Episode 94 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 94 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

”آپی! کیا معیار بن گیا ہے اس دور میں ہم لوگوں؟ مضبوط بینک بیلنس، کوٹھی، بنگلے اور اچھا کاروبار دیکھتے ہیں اپنی بیٹیوں کے لیے عمدہ اخلاق، اعلیٰ خاندان اور اچھا کردار ہو لڑکے کا یہ ہماری خصوصیات میں سے خارج ہو گیا ہے۔“
صباحت کی چھوٹی بہن زینب نے ان کی خواہشات سننے کے بعد افسوس بھرے لہجے میں کہا تھا۔
”تم بھی زینب! بہت ہی عجیب باتیں کرتی ہو خوش رہنے کے لیے سب سے زیادہ اہم ہے روپیہ! اب تم خود کوہی دیکھ لونا، تمہارے پاس دولت ہے یہ بڑا بنگلہ ہے، سراج کا بزنس ہے، نوکروں کی فوج ہے جو چاہتی ہو وہ ملتا ہے تمہیں۔
“ صباحت جیسی مادیت پسند عورت کو چھوٹی بہن کے خیالات اور سوچ سے اختلاف ہوا، وہ تڑخ کر بولیں۔
”پایا اور مما کا فیصلہ غلط تھا؟ کیا سراج کے علاوہ کوئی اور تم کو اس قدر پر آسائش زندگی دے سکتا تھا؟ زینب! میری بھی یہی خواہش ہے میری بیٹیاں بھی اس طرح عیش بھری زندگی گزاریں اپنے وقت کو بے فکری سے گزاریں جس طرح تم گزارتی ہو!“
”جس طرح میں گزارتی ہوں…؟“ ایک دکھ بھری مسکراہٹ سے اس نے صباحت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

(جاری ہے)

”ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی ہے آپی۔“
”یہ تو نگاہ نگاہ کی بات ہے سونا اور پیتل پر کھنا خوب آتا ہے مجھ کو اب دیکھو کس طرح سے بھابی صاحبہ کو شیشے میں اتارا کہ وہ ناچاہتے ہوئے بھی فاخر کو عائزہ سے منسوب کر بیٹھی ہیں۔“
”فاخر! ماشاہ اللہ بے حد پر خلوص اور کلچرڈہے عائزہ کو بے حد خوش رکھے گا۔“ بھتیجے سے وہ بے حد محبت کی تھیں۔
”ارے شہریار بھی بے حد مہذب اور پیار کرنے والا لڑکا ہے بلکہ فاخر سے زیادہ دول مند ہے وہ تم دیکھنا عنقریب عادلہ کے بھی نصیب کھلنے والے ہیں۔“
”چلیں آپی! اچھا ہے عادلہ عائزہ جلد اپنی گھروں کی ہو جائیں تو آپ پر صرف پری کی ذمہ داری رہے گی۔“
”آپ اس کو اب تک قبول نہیں کر سکی ہیںآ پی؟“
”وہ میری شون کی بیٹی ہے۔“
”وہ فیاض بھائی کی بھی تو بیٹی ہے۔
”یہی بات مجھے آج تک برداشت نہیں ہوتی، اس لڑکی کو دیکھ کر مجھے یاد آتا ہے فیاض کا تعلق ایک دوسری عورت سے بھی رہا ہے، میری تقدیر میں اس بدذات مثنیٰ کی اترن لکھی تھی۔‘
”افوہ! اس نیگیٹویٹی سے پیچھا چھڑالیں آپی! کچھ نہیں رکھا ان باتوں میں پھر فیاض بھائی کا تعلق مثنیٰ سے جائزہ تھا، ناجائز نہیں۔ نکاح کے بندھن میں بندھے تھے وہ ایک عالم کے سامنے شادی ہوئی تھی ان کی پری کی پیدائش پر کتنی خوشیاں منائی گئی تھیں۔
”تو بہ بھئی! کیسی درد بھری باتیں یاددلا رہی ہوزینب! کیسے خون کے آنسو روتی تھی میں ان کو خوش دیکھ کر خیر دفع کرو تم تو اجنبی دیس میں رہ کر خود بھی اجنبی بن گئی ہو عائزہ اور عادلہ کو لے کر نہیں آئی تو اچھا ہی ہوا۔ تمہاری باتیں سن کر کیا سوچتیں دونوں؟“
###
عائزہ راحیل کے ساتھ اس کے گھر پر موجود تھی راحیل بگڑے موڈ سے بیٹھا تھا۔
عائزہ اسے منانے کے لیے ہر حربہ استعمال کر کے نڈھال ہو گئی تھی۔
”پلیز راحیل! اب ناراضگی دور بھی کر دو میں نے کان پکڑ کر معافی مانگ لی ہے پھر بھی تم مجھے معاف کرنے کو تیار نہیں ہو۔“
”اتنے دنوں بعد آئی ہو تمہیں احساس نہیں تھا میرا؟“
”احساس تھا مجھے سب جانتی تھی میں لیکن کیا کروں بہت مجبور تھی آنے کا چانس ہی نہیں بن رہا تھا۔
جانو! تم یہاں بے قرار ہو رہے تھے تو میں بھی تم سے ملے بغیر بن جل کی مچھلی کی مانند تڑپ رہی تھی۔“ اس نے لگاوٹ بھرے انداز میں اس کے شانے پر سرٹکاتے ہوئے کہا۔ راحیل اس کے اس انداز پر مسکرا کر گویا ہوا۔
”ہوں، اگر اسی طرح مناتی رہیں تو میں مان جاؤں گا۔“ اس نے عائزہ کو قریب کرتے ہوئے جذباتی لہجے میں کہا۔
”زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہے، اپنی حد میں رہو۔
“ وہ مسکراتی ہوئی اس کی گرفت سے نکلی اور دور ہو کر بیٹھ گئی۔
”یہ فاؤل ہے جان! میں تمہاری قربت کے لیے ترس رہا ہوں اور تم میری پرواہی نہیں کر رہی ہو یہ کیسی محبت ہے۔“
”تم میری مجبوری سمجھنے کی سعی تو کرو راحیل! جو تم چاہتے ہو وہ ابھی ممکن نہیں ہے، تمہیں انتظار کرنا پڑے گا اس وقت تک جب تک ہماری شادی نہیں ہو جاتی ہے۔“ وہ اٹل انداز میں بولی۔
”ہو جائے گی شادی بھی، تم میرا موڈ آف نہ کرو، اس دور میں سب چلتا ہے، ویسے بھی یہ شادی وادی سب پرانی رسمیں ہیں۔ بلاوجہ پیسہ اور وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے یہ سب۔“ اس کے انداز میں ذرا بھی شرمندگی نہیں تھی بلکہ وہ بڑے جار حانہ انداز میں عائزہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”پلیز راحیل! میں اپنے باپ کی عزت کو مٹی میں نہیں ملا سکتی، تم مجھے مجبور مت کرو، میں تمہاری یہ خواہش پوری نہیں کروں گی۔
”تم مجھ سے ملنے آتی ہو جب تم کو باپ کی عزت کا خیال نہیں آتا؟ ایک ٹائم سے میرے ساتھ گلچھڑے اڑارہی ہو، تم تو گھر بھی چھوڑ کر آگئی تھیں وہ تو بیڑہ غرق ہو تمہارے اس کزن کا جس نے عین موقع پر رنگ میں بھنگ ڈال دیا تھا۔“ وہ اس کے پاس آکر دھونس بھرے لہجے میں بولا۔
”ہر بار تم اپنی بہن کو ساتھ لے کر آتی تھیں اور میں برداشت کر جایا کرتا تھا مگر آج تم کو میری بات ماننی ہو گی۔
”میں اتنی مشکل سے تم سے ملنے آئی ہوں، ممی خالہ سے ملنے گئی ہیں، عادلہ آنے نہیں دے رہی تھی اور یہاں تم اپنی فضول ضد منوانے کی کوشش کر رہے ہو مجھ سے۔“
”یہ ضد نہیں محبت ہے جانم! آج موقع ملا ہے ہمیں محبت کرنے کا پھر کس طرح میں اس کو ضائع کردوں؟ میں تمہارے پیار میں مر رہا ہوں، تڑپ رہا ہوں اور تم ہو کہ میری محبت کا مذاق بنا رہی ہو۔
“ وہ اٹھ کر اس کے قریب چلا آیا اور اسے قریب کرنے لگا تھا۔ عائزہ نے گھبرا کر اس کے بڑھے ہوئے ہاتھوں کو جھٹکا اور کھڑی ہو گئی تھی اس کے چہرے پر خوف سرایت کر چکا تھا۔
”ہوش میں تو ہو تم راحیل! تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے؟“
راحیل کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ ”بہت تمہارے ساتھ میں نے رعایت کی ہے، بہت بچایا ہے میں نے تمہیں خود سے مگر اب نہیں بچ سکو کی، میں اس پار سائی کے کھیل سے تنگ آگیا ہوں، بہتر اب یہی ہے تم بھی سیدھی طرح میری بات مان لو۔
“ عائزہ کے لیے وہ آج ایک بالکل اجنبی اور بُرا شخص تھا، یہ وہ تو نہیں تھا جس نے اس کے ساتھ ہر دم ساتھ نبھانے کے وعدہ کیے تھے، زندگی بھر وفا نبھانے کی قسمیں کھائی تھیں۔ یہ سامنے کھڑا شخص جس کی آنکھوں میں ہوس تھی، جس کے چہرے پر گندگی تھی، جس کے مکروہ ارادوں نے اس کو عفریت بنا دیا تھا۔
”تم…تم مجھے ایسی گری ہوئی لڑکی سمجھتے ہو؟“ کمرا چھوٹا اور نیم اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، عائزہ کو کوئی جائے فرار دکھائی نہ دے رہی تھی اور وہ بہت اطمینان سے اس کے نزدیک آرہا تھا۔
”تم خود کو نیک پروین سمجھنا چھوڑ دو عائزہ بیگم! جو لڑکی گھر سے بھاگ سکتی ہے، تنہا اپنے بوائے فرینڈ سے ملنے آسکی ہے تو وہ لڑکی عزت دار کس طرح ہوئی؟ کس طرح گواہی دو گی تم اپنی پاکیزگی کی ، ہوں بتاؤ؟ کس طرح یقین کر لوں کہ میرے علاوہ تم کسی اور سے ملتی نہیں رہی ہو؟“ اس نے ہنستے ہوئے خباثت بھرے لہجے میں کہا۔
یہ لہجہ……یہ انداز……عائزہ کے چودہ طبق روشن ہو رہے تھے، یہ مرد اس کا آئیڈیل مرد تھا، جس کے پیچھے وہ آنکھیں بند کر کے بھاگتی رہی تھی، ممی، عادلہ اور طغرل ہر ایک نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی اور ممی نے اس کی ماں کی تمام ہسٹری بتا دی تھی اور وہ خود بھی راحیل کے کوائف سے واقف تھی، چوری وڈکیتی، شراب و شباب ہر برائی اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور وہ سوچتی تھی شادی کے بعد وہ راحیل کو بدل دے گی، وہ اس کی محبت میں سب برائیاں چھوڑ کر ایک اچھا انسان بن جائے گا۔
”تم اچھی طرح جانتے ہو راحیل! میری زندگی میں تمہارے علاوہ کوئی بھی نہیں ہے، میں نے صرف تم سے ہی محبت کی ہے۔“
”میں بھی تو محبت کی ہی بات کر رہا ہوں۔“ اس نے مسکراتے ہوئے لہجہ چینج کیا اور ساتھ جست لگا کر عائزہ کو گرفت میں لیا تھا، عائزہ چیختی ہوئی اس کی گرفت سے نکلنے کی سعی کر رہی تھی کہ اچانک راحیل کے سر پر ایک قیامت ٹوٹی تھی۔

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط