Episode 99 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 99 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

”صاف صاف بتاؤ اصل ماجرا کیا ہے۔ صباحت بیگم! عائزہ کو کیا ہوا ہے ؟ وہ بے حد اسٹرونگ ول پاور کی مالک ہے کسی چھوٹی موٹی بات سے اس طرح بے ہوش ہونے والی نہیں ہے “وہ کمرے میں مسلسل ٹہل رہے تھے صباحت وہاں آئیں تو فیاض نے ان سے سخت لہجے میں دریافت کیا۔ 
”صاف صاف ہی تو بتایا ہے آپ کو ، وہ اپنی فرینڈ کے ہاں سے آتے ہوئے کسی سے ڈر گئی ہے “انہوں نے بمشکل کہا۔
 
”کس فرینڈ کے ہاں گئی تھی ؟اس کا نام اور ایڈریس دو میں وہاں جاکر معلوم کرتا ہوں ساری حقیقت “
”وہ…وہ رومیصہ کے گھر گئی تھی ، وہ لوگ گھر پر نہیں ہیں “
”رومیصہ…فیصل صاحب کی بیٹی…“وہ چونک کر گویا ہوئے تھے صباحت گردن ہلاتے ہوئے بولیں۔ 
”جی…وہ عائزہ کی کلوز فرینڈ ہے “
”تم یقین سے کہہ رہی ہوں عائزہ وہاں ہی گئی تھی ؟“
”میں جھوٹ کیوں بولوں گی بھلا؟رومیصہ کل شام یہاں تھی آج اس نے عائزہ کو اپنے گھر بلالیا تھا، میں زینب کے گھر جاتے ہوئے اسے رومیصہ کے گھر چھوڑ گئی تھی “فیاض صاحب سخت اشتعال میں تھے ان کے موڈ کو دیکھ کر صباحت سخت خوفزدہ تھیں لیکن یہاں عائزہ کا معاملہ اتنا گھمبیر تھا کہ وہ سچائی ان کو بتادیتیں تو وہ عائزہ کو شوٹ کرنے سے بھی دریغ نہ کرتے اور اس طرح پورا گھرانہ نہ صرف تباہ ہوجاتا بلکہ رسوائی بھی ہمیشہ کے لیے ان کا مقدر بن جاتی جو وہ برداشت نہیں کرسکتی تھی، اسی سبب وہ جھوٹ در جھوٹ بولنے کی مرتکب ہورہی تھیں۔

(جاری ہے)

 
”مجھے تمہاری باتوں سے جھوٹ کی بُو آرہی ہے صباحت!ابھی بھی وقت ہے تم مجھے سچ سچ بتادو وگرنہ میں معاف نہیں کروں گا “وہ ان کے قریب آکر ایک ایک لفظ جما کر کہہ رہے تھے ۔ 
”آپ میری بات سمجھ کیوں نہیں رہے ہوفیاض!کیا مجھے اپنی بیٹی کی فکر نہیں ہے؟ کیا عائزہ مجھے عزیز نہیں ہے ؟“
”میرے سامنے یہ مگر مچھ کے آنسو بہانے کی ضرورت نہیں ہے، تم کو صرف بیٹی کی فکر ہے اور مجھے اپنی عزت کی فکر ہے اپنے خاندان کا وقار اور بیٹیاں عزیز ہیں مجھے سمجھیں تم؟“
”ایسا کچھ نہیں ہوا ہے آپ خواہ مخواہ بات بڑھارہے ہیں “
”زبان سے جیتنا تمہاری پرانی عادت ہے صباحت! لیکن اس بار معاملہ میری عزت کا ہے میں چپ ہو کہ بیٹھنے والا نہیں ہوں، اصل معاملے کی تہہ تک جاؤں گا میں “وہ کہہ کر کمرے سے نکل گئے تھے۔
 
صباحت کا چہرہ زرد ہوگیا مارے خوف کے، ان کو لگا کمرا اندھیرے میں ڈوب گیا ہے ان کے پیروں تلے زمین کھسکنے لگی تھی ۔ وہ سر پکڑ کر بیڈ پر بیٹھ گئیں۔ 
”یااللہ! فیاض کو معلوم ہوگیا تو قیامت آجائے گی “پریشانیوں اور تفکرات نے انہیں ہر سمت سے گھیر لیا تھا وہ وہاں سے عائزہ کے کمرے میں آگئی تھیں۔ 
”کیا ہوا ممی! بہت ٹینس لگ رہی ہیں آپ؟“عادلہ نے ان کو بدحواس دیکھ کر کرپریشان لہجے میں پوچھا۔
 
”ایسا لگتا ہے جیسے پریشانیوں نے چاروں طرف سے مجھے گھیر لیا ہو، سمجھ نہیں آتا کہاں جاؤں… کس سے مدد مانگوں؟“صباحت رونے لگی اور ان کے اس طرح رونے سے عادلہ بری طرح پریشان ہوکر ان سے پوچھنے لگی تھی ۔ 
”خیریت تو ہے نا ممی! پاپا نے کچھ کہا ہے آپ سے ؟“
”فیاض نے رومیصہ والے بہانے پر یقین نہیں کیا ہے انہیں کچھ شک ہوگیا ہے عادلہ! اب وہ حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کریں گے اور انہیں خدانخواستہ معلوم ہوگیا تو سمجھو بہت برا ہوگا “
”اوہ! اب خود تو مزے لے کے سورہی ہے ہم کو مصیبت میں مبتلا کرکے کتنا منع کیا تھا اس کو مت جاؤ راحیل سے ملنے وہ اچھے کردار کا لڑکا نہیں ہے مگر اس نے بالکل نہیں سنی “عادلہ اضطرابی انداز میں سوئی ہوئی عائزہ کو گھور کر بولی۔
 
”مجھے تو یہ فکر بھی کھائے جارہی ہے کہ راحیل کے گھر میں جاتے ہوئے یا آتے ہوئے کسی نے اسے دیکھ نہ لیا ہو۔ خدا جانے وہ مرا ہے یا زندہ ہے، بات پولیس تک جائے گی اور کسی نے عائزہ کے بارے میں بتادیا تو پھر سوچو کیا ہوگا ہمارا؟“وہ سخت متوحش و بدحواس ہورہی تھیں۔ 
”آپ بے فکر رہیں ممی! راحیل کی طرف کوئی عائزہ کو نہیں پہچانتا اور راحیل ماں بوڑھی و خبط الحواس عورت ہے وہ عائزہ کو دیکھ کر بھی نہیں پہچانے گی “عادلہ نے ماں کو سمجھانے کی کوشش کی تھی ۔
 
”گھر جاکر بھابھی اور بھائی سے فاخر نے ناجانے کیا کہا ہوگا؟ وہ خود کیا سمجھا ہے ، عائزہ کی حالت دیکھ کر اس نے کیا رائے قائم کی ہے اف خدایا…“انہوں نے درد سے پھٹتی کنپٹیوں کو دباتے ہوئے تکلیف سے کہا۔ 
”یہ کن الجھنوں میں پھنس گئی ہوں میں؟میری اپنی اولاد ہی میرے لیے امتحان بن گئی ہے اپنی من مانیوں کی وجہ سے “
”ممی…ممی!پلیز کول ڈاؤن، آپ اتنا اسٹریس مت لیں، ہم مل کو سوچتے ہیں کچھ ابھی، ہر مسئلہ حل ہوجاتا ہے اگر اس طرح ذہن پر سوار کرلیں گی تو آپ بیمار پڑ جائیں گے “عادلہ نے انہیں پانی پلاتے ہوئے تسلی دی ۔
 
”مجھے فیاض سے بہت ڈر لگ رہا ہے وہ بے حد غصے میں ہیں، اتنا غصے میں پہلے انہیں میں نے کبھی نہیں دیکھا ہے “
”پاپا ہیں کہاں؟“وہ گلاس رکھتے ہوئے بولی ۔ 
”شاید اماں کے پاس ہوں گے “
”دادی بھی ہمارا ساتھ نہیں دیں گی اس نازک موقع پر، وگرنہ وہ پاپا کو آسانی سے ہینڈل کرنا جانتی ہیں “
”وہ ہمارا ساتھ کیوں دینے لگیں بلکہ وہ تو اسی چکر میں ہوں گی کہ کسی طرح سچائی معلوم کرکے فیاض کے ساتھ مل کر ہمیں ذلیل و خوار کریں “
”پھر سوچیں ممی! کون ہے جو ہماری مدد کرسکے؟“
###
”گلفام! میں نے جس طرح تمہارے اور گھر والوں کے اعتماد کو ریزہ ریزہ کیا سب کی عزت کو رونتے ہوئے گھر سے بھاگنے والا رسوا کن کام کرکے میں اس محل میں بیٹھی ہوں، ایک عرب پتی کی داشتہ بن کر، قتل کا قصاص قتل ہوتا ہے، عزت کا قصاص شاید عزت ہوتا ہے گلفام! ایک اذیت بھری رسوائی میں تم سب کے دامن میں ڈال آئی تھی ۔
بدلے میں اس سے بھی زیادہ اذیت بھری زندگی مجھے یہاں ملی ہے عورت سے میں کھلونا بن گئی ہوں، جس سے یہ اجلے چہرے اور سیاہ دل والا حارث کرمانی اس وقت تک کھیلے گا جب تک اس کا دل نہیں بھر جاتا اور جب اس کا دل بھر جائے گا نامعلوم کیا انجام ہوگا میرا؟“آنسو روانی سے بہہ رہے تھے وہ دانتوں میں ہونٹ دبائے تصور میں گلفام سے مخاطب تھی وہ کچھ عرصے سے اسی طرح گلفام سے حال دل کہتی تھی ۔
 
”جو چیزیں دل سے اتر جائیں تو وہ کاٹھ کباڑ بن کر اسٹور روم کی زینت بن جاتی ہیں یا صحرا میں کسی گڑھے کی مقیم بن جائے گی “حارث کرمانی دوپہر تک تیار ہوکر ٹیبل پر آیا تو ماہ رخ ریڈ کلر کے سوٹ میں تیار پہلے سے موجود تھی، اس نے دلفریب مسکراہٹ سے حارث کا استقبال کیا تھا۔ حارث بھی اسے اپنے پسندیدہ کلر میں دیکھ کر فدا ہی ہوگیا تھا۔ کھانے کے دوران وہ خوب چہک رہا تھا رخ نے بھی اس دوغلی زندگی کے ایسے ڈھب سیکھ لیے تھے جن میں جھوٹی محبتیں، بے وفا چاہتیں مکرو فریب سے پر اداؤں کے جال تھے جن کو وقتاً فوقتاً حارث کرمانی کی بے تاب تشنہ ضرورتوں پر ڈالنا پڑتا تھا اور وہ پوری سچائی سے اسے اپنی جھوٹی محبتوں کا یقین دلاتی تھی جو سن کر وہ فخر سے اکڑ جاتا تھا۔
کھانے کے دوران سلمیٰ قہوہ بناکر لے آئی تو حارث نے بارعب لہجے میں کہا۔ 
”سلمیٰ رات ہمارے مہمان آرہے ہیں کویت سے “سلمیٰ جو مودب کارپٹ پر بیٹھی ٹرالی میں رکھی نفیس کانچ کی پیالیوں میں سنہری قہوہ نکال رہی تھی اس کی آواز پر الرٹ ہوگئی ۔ 
”جی حکم آقا!“کنیز خدمت کے لیے ہردم حاضر ہے ۔ 
”ہماری پرنسز کو اس طرح تیار کرنا کہ مہمان جب دیکھیں تو پلکیں جھپکانا بھول جائیں داد دیں ہمارے انتخاب کی“وہ قریب بیٹھی ماہ رخ کے شانوں پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔
 
”داؤد مرتضیٰ کو دکھانا ہے کہ حارث کرمانی کوئی عام مرد نہیں ہے “
”آقا جو آپ کا حکم ہے ویسا ہی ہوگا “سلمیٰ نے قہوہ کی پیالیاں ان کو سرو کی تھیں اور وہاں سے چلی گئی۔ 
”آپ کہیں تشریف لے جارہے ہیں ؟“رخ نے آہستگی سے کہا ۔ 
”مجھے سوال کرتی عورت کبھی پسند نہیں رہی“رخ کے سوال پر اس کا مسکراتا چہرہ یکلخت بدل گیا وہ غصے سے بولا۔
 
”آئم سوری!“وہ اس کے تیوروں سے سہم گئی تھی ۔ 
”ہوں، آئندہ اس کا خیال رکھنا میں بار بار معاف کرنے کا عادی نہیں ہوں۔ اپنی حد سے آگے بڑھنے کی کوشش کبھی مت کرنا، تم میری پسندیدہ ضرور ہو مگر ایک کنیز ہو اور کنیز کو آقا سے سوال کرنے کا حق نہیں ہے ۔ “
ساری محبت…تمام الفت…چڑھی ندی کی طرح بیٹھ گئی تھی۔ ایک لمحے میں وہ اس کو اس کی اوقات جتا کر جاچکا تھا وہ کسی پتھر کی مورت کی مانند ساکت بیٹھی رہ گئی تھی ۔
 
”ماہ رخ بی بی ! یہ ہے تمہارے خواہشوں کی حسین جنت! یہ کس جہاں میں بھٹک گئی ہو تم؟جہاں پھول کانٹوں سے زیادہ نوکیلے ہیں، یہاں کی گھاس میں الاؤ دہکتے ہیں، تم برہنہ پا کب تک چلو گی ؟“اس ماحول میں وہ خود کلامی کی عادی ہوچکی تھی۔ 
”اپنی اوقات یاد رکھنا جب تک زندہ رہو، لمحے بھر میں وہ تمہیں تمہاری اوقات دکھاکر جتاگیا کہ تم اس کی خریدی ہوئی ایک کنیزہ ہو، تم سے وہ دل تو بہلاسکتا ہے مگر تم کو سوال کرنے کا معمولی سا بھی اختیار نہیں دے گا “
###
گھر میں ایک عجیب سے وحشت بھری خاموشی چھاگئی تھی ۔
بڑا پرہول سناٹا ہر سو پھیلا ہوا تھا حالاں کہ گھر میں سب لوگ ہی موجود تھے مگر کوئی کسی سے زیادہ بات نہ کرتا تھا۔ 
عائزہ نے دو تین دن نیم بے ہوشی میں گزارے تھے وہ سوتے جاگتے میں راحیل کو پکارتی، کبھی وہ اس سے برگشتہ دکھائی دیتی، کبھی وہ اسے محبت میں پکارتے ہوئے رونے لگتی اور ایسے میں صباحت اور عادلہ کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگتی تھیں۔
وہ متوحش ہوکر اس کو جھنجھوڑنے لگتی تھیں یا اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتی تھیں۔ پری اس کی کیفیت سے اچھی طرح واقف ہوچکی تھی۔ وہ عائزہ اور راحیل کے تعلقات سے بھی باخبر تھی، عائزہ نیم بے ہوشی میں اس کے سامنے بھی خود پر گزرنے والا دکھ دہراچکی تھی اور پری کے شک پر یقین کی مہر لگ چکی تھی اس وقت کمرے میں کوئی بھی نہیں تھا اور عائزہ کے لب خاموش ہی ہوئے تھے کہ گھبرائی گھبرائی سی صباحت اندر داخل ہوکر اس سے مخاطب ہوئیں۔
 
”ارے تم یہاں…عادلہ کہاں ہے جو تم تنہا ہو اس کے پاس؟“
”عادلہ کے پاس کسی کی کال آئی تھی ، وہ سننے باہر گئی ہے ۔ “
”ہوں، عائزہ نے کچھ کہا ہے تم سے“وہ اس کو کھوجتی ہوئی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے استفسار کرنے لگیں۔ 
”جی …ممی!“اس نے آہستگی سے کہا تھا اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر صباحت کو دیر نہ لگی حقیقت جاننے میں۔
 
”عائزہ ہوش میں نہیں ہے اسے نہیں معلوم وہ کیا کہہ رہی ہے، “وہ پری کی طرف قدرے جھک کر تنبیہ کرتی ہوئی گویا ہوئیں مگر تم ہوش میں ہو، تم کو معلوم ہے ایسی باتیں کسی سے بھی نہیں کرنی چاہئیں بلکہ اس نے جو کہا وہ تم ابھی اور اسی وقت بھول جاؤ اگر تم نے فیاض کے آگے کوئی آواز نکالی یا اپنی دادی کو کچھ بتانے کی کوشش کی تو تمہارا وہ حشر کروں گے جس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتی ہو۔
بہتر یہی ہوگا جو سنا ہے وہ سب بھول جاؤ تم ۔ پری کی آنکھوں میں نمی بھرگئی تھی ۔ وہ وہاں سے اٹھ کر لان کے ایک تنہا گوشے میں چلی آئی تھی پھر نامعلوم کتنی دیر بیٹھ کر وہ آنسو بہاتی رہی تھی ۔ 
مسٹر اینڈ مسز عابدی عائزہ کی عیادت کو آئے تھے اور جب تک وہ موجود رہے، صباحت نے پری کو کچن میں ہی مصروف رکھا تھا، ایک بار بھی پری سے ان کا سامنا ہونا ناممکن بنادیا تھا۔
البتہ عادلہ پیش پیش تھی پری کی تیار کی گئی ڈشز سے وہ آؤ بھگت کر رہی تھی اور انداز یہ تھا گویا وہ سب اس نے ہی تیار کیا ہو۔ پری ان کی فطرت کو جانتی تھی اور آج کل تو صباحت کچھ پرابلمز کا شکار تھیں جس کا سارا ملبہ پری پر گر رہا تھا۔ 
”بہو! عائزہ کی طبیعت بہتر ہے اب اس سے معلوم کرو، وہ کہاں گئی تھی “اماں نے پان کھانے کے بعد پاندان صاف کرتے ہوئے کہا۔
 
”امان جان! اتنی مشکلوں سے عائزہ کی حالت بہتر ہوئی ہے۔ اب میں پھر اس کو اس حالت میں واپس لے جاؤں“ وہ ان کو دیکھ کر شاکی لہجے میں گویا ہوئیں۔ 
”پوچھنا تو پڑے گا بہو! آخر پتا بھی تو چلے کہ ماجرا کیا ہے جو ان جہان بچی کا بے ہوش ہوجانا کوئی نظر انداز کرنے والی بات نہیں ہے پھر فیاض الگ بالکل خاموش ہوکر رہ گیا ہے، نامعلوم کیا بھرے بیٹھا ہے وہ اپنے دل میں خدانخواستہ بچی کی طرف سے کوئی بدگمانی نہ ہوگئی ہو اسے، ایسا ہوا تو بہت برا ہوگا۔
“اماں کے لہجے کی مخصوص گھن گرج جس سے درودیوار مانوس تھے، از حد خود ہی نرمی میں بدل گئی تھی ابھی بھی وہ آہستگی سے سمجھانے لگیں۔ 
”آپ سمجھائیں نا ان کو، یہ بھی کوئی طریقہ ہے انہوں نے مجھ سے بات کرنا ہی چھوڑ دی ہے میری کسی بات کا جواب دینا گوارا نہیں ہے حتیٰ کہ عائزہ اور عادلہ سے بھی بات نہیں کر رہے فیاض!“
”تم نے بھی فیاض سے جھوٹ بولا کہ عائزہ فیصل کی بیٹی رومیصہ کے پاس گئی تھی یہ جانتے ہوئے بھی فیصل سے فیاض کی صبح و شام ملاقات ہوتی ہے۔
یہ جھوٹ بھلا کس طرح چھپ سکے گا ان کی بات پر لمحے بھر وہ سٹپٹا کر رہ گئی تھیں۔ “
”مجھے نہیں معلوم اماں! کیا ہوا ہے اور کیا نہیں، ان بچیوں کی وجہ سے میں اپنی ویلیو گنوا بیٹھی ہوں، کوئی مجھ پر اور میری بیٹیوں پر اعتبار نہیں کرتا، جائیں کہاں ہم ماں بیٹیاں“انہوں نے رونا شروع کردیا تھا۔ 
”صباحت! یہ نامعقولیت کی انتہا ہے ہٹ دھرمی ہے سراسر، میرے لاکھ سمجھانے پر بھی تم نے کوئی توجہ نہ دی، لڑکیوں کی تربیت کرنے کے لیے بڑی مشقت و جبر کرنا پڑتا ہے۔
”بہت ناز و نعم سے اپنی بیٹیوں کی تربیت کی ہے میں نے “آنسو صاف کرتے ہوئے فخریہ لہجے میں جواب دیا۔ 
”ان ہی نازونخروں نے آج باپ کی زبان بند کردی ہے اور دادی کو نظریں جھکانے پر مجبور کردیا ہے صباحت!“ان کا نم لہجہ بے حد شکستہ تھا جب کہ صباحت چمک کر بولیں۔ 
”کچھ نہیں کیا میری عائزہ نے ایسا جو آپ سوچ رہی ہیں میں قسم کھاکر کہتی ہوں۔
میری عائزہ کل بھی پاک و صاف تھی اور آج بھی “
”آواز نیچی کرو اپنی بہو! جو ناعاقبت اندیش مائیں سب جان کر بھی بیٹیوں کی جھوٹی حمایت لیتی ہیں وہ رسوائی و ذلت کے طوق ہمیشہ اپنے گلے میں ڈالنے کا سامان کرتی ہیں، “ان کو مسلسل ہٹ دھرمی پر قائم دیکھ کر اماں کو جلال آیا تھا۔ ”اللہ میری بچیوں کی عصمتوں کی حفاظت کرے کوڑھ مغز عورت!میں خاندان کی عزت کی بات کر رہی ہوں ،ایک ہفتہ ہوگیا عائزہ کو بستر پر پڑے اس عرصے میں تمہاری بھائی، بھاوج کو توفیق نہ ہوئی بچی کی طبیعت معلوم کرنے کی“
”بھابھی اور بھائی کو کیا معلوم عائزہ کی طبیعت کے بارے میں ؟“
”فاخر کے سامنے وہ بے ہوش ہوئی تھی، فاخر نے نہیں بتایا ہوگا؟“
”اوفواماں جان!کیوں بال کی کھال نکالتی ہیں ، نہیں بتایا ہوگا فاخر نے وہ ایسا ہی لاابالی بھلکڑ لڑکا ہے“دل میں ان کے بھی کھد بد ہونے لگی تھی یہاں سے جاکر فاخر نے کال کرکے عائزہ کی طبیعت بھی نہ پوچھی اور نہ خود آیا تھا۔
مگر وہ اماں جان کے سامنے بے پروائی ظاہر کرتی رہی تھیں۔ 

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط