داؤد مرتضیٰ نے اسے دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔ ماہ رخ خود کسی تراشے گئے ہیرے کی مانند حسین تھی، سلمیٰ جیسی ماہر بیوٹیشن نے اس کی آرائش و زیبائش کرکے اس کے حسن کو شعلہ جوالہ بناڈالا تھا۔
”تم پر پروردگار بہت مہربان ہے حارث! جو دنیا میں ہی تم کو حور دے دی ہے ، تم اب مرنے کی تمنا بھی کیا کرو گے؟“حارث کرمانی نے ماہ رخ کا داؤد مرتضیٰ سے تعارف کروایا تو وہ جو مبہوت انداز میں اسے دیکھے جارہ تھا اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو کئی لمحوں تک اپنے ہاتھ میں دبائے ہوئے گویا ہوا ۔
ماہ رخ کے ہاتھ کو دیکھا اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔
”موت سے تو کسی کو بھی فرار ممکن نہیں ہے یاحبیبی!لیکن ایسا لگتا ہے ہماری جان پر تم جان دے چکے ہو “اس نے بڑھ کر ماہ رخ کی کمر کے گرد بازو حائل کرتے ہوئے کہا اور اس کو اسی انداز میں لے کر صوفے پر بیٹھ گیا۔
(جاری ہے)
”ٹھیک کہا تم نے پہلی بار تم نے داؤد مرتضیٰ کو شکست دی ہے ، آج سے قبل ہر میدان میں تم کر ہراتا آیا ہوں“اس نے کھلے دل سے اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے مسکرا کر کہا جس پر فخر سے حارث کرمانی نے قہقہہ لگایا تھا۔
”میں نے کہا تھا تم سے کسی دن تم کو ایسی شکست دوں گا کہ تمہاری تمام شکستوں کا بدلہ ایک وار میں ہی لے لوں گا ‘حارث کرمانی از حد مسرور تھا اور اس کی آنکھوں میں چمک تھی ۔
ماہ رخ ان کے درمیان ایک جیتے جاگتے مجسمے کی طرح موجود تھی، اس کے لبوں پر مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں نمی امڈ رہی تھی۔ داؤد مرتضیٰ جن بھوکی نظروں سے دیکھ رہا تھا ، وہ اس کی بھوک کو پہچانتی تھی ، وہ باتیں حارث کرمانی سے کر رہا تھا مگر نگاہ اس کے چہرے پر گاہے بگاہے بھٹک رہی تھیں اور اس کا دل سسکنے لگا تھا، نوحہ کناں تھا۔
”یہ ہے میری خواہشوں کی بلندی جو پستی سے بد تر ہے ، میں نے بہت حسین زندگی کے خواب دیکھے تھے جہاں میں ہوتی اور مجھ سے ٹوٹ کر چاہنے والا وہ مرد ہوتا جو نکاح کے تین لفظوں سے مجھے ہمیشہ کے لیے اسیر کرلیتا اور میں تاحیات اس کی رفاقت پر دل و جان وار دیتی اس کے لیے سجتی، سنورتی، میری زندگی کا ہر لمحہ صرف اس کے لیے ہوتا، میری چاہتوں کا وہ واحد امین ہوتا۔
آج اپنی خواہشوں کی بھینٹ چڑھ گئی ہوں میں، چراغ خانہ سے شمع محفل بن گئی ہوں ۔ یہ ہے میری خواہشوں کا عذاب “
”ڈارلنگ! رو کیوں رہی ہو “بے اختیار ہی آنکھوں کی نمی اس کے رخساروں پر بہہ نکلی تھی ، حارث کرمانی نے چونک کر اس سے پوچھا۔
”اوہ سوری! میری آنکھ میں کچھ گرگیا ہے “وہ گھبرا کر ایک دم کھڑی ہوگئی ۔
”اوہ سیڈ!بہت تکلیف ہورہی ہوگی ، تم جاکر آرام کرو “حارث کرمانی نے محبت سے کہا اور اسے وہاں سے جانے کی اجازت دی تھی وہ داؤد مرتضیٰ سے معذرت کرتی ہوئی وہاں سے نکل آئی اور اس نے دور تک داؤد مرتضیٰ کی نگاہوں کی تپش کو محسوس کیا تھا۔
گیسٹ روم سے بیڈ روم تک راستہ اس نے آنسو بہاتے ہوئے عبور کیا تھا اور بیڈ روم میں آکر قد آور آئینے کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ سلیولیس بلاؤز پر پنک کلر پر بلیک موتیوں سے جس پر دیدہ زیب کام تھا اور ساتھ بلیک اسکرٹ میں وہ اپنے نیم عریاں جسم کو دیکھ رہی تھی ، وہ کیا تھی اور کیا بنادی گئی تھی …اپنی ماں کے سر سے آنچل اس نے کبھی ڈھلکا ہوا نہ دیکھا تھا، سوتے میں بھی آنچل ان کے سر سے کبھی سرکتا تھا تو وہ بے چین ہوکر اٹھ جاتی تھیں اور یہی چچی کا حال بھی تھا۔
تب اسے وہ سب بے حد فرسودہ و جاہلانہ اندا ز لگتا تھا، امی اس کو بار بار سرزنش کرتیں دوپٹہ اچھی طرح سے اوڑھو، نرمی سے قدم اٹھا کر چلو، نگاہوں کو جھکاکر چلا کرو راستے میں…
”توبہ امی! آپ کی نصیحتیں کب ختم ہوں گی آخر؟ایسے چلو ، ویسے بیٹھو، ہنسو نہیں بلند آواز میں، سر سے دوپٹہ نہ اترے۔ اف!مجھے اللہ نے لڑکی ہی کیوں بنایا ہے ؟اگر بنایا تھا اس بیک ورڈ خاندان میں کیوں پیدا کردیا؟“
”میں کہتی ہوں اللہ سے معافی مانگو فوراً بندوں کو شکوے و شکایات نہیں کرنی چاہیے اپنے رب سے، اس کے ہر کام میں بہتری ہوتی ہے، آج میری جن باتوں کو تم برا سمجھ رہی ہو، کبھی نہ کبھی تمہیں احساس ضرور ہوگا کہ میری باتیں کتنی سچی اور حق تھی۔
میری بیٹی! عورت پردے میں ہی محفوظ اور خوش رہتی ہے، پردہ عورت کو لوگوں کی بری نظر سے بچاتا ہے “ماں کی نرم اور شفیق آواز اس کی سماعتوں میں گونج رہی تھی ، اس کا دل نمک کی ڈلی کی طرح گھل کر آنسوؤں میں بہہ رہا تھا۔ ایسا وقت بھی آتا ہے کبھی کانٹوں کی طرح چبھنے والے لفظوں میں نرمی اور مہک آجاتی ہے جو روح کو تڑپانے لگتی ہے ۔
###
شہریار مسز عابدی کو لے کر فیاض کے ہاں آیا اور آتے ہی اس کی نگاہیں لان میں کھڑی پری کو دیکھ کر مسرت سے چمک اٹھیں، مسز عابدی نے بھی اسے دیکھ لیا تھا اور کار سے نکل کر وہ اس کی طرف بڑھی اور بڑی محبت سے اسے گلے لگاکر پیار کیا۔
”کہاں مصروف رہتی ہیں بیٹا آپ؟“وہ علیحدہ ہوتی ہوئی بولیں۔
”گھر میں ہی رہتی ہوں آنٹی!آئیے اندر چلیں آپ “وہ مسکراتی ہوئی شائستہ لہجے میں گویا ہوئی تھیں۔
شہریار دانستہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا ہوا ان کی طرف آرہا تھا اس کی پرشوق نگاہیں پری کے پرکشش چہرے پر تھیں، ہاتھ مٹھائی کا ٹوکرا تھا۔
”السلام علیکم!“اس نے قریب پہنچ کر خوش گوار لہجے میں کہا۔
”وعلیکم السلام“اس نے آہستگی سے جواب دیا۔
”کیسی ہیں آپ“ اس کی نگاہوں میں رنگ ہی رنگ تھے ۔
”آئیے پلیز“و ہ اس کی بات سنی ان سنی کرکے آگے بڑھ گئی ، کوریڈور میں ہی صباحت مل گئی پہلے حیرت سے ان کو آتے ہوئے دیکھا پھر بڑے پرجوش انداز میں مسز عابدی سے لپٹی بڑی ادا سے شہریار کو سلام کیا اور ساتھ ہی پری کو حکم دیا کہ وہ دادی کو بلا کر لائے، پری دادی کے کمرے کی طرف جانے کے لیے کوریڈور کی بائیں سمت مڑی تھی کہ تب ہی شیری نے مسز عابدی سے کہا۔
”مما! میں سب سے پہلے دادی کا منہ میٹھا کرانا چاہتا ہوں “وہ ان کا جواب سنے بنا تیزی سے ٹوکرا لے کر پری کے پیچھے چلا آیا۔
”پلیز میری بات تو سنیے مس فیری!“پری نے اسے مڑ کر دیکھا اور رک گئی ۔
”آپ ہمیشہ ناراض کیوں رہتی ہیں؟“وہ قریب آکر بولا۔
”ایسی کوئی بات نہیں ہے میں آ پ سے کیوں ناراض ہوں گی ؟“پری کے لہجے میں بے حد سنجیدگی تھی ۔
”شاید آپ نے میری پہلی ملاقات والی گستاخی معاف نہیں کی ہے “
”میں وہ سب بھول چکی ہوں، بہتر یہی ہے آپ بھی بھول جائیں “
”رئیلی! آپ درست کہہ رہی ہیں تو ہماری دوستی ہوسکتی ہے، بھروسہ رکھیے آپ مجھ کو بہت بہترین دوست پائیں گی“وہ خاصے بے تکلف انداز میں اس سے مخاطب ہوا تھا۔
”دوستی اور آپ سے؟ “وہ تعجب خیز انداز میں گویا ہوئی ۔
”مجھ سے دوستی نہیں کرسکتی ہیں آپ…کیوں؟“یک دم ہی ڈھیروں سنجیدگی اس کے چہرپر در آئی ۔
”میں دوستی کی قائل نہیں ہوں، اسکول لائف سے یونیورسٹی تک میری کوئی فرینڈ نہیں تھی اور نہ اب تک میں نے بنائی ہے اور نہ ہی میں ایسی کوئی خواہش رکھتی ہوں “
”آپ کو معلوم ہے فیری! جس کا کوئی دوست نہیں، وہ اس دنیا میں سب سے زیادہ غریب اور تنہا ہے “
”مجھے یہ غربت اور تنہائی سب سے زیادہ عزیز ہے “وہ کہہ کر تیزی سے آگے بڑھ گئی تھی۔
شیری کئی لمحوں تک کھڑا ماؤف ہوتے ذہن کے ساتھ سوچتا رہا پھر کچھ سمجھ نہ آنے پر سر جھٹک کر وہاں سے چلا گیا تھا۔
###
”میں بھی اسکول جانا چاہتا ہوں لیکن میرے گھر میں کمانے والا کوئی نہیں ہے اس لیے گھر کا چولہا جلانے کے لیے میں کام کرتا ہوں “موٹر ورکشاپ پر میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس وہ بارہ، تیرہ سالہ بچہ کیمرے کے آگے کہہ رہا تھا۔
”پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بننا چاہتا ہوں مگر بہنوں اور ماں کے لیے کام کرتا ہوں ، ابا کے مرنے کے بعد میں نے اسکول کا خیال بھلادیا ہے۔ “اس عمر کے دوسرے بچے نے بھی رپورٹر کے سوال پر اپنے ساتھی جیسا ہی جواب دیا تھا ور کئی بچے بھی تعلیم کے حصول سے دوری پر کیے گئے سوال کا اس طرح کے جوابات دے رہے تھے۔ معاشرے میں حالات کی چکی میں پسنے والے یہ وہ بچے تھے جن کی نیندوں سے سہانے سپنے چھین لیے تھے ، ان کے ناتواں کاندھوں پر ذمہ داریوں کے بھاری بھرکم بوجھ لادھ دیے تھے ۔
جن کی خود کفالت کی عمر تھی ، وہ کفیل بنادیے گئے تھے کیا ہوگا ایسے لوگوں کا جن کو بچپن سے ہی بڑھاپے کی حدود میں پہچادیا جاتا ہے جن کو نہ پیٹ بھر روٹی ملتی ہے اور نہ ہی تن ڈھانپنے کے لیے پورا کپڑا اور نہ ہی رہنے کے لیے پرسکون رہائش ایسے معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے بدحال لوگ جو ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہوتے ہیں۔
آگے چل کر کس قسم کا معاشرہ قائم کریں گے ؟
صفدر جمال ٹی وی کے آگے بیٹھے چیلنز پر نیوز سرچنگ میں مصروف تھے ، کہیں بھی کوئی ایسی خبر نہ تھی جو زندہ رہنے کے حوصلوں کو تراوٹ بخشے، فائرنگ، بم بلاسٹ، تباہیاں، افراتفری ، دھرنے، ہڑتال ، قیامت سے پہلے قیامت صغریٰ مچی ہوئی تھی ۔ نہ گھر سے باہر جانے والے محفوظ تھے اور نہ ہی گھر میں رہنے والے محفوظ تھے، لوگ لوٹ رہے تھے، کٹ رہے ہیں، مر رہے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
عجیب بے حس و بے ضمیر لوگ ہیں جو حکمرانی کا تاج سر پر سجائے بیٹھے ہیں۔ صد افسوس…اپنی ذمہ داریوں و حقوق کی ادائیگیوں سے بے بہرہ ہیں اور بہت بے خوفی سے اپنی تمام نااہلیت و غیر ذمہ داریوں کادفاع کرتے نظر آتے ہیں، ساس و بہو کی طرح لڑتے جھگڑتے نظر آتے ہیں۔
”میں نہ مانوں “کی گردان سب کی فیورٹ ہے ۔ چائے کی ٹرے ہاتھ میں پکڑے مثنیٰ بیڈ روم میں داخل ہوئی تھیں۔
”کیوں سرچنگ کر رہے ہیں صفدر! تمام چینلز میں کمپٹی ٹیشن رہتا ہے سب پر آپ کو ایسے ہی پروگرامز ملیں گے“ وہ ایک کپ ان کو پکڑاتے ہوئے دوسرا خود لے کر ان کے قریب ہی بیٹھ گئی تھیں۔ صفدر جمال نے ٹی وی آف کرکے ریمورٹ رکھ دیا تھا ۔
”مسائل ہمارے معاشرے کے اس حد تک گمبھیر ہوچکے ہیں مثنیٰ کہ چھوٹے چھوٹے ان بچوں کو محنت و مشقت کرنی پڑ رہی ہے جن کے ابھی کھیلنے کودنے کے دن ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کھلونوں کی جگہ ذمہ داریاں آگئی ہیں، وہ چھوٹے چھوٹے بچے سارا سارا دن اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے محنت مزدوری کرے کتنا روپیہ لے کر جاتے ہوں گے پچاس ، سو ، ڈیڑھ سو اس سے زیادہ تو نہیں ملتے ہوں گے پھر ایک ٹائم کی روٹی بھی بڑی مشکل سے ملتی ہوگی “
”یہی تو المیہ ہے ایسے لوگوں کا “انہوں نے چائے پیتے ہوئے دکھ بھرے لہجے میں کہا چند لمحے توقف کے بعد وہ پھر گویا ہوئیں۔
”سعود کی بے پروائی نے آپ کو بہت حساس بنا ڈالا ہے “
”ٹھیک کہہ رہی ہو ڈیئر! جب انسان خود دکھوں سے نبرد آزما ہوتا ہے تو پھر احساس ہوتا ہے کسی کے دکھ کا، کسی کی تکلیف کا، ہم نے خود سعود کو امریکہ بھیجا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اور اس نے وہاں تعلیم حاصل کی مگر ساتھ ہی وہاں کی سوشل لائف بھی ابزرو کرتا رہا اور جس کا رزلٹ ہمارے سامنے ہے وہ اپنے فیصلے خود کرنے کا عادی ہوچکا ہے ہم اس کے ماں باپ ہیں صرف والدین کہلانے کا حق حاصل ہے، ہم کو نہ وہ ہماری بات کو مانتا ہے اور نہ ماننا چاہتا ہے ۔
“
سعود کے بیگانگی بھرے رویے نے ان کوا تنادلبرداشتہ کیا تھا کہ وہ اپنی بے فکر زندگی کی تمام تر ایکٹو ٹیز ڈراپ کرکے گھر اور آفس تک محدود ہوکر رہ گئے تھے ۔
”اپنے بیٹے سے زیادہ مجھے ان محنت مزدوری کرنے والے بچوں پر پیاروفخر محسوس ہورہا ہے جو تمام ضرورتوں و آسائشوں سے محروم ہونے کے باوجود کوئی شکایت زبان پر نہیں لاتے ہیں “
”ضرورت سے بڑھ کر آسائش اور پیسہ اسی طرح بچوں کو گمراہ کرتا ہے صفدر! میں نے تو بہت چاہا تھا سعود کو وہاں نہ بھیجوں مگر تب آ پ کو مجھ پر اعتبار ہی کب تھا “وہ بے حد افسردہ تھیں، نہ چاہتے ہوئے بھی ماضی کے زخم درد دینے لگے تھے ۔
”آئم سوری مثنیٰ!نامعلوم کیا ہوا تھا مجھے اس وقت جو میں ایک عام کمزور و کم ظرف مرد بن گیا تھا، زندگی کے وہ حسین دن میں نے شک و شبہے میں گزار دیے خود بھی کانٹوں پر لوٹتا رہا اور تم کو بھی شدید اذیت میں مبتلا رکھا اور ایک پیاری سی بچی پارس کو بھی تم سے دور رکھا “وہ پچھتاوؤں کے ساگر میں ڈوبے جارہے تھے ۔