Episode 87 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 87 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

وہ حبشی عورت اس کو ایک بے حد شاندار کمرے میں لے آئی تھی، بھاری پردوں سے ڈھکا، بیش قیمت قالین اور فرنیچر سے آراستہ اس کمرے میں نامعلوم کون کون سی خوشبوئیں مہک رہی تھیں، وہ مبہوت نگاہوں سے ہر شے کو تک رہی تھی۔ ہر چیز پر خواب کا گماں ہو رہا تھا وہ عورت بہت نرم انداز میں اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹیچڈ باتھ روم کی طرف لے گئی تھی، ملازمہ کو اس کا ہاتھ پکڑ کر باتھ روم تک اس لئے لانا پڑا کہ وہ پارکنگ لاٹ سے یہاں بیڈ روم تک آنے میں کافی وقت ضائع کر چکی تھی اور ہر جگہ کو اس نے رک رک کر خوابناک نظروں سے دیکھا تھا پھر اس بیڈ روم میں آکر اس کی حیرتیں انتہا کو پہنچ گئی تھیں اگر ملازمہ اس کو ہاتھ پکڑ کر باتھ روم تک نہ لاتی تو ممکن تھا، حیرت کی زیادتی سے وہ بے ہوش ہو جاتی، ہر سمت خوشبوئیں اور روشنیاں بکھری ہوئی تھیں۔

(جاری ہے)

نیم گرم مہکتے پانی سے اس نے باتھ لیا تھا۔ وہ نکلی تو ملازمہ نے اس کو سنوارنا شروع کر دیا تھا، آف وائٹ جھلملاتے سوٹ میں گولڈ جیولری میں اس کے حسن کی کہکشاں بکھر رہی تھی۔
”اوہ گاڈ! یہ میں ہوں… اتنی حسین… اس قدر خوبصورت! آج میرے چہرے پر میری نگاہیں نہیں ٹک رہی ہیں۔ میں خود کو ہی نگاہ بھر کر نہیں دیکھ پا رہی ہوں تو… آج ساحر کا کیا حال ہوگا؟ وہ کس طرح خود کو میرے حسن کے سحر سے بچا پائے گا۔
“ ملازمہ کے جانے کے بعد وہ قد آور آئینے کے سامنے کھڑی اپنا جائزہ لیتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ وہ بے حد خوش تھی مسرت سے اس کے ہونٹ کھلے جا رہے تھے۔ دل بھر کر اس نے اپنا روپ دیکھا تھا پھر دور تک پھیلی ہوئی میکسی کو ہاتھوں سے پکڑ کر وہ اٹھی اور دھیرے دھیرے چلتی ہوئی بیڈ پر جا پہنچی اسی دم ملازمہ ٹرالی میں کھانے کی مختلف ڈشیں لے آئی تھی، کھانا اس کیلئے نیا مگر بے حد مزے دار تھا اس نے سیر ہو کر کھایا تھا پھر نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے کرتے وہ بے سدھ ہو کر وہیں گر گئی تھی۔
بے ہوشی کا وہ سلسلہ نامعلوم کتنے عرصے پر محیط رہا تھا اس نے آنکھیں کھولیں تو ذہن بیدار نہ تھا عجیب سی جسم و جاں کی کیفیت تھی وہ ساکت نظروں سے کئی لمحوں تک چھت پر آویزاں بیش قیمت فانوس کو تکتی رہی جو اس وقت روشنیوں سے محروم تھا۔ خاصی دیر تک فانونس کو تکنے کے بعد آہستہ آہستہ اپنے بے حس و حرکت وجود کو حرکت دی تھی اور آہستگی سے گردن گھما کر برابر میں رکھے تکیے کو دیکھا تھا۔
وہ اس وقت وہاں نہیں تھا البتہ چادر کی شکنیں اور تکیے کا معمولی سا بے ترتیب انداز بتا رہا تھا۔ کچھ دیر قبل وہ یہاں موجود تھا۔ اس کے ذہن میں بیداری نے دستک دینی شروع کر دی تھی۔ گزرے وقت کی کچھ پرچھائیاں اس کے ذہن میں گڈ مڈ ہونے لگی تھی، نامعلوم کیا ہوا تھا؟ کیسی نیند اس پر طاری ہوئی تھی کہ بہت یاد کرنے پر بھی کچھ واضح نہیں ہو رہا تھا۔
گزرے وقت میں ساحر اس کے قریب تھا مگر… وہ کیسی اندھی قربت تھی جو اس کی سانسوں میں اپنا لمس نہ تک چھوڑ سکی تھی۔
###
مسز عابدی حساس عورت تھیں وہ جوان و اکلوتے بیٹے کی بگڑی روش و ہٹ دھرمی برداشت نہ کر پائی تھیں ایک ہفتے سے وہ بیڈ پر تھیں عابدی ان سے از حد محبت کرتے تھے وہ ان کی خاطر آفس سے بھی غافل ہو گئے تھے اور ہر وقت ان کے پاس موجود تھے، شیری بھی گاہے بگاہے ان کے پاس آتا رہتا تھا۔
دونوں بیٹیاں بھی روز ہی ان کی عیادت کو آرہی تھیں، مسز عابدی کی مسرت و دکھ سے آنکھیں بھیگ بھیگ جاتی تھیں جب وہ دیکھتی کہ اکلوتے بیٹے سے زیادہ ان کی بیٹیاں ان پر جان چھڑکتی تھیں اور شیری کے دو ہی معمولات تھے۔ کھڑے کھڑے ان کے کمرے میں خیریت دریافت کرنے آتا تھا پھر وہ بیڈ روم میں بند ہو جاتا یا کار لے کر لانگ ڈرائیور پر نکل جاتا تھا۔
”میں پہلے سے بہتر ہوں عابدی! بہت جلد ٹھیک ہو جاؤں گی، آپ آفس چھوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں کیوں اتنی فکر کر رہے ہیں میری؟“ وہ تکیوں کے سہارے نیم دراز ان سے کہہ رہی تھیں۔
”تم بزنس کی پروا مت کرو، میں تمہیں صحت مند دیکھنا چاہتا ہوں۔“ وہ میگزین کا مطالعہ کرتے ہوئے محبت بھرے لہجے میں گویا ہوئے۔
”میں ٹھیک ہو گئی ہوں، بس کچھ کمزوری محسوس ہو رہی ہے، یہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی۔“ وہ آہستگی سے کہہ رہی تھیں۔
”ضرور ختم ہو جائے گی، اب تم کو کوئی اسٹریس کی ضرورت نہیں ہے، شیری کو اس کی مرضی پر چھوڑ دو، وہ کیا کرتا ہے، کیوں کرتا ہے؟ تمہیں پروا نہیں کرنا چاہئے، وہ بچہ نہیں ہے جس کو انگلی پکڑ کر ہم چلنا سکھائیں گے، سمجھائیں گے۔
وہ آگ کو نہ چھوئے جل جائے گا۔“ وہ ان کی طرف دیکھ کر سنجیدگی سے کہہ رہے تھے۔
”بچہ ہے وہ ابھی… ایک عرصہ ہم سے دور بھی رہا ہے۔“
”اس کی بہتری کیلئے ہوا ہے یہ سب اور وہ جوان ہو چکا ہے۔ میں یہ نیکسٹ ٹائم کسی صورت برداشت نہیں کروں گا، تم بے وجہ باتوں میں الجھ کر بیمار پڑ جاؤ اور میری زندگی بے رنگ ہونے لگے، میں ہر رشتے سے بڑھ کر چاہتا ہوں تمہیں۔
”مجھے آپ کی محبت پر شک نہیں مگر…“
”اگر مگر میں نہیں جانتا۔“ انہوں نے قریب بیٹھتے ہوئے محبت سے کہا تھا۔
###
طغرل اور مذنہ کے آنے پر جتنی گھر میں رونق اور چہل پہل تھی ان کے جانے پر گھر میں اتنی ہی اداسی و خاموشی پھیل گئی تھی۔ دادی کی نمازوں میں رکوع و سجود طویل ہو گئے تھے، وہ دادی جان کیلئے چائے بنا کر لائی تو وہ گویا ہوئیں۔
”فیاض آیا تھا ابھی میرے پاس۔“
”کیا کہہ رہے تھے پاپا؟“ وہ چائے ان کو دینے کے بعد اپنی چائے کا مگ لے کر ان کے قریب ہی بیٹھ کر گویا ہوئی۔
”بتا رہا تھا عابدی کی بیوی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ اب طبیعت بہتر ہوئی ہے عابدی اور اس کی بیوی چاہتی ہے ہم لوگ آج رات کو کھانا ان کے گھر کھائیں۔“
”اچھا پھر آپ نے کیا کہا، پاپا کو دادی جان؟“
”میں نے تو منع کر دیا کہ میں کہاں جا پاؤں گی، گھٹنوں میں درد کی وجہ سے گھر میں ہی چلنا پھرنا دشتوار ہو گیا ہے اور میری دیکھ بھال کیلئے پری گھر میں رہے گی۔
“ اس کے چہرے پر بے اختیار ہی آسودگی پھیلی تھی وہ مسکرا کر بولی۔
”پھر پاپا مان گئے ہوں گے آپ کی تکلیف کا سن کر۔“
”نہیں۔“ دادی اس کی طرف دیکھ کر گویا ہوئی تھیں۔ ”وہ کہنے لگا اماں زیادہ ٹائم نہیں لگے گا وہاں پر عابدی بھائی اور بھابی نے بہت محبت سے کھانے پر بلایا ہے، ان کو انکار کرنا مناسب نہیں ہے اور انہوں نے خصوصی طور پر مجھے بلوایا ہے۔
”اوہ! لیکن دادی میں تو نہیں جاؤں گی وہاں پر۔“ اس کے لہجے میں قطیعت تھی دادی نے چائے کا سپ لیتے ہوئے غور سے اس کی طرف دیکھا تھا جس کا چہرہ کھلی کتاب کی مانند تھا اور جس پر ہر تحریر نمایاں تھی۔ اس کے انکار کے کیا معنی تھے یہ وہ بخوبی جانتی تھیں۔
”اچھا مت جانا ایسا کرو اپنی نانو کو فون کرکے کہو وہ ڈرائیور کو بھیجے تم وہاں چلی جاؤ ابھی، میں فیاض سے خود بات کر لوں گی۔
”میں تمہیں گھر میں تنہا چھوڑ کر نہیں جا سکتی میری بچی! ویسے بھی تم مذنہ اور طغرل کی وجہ سے بہت کم گئی ہو اپنی نانو کے پاس اسی بہانے وہاں رہ کر آ جاؤ گی، کچھ آرام بھی ملے گا تم کو۔“
”میں جانتی ہوں آپ ابھی طغرل بھائی کو بے حد یاد کر رہی ہیں، ابھی ان کو گئے ہوئے ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا اور آپ…“
”تم ہو میرے پاس پھر بھلا میں کسی کو اتنا یاد کیوں کروں گی۔
رہی بات طغرل کی تو وہ روز فون پر بات کرتا ہے، کل تو مجھ سے فراز نے بھی بات کی تھی۔“ وہ اس کی بات قطع کرکے بولیں۔
”فراز تاؤ سے آپ کی بات ہوئی، میں کہاں تھی اس وقت؟“
”تم سو گئی تھیں اور میں دوسرے کمرے میں تھی اس لئے نہ تم تک آواز آئی اور نہ میں تمہیں اٹھا سکی تھی۔“
”کیا کیا باتیں ہوئیں تاؤ سے؟“ وہ دادی کی طرف غور سے دیکھ رہی تھی اس جستجو میں کہیں ان کو فراز کی خرابی طبیعت کا معلوم تو نہیں ہو گیا ہے؟
”دعا سلام اور خیر خیریت ہی معلوم ہو سکی، سانس بہت پھول رہا تھا اس کا فوراً طغرل نے فون لے لیا تھا اپنے باپ سے، میں نے اس سے پوچھا بھی تو کہنے لگا ڈیڈی جاگنگ سے آئے ہیں تو اس وجہ سے ان کا سانس پھول رہا ہے آپ پریشان مت ہوں۔
”ہوں… یہ بات تو ہے تاؤ جوگنگ بہت کرتے ہیں۔“
”مجھے اس کی آواز میں بہت کمزوری محسوس ہو رہی تھی اس کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی مجھے شاید مجھ سے کچھ چھپایا جا رہا ہے پری۔“ وہ اس کی طرف دیکھ کر بے چارگی سے بولی تھیں۔ پری نے ان کے ہاتھ سے خالی مگ لے کر سائیڈ ٹیبل پر رکھا پھر ان کے قریب بیٹھ کر اپنائیت بھرے لہجے میں گویا ہوئی۔
”ایسی کوئی بات نہیں ہے دادی جان! آپ کو سب اتنا چاہتے ہیں۔“
”ہاں جانتی ہوں میں، تم تیاری کرو اور ساتھ میں میرا بھی کوئی سوٹ نکال دو، رات کو بدل کر جانے کیلئے فیاض نے کبھی بھی اس طرح اصرار نہیں کیا کہیں لے جانے کیلئے جس طرح عابدی کے ہاں جانے کیلئے کر رہا ہے مجھے تو لگتا ہے جیسے…“
”کیا لگتا ہے آپ کو دادی جان؟“ ان کے کچھ کہتے کہتے خاموش ہونے پر وہ پریشانی سے گویا ہوئی۔
”فیاض عابدی سے دبا دبا رہنے لگا ہے حالانکہ دونوں کا کاروبار میں برابر کا حصہ ہے پھر نہ جانے کیوں فیاض عابدی کو بہت زیادہ اہمیت دینے لگا ہے گویا وہ اس کا محکوم بن گیا ہو۔“
”دراصل دادی جان! پاپا کے مزاج میں عجز اور انکساری حد درجہ بڑھ گئی ہے آپ کو اس وجہ سے ایسا محسوس ہوا ہوگا۔“
”اللہ کرے ایسا ہی ہو، میرے خدشے بے بنیاد ثابت ہوں سب۔
“ اس نے صدق دل سے آمین کہا تھا اور اٹھ کر وارڈ روب سے دادی اماں کا سوٹ نکالا تو سوٹ کے ساتھ ہی ایک وائٹ لفافہ اس کے ساتھ آیا تھا اس نے حیرت سے اس کو دیکھا تو اس پر لکھا تھا۔
”سویٹ دادی جان کیلئے۔“ نیچے طغرل فراز کے سائن تھے وہ بھاری لفافہ لے کر ان کے پاس چلی آئی تھی۔
”دادی! یہ آپ کے کپڑوں کے درمیان سے نکلا ہے۔“
”کس کا ہے اور کیا ہے اس میں؟“ ان کو اچنبھا ہوا تھا۔
”طغرل بھائی کے سائن ہیں اس پر اور یہ آپ کیلئے ہے۔“ اس نے ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا‘ دادی نے لفافے پر اپنا نام دیکھا اور واپس اس کی طرف بڑھاتے ہوئے گویا ہوئیں۔
”کیا ہے اس میں، ذرا کھول کر تو دیکھ پری۔“ پری نے لفافہ کھولا تو پانچ پانچ ہزار کے نوٹوں کی گڈی اس کے ہاتھ میں در آئی تھی وہ حیرت سے ان نوٹوں کو دیکھ رہی تھی۔
”ارے اتنے سارے نوٹ! طغرل نے یہ کیا حرکت کی بھلا؟“ پری نے نوٹوں کی گڈی ان کے ہاتھ پر رکھی تو وہ ہکا بکا انداز میں گویا ہوئی تھیں، وہ رقم لاکھوں میں تھی۔
”میں نے تو کبھی اس پر ظاہر ہی نہ ہونے دیا کہ… تنگدستی کے سائے کس طرح سے ہم کو جکڑے ہوئے ہیں، ہمیشہ اس کے اور مذنہ کے سامنے بھرم قائم رکھے ہوئے تھی اور پھر بھی دیکھ ذرا میرے بچے کس طرح میرح حال سے باخبر ہو جاتے ہیں۔ یا اللہ تیرا شکر و احسان ہے جو تو نے ایسی صالح و نیک اولاد اور اس کی اولاد عطا کی ہے۔“

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط