر آ رہی ہو۔“
”چند دن میں وہ ہم سے رخصت ہو جائے گی  وداع کر دیں گے ہم اسے اور اسی جدائی نے مجھے دکھی و مضطرب کر رکھا ہے۔“ فاطمہ کے آنسو خساروں پر بہہ رہے تھے۔
”جھلی ہو گئی ہے فاطمہ! ہم اپنی لاڈو کو کون سا میلوں دور وداع کریں گے  رخ ہمارے گھر میں ہماری آنکھوں کے سامنے ہی رہے گی۔
بہت خوش رکھے گا گلفام اس کو  شادی کو ابھی دو ہفتے پڑے ہیں جو کام باقی رہ گیا ہے وہ کر لو  وقت پر یاد آیا تو پریشانی ہو گی  میں صبح مال کے سلسلے میں سندھ جاؤں گا۔“
”تیاری تو ساری ہی مکمل ہے  چھ ماہ سے ہم تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں  وقت پر کچھ رہ بھی گیا تو آ جائے گا۔“
ادھر وہ لوگ ماہ رخ کے بہترین مستقبل کی باتیں کر رہے تھے اور اس طرح ماہ رخ کچن میں چچی کا ہاتھ بٹانے کے ارادے سے نہیں گئی تھی بلکہ وہ ایک پلاننگ کے تحت وہاں موجود تھی  آج رات اس نے اس گھر کو چھوڑ دینے کا ارادہ کر لیا تھا  اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اس نے موقع پاتے ہی ایک دن میڈیکل سٹور سے نشہ آور میڈیسن خرید کر رکھ تھی جو اس نے چچی سے نگاہ بچا کر دودھ میں انڈیل دی تھی کیونکہ گھر میں سب کی عادت تھی رات کو دودھ پینے کی اور گھر والوں کی یہ عادت اس کیلئے نجات دھندہ بن گئی تھی۔
بہت فرمانبردارانہ انداز میں اس نے گلاسوں میں دودھ بھر کر پہلے چچا چچی کے کمرے میں پہنچائے تھے جواباً بہت ساری دعاؤں سے اس کو نوازا گیا تھا پھر وہ ٹرے اٹھائے  امی ابو کے کمرے میں آئی تھی  بہت محبت سے ان کو گلاس پیش کئے تھے۔
”سدا خوش رہو میری بیٹی! اللہ تم جیسی سعادت مند بیٹی ہر والدین کو عطا کرے۔“ ابو نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی۔
لمحے بھر کو اس کا دل کانپ اٹھا تھا  آنکھوں میں اندھیرا سا چھا گیا تھا قبل اس کے کہ وہ لڑکھڑا کر گرتی فاطمہ نے تیزی سے آگے بڑھ کر اسے تھام لیا تھا۔
”سنبھل کر میری بچی! یہاں بیٹھو آؤ میرے پاس۔“ انہوں نے بڑی محبت سے اسے اپنے قریب بٹھاتے ہوئے کہا۔
”یہ دودھ تم پیو  میں اپنے لئے اور لے آؤں گی۔“ انہوں نے شفقت بھرے انداز میں گلاس اس کے منہ کے قریب کیا۔
”نہ… نہیں امی! میں یہ دودھ نہیں پیوں گی۔“ وہ بری طرح گھبرا اٹھی تھی۔
”تم کمزور ہو گئی ہو اب تمہارا خاص خیال رکھنا پڑے گا مجھے۔“ وہ اس کی گھبراہٹ وگریز کو کیونکر جانتی بھلا؟
”نہیں امی! یہ آپ پئیں  میں نہیں پی رہی۔“
”تم کیوں نہیں پی رہی ہو؟“
”ارے نیک بخت! کیوں بچی سے بحث کر رہی ہو؟ وہ اتنی محبت سے لائی ہے تو پی لو۔
رخ کی جب مرضی ہو گی تو پی لے گی۔“ فیض محمد کی مداخلت پر اس کی جان میں جان آئی اور وہ اس وقت تک وہاں کھڑی بے قراری سے ان کو دیکھتی رہی جب تک انہوں نے گلاس خالی کرکے اس کے ہاتھ میں تھما دیئے وہ تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی کچن میں آئی  گلاس اور ٹرے سنک میں رکھ کر وہ دبے دبے قدموں سے چچا اور چچی کے کمرے کی طرف بڑھنے لگی  اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا  ٹھنڈے موسم میں بھی وہ پسینے میں شرابور ہو رہی تھی۔
اسے ایک خوف تھا۔
اسے ایک فکر تھی۔
اگر دوا نے اپنا کام نہیں دکھایا یا انہیں بے ہوش ہونے میں ٹائم لگا تو وہ پھر کبھی بھی اپنی خواہشوں کو نہ پا سکے گی  اس دنیا میں سب سے بڑا دکھ خواہشوں کا پورا نہ ہوتا ہے اور وہ اس دکھ سے مرنا نہیں چاہتی تھی۔
بلی کی چال چلتی ہوئی وہ چچی کے کمرے کی کھڑکی کے قریب پہنچی تھی بے حد آہستگی سے پردہ ہٹا کر اندر جھانکا تھا اور دوسرے لمحے اس کا چہرہ خوشی سے گلنار ہو گیا  اندر کی صورت حال عین اس کی توقع کے مطابق تھی۔
وہ دونوں بے سدھ پڑے ہوئے تھے اس نے اندر جا کر احتیاطاً ان کو ہلا جلا کر دیکھا زیادہ مقدار میں دی گئی دوا نے انہیں بالکل ہی بے سدھ و مدہوش کر ڈالا تھا۔
وہ تیزی سے کمرے سے نکلی  دروازہ بند کرکے باہر سے کنڈی لگا کر وہ امی  ابو کے کمرے میں گئی تھی وہ بے ہوش ہو چکے تھے۔ فاطمہ ڈھے جانے والے انداز میں پلنگ پر پڑی تھی جبکہ فیض محمد کروٹ کے بل لیٹا تھا اور اس کا ایک ہاتھ سرہانے سے لٹک رہا تھا۔
ان کی بے ہوشی سے مطمئن ہو کر وہ آگے بڑھی تھی معاً اس کا آنچل فیض محمد کے لٹکے ہوئے ہاتھ سے پھنس گیا تھا۔
”آہ…“ اس کا گویا دل اچھل کر حلق میں آ گیا  خوف زدہ نگاہوں سے اس نے باپ کے چہرے کی طرف دیکھا مگر وہاں ہوش مندی کے کوئی آثار نہیں تھے  اس چہرے پر مدہوشی طاری تھی  اس نے جھک کر ان کے ہاتھ میں لپٹا اپنا دوپٹہ ہٹایا تو اسے لگا گویا وہ التجا کر رہے ہوں  اپنی عزت کی بھیگ مانگ رہے ہوں  اسے روک رہے ہو  اس کا دل تو گویا اس لمحے پتھر ہو گیا تھا  اس نے ان کے ہاتھ سے دوپٹا ہٹایا اور بنا کسی پچھتاوے اور دکھ کے وہ کمرے سے نکل گئی تھی۔
ایک تھکانے دینے والی
اعصاب کوشل کر دینے والی
جدوجہد کے بعد سنہرا مستقبل اس کو ملا تھا جس کو وہ گنوا دینے کیلئے کبھی بھی تیار نہ تھی  یہاں بھی اس نے دروازے کے باہر سے کنڈی لگائی تھی اور پرسکون انداز میں اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی جہاں اسے ایئر پورٹ جانے کی تیاریاں کرنی تھیں  وقت بھی اس کا ساتھ دے رہا تھا  جو آج گلفام کراچی سے باہر گیا تھا۔

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط