حالات کی نزاکت پر یا اماں کے سمجھانے پر فیاض نے صباحت سے سمجھوتہ کرلیا تھا وہ ان کو اجازت دے چکے تھے اور اب وہ شادی کی تیاریوں میں پیش پیش تھیں۔
رات کو عارف اور فاخرہ مٹھائی کے ٹوکروں کے ہمراہ بہت خوش خوش آئی تھیں پہلی بار وہ بہت پرتپاک طریقے سے سب سے ملی تھیں ان کی پیشانی طنز و نخروں کی شکنوں سے مبرا تھی بہت محبت سے عائزہ کو گلے سے لگایا، اپنے ہاتھ سے مٹھائی کھلاتے ہوئے خوشی سے بھرپور لہجے میں گویا ہوئیں۔
”ماشاء اللہ میری بہو اتنی نصیب والی ہوگی، مجھے معلوم نہ تھا ابھی اس کے قدم میرے گھر کی دہلیز پر پڑے بھی نہیں اور میرے گھر میں خوشیاں آنے لگی ہیں“
”ہاں بھئی ! اللہ نظر بد سے محفوظ رکھے، یہ فاخرہ بالکل درست کہہ رہی ہیں، ہمارے ویزوں کا ایک عرصے سے مسئلہ حل نہیں ہورہا تھا جیسے ہی فیاض نے شادی کی بات کی اور دوسرے دن ہی ہمارے ویزے مل گئے ہیں “عارف عائزہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر شفقت سے بولے۔
(جاری ہے)
”فاخر کی کمپنی نے اچانک ہی اس کی پرموشن کردی اور ساتھ ہی اسلام آباد پوسٹنگ ہوگئی ہے اسی ہفتے نئی فرم کا چارج سنبھالنا ہے اسے، نئی فرم کا کرتا دھرتا وہ ہی ہوگا “
”ہمیں بھی حج کے لیے ان چند دنوں میں ہی روانہ ہونا ہے ہمیں اپنی روانگی کی تیاریاں بھی کرنی ہیں اور شادی کی بھی تیاریاں ہیں۔ آپس کی بات ہے خالہ جان! آپ کوئی جہیز وغیرہ کی تیاری نہ کریں، ہمارا جو کچھ ہے وہ عائزہ بیٹی کے لیے ہے، ابھی آپ نکاح اور رخصتی کی تاریخ دے دیں، ابھی میں کوئی دھوم دھڑکا نہیں چاہتا۔
شادی سادگی سے ہوگی ان شاء اللہ ولیمہ حج سے واپسی پر ہم شاندار طریقہ سے کریں گے ۔ فاخر عائزہ کے ساتھ اسلام آباد میں شفٹ ہوجائے گا نئی جگہ، نیا ماحول ہوگا وہ تنہا وہاں ایڈجسٹ نہ ہوسکے گا “
”کسی کو کوئی اعتراض نہ تھا پھر فیاض تو شادگی سے اس کو اس گھر سے وداع کرنا چاہتے تھے کہ وہ ہمیشہ اپنی گمراہیوں پر پشیماں رہے “
”پری! عائزہ کو سروس کے لیے پارلر لے جاؤ، میں نے پاپا کے آفس سے ان کو شوفر کو بلوالیا ہے اپنے شوفر کے ساتھ میں جارہی ہوں شاپنگ کے لیے ، شاپنگ کے بعد مجھے بھی پارلر جانا ہے ۔
“عادلہ نے بال برش کرتی پری سے کہا۔
”اوکے عائزہ سے کہو وہ تیار ہو میں آتی ہوں “
”تم آجاؤ وہ تیار ہے اس کو کون سا سولہ سنگھار کرنے ہیں“وہ کہہ کر چلی گئی پری نے تیزی سے بالوں کو کیچڑ میں جکڑا اور پرفیوم چھڑک کر پرس اٹھا کر دادی سے کہتی عائزہ کے روم میں آئی ۔
”چلو عائزہ! میں تمہیں پارلر چھوڑ کر ٹیلر کے پاس جاؤں گی ، واپسی میں تم کو لے لوں گی “اس کے لہجے میں ذمہ داری بھری عجلت تھی ۔
”عادلہ نے یہ کام بھی تم پر ڈال دیا تم تو پہلے ہی اتنی بزی ہو “
”ڈونٹ وری! یہ کوئی کام نہیں ہے میں تم کو وہاں ڈراپ کرکے کوئی احسان نہیں کروں گی ویسے بھی پارلر کے قریب سے مجھے گزرنا ہی ہے، اچھا ہے اس طرح تمہاری سروس بھی ہوجائے گی “
”پری! “وہ اچانک ہی آگے بڑھ کر اس سے لپٹ گئی ۔
”تم کتنی اچھی ہو، میں نے تمہارا دل بہت دکھایا ہے بے حد تنگ کیا ہے تم کو اور تم تو آج بھی ویسی ہی ہو محبت کرنے والی، عادلہ سے زیادہ تم کو میری فکر ہے، رات دن تم میرے لیے خوار ہورہی ہو “ وہ اس سے لپٹ کر اپنے آنسوؤں پر اختیار نہ رکھ سکی تھی۔
”مجھے معاف کردو پری! میں نے تمہیں کبھی اپنی بہن نہیں سمجھا “
”اب تو سمجھتی ہونا ، چلو دیر ہورہی ہے مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں “وہ اس کے آنسو صاف کرتی ہوئی ہاتھ پکڑ کر باہر لے آئی، گیٹ کے پاس عابدی صاحب کا ڈرائیور کار کے قریب کھڑا تھا۔
سارے راستے عائزہ اس سے محبت بھری باتیں کرتی رہی تھی، اپنے گزشتہ رویوں کی معافی مانگتی رہی تھی۔
کار ایک مصروف پارلر کے قریب آکر رکی تو وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اندر چلی آئی۔ عائزہ کو پارلر چھوڑ کر وہ باہر آئی تو کار کے پاس اطمینان سے کھڑے شیری کو دیکھ کر حیران ہوئی ۔
”آپ یہاں …شوفر کہاں چلا گیا ؟“وہ قریب جاکر گویا ہوئی ۔
”جی میں آپ کا خادم ! شوفر کے ساتھ ڈیڈ کو جانا تھا، اس کو بھیج کر میں یہاں رک گیا ہوں آپ کی خدمت کے لیے ، کم آن پلیز“اس نے معنی خیزی سے کہہ کر فرنٹ ڈور وا کیا تھا۔
###
اس کی وہاں غیر متوقع آمد اور اس پر متزاد عجیب سا انداز و لہجہ پری کو انتشار میں مبتلا کر گیا وہ کھڑی کی کھڑی رہ گئی تھی ۔
”پلیز آئیں وہاں کیوں فریز ہوگئی ہیں آپ مس فیری!“
”آپ نے کیوں زحمت کی مسٹر شہریار! میں یہاں سے ٹیکسی لے لوں گی ۔ مجھے ٹیلر کے پاس جانا ہے اور وہاں سے جیولری شاپ پر بھی کچھ ٹائم لگے گا، عائزہ کے لیے جیولری کا آرڈر دیا ہے وہ دیکھنا ہے کہ ریڈی ہے یا نہیں “وہ سیڑھیاں اتر کر اس سے کچھ فاصلے پر آکر گویا ہوئی ۔
”نو پرابلم ! میں آپ کے ساتھ گزرنے والا ہر لمحہ اپنی زندگی کے لیے بہترین اعزاز سمجھوں گا، مجھے خوشی ہوگی آپ کی مدد کرکے “شاید اس کو بھی اپنی نگاہوں کی بے حجابی کا احساس ہوگیا تھا وہ نرم اور مودب انداز میں اس سے مخاطب ہوا۔
”بہت شکریہ شہریار!میں آپ کے جذبات کی قدرت کرتی ہوں آپ اچھے انسان ہیں مگر …“
”مگر میں اتنا اچھا انسان نہیں ہوں جس پر آپ بھروسہ کرسکیں شاید آپ مجھے ابھی تک معاف ہی نہیں کرسکی ہیں “سرخ و سیاہ امتزاج کے پرنٹڈ سوٹ میں اس کی شفاف رنگت نمایاں تھی، تیز دھوپ کی تپش اس کے خوب صورت چہرے پر سرخی بکھیر رہی تھی ، تپتی دھوپ کا سنہری عکس اس کے چہرے کو مزید روشن کر رہا تھا اس کا حسن اس قدر دل فریب تھا کہ وہ نگاہیں نہ چراسکا۔
”اوہ گاڈ! آپ ایسی بات کیوں کرتے ہیں شہریار، آپ نے اپنی غلطی کی معافی مانگی اور میں نے آپ کو معاف کردیا پھر آپ بار بار یہ بات رپیٹ کیوں کرتے ہیں ؟مجھے گلٹی فیل ہوتا ہے شہریار، آپ بھول جائیں“ گرمی و دھوپ کی تپش اس کے حواسوں پر اثر انداز ہونے لگی تھی وہ اس سے کچھ زچ و برہم لہجے میں گوہوئی ۔
”شہریا ر نہیں شیری! سب مجھے پیار سے شیری پکارتے ہیں “وہ مسکرا کر خوش گوار انداز میں گویا ہوا۔
”میں آپ کو شہریار ہی پکاروں گی ، مسٹر شہریار!“
”مس فیری! جیسے آپ کی مرضی، مجھے اچھا لگے گا “وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر سرکو قدرے خم کرکے گویا ہوا۔
”اتنی گرمی میں خود کو سزا دے رہی ہیں آئیے پلیز “
”نہیں شکریہ! میں ٹیکسی لے لوں گی ، آپ میرے ساتھ کہاں خوار ہوں گے “
”آ پکے ساتھ بھلا خواری کیسی میرا مطلب ہے آپ تنہا ایسے گرم موسم میں جائیں یہ بہتر نہیں ہے آئیں پلیز “پری کی ہچکچاہٹ کو وہ سمجھ گیا تھا سو نرمی سے اسے سمجھانے لگا۔
پری کو وحشت ہورہی تھی وہ اس کے ساتھ جانے کو راضی نہ تھی، اس کو بضد دیکھ کر وہ سوچ رہی تھی کہ کس طرح اس سے پیچھا چھڑائے اور شاید گھڑی قبولیت کی تھی ۔
اس کے قدم اٹھنے سے قبل ہی بلیو سیوک اس کے قریب آکر رکی اور ڈرائیونگ ڈور کھول کر لائٹ بلو جینز اور وائٹ ٹی شرٹ میں ملبوس طغرل نکلا اور قریب آکر بولا۔
”یہ سیل فون اور رقم تم دادی کے بیڈ پر ہی بھول آئی تھیں “
”او ہ ! عائزہ کے ساتھ میں اتنی جلدی میں نکلی کہ سب وہیں بھول گئی ، تھینکس طغرل بھائی ! میرے پرس میں معمولی سی رقم ہے آگے مجھے بڑا مسئلہ ہوجاتا ہے اگر رقم نہ آتی “وہ اس کے ہاتھ سے سیل فون اور رقم کا لفافہ لے کر اپنے پرس میں رکھتی ہوئی گویا ہوئی۔
اس دوران طغرل کو وہاں دیکھ کر شیری کے چہرے پر ناگواری پھیل گئی گلاسز کے پیچھے سے وہ حاسدانہ نظروں سے طغرل کو گھور رہا تھا تب طغرل اس کی طرف متوجہ ہوا تو پری نے اس سے تعارف کرویا۔
”یہ عابدی انکل کے بیٹے شہریار ہیں “
”اور آپ طغرل ہیں …ایم آئی رائٹ؟“وہ گلاسز آنکھوں سے ہٹا کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سنجیدہ لہجے میں گویا ہوا۔
”جی آپ نے ٹھیک پہچانا مسٹر شہریار! “مصافحہ کرتے ہوئے اس کی گرفت کی سختی کو طغرل نے شدت سے محسوس کیا تھا اور اس کی طرف بے ساختہ دیکھا تھا جہاں سردو سپاٹ سے مصافحے کی مانند اس کے چہرے پر عجیب سے تاثرات تھے ۔
”ابھی میں جلدی میں ہوں اگلی دفعہ آپ سے ملاقات ہوگی پھر آپ سے باتیں ہوگی، مجھے امید ہے مائنڈ نہیں کریں گے آپ؟“طغرل نے گلاسز لگاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
”نیور مائنڈ شیور…میں آپ کی مصروفیت سمجھ سکتا ہوں “اس کا موڈ بری طرح آف ہوگیا تھا ، طغرل کو اپنے درمیان دیکھ کر لیکن دل کی کیفیت وہ عیاں کرنا اپنی توہین سمجھتا تھا مجبوراً اسے مسکرانا پڑا تھا۔
”کم آن! ٹیلرکو کال کردی ہے وہ انتظار کر رہا ہے “وہ پری سے بولا۔
”اوکے ، اللہ حافظ شہریار صاحب!“پری ہاتھ ہلاتی ہوئی طغرل کے ساتھ کار کی طرف بڑھ آئی، طغرل نے اس کے لیے فرنٹ ڈور وا کیا اور اس کے بیٹھنے کے بعد بند کرکے وہ گھوم کر اپنی سیٹ پر آکر بیٹھ گیا اور دوسرے لمحے اس کی کار ہواؤں سے باتیں کر رہی تھی ۔
شیری اپنی گاڑی کے پاس کھڑا ساکت رہ گیا تھا۔
نامعلوم دل میں دبی کوئی محرومی تھی یابے لگام جذبات کی یورش نے اس کو اس مقام پر لاکھڑا کیا تھا جہاں اس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا تھا، وہ سن کر ہی فیاض صاحب کی زبانی یہ چلا آیا تھا کہ پری عائزہ کو پارلر چھوڑ کر چند ضروری کاموں کے لیے مارکیٹ جائے گی اور اب اس کی ساری خواہشوں پر پانی پھر گیا تھا پری آتے آتے اس کی گرفت سے نکل گئی تھی ۔
###
سعود کی مسلسل روپوشی نے ان دونوں پر گہرا اثر ڈالا تھا، مثنیٰ ماں تھیں بیٹے کی اس بے حسی نے ان کے دل کو گھائل کیا تھا وہ ایک عرصے سے بیٹی کی جدائی کا دکھ سہہ رہی تھیں اب بیٹے کی خود ساختہ جدائی نے انہیں اس قدر پریشان اور مضطرب کردیا تھا کہ وہ ہر شے سے ہی تعلق توڑے اپنے کمرے میں بند رہنے لگی تھیں۔
صفدر جمال جو خود بھی بیٹے کے روش سے دلبرداشتہ تھے مزید مثنیٰ کی حالت دیکھ کر وہ خود کو مکافات عمل میں مقید محسوس کر رہے تھے۔
کل جو آج کا ماضی بن گیا تھا اس ماضی میں ان سے کئی لغرشیں، خطائیں ہوئی تھین زندگی کا ایک عرصہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ امریکہ میں بسر کرکے پاکستان آئے تو ان کی نگاہ مثنیٰ کے ملکوتی حسن کے سحر میں گرفتار ہوئی اور جب معلوم ہو کہ اس کی مما کی بھی اسے بہو بنانے کی آرزو ہے اور آنٹی عشرت جہاں کی بھی یہی خواہش ہے تو وہ مثنیٰ کو اپنی ملکیت سمجھنے لگا تھا۔
لیکن یہ سحر جلد ہی اس وقت ختم ہوا جب مثنیٰ نے اس کی محبت کو ٹھکراتے ہوئے فیاض احمد سے شادی کرلی اور شاید ممکن تھا وہ کچھ عرصے بعد اپنی نوزائیدہ محبت کو بھول جاتا مگر اس کی مما اور عشرت جہاں نے مثنیٰ اور فیاض کی شادی کو تسلیم نہیں کیا اور نہ اسے پیچھے ہٹنے دیا، مثنیٰ کے حصول کے لیے ان کی درپردہ سازشیں ہوتی رہیں اور بالآخر ڈیڑھ سال کے قلیل عرصہ میں مثنیٰ فیاض ، مثنیٰ صفدر جمال بن چکی تھیں۔
صفدر نے دل سے اس رشتے کو قبول کیا جبکہ مثنیٰ ان کا ساتھ قبول کرکے بھی مضطرب و بے کل رہی تھیں جس کی وجہ وہ فیاض سے تعلق ختم کرنے کو سمجھتے رہے تھے حالانکہ بار بار مثنیٰ ان کے سامنے اپنی بچی کو یاد کرکے روتی رہی تھی ، چند ماہ کی پری کو فیاض نے ان کے ساتھ آنے نہ دیا تھا یہاں انہوں نے اس سے ملنے پر پابندی لگادی تھی پھر سعود کی پیدائش سے قبل وہ اس کے لے کر امریکہ سیٹل ہوگئے تھے جب کبھی یہاں آتے تو وہ ان کو پری سے ملنے کا ٹائم ہی نہ دیتے تھے او ر کبھی اپنی ممتا سے مجبور ہوکر مثنیٰ چند گھنٹوں کے لیے پری کو بلوالیتیں تو وہ اتنا ہنگامہ کرتے کہ بے چاری مثنیٰ ملازمہ کے ہاتھ پری کو واپس بھجوادیا کرتی تھیں، ان کو بے حد فخر تھا اپنی محبت پر، بے حد محبت کا دعویٰ بھی کرتے تھے اور یہ حقیقت بھی تھی۔
انہوں نے مثنیٰ کو وہ سب دیا تھا جس کی ہر عورت کو پانے کی خواہش ہوتی ہے مگر اپنی مردانہ تنگ نظری کے باعث پری کو وہ وقبول نہ کرسکے تھے یہاں انہوں نے کمپرومائز نہیں کیا تھا سب خوشیاں دے کر بھی اس ایک خوشی سے محروم رکھا اور مثنیٰ کے اس درد کی اذیت وہ آج محسوس کر رہے تھے ۔ مثنیٰ کے اس وقت آنکھوں سے گرے آنسو ان کے دل پر گر رہے تھے اس درد کی تکلیف شدت سے محسوس ہورہی تھی اس ضمیر کے بوجھ نے ان کی تکلیف کو دہرا کردیا تھا۔